• 30 جون, 2025

ترکی میں اسیر راہ مولا بننے کی داستان

قید مسرت (حصہ دوئم)
ترکی میں اسیر راہ مولا بننے کی داستان

کچھ عرصہ قبل ترکی میں خاکسار اور بعض دیگر احمدی مخلصین کے اسیر بننے کی داستان ’’الفضل‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔ بعض عزیزان کے خاکسار کو توجہ دلانے پر خاکسار کو احساس ہوا ہے کہ چند امور جن کا ذکر قبل ازیں نہیں ہو سکا اُن کو بھی تحریر کر دوں۔ ان شاء اللہ ان کا ذکر قارئین کے لئے مفید ہوگا اور دلچسپی کے علاوہ اُن کے لئے ازدیادایمان کا بھی باعث ہوگا۔ چنانچہ بعض متفرق امور درج ذیل ہیں۔

بائرام پاشاجیل استنبول

گر فتاری کے بعد ہمیں استنبول کی بائرام پاشا جیل میں بند کر دیا گیا۔ یہ استنبول کی بلکہ غالباً ترکی کی سب سے بڑی جیل تھی۔ جب میں استنبول یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا اُس وقت ایک دفعہ ایک ترکی دوست مکرم علی رضا شارطؔ کے ساتھ جیل کے مین گیٹ کے سامنے سے گزرا علی رضا شارط صاحب مجھے کہنے لگے کہ دیکھیں اس جیل میں نہائت جرائم پیشہ لوگ قید ہیں۔ جو ہر روز بلکہ ہر وقت جرائم کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ گویا کہ شوق کے ساتھ جرم کرنے والے لوگ۔ اُس وقت مجھے کیا معلوم تھا کہ تقدیر الہٰی ایک دن خاکسار کو بھی اس جیل میں لے آئے گی اور مَیں بھی بغیر کوئی جرم کئے اُن جرائم پیشہ لوگوں کے اندر ڈال دیا جاؤں گا لیکن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں :

گر قضا را عاشقے گردو اسیر
بوسدہ آں زنجیر را کِز آشنا

یعنی اگر قضائے خُدا وندی کے تحت کوئی عاشق کبھی اسیر ہو جائے تو وہ
(اسیری کی) اُس زنجیر کو بوسہ دیتا ہے کہ وہ اُس کے محبوب کی طرف سے ہے۔

ہم بھی تو تقدیر خدا وندی کے تحت ہی اسیر ہوئے تھے۔ اور ہمیں بھی لوہے کی ہتکڑیاں پہنائی گئیں تھیں۔ تو ہم اپنے مولا کی تقدیر پر کیوں راضی نہ ہوتے۔ بائرام پاشا جیل میں ترکوں اور غیر ملکیوں کے الگ الگ حصے تھے۔ میرے دونوں ساتھیوں مکرم عثمان شکر صاحب معلم اور مکرم قو بلائی چیل صاحب کو ترک ہونے کی وجہ سے ترکوں والے حصہ میں بھیج دیا گیا۔ اور مجھے غیر ملکیوں والے حصہ میں بھیج دیا گیا۔ اِس طرح ہمارا باہمی رابطہ منقطع ہو گیا۔

غیر ملکیوں والے حصہ میں زیادہ تر قیدی ایرانی تھے۔ سات آٹھ عرب قیدی بھی تھے۔ چند ایک ہنگری اور روس وغیرہ ممالک سے تھے۔ ایک صاحب Dusseldorf (ڈَسّل ڈورف) شہر کے تھے۔ ایک صاحب ہالینڈ سے تھےْ ایک نوجوان جنوبی امریکہ کے کسی ملک سے تھا۔ ایرانی قیدی بہت عمدہ ترکی زبان بولتے تھے۔ کیونکہ لمبے عرصہ سے قید تھےاور زبان سیکھنا اُن کے لئے کچھ مشکل نہیں تھا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تمام قیدی ڈرگز کی سمگلنگ کرنے کے جرم میں قید ہوئے تھے۔ اور اُن کے لئے قید سے رہائی حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔

