تعارف صحابہ کرام ؓ
حضرت چوہدری غلام محمدؓ۔ چک 99 شمالی ضلع سرگودھا
حضرت چوہدری غلام محمد 1869ء میں چوہدری نتھو خان کے ہاں کوٹ گوندل ضلح سیالکوٹ میں پیدا ہو ئے۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت چوہدری غلام رسول بسراء کی ایک روایت 24 جون 2011ء کے خطبہ میں بیان فرمائی ہے جس میں آپ کا بھی ذکر ملتا ہے، حضور فرماتے ہیں:
’’چوہدری غلام رسول صاحب بسراء 99 شمالی سرگودھا کہتے ہیں کہ دسمبر 1907ء جلسہ سالانہ کا واقعہ ہے کہ جمعرات کی شام کو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صبح باہر سیر کو جائیں گے۔ اس وقت دستور یہ تھا کہ جب بہت بھیڑ ہو جاتی تھی تو آپ کے گرد بازؤوں کا حلقہ باندھ لیا جاتا تھا اور آپ اس حلقے کے بیچ چلتے تھے۔ (جس طرح چین(Chain) بنا لیتے ہیں بازو پکڑ کے) چنانچہ مَیں نے اپنے ہمرائیوں مولوی غلام محمد گوندل امیر جماعت احمدیہ چک 99شمالی، چوہدری میاں خان صاحب گوندل اور چوہدری محمد خان صاحب گوندل مرحوم سے صلاح کی کہ اگر خدا نے توفیق دی تو صبح جب آپ باہر سیر کو نکلیں گے تو ہم آپ کے گرد بازؤوں کا حلقہ بنائیں گے، اس طرح پر ہم حضور کا دیدار اچھی طرح کر سکیں گے۔ صبح جب نماز فجر سے فارغ ہوئے تو تمام لوگ حضور کے انتظار میں بازار میں اکٹھے ہونے شروع ہو گئے۔ یہ مکمل پتہ تو نہیں تھا کہ حضور کس طرف سے باہر تشریف لے جائیں گے لیکن جس طرف سے ذرا سی بھی آواز اُٹھتی کہ آپ اس طرف باہر سیر کو تشریف لے جائیں گے لوگ اُسی طرف ہی پروانہ وار دوڑے جاتے تھے۔ کچھ دیر اسی طرح ہی چہل پہل بنی رہی۔ آخر پتہ لگا کہ حضور شمال کی جانب سے ریتی چھلا کی طرف باہر سیر کو تشریف لے جائیں گے۔ ہم لوگوں نے جو آگے ہی منتظر تھے کپڑے وغیرہ کَس لئے اور تیار ہو گئے کہ جس وقت حضور بازار سے باہر دروازے پر تشریف لے آئیں، اُسی وقت ہم بازؤوں کا حلقہ بنا کر آپ کو بیچ میں لے لیں گے۔ ہم اس تیاری میں تھے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بہت بڑے جمّ غفیر کے درمیان میں (اس جمگھٹے کے) آپ آ رہے ہیں۔ اس جمگھٹے نے ہمارے ارادے خاک میں ملا دئیے اور یہ جمگھٹا جوتھا ہمیں روندتا ہوا چلا گیا۔ ریتی چھلے کے بڑے مغرب کی طرف ایک لسوڑی کا درخت تھا۔ آپ اُس لسوڑی کے درخت کے نیچے کھڑے ہو گئے اور وہاں ہی آپ لوگوں سے مصافحہ کرنے لگے۔ کسی نے کہا حضرت صاحب کے لئے کرسی لائی جاوے تو آپ نے فرمایا۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے کہا ہے کہ لوگ بہت بڑی کثرت سے تیرے پاس آئیں گے لیکن (پنجابی میں باتیں ہو رہی تھیں شایدتو فرمایا)تُوں اَکّیں نہ اور تھکیں نہ۔‘‘
(ماخوذ ازروایات حضرت چوہدری غلام رسول بسراءؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 1صفحہ 71)
حضرت چوہدری غلام محمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک ملاقات کا تذکرہ کرتے ہو ئے روایت کرتے ہیں کہ
