• 10 مئی, 2024

صیام الدھر

صِیَامُ الدَّھْرِ

صیام صوم کی جمع ہے صوم روزہ کو کہتے ہیں۔ اور الدھر زمانہ سال کو کہتے ہیں۔ قرآن کریم کی ایک سورۃ کا نام بھی الدھر ہے۔ مذہبی اصطلاح میں صیام الدھر کا مطلب ہمیشہ کے روزے یا بغیر وقفہ کے روزے رکھنا ہے۔ اگر اس کا مطلب لفظی معنوں کے مطابق لیا جائے تو اس کو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰؐ نے اِن معنوں میں کہ بلا ناغہ روزے رکھے جائیں ناپسند فرمایا ہے۔

چنانچہ حضرت ابو قتادۃؓ سے روایت ہے کہ آپؐ سے بغیر وقفہ ہمیشہ کے روزے رکھنے (صیام الدھر) کے متعلق پوچھا گیا تو اس شخص کے متعلق آپؐ نے فرمایا ’’اس شخص نے نہ روزہ رکھا اور نہ افطار کیا‘‘ پھر فرمایا ’’ہر ماہ تین روزے رکھنا اور اگلے رمضان تک رمضان کے روزے ہی ہمیشہ کے روزے ہیں‘‘۔

(صحیح مسلم کتاب الصیام)

ایک اور حدیث میں ہے حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا جس نے ہرماہ تین دن کے روزے رکھے تو یہی صیام الدھر ہے۔ اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب قرآن کریم میں نازل فرمائی۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الانعام کی آیت نمبر 161 میں فرماتا ہے: مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشۡرُ اَمۡثَالِہَا

(جامع ترمذی کتاب الصیام)

اہل علم کی ایک جماعت نے صیام الدھر کو مکروہ قرار دیا ہے اور بعضوں نے اس کو جائز قرار دیا ہے وہ کہتے ہیں صیام الدھر تو اس وقت ہوگا جب عید الفطر، عیدالاضحٰی اور ایام تشریق میں بھی روزہ نہ چھوڑے جس نے ان دنوں میں روزہ ترک کردیا تو وہ کراہت کی حد سے نکل گیا اور وہ پورے سال روزے رکھنے والا نہیں ہوا۔

(جامع ترمذی کتاب الصیام)

حضرت ابو ایوبؓ انصاری سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا جس نے ماہ رمضان کے پھر شوال کے 6 روزے رکھے اس نے گویا پورے سال کے روزے رکھے۔

(سنن ابو داؤد کتاب الصیام باب شوال کے 6روزوں کا بیان)

چنانچہ حدیث مذکورہ بالا میں رمضان کے تیس روزوں کے بعد شوال کےچھ روزے رکھنے کا ارشاد فرمایا اور اس کاثواب سال بھر کے روزوں کے برابر بتایا حساب کی زبان میں اس میں یہ سِرّہے کہ ایک نیکی کا ثواب اللہ تعالیٰ دس گناہ عطا فرماتا ہے اور 36 روزوں کا ثواب 360 دنوں کے برابر بنتا ہے۔ جو تقریبًا ایک سال کا عرصہ ہے۔ لیکن اصل حکمت رمضان کے فرض روزوں کے ساتھ شوال کے نفلی روزوں میں نیکی کا تسلسل ہے۔ اور اس امر کی تربیت ہے کہ رمضان کا مجاہدہ اور اس کی عبادت صرف ایک مہینہ تک محدود نہ رہیں بلکہ سارے سال پر پھیل جائیں۔

(تحفۃ الصیام صفحہ 185)

حضرت رسول کریمؐ نے امت مسلمہ کو جو ہر ماہ تین روزے رکھنے کی نصیحت فرمائی ہے اس کی وضاحت یوں ملتی ہے حضرت اُمِّ سلمہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ ہرماہ تین روزے رکھتے تھے۔ ایک ہفتہ میں دو، پیر اور جمعرات کو اور اگلے ہفتہ کے پیر کو۔

(سنن نسائی کتاب الصیام)

آج جب جماعت احمدیہ خلافت خامسہ کے سائے تلےاپنی ترقی کی طرف گامزن ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپؐ کی ہفتہ وار نفلی روزہ کی سنت کو ہم میں رائج فرمایا۔ چنانچہ 7اکتوبر 2011ء کو حضور انور یدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہفتہ وار ایک نفلی روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی۔

الغرض صیام الدھر سے مراد ماہ رمضان کے روزے اور ہر ماہ کم از کم تین نفلی روزے یا پھر ماہ رمضان کے ساتھ شوال کے چھ روزے رکھنا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی نصیحت قرآن کریم میں موجود ہےکہ رسول اللہؐ کا اسوہ حسنہ ہی تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے اور آپؐ کا اسوہ حسنہ یہی ہے کہ رمضان کے روزے بلا عذر ترک نہ کرنا اور ہرماہ چند نفلی روزے رکھنا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آپؐ کے اسوہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(تیمور علی خان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