قیدیوں نے ایک چھوٹا کمرہ نماز کے لئے الگ کیا ہوا تھا۔ وہاں اہل سنت میں سے تو کوئی قیدی نماز کے لئے نہیں جاتا تھا۔ البتہ پانچ یا سات ایرانی ضرور وہاں نماز پڑھتے تھے۔ وہاں میں نے ایک عجیب نظارہ دیکھا۔ ایک ایرانی نوجوان نماز ختم کرتے ہوئے پہلے بائیں طرف منہ کرتا اور پھر دائیں طرف منہ کر کے سلام پھیرتا تھا۔ مجھے اس کی کوئی وجہ تو سمجھ نہیں آئی لیکن قید کا ماھول ایسا ہوتا ہے کہ آپ کسی قیدی سے کھل کر بات نہیں کر سکتے۔ کوئی پتہ نہیں کہ وہ کب ناراض ہو جائے اور آپ کے لئے مشکلات پیدا کر دے۔ ایرانی قیدی چونکہ شیعہ تھے۔ ایک دن غالباً دس محرم کو اُ نہوں نے مجلس منعقد کی اور کالے جھنڈے بھی لگائے، مجلس کے اختتام پر ماتم بھی کیا۔ تقریباً دو گھنٹے اس کام میں صرف ہوئے۔ اُس کے بعد وہ سب ٹی وی کے سامنے زمین پر بیٹھ کر گانے سننے لگے۔ میں نے اُس وقت کو غنیمت جانا اور مناسب الفاظ میں بعض شیعہ قیدیوں کو کہا کہ آپ کی اہل بیت سے محبت صرف اِتنی ہی ہے۔ کم از کم ایک دن تو آپ گیتوںوغیرہ سے دور رہتے اور آج کا دن غم میں دعاؤں میں گزارتے۔ میری اِس بات کا اُن پر اچھا اثر ہوا لیکن وہ کوئی جواب نہ دے سکے۔

جیل میں سہولت دی جاتی ہے کہ قیدی بازار سے ضروریات ِ زندگی کی اشیاء منگوا سکتے ہیں۔ اُس کا طریقہ یہ ہے کہ قیدی جیل کے گارڈ نیز کو اپنا کوئی سامان لکھوا دیتا ہے۔ گاڈنیز فوراً بازار سے لیکر نہیں آئے گا بلکہ کم از کم ایک ہفتہ بعد وہ چیز لا کر دیتے ہیں۔ مگر وہ اشیاء بہت مہنگی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر قیدی نے دہی کا مطالبہ کیا، اب دہی کی اصل قیمت مثلاً دس لیرے ہے تو قیدی کو وہ بیس یا پچیس لیرے میں ملے گی۔ لیکن کچھ چیزوںپر پابندی ہوتی ہے ، وہ قیدی کو نہیں مل سکتیں۔ مثلاً اسلحہ، چھری، وغیرہ اس کے علاوہ ریڈیو، ٹی وی منگوانے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ مگر میں نے دیکھا کہ جرمن قیدی کے پاس چھوٹا ریڈیو تھا۔وہ اُس پر خبریں اور گانے سنتا رہتا تھا۔ اِسی طرح ہنگیرین قیدی بازار سے چھوٹے چھوٹے منکے منگواتا اور مختلف اشیاء مثلاً سیگریٹ کیسز کے کور (cower) بنا کر قیدیوں میں بیچتا۔ میں نے ایک قیدی سے پوچھا کہ یہ ریڈیو اور منکے یا مصنوعی موتے ان قیدیوں کو کیسے ملتے ہیں تو اپس نے جواب دیا کہ یہ کوئی مشکل کام نہیں آپ کسی گارڈین کو پیسے دے دیں وہ آدھے پیسے اپنی جیب میں دالے گا۔ اور باقی پیسوں سے آپ کی مطلوبہ چیز لاکر آپ کو دے دیگا۔

اُس قیدی نے مجھے ایک عجیب واقعہ سنایا ، کہنے لگا کہ کچھ عرصہ پہلے تک جیل میں پستول وغیرہ بھی موجود تھے، یہاں ایک مافیا لیڈر قید ہو کر آ گیا اُس کے کمرے میں نہایت عمدہ ہاتھ سے بنا ہوا قالین بچھا ہوا تھا، اُس کا اپنا باورچی تھا جو اُس کے لئے کھانا تیار کرتا اُس کے مہمان باہر سے آتے اور اُس سے مل کر چلے جاتے، چار مسلح باڈی گارڈ اُس کے ساتھ ہوتے۔ وہ پوری جیل میں جہاں دل چاہتا چلا جاتا صرف بیرون گیٹ سے باہر نہیں جا سکتا تھا۔ کیونکہ وہاں آرمی کا پہرہ ہوتا ہے۔ ایک دفعہ اُس کے کچھ دوست ملنے کیلئے آئے تو اُنہوں نے شکایت کی کہ اُنہیں آدھا گھنٹہ کے قریب انتظار کروایا گیا ہے۔ اِس پر وہ مافیا کا لیڈر جیل سپرنٹنڈنٹ کے دفتر میں گیا اور سپر نٹنڈنٹ سے جواب طلبی کی سپر نٹنڈنٹ نے معذرت کی اور وعدہ کیا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ مافیا لیڈر نے کہا کہ آئندہ کی بات تو الگ ہے اَب جو تم نے میرے دوستوں کو انتظار کروایا ہے اُسکی سزا تو تمہیں ملے گی، یہ کہہ کر مافیا لیڈر نے اپنا پستول نکالا اور جیل سپر نٹنڈنٹ کی ٹانگ میں گولی مار دی۔ اس واقعہ کے بعد آرمی نے جیل کے اندر آ کر مکمل صفایا کیا اور تمام غیر قانونی چیزیں ضبط کر کے آئندہ کے لئے اُن پر پابندی عائد کردی آرمی نے مافیا لیڈر اور دیگر جرائم پیشہ قیدیوںکی خوب دُھلائی کی اور سب غیر قانونی امور کا قلع قمع کیا۔

