• 5 مئی, 2024

مکرم ہدایت اللہ ہیوبش کا ذکر خیر

عالم باعمل اور اطاعت و وفاداری کا پیکر
مکرم ہدایت اللہ ہیوبش کا ذکر خیر

مورخہ 4جنوری 2011ء کو جرمن نژاد احمدی عالم دین مکرم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب وفات پاگئے۔ آپ کی تدفین جرمنی میں ہوئی۔ جرمن لوگ اُن کی قبر پر گل پاشی کر رہے تھے۔ میں نے مٹھی بھر مٹی ہاتھ میں لی تو وہ پھول بن گئے۔ محبت عقیدت اور دعا کے پھول۔ اور پھر اس قدر پھول برسے کہ ایک ڈھیر لگ گیا۔ اس ڈھیر سے بہت لالہ و گل نمایاں ہوگئے اور ان گل و لالہ سے چمن احمدیت ہمیشہ مہکتا رہے گا اور یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔

مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے نوجوانوں نےقبر کے خلاء کو چند لمحوں میں پُر کر دیا اور وہ شخص ہمیشہ کے لئے نظروں سے اوجھل ہوگیا۔

صبح تک وہ بھی نہ چھوڑی تو نے اے بادِ صبا
یاد گار رونق محفل تھی پروانے کی خاک

قبر تیار ہوئی حضورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے نمائندہ مکرم عبدالماجد طاہرصاحب نے لمبی اور پُر سوز دعا کروائی۔محترم امیر صاحب جرمنی نے اپنی سسکیاں دبانے کی کوشش کی مگر ایک ہوک نکل گئی۔بس پھر کیا تھا کہ صبرو ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے۔دعا کے بعد میں نےمکرم ہدایت اللہ صاحب کی قبر کو دیکھا اور سوچا کہ قبر کا خلا تو ہم نے اتنی جلدی پُر کر دیا ہدایت اللہ صاحب کا خلاء کب پُر ہوگا۔جذبات کی رو میں یہ بات مکرم امیر صاحب سے بھی کہہ دی اور امیر صاحب نے جواب دیاکہ ان شاء اللہ ہوگا اور جلد ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سینکڑوں بلکہ لاکھوں ہدایت اللہ جماعت جرمنی کو عطا فرمائے گاحضور انور ایدہ اللہ نے بھی یہ دعا کی ہے۔اللہ کرے کہ یہ دعا قبول ہو۔ آمین

جرمن زبان میں لفظ Hübsch کے معنی حسین و جمیل کے ہوتے ہیں۔اسی لئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت اللہ جمیل کہہ کر پکارا کرتے تھے اور تھا بھی حسن و جمال کا پیکر۔اس میں کئی حسن اکٹھے ہوگئے تھے کس کس کا ذکر کروں۔ایمان کا حسن،عبادات کا حسن، کردار کا حُسن، وفا اور اطاعت کا حسن۔قربانی اور ایثار کا حسن اور پھر خدا اور اس کے رسولﷺکا حُسن۔ اور پھر اس دور کے مسیحا اور اس کے خلیفہ کے عشق نے تو اس کے حُسن کو چار چاند لگا دئیے تھے۔خلافت کے سائے میں تو اس کا حُسن اور بھی نکھر جاتا تھا۔خلیفۂ وقت کے سامنے اس کی محبت، عاجزی اور انکساری کو تو سب ہی دیکھتے اور محسوس کرتے تھے۔ مگر اس کی روح کا مستی میں جھومنا اور خلافت کا دیوانہ وار طواف کرنا یہ کبھی کبھی ہی کوئی محسوس کرتا تھاوہ اس کیفیت کو چھپا کر رکھتا تھا۔ مگر عشق اور مُشک بھی کبھی چُھپے رہے ہیں۔ یہ عشق خود بھی مہکتا ہے اور ماحول کو بھی مہکاتا ہے۔

اللہ اللہ جہاں محبت کا
جلوتوں میں ہیں خلوتیں کیسی

عبادت کا حُسن بھی اس کو عطا ہوا تھا۔میں نے خود اُن کو نماز پڑھتے اور پڑھاتے دیکھا۔ ایک عجیب کیفیت جو آنکھوں سے تو نظر نہیں آتی تھی مگر ساتھ نماز پڑھنے والے کی روح پر اثر کرتی تھی۔