’’جب میری باری مصافحہ کی آئی تو میں نے اپنی گرہ سے پانچ روپے نکالے اور حضور کو دینے لگا تو چوہدری غلام رسول بسراء نے کہا کہ تو پانچ روپے دینے لگا ہے لوگ تو ایک ایک ہی دیتے ہیں تو میں نے کہا کہ مجھے نبی کے ہاتھ پر ایک روپیہ رکھتے شرم آتی ہے تو اس وقت بھی ہم حضور کو نبی تسلیم کرتے تھے۔
(رجسٹر روایت نمبر 1 صفحہ 73)
آپ یہ بھی بیان کرتے تھے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجالس میں خاموشی سے بیٹھا رہتا تھا اور حضور کے ارشادات سنتا رہتا تھا۔ ایک دن میں نے ہمت کرکے عرض کی کہ حضور مجھے کوئی نصیحت فرمائیں تو حضور نےفرمایا نمازیں سنوار کر پڑھا کریں، آپ نے اس نصیحت کو گرہ میں باندھ لیا اور پھر زندگی بھر اپنے اوقات کا ایک بڑا حصہ بیت الذکر میں فرض نمازوں کی ادائیگی اور نوافل میں گزارتے۔ سجدوں میں انہماک کی یہ کیفیت تھی کہ ارد گرد کے ماحول سے بے نیاز ہوتے تھے، نماز اتنی لمبی پڑھتے تھے کہ بعض اوقات یہ گمان ہوتا تھا کہ سجدہ میں سوگئے ہیں۔ چوہدری غلام رسول بسراء جن سے آپ کا دوستی کا تعلق تھا یہ پتا لگانے کی کوشش کی کہ آپ سجدوں میں الله تعالیٰ سے کیا مانگتے ہیں، پتہ چلا کہ آپ الله تعالیٰ سے نہایت عجزو انکسار سے مسلسل یہی دعا کرتے تھے کہ الله تعالیٰ میں تیری محبت اور رضا مانگتا ہوں
عادت ذکر بھی ڈالو کہ یہ ممکن ہی نہیں
دل میں ہو عشق صنم لب پہ مگر نام نہ ہو
آپ کی بہو مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ جو آپ کی بھانجی بھی ہیں اور مربی سلسلہ سیرالیون مکرم افتخار احمد صاحب گوندل کی والدہ محترمہ ہیں بیان کرتی ہیں کہ آپ نماز تہجد میں باقاعدہ اور بہت وقت دیتے تھے فجر کی نماز کے بعد دیر تک تلاوت قرآن کریم کرتے مسجد میں باجماعت نمازوں کی ادائیگی کے بعد بہت دیر تک تسبیح و تحمید کرتے اور دعاوں میں وقت گزارتے، جب ان سے گزارش کی گئی کہ آپ اتنی دیر سے آتے ہیں کہ کھانا ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو آپ نے فرمایا کھانا میں نے ہی کھانا ہے نا۔
قرآن کریم سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا، قرآن کریم سے درس دیتے تھے اور بچوں کو قرآن شریف پڑھانے کا اہتمام کرتے تھے، نمازِ عشاء کے بعد آپ کے پوتے پوتیاں آپ کو دبانے کے لئے جمع ہوتے تھے، اس موقع پہ انہیں نماز اور نماز کا ترجمہ سکھاتے تھے۔ جماعت کے مقامی امیر بھی رہے، زیادہ تر نماز جمعہ، نماز عید اور نمازوں کی امامت آپ خود کرتے تھے، قرآن کریم احادیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس دیتے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت کا یہ عالم تھاکہ آپ کو ہر اس شے سے پیار تھاجو آپ کی یاد دلاتی ہو، خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت عقیدت تھی۔ قادیان سے آپ کی محبت کی یہ کیفیت تھی کہ جب آپ ایک آپریشن کے سلسلے میں سرگودھا ہسپتال میں داخل تھے تو آپ بار بار یہی دعا کرتے تھے کہ الله تعالیٰ مجھے قادیان پہنچا دینا اور الله کا کرنا ایسا ہوا کہ معجزانہ طورپر آپ کا ویزا قادیان کا لگ گیا، باوجود کمزور صحت کے آپ قادیان پہنچ گئے۔ 8 جون 1964ء کو حضرت نواب محمد علی خان کی کوٹھی میں وفات پائی اور قطعہ بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔ آپ کے بیٹے مکرم محمود احمد صاحب مبشر نے اپنی کتاب کلام درویش میں ان تمام مراحل کو یوں اشعار کی صورت میں ڈھالا ہے،