بائرام پاشا جیل میں ایک نائجیرین قیدی سے میری ملاقات ہوئی۔ وہ خود مضبوط آدمی تھا اور کوئی باکسر لگتا تھا۔ میں نے اُس کو پوچھا کہ تم جیل میں کیسے آئے ہو۔ میرے اس سوال پر اُس نے جو جواب دیا وہ سُن کر بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اُس نے کہا کہ ہم نے ایک عمارت کا ساتویں منزل کا فلیٹ رہائش کے لئے کرایہ پر لیا ہواتھا۔ اسی عمارت میں ایک نچلی منزل پر ایک اور فلیٹ کرایہ پر لیکر اُس پر فرضی نام کی پلیٹ لگائی ہوئی تھی لیکن اُس میں ہم ہیروئن و دیگر ممنوعہ ڈرگ رکھتے تھے۔ ہمارا ڈرگز بیچنے کا طریق یہ تھا کہ ہم شام کو جب بسوں میں رش ہوتا ہے، ایک مومی لفافہ لے کر اُس میں کھانے پینے کی اشیاء ڈال دیتے اور ان کے درمیان میں ممنوعہ ڈرگ (Drug) رکھ دیتے۔ ہمارا آدمی بسوں کے اڈے پر جاکر بس کے انتظار میں بیٹھ جاتا اور مومی لفافہ ایک طرف پاس ہی رکھ لیتا۔ تھوڑی دیر میں کوئی اور شخص بھی جس نے ڈرگ لینی ہوتی تھی وہ بھی وہاں آ کر بیٹھ جاتا، اُس کے پاس بھی اُسی طرح کا مومی لفافہ ہوتا۔ ہر دیکھنے والا سمجھتا کہ یہ لوگ کھانے پینے کا سامان اپنے اپنے گھر لے کر جا رہے ہیں۔ جب بس آتی تو سب لوگوں کی توجہ بس کی طرف ہو جاتی۔ عین اُس وقت ہم لفافوں کا تبادلہ کر لیتے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔

اِس کے علاوہ اُس نے ایک اور بات مجھے بتائی۔ کہنے لگا ہم یہاں سے ممنوعہ ڈرگز یورپ اِس طرح بھجواتے ہیں کہ نوجوان غیر شادی شدہ افریقن لڑکیاں استنبول جانے کی شوقین ہوتی ہیں ہم اُن کو لالچ دیتے ہیں کہ یہ بنڈل لے جاؤ تمہیں ہم اِتنے پیسے دیں گے اور ایک بڑی رقم دینے کا کہتے ہیں۔وہ لڑکیاں لالچ میں آ جاتی ہیں اور بنڈل لے جانے پر آ مادہ ہو جاتی ہیں۔ اگر تو بنڈل یورپ پہنچ جائے تو ہمیں ہزاروں ڈالر کا فائدہ ہوتا اور اگر کوئی لڑکی پکڑی جائے تو اُس کی سزا اُس لڑکی کو بھگتنی پڑتی ہے ہمارا کوئی خاص نقصان نہیں ہوتا۔

اُس نائجیرین نے مجھے بتایا کہ ترکی پولیس کو ہمارے ڈپو کا پتہ لگ گیا جس کے بعد وہ میرے فلیٹ میں آئے میں نے اُن کو اپنا پاسپورٹ دکھایا کہ میرا نام اور ہے اور جس فلیٹ پر آپ نے چھاپا مارا ہے وہ شخص کوئی اور ہے، لیکن پولیس نے میری بات پر کان نہیں دھرے اور مجھے پکڑ کر جیل میں بند کر دیا۔ لیکن مجھے اڑھائی سال جیل میں ہو گئے ہیں مگر میں نے آج تک اپنا قصور تسلیم نہیں کیا۔ مجھے اُس کی باتیں سُن کر گھبراہٹ ہو رہی تھی لیکن وہ نائجیرین مجھے اپنے راز بتاتا ہی جا رہا تھا۔