مکرم امیر صاحب جرمنی نے بھی آپ کی عبادت اور دعا کی مثالیں 7جنوری 2011ء کے خطبہ جمعہ میں دیںاور یہ بھی فرمایا کہ مرتے وقت ہدایت اللہ ہیوبش صاحب کے ہاتھ کی انگلیاں تسبیح کی حالت میں تھیں جیسا کہ وہ عموماً ہوا کرتی تھیں۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تقریباً 20منٹ اس سال کے پہلے خطبہ جمعہ میں جس کو ساری دنیا نے سنا ان کا ذکر خیرکیا اور مرحوم کی محبت اخلاص وفا اور اطاعت کے واقعات سنائے۔ ؏

یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے

ایک اور واقعہ جس سے مکرم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب کی کامل اطاعت کا نمونہ سامنےآتا ہے یہ ہے کہ وفات سے کچھ عرصہ قبل ان کو ایک کتاب شائع کرنے کا خیال آیاانہوں نے ایک اشاعتی ادارے سے بات بھی کی وہ ادارہ فوراً راضی ہوگیابلکہ ایڈوانس بھی دے دیا۔ مگر آپ نے جماعت سے اس کتاب کی اشاعت کی اجازت طلب کی۔جماعت نے غورو خوض کے بعد فیصلہ کیا کہ بہتر ہوگا کہ یہ کتاب شائع نہ ہو کہ اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہونے کااندیشہ ہے۔مکرم ہدایت اللہ صاحب نے فوراً جماعتی فیصلہ کے آگے سرتسلیم خم کیا اور کتاب کی اشاعت کا ارادہ ترک کر دیا۔

اطاعت کی بات کرنا۔اطاعت کا عہد کرنا اور بات ہے اور اُسےبہتر طورپر نبھانا اور بات ہے بلکہ ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ وہ عالم باعمل انسان تھے۔وہ ناصح بھی تھا مگر غمگسار بھی۔واعظ بھی تھا مگر ہمدرد بھی۔ وہ شاعر، ادیب، مقرر اور خطیب بھی تھا مگر سب سے بڑھ کر اسلام کا مبلغ تھا۔سوال و جواب کی مجلس ہو یااخباری انٹرویو،کسی یونیورسٹی میں لیکچر ہو یا TVکا ٹاک شو مکرم ہدایت اللہ صاحب کی بات ہمیشہ غالب رہتی تھی کہ وہ بات خدا کی بات کرتےتھے۔

اپنے خالق و مالک کے پاس جاتے جاتے آخری نظم میں اپنے آقا و مولیٰ محمد مصطفیٰﷺکو خراج تحسین پیش کر نے کے بعد آپؐ کا شکریہ بھی ادا کیا کہ آپؐ نے ایسی عظیم الشان ہدایت دنیا کو دی جس سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور آخرت بھی۔

ہدایت اللہ ہیوبش صاحب کا تخیل اس قدر بلند پرواز تھا اور ان کے قلم میں اس قدر قوّت اور جان تھی کہ اگر وہ اُسی رستہ پر قائم رہتے جس پر وہ اسلام لانے سے قبل قائم تھے تو بےشمار کتابوں کے خالق بنتے اور بڑے انعام کے حقدار بھی۔مگر ان کو دنیا کے انعاموں کی پرواہ ہی کب تھی۔ خصوصاً آج کے دور میں تو ان کی خوب پذیرائی ہوتی کہ پہلے تو لوگ دبی زبان میں اور چھپ چھپ کر اسلام پر اعتراض کرتے تھے مگر اب کھل کر اسلام اور بانی اسلام پر گند اچھالنے لگے ہیں۔ اور سینکڑوں لوگوں نے تو اسلام کے خلاف کتابیں لکھ کر اور فلمیں بنا کر بہت دھندہ کیا اور خوب پیسہ کمایا۔ ہیوبش صاحب سینہ سپر ہو کر اس راستہ میں کھڑے ہوگئے اور ان کا خوب دل کھول کر جواب دیا۔

اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرتا جائے اور ان جیسے ہزاروں وفادار جماعت احمدیہ عالمگیر کو عطا کرتا رہے۔

(محمد انیس دیالگڑھی۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اکتوبر 2020