ہاں بہشتی مقبرہ ان کو ہوا ہے جو نصیب
یہ خدا کا فضل ہے حالات تھے بلکل عجیب
ان کی خواہش کے مطابق ہو گیا بہتر انجام
بن گیا ان کا بہشتی مقبرہ آخرمقام
قادیاں سے پیار تھا وہ قادیاں کے ہوگئے
قادیاں آکر بہشتی مقبرہ میں سوگئے
تقسیم ملک کے وقت مقامات مقدسہ اور مرکز کی حفاظت کے لئے درویشان کی تحریک ہوئی تو آپ نے اپنے بیٹے مکرم محمود احمد مبشر کی خدمات پیش کیں لیکن جب قادیان کے لئے روانگی کا وقت آیا مکرم محمود احمد صاحب احمدیہ سٹیٹس سندھ میں ہونے کی وجہ سے پہنچ نہیں پائے تھے اس صورت حال میں آپ نے اپنے دوسرے بیٹے مکرم مختار احمد صاحب کو تیار کیا لیکن عین وقت پر محمود احمد مبشر بھی پہنچ گئےاور انہیں قادیان کے لئے روانہ کر دیا گیا۔ آپ کے اس سعادت مند بیٹے نے اس عہدوفا کو تا دم آخر کامل وفا کے ساتھ نبھایا،
ہے عمل میں کامیابی موت میں ہے زندگی
جا لپٹ جا لہر سے دریا کی کچھ پروا نہ کر
آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت سے فیضیاب ہونے والے مستجاب الدعوات بزرگ تھے آپ کی دعائیں خدا تعالیٰ کے حضور مقبول تھیں قبولیت دعا کے چند واقعات یہاں درج کئے جاتے ہیں
آپ کا درویش بیٹا تو میدان عمل میں سر گرم عمل تھا لیکن ان کی اہلیہ اور بچے پاکستان میں تھے، فراق کے یہ لمحے جہاں فریقین کے لئے دلگداز تھے وہاں ایک روح خدا تعالیٰ کے حضور گداز تھی۔ آپ یہ مدعالے کر سجدہ ریز ہوئےکہ آپ کی بہو اور بچے قادیان جا سکیں، نوافل سے فارغ ہوئےتو مرکز سے یہ اطلاع ملی کہ آپ کی بہو اور بچوں کے ویزے لگ گئے ہیں۔
آپ اور حضرت چوہدری غلام رسول صاحب بسراء گاؤں کے اولین احمدیوں میں سے تھے، آپ نے یقیناً احمدیت کے ترقی و ترویج کے لئے دعائیں او مساعی کی ہوگی، ایسی ہی ایک کوشش کا احوال اس طرح سے ہے کہ آپ اور چوہدری غلام رسول جمعہ کے دن مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ سامنے سے چوہدری محمد دین ججہ کا گزر ہوا، چوہدری محمد دین ججہ راقم الحروف کی والدہ مرحومہ کے چچا تھے، آپ نے انہیں بلایا اور مخاطب کر کے پنجابی میں کہا ’’جے کسے بھائی دا جوترانہ لگدا ہووے تے کی کرنا چاہی دا اے‘‘ ججہ صاحب نے کہا ’’اوہدی مدد کرنی چاہی دی اے‘‘ یوں ابتدا کر کے انہوں نے اپنا مدعا بیان کر دیا کہ اگر آپ احمدی ہو جائیں تو ہمارا جمعہ شروع ہو جائے، اس صاف دل وجود نے بھی کوئی دوسری بات نہیں کی، کہا تو صرف یہ کہا میں وضو کر کے آتا ہوں اور یوں اسی دن سے احمدی ہو گئے۔