ایک دفعہ میں سو رہا تھا۔ قریباًآدھی رات کو کسی کے باتیں کرنے سے میری آ نکھ کھل گئی ۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک افریقن نوجوان میرے کمرے میں موجود ایک اورقیدی کے ساتھ باتیں کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ موجودہ جرم میں مجھے لمبی قید کی سزا نہیں مل سکتی۔ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دو سال کی قید ہوگی، میں یہ عرصہ شہر کی طرح قید میں گزار لوں گا۔ میں اُس افریقن کی یہ بات سُن کر حیران ہوا کہ اس کو قید کا ایک ذرہ بھی خوف نہیں۔ نیز وہ ترکی زبان بھی کمال مہارت سے بول رہا تھا جو میرے لئے حیران کُن تھا۔

ایک قیدی نے مجھے بتایا کہ کچھ لوگ قید سے ایک ذرہ بھی خوف زدہ نہیں ہوتے بلکہ بعض اوقات جان بوجھ کر کوئی چھوٹاموٹاجرم کرتے ہیں تاکہ اُن کو چند ماہ کی قید ہو جائے۔ اُس نے مجھے بتایا کہ ایک قیدی کو رہائی ملی تو سب قیدیوں نے اُسے رخصت کیا چند ماہ کے بعد سردیوں کی ابتداء میں دوبارہ جیل میں آ گیا، اور کہنے لگا کہ سردیاں جیل کے اندر آرام سے گزر جائیں گی جیل سے باہر تو سردیوں کے ایام گزارنا محال ہے۔

ترکی حکومت کی طرف سے ہر قیدی کو دو کمبل مہیا کئے جاتے تھے لیکن پرانے قیدی پانچ پانچ سات سات کمبل اپنے قبضہ میں کر لیتے اور اپنے بستر پر تہہ بہ تہہ بچھالیتے جب بھی کوئی نیا قیدی آتا تو اُس سے کچھ پیسے وصول کر کے کمبل اُس کے سپرد کرتے مجھ سے بھی ایک قیدی نے پیسے لے کر کمبل دینے کا وعدہ کیا۔ عرب قیدی فصیح عربی زبان بولنے کی وجہ سے میرے دوست بن گئے تھے۔ جب اُن کو پتہ لگا تو اُن میں سے ایک نے مجھے کہا کہ بالکل ایک پیسہ نہ دینا اور تم سے پیسوں کا مطالبہ کیا جائے تو میرا نام لے دینا۔ میں نے ایسا ہی کیا تو جس قیدی نے مجھے کمبل کے بدلے پیسوں کا مطالبہ کیا تھا وہ بہت غضبناک ہوا۔ لیکن عرب قیدیوں نے اسکی زبان بند کرادی اور کسی نے جیل سپر نٹنڈنٹ کو شکایت کردی سپرنٹنڈنٹ صاحب جیل کے ٹور پر آئے اور مجھ سے دریافت کیا کہ کیا واقعہ ہوا ہے میں ساری بات اُن کو بتادی اور ساتھ ہی کہہ دیا کہ مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ لیکن جیل والے اِسی بہانہ سے ایک دوسرے قیدی کو پکڑکر لے گئے جہاں اُسے لے کر گئے وہ ایک خاص عقوبت خانہ تھا جہاں جس قیدی کو لے کر جاتے اُسے وہاں لے جاکر مار مار کر اُ لّو بنادیتے اور رہائش کے لئے بھی ایک تنگ و تاریک کمرہ میں بند کر دیتے۔ مجھے اِس واقعہ سے جیل کے اندر کی سیاست، قیدیوں کی پارٹی بازی اور اِس طرح کی باتوں کا کچھ اندازہ ہو گیا۔

ہالینڈ والا قیدی موٹروں کی ریس کا ہالینڈ کا چیمپین تھا اور متعدد زبانیں بول سکتا تھا۔ یہی قیدی جنوبی امریکہ کے نوجوان قیدی کا تر جمان بھی تھا۔ جنوبی امریکہ کا قیدی غالباً میکسیکو کا رہنے والا تھا اور ڈرگز کی سمگلنگ میں پکڑا گیا تھا۔ ہالینڈ والے قیدی نے مجھے بتایا کہ سرکارکی طرف سے مہیا کئے جانے والے کمبل مختلف قیدیوں کے زیر استعمال ہونے کی وجہ سے اور دُھلائی نہ ہونے کی وجہ سے جراثیم سے بھرے ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں کہ کمبلوں کو دھوئے بغیر استعمال نہ کرنا اور عمومی طور پر بھی جیل میں ہر طرف جراثیم ہیں۔ اس لئے ممکن حد تک اِحتیاط کرنا۔ اِ س بارہ میں ہالینڈ کے قیدی نے اپنے بعض ذاتی تجربات کا بھی ذکر کیا لیکن میں اُن کے ذکر کو چھوڑتا ہوں۔

قید میں قیدی بالعموم کسی بھی نَو آمدی قیدی کی ہر طرح مدد کرتے ہیں ایک قیدی نے جب دیکھا کہ میرے پاس کوئی پاجامہ یا شلوار اور قمیض نہیں تو وہ ایک پاجامہ اور اُس کے ساتھ والی شرٹ دھو کر میرے پاس لے آیا اور مجھے تحفۃً یہ چیزیں پیش کردیں۔ یہ دونوں یعنی پاجامہ اور شرٹ(Shirt) اگرچہ بہت ہی سادہ اور کم قیمت تھیں لیکن اُس قیدی کا جذبہ قابلِ قدر ہے۔ میرے پاس یہ پاجامہ اور شرٹ آج بھی موجود ہیں اور میں اُس قیدی کے لئے دعا گو ہوں جس نے کسی تعلق اور واقفیت کے نہ ہونے کے باوجود اپنی بساط کے مطابق یہ لباس مجھے تحفۃً دیا۔ فجزاہ اللہ خیراً

بائرام پاشا جیل سے ہمیں قوجہ ایلی ضلع کے قاندھرا جیل میں لے جایا گیا۔ وہاں پر مولا کریم نے جیل کی انتظامیہ کے دلوںمیں ہمارے عمدہ رویہّ کی بناء پر ہمارے لئے عزت پیدا کر دی۔ وہ لوگ ہم سے عام طور پر وہ سلوک نہیں کرتے تھے جو دیگر قیدیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے بلکہ ہمارے ساتھ اُن کا رویہ نہایت نرم اور دوستانہ تھا۔ جس کا بعض اوقات وہ لوگ اپنے قول سے بھی اور عمل سے بھی اظہار بھی کیا کرتے تھے۔ قیدیوں نے تمام قیدیوں کے لئے کھیل کود کا انتظام کیا اور ایک ڈرامہ بھی کیا گیا۔ ہمارے ساتھی قو بلائی چیل صاحب اُس میں شامل ہوئے لیکن خاکسار اور مکرم عثمان شکر صاحب ترک معلم اُس میں شامل نہیں ہوئے بلکہ اپنے قید والے کمرہ میں رہ کر تلاوتِ قرآن کریم کرتے ہوئے اپنا وقت صرف کیا۔

قاندھرا جیل میں ہمارے کمرے کے باہر تھوڑی سی کھلی جگہ تھی اور اُونچی اُونچی دیواریں اور کنکریٹ کا فرش تھا۔ دن کے وقت ہمیں کمرہ سے باہر نکل کر اُس جگہ گھومنے پھرنے کی اجازت تھی۔ میں وہاں چکر لگاتا رہتا اور ساتھ دورد شریف پڑھتا رہتا۔ معلم عثمان شکر صاحب بھی میرے ساتھ چکر لگاتے اور کہا کرتے کہ میں اپنے بچوں کو بلکہ آئندہ بچوں کے بچوں کو بھی یہ بتاؤں گا کہ جیل میں مَیں نے ایک مربیّ کے ساتھ چکر لگائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ شکر صاحب کے اہل و عیال اور آئندہ نسلوں کو ہمیشہ خلافت ِ حمدیہ کے ساتھ وابستہ رکھے۔ آمین

قاندھرا جیل یورپین یونین کے مطالبہ پر بنائی گئی تھی جو ماڈرن جیل تھی۔ ایک حجرے میں زیادہ سے زیادہ تین قیدی رکھے جاتے تھے۔ ہمارے لئے تو یہ چیز بہت ہی آئیڈیل تھی۔ کیونکہ ہم تین ہی احمدی قیدی تھے۔ لیکن دوسرے قیدیوں کے لیے جیل سخت نا پسنددہ تھی وہ چاہتے تھے کہ سب قیدیوں کو ایک ہی جگہ رکھا جائے۔ ہم تینوں ایک کمرہ میں تھے اس لئے ہم بہت خوش تھے۔مہینہ میں ایک دفعہ قیدیوں کی اپنے خاندان کے ساتھ ملاقات کرائی جاتی۔ یعنی ایک بڑے ہال میں کرسیوں پر بیٹھ کر آپس میں گفتگو ہوتی۔ پہلی دفعہ جب ملاقات کروائی گئی تو عثمان شکر صاحب ترک معلم کا چھوٹا بیٹا ضد کرنے لگا کہ آپ ہمارے ساتھ گھر چلیں۔ عثمان صاحب نے کہا کہ نہیں بیٹا ابھی میرا کام ختم نہیں ہوا۔اُس معصوم کو کیا علم تھا کہ اُس کے ابو جان کیوں گھر نہیں آ رہے۔

قاندھرا جیل میں ہم نے ایک اور نظارہ دیکھا۔ ایک چڑیا منہ میں تھوڑی سی گیلی مٹی لے آتی اور اُس کو ہمارے حجرے کی بیرونی دیوار پر چسپاں کر دیتی۔ بہت عرصہ تک ہم سمجھتے رہے کہ وہ اکیلی ہے۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ وہ ایک جوڑا تھا۔ یعنی چڑیا اور اُس کا ساتھی دونوں گیلی مٹی لا کر دیوار پر چسپاں کرتے۔ ہوتے ہوتے اُ نہوں نے ایک کمرہ بنا لیا۔ اور پھر اور گیلی مٹی لانی شروع کی اور ایک اور کمرہ بنا لیا۔ اُنہوں نے سینکڑوں بلکہ ہزاروں چکر لگائے۔ کچھ عرصہ کے بعد چڑیا نے انڈے دئے پھر اُن میں سے بچے نکل آئے اور ایک پورا خاندابن گیا۔ ہم حسرت سے اُن کو دیکھا کرتے کہ یہ آزاد ہیں اور ہم قید ہیں۔ جیل سے باہر نہیں جا سکتے۔

اُن پرندوں کی صفائی دیکھ کر بھی حیران ہو گئے۔ جب بھی ضرورت ہوتی وہ اپنی دُم باہر نکالتے اور اپنی حاجت پوری کر لیتے۔ لیکن اپنے کمروں کے اندر گند نہیں ڈالتے تھے۔ ہم نیچے اخباری کاغذ بچھا دیتے اور گند اکٹھا کر کے ڈسٹ بن میں پھینک دیتے۔

آخرمیں تحدیث نعمت کے طور پر کچھ اور باتوں کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔جو محض اللہ تعا لیٰ کی قدرتِ کاملہ نیز جماعت احمدیہ کی تائید الہٰی کا ایک زندہ ثبوت ہے۔ وہ امور درج ذیل ہیں :۔

1۔۔ بائرام پاشا جیل جو ایک مشہور و معروف اور بہت پرانی جیل تھی آج اُس کا نام و نشان بھی باقی نہیں ہے،اُسے گِرا دیا گیا ہے اور اُس کی جگہ پارک بنا دیا گیا ہے۔ جس جیل میں لے جاکر ہم تین احمدیوں کو قید کیا گیا آج اُس جیل کانام نشان باقی نہیں ہے۔ بلکہ اُس کی جگہ گراسی پلاٹ ہیں اور پھول کھلے ہیں۔ لوگ وہاں سیر کے لئے جاتے ہیں۔

2۔۔جس عدالت میں ہمیں پیش کیا گیا وہ ایک خاص عدالت تھی جس کا نام D,G,M یعنی نیشنل عدالت برائے سیکیورٹی۔ ابتداء میں اِس عدالت کے جج آرمی آفیسرز ہوتے تھے۔ جب ہمیں اس عدالت میں پیش کیا گیا اُس وقت سیویلین ججز مقرر تھے۔ اُن کے اختیارات بہت زیادہ اور پینتیس سال قید با مشقت کی سزا دے سکتے تھے۔ یہ عدالت 2004ء میں بند کر دی گئی۔ آج اِس عدالت کا نام نشان بھی باقی نہیں رہا۔

3۔۔ جس وقت ہمیں گرفتار کرکے قید کیا گیا اُس وقت بلند ایجوت صاحب (Bulent Ecevit) وزیر اعظم تھے۔ اُنہوں نے دو مزید پارٹیوں کے سات مل کر حکومت بنائی تھی۔ با لفاظ دیگر تین پارٹیوں کی مخلوط حکومت تھی۔ خُدا کا کرنا یہ ہوا کہ وزیر اعظم کی پارٹی میں سےنیشنل اسمبلی کے چو نسٹھ ممبران نے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا اور پارٹی سے الگ ہو گئے۔ جس کی وجہ سے حکومت تحلیل ہو گئی اور نئے انتخاب ہوئے جس میں « اَنا وطن پارٹی» جس کے سر براہ مسعود یلحاذ صاحب تھے۔ اِس پارٹی کا ایک ممبر بھی کامیاب نہ ہوا اور یہ پارٹی مکمل طور پر صفحہء ہستی سے مٹ گئی۔ دیگر دو پارٹیاں بھی کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جس حکومت کے زمانہ میں ہمیں گر فتار کیا گیا تھا آج اُس کا کوئی نام و نشان بھی باقی نہیں۔ واضح طور پر تین احمدی قیدیوں اور اُن کے لئے دعائیں کرنے والے احمدی مخلصین کی عاجزانہ آہ و زاری کا ہی نتیجہ ہے۔ کیا جماعت ِ مسلمہ احمدیہ کی سچائی اور من جانب اللہ ہونے کا ثبوت نہیں ؟ کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ جماعت مسلمہ احمدیہ کی تائید میں ایک قادر مطلق خُدا موجود ہے جس کی شان یہ ہے کہ ؎

جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خُدائی یہی تو ہے

4۔اِس موقع پر میں ایک نشانِ الہٰی کا مزید تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔ جب ہمیں گرفتار کیا گیا اُس وقت ہم پر الزام لگایا گیا تھا کہ العیاذ باللہ جماعت احمدیہ ایک ٹیرورسٹ جماعت ہے اور ہم اُس کے ممبر اور عہدیدار ہیں۔ حالانکہ ٹیرورسٹ ہونے کا الزام لگانے کے لئےاُس وقت کے مروجہ قانون کے طابق کم از کم کوئی اسلحہ برآمد ہونا ضروری تھا۔ لیکن ہم سے تو کوئی اسلحہ برآمد نہیں ہوا۔ اُنہوں نے ایک سبزی کاٹنے والا چاقو بھی عدالت میں پیش کرکے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ چاقو اِن لوگوں سے برآمد ہوا ہے۔ دراصل ہمیں گرفتار اِس لئے کیا گیا تھا کہ حکومت کو اطلاع ملی تھی کہ جماعت احمدیہ تبلیغ کرتی ہے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ ترکی ایک سیکولر سٹیٹ ہے اور یہ چیز ترکی کے آئین میں شامل ہے کہ حکومت اور دین یا مذہب دو الگ الگ چیزیں ہیں اور حکومت کا کسی کے عقیدہ سے کوئی سروکار نہیں۔ علاوہ ازیں باہم گفت و شنیداور ٹیبل ٹاک(Table Talk) پر ترکی میں کوئی پابندی نہیں۔ بایں ہمہ ہمیں گرفتار کر کے مذہبی پوچھ گچھ کی گئی اور مختلف حکومتی اداروں سے بھی جماعت احمدیہ کے بارہ میں رپورٹس طلب کی گئیں۔ خاکسار نے بھی یہ سوچا کہ اِس سے اچھا اور کونسا موقع ہوگا۔ چنانچہ عاجز نے جس حد تک بھی ہو سکا جماعت احمدیہ کے بارہ میں معلومات بہم پہنچائیں اور جماعتی اداروں، دفاتر، ذیلی تنظیموں، چندہ جات وغیری کا تفصیلی ذکر کیا۔ چنانچہ مسلمہ احمدیہ کا مناسب تعارف موجود ہے اور بوقتِ ضرورت کام آ سکتا ہے۔

یہاں جس چیز کا میں بالخصوص ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اُس وقت تو جماعت احمدیہ پر نعوذ بِاللہ ذٰلک ٹیررازم کا الزام عائد کیا جا رہا تھا۔ لیکن آج خُدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ ترکی میں رجسٹر ہو چکی ہے اور جماعت کو ہر طرح کی کاروائیوں کی اجازت بھی مل چکی ہے۔ فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔

جماعت احمدیہ کی رجسٹریشن کا معاملہ فی ذاتہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک زندہ نشان ہے۔ جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:۔
اس وقت جماعت احمدیہ ترکی کے نیشنلپریذیڈنٹ مکرم محمت اومدر صاحب (Mehmet Onder) تھے۔ اُ نہوں نے عاملہ سے مشورہ کر کے کوئی چالیس کے قریب نام تجویز کئے۔ اور ایک لسٹ تیار کی۔ ترکی زبان کے ساتھ انگریزی ترجمہ بھی تحریر کیا اور ایک مقامی وکیل برولؔ (Birol) صاحب کو ساتھ لیکر لنڈن تشریف لائے اور حضور انور یدہ اللہ تعا لیٰ بنصرہ العزیز کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ اِس موقع پر ترکی وکیل بھی اُن کے ساتھ تھے علاوہ ازیں ایڈیشنل وکیل التبشیر مکرم عبدالماجد صاحب، ترکی ڈیسک میں کام کرنے والی واقفہء زندگی ترک خاتون سسٹر امینہ چقماقؔ صاحبہ اور خاکسار بھی موجود تھے۔

مکرم محمت صاحب نے حضور اقدس ایدہ اللہ تعا لیٰ کو مختصر طور پر عرض کیا کہ جماعت کی رجسٹریشن کے لئے جو نام تجویز کئے گئے ہیں اُن میں لفظ ’’احمدیہ‘‘ موجود نہیں ہے۔ اُسکی وجہ مکرم وکیل صاحب حضور اقدس کی خدمت میں پیش کریں گے۔ اُس کے بعد ترکی وکیل مکرم برولؔ (Birol) صاحب نے قانونی وضاحت کی۔ ترکی وکیل صاحب ترکی زبان میں گفتگو کر رہے تھے۔خاکسار اردو میں حضور انورکی خدمت میں ترجمہ پیش کر رہا تھا۔ وکیل صاحب کے بیان کا خلاصہ یہ تھا کہ ترکی کے آئین کے مطابق ’’احمدیہ‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اِس پرحضور اقدس ایدہ اللہ تعا لیٰ بنصر ہ العزیز نے مجوزّہ ناموں والی لسٹ اپنے دستِ مبارک میں پکڑی۔ حضور کے دائیں ہاتھ میں قلم تھا۔ حضور لسٹ کا مطالعہ فر ما رہے تھے۔ ایک جگہ پہنچ کر حضور انور اپنے قلم کو لسٹ کے قریب لے گئے اور ایک نام پر نشان لگانے کا ارادہ فر مایا لیکن فوراً ہی حضور نے قلم واپس اوپر اُٹھا لیا اور فر مایا آپ لوگ ایک دفعہ کو شش کر دیکھیں۔ ان شاء اللہ ’’احمدیہ‘‘ لفظ شامل کرنے کی منظوری مل جائے گی۔

جب ہم لوگ باہر نکلے تو وکیل صاحب کے چہرے سے شدید مایوسی کا اظہار ہو رہا تھا وہ کوئی بات نہیں کر رہے تھے خاکسار اور مکرم محمت ؔ صاحب نے مکرم وکیل صاحب کو تسلی دینے کی بے حد کوشش کی لیکن اُن پر خاطر خواہ اثر نہ ہوا۔ یہاں یہ ذکر کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ وکیل صاحب احمدی نہیں تھے۔

محمت صاحب نے بتایا کہ ترکی واپس لوٹنے کے بعد عاملہ کا اجلاس طلب کیا گیا اور سوچ بچار کے بعد ایک نام پر اتفاق کیا گیا جس کے اندر لفظ ’’احمدیہ‘‘ بھی داخل کیا گیا۔ اس کے بعد رجسٹریشن آفس سے وقت لیکر پانچ چھ احباب دفتر گئے۔ وہی ترکی وکیل صاحب بھی ساتھ تھے۔ ڈائریکٹر صاحب کے سامنے کاغذات رکھے گئے تو انہوں نے لفظ ’’احمدیہ‘‘ پر اعتراض نہیں کیا۔ اور فر مایا کہ میری سیکر ٹیری کے پاس چلے جائیں وہ رجسٹریشین کی کاروائی کردے گی۔

جب تمام احباب بشمول وکیل صاحب سیکرٹری صاحبہ کے پاس گئے اور کاغذات اُس کے سامنے رکھے تو اُس کی نظر لفظ ’’احمدیہ‘‘ پر پڑی تو اُس نے اعتراض کیا اور کہا کہ یہ کیا ہے؟ اسکی منظوری تو نہیں دی جا سکتی اور ر جسٹریشن نہیں ہو سکتی۔ اِس پر ڈائر یکٹر صاحب نے سیکر ٹیری کو دانٹا اور فر مایا کہ تم کون ہوتی ہو اعتراض کرنے والی ؟ شعبہ کا انچارج میں ہوں یا تم ؟ تمہیں جو کام کہا گیا ہے وہ کرو۔ سیکرٹیری صاحبہ نے خاموشی سے رجسٹریشن کی کاروائی کی اور جماعت احمدیہ کو رجسٹر کر کے رجسٹریشن نمبر وفد کے احباب کے حوالے کیا۔ جب باہر نکلے تو محمتؔ صاحب نے ترکی وکیل مسٹر برولؔ (Birol) سے کہا :۔
اب آپ کو پتہ لگ گیا ہوگا کہ ہمارے خلیفہ کے الفاظ کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی تقدیر چھپی ہوتی ہے اور خُدا تعالیٰ کے فرشتے پہرہ دے رہے ہوتے ہیں۔

وکیل صاحب اِس بات کا کوئی جواب نہ دے سکے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے بالکل سچ فر مایا ہے کہ میں خُدا تعالیٰ کی مجسّم قدرت ہوں اور میرے بعد قدرتِ ثانیہ کا ظہور ہوگا۔ یعنی اَیسے خلفاء آ ئیں گے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مظہر ہوں گے۔

فالحمد للہ ذٰلک۔

٭…٭…٭

(مرسلہ: ڈاکٹر محمد جلال شمس)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اکتوبر 2020