ایک دفعہ جب آپ مسجد میں معتکف تھے آپ کی بیٹی مکرمہ سعیدہ بیگم صاحبہ تشریف لائیں تو آپ نے ان سے پوچھا روزے کون کون رکھ رہا ہے تو انہوں نے بتایا کہ بھائی مختار احمد رکھ رہے ہیں لیکن دانت درد کی وجہ سے بہت تکلیف میں ہیں، آپ نے کہا کہ ان سے کہہ دیں روزے جاری رکھیں، خدا تعالیٰ کے فضل سے دانت کا درد نہ ہوگا اور پھر الله کا کرنا ایسا ہوا کہ عمر بھر آپ کو دانت میں تکلیف کی ویسی شکایت نہ ہوئی۔
ایک دفعہ آپ اور حضرت چوہدری غلام رسول بسراء ایک نواحی گاؤں میں جماعتی پروگرام میں شرکت کے لئے گھوڑیوں پر گئے، واپسی پر جب آپ اپنی گھوڑی پر زین ڈالنے لگے تو گھوڑی کاٹھی کے نیچے سے نکل کر بھاگ گئی اور زین آپ کے ہاتھ میں رہ گئی، چوہدری غلام رسول نے پیشکش کی کہ میری گھوڑی پر میرے پیچھے بیٹھ جائیں لیکن آپ کو انشراح نہیں تھا چنانچہ آپ نے معذرت کرلی اور زین عصا پر لٹکا کر گاؤں کی طرف پیدل روانہ ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد آپ کی گھوڑی سرپٹ دوڑتی آئی اور آپ کے پاس آکرکھڑی ہوگئی، آپ نے کاٹھی گھوڑی پر ڈالی اور سوار ہو کر اپنے ساتھیوں سے پہلے گاؤں پہنچ گئے۔
آپ کے بیٹے مکرم چوہدری مختار احمد صاحب بیان کیا کرتے تھے کہ والد صاحب کے حضرت مولانا غلام رسول راجیکی سے برادرانہ مراسم تھے حضرت مولانا صاحب ہمارے گاؤں تشریف لا رہے تھے تو میں والد صاحب کے ارشاد پر انہیں لانے کے لئے گھوڑی لے کر ہنڈیوالی (موجودہ شاہین آباد) ریلوے سٹیشن گیا، میں ان کو پہچانتا نہیں تھا، گاڑی آکر رکی تو میں نے دیکھا کہ ایک تنو مند بزرگ میری طرف آرہے ہیں، مجھے دیکھ کر فرمایا کہ آپ مجھے لینے آئےہیں، میں نے اثبات میں جواب دیا تو میرے ساتھ آکرآپ گھوڑی پر سوار ہو ئے اور مجھ سے کہا کہ اپنا ہاتھ مجھے پکڑاؤ، میں نے جب اپنا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں دیا تو آپ نے اس طرح مجھے اٹھا کر اپنے پیچھے بٹھایا جیسے کوئی بچہ ہو، جبکہ میں اس وقت بھرپور جوان تھا۔
آپ کا سلوک اپنے بہن بھائیوں سے بہت مشفقانہ تھا سب آپ کو بھایا کے نام سے یاد کرتے تھے۔ آپ کی تعلیمی قابلیت اور تبلیغی خدمات کی بنا پر آپ کے نام کے ساتھ مولوی کا لقب بھی استعمال ہوتا تھا۔ آپ نے اپنے چھوٹے بھائی حضرت چوہدری علی محمد سے ایثار کا جو سلوک کیا اس کی مثال خال خال ہی ملتی ہے۔ ایسے لوگ شاذ کے طور پر ہی تھے جنہوں نے گورنمنٹ کی طرف سے ملنے والی زمین میں سے اپنے بھائیوں کو حصہ دیا ہو۔ آپ نے چھوٹے بھائی کو پیشکش کی کہ آدھی زمین اپنے نام لگوا لیں، لیکن چھوٹے بھائی کا ایثار بھی کمال کا تھا انہوں نےجواباً کہا کہ میں نصف کی بجائے چوتھے حصہ پر ہی گزارا کرلوں گا، آپ کی ضروریات مجھ سے زیادہ ہیں۔ رشتوں کا یہ تقدس اور قربانی کی یہ مثالیں احساس دلاتی ہیں کہ یہ لوگ مختلف تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینے کے بعد ان کی زندگیوں میں ایک انقلاب پیدا ہوگیا تھا۔ آپ کی وفات پر آپ کے چھوٹے بھائی کے جذبات کو مکرم محمود احمد صاحب مبشر نے پنجابی اشعار میں یوں بیان کیا ہے
اوہدیاں ہویاں مراداں سب پوریاں
سانوں نبیاں نے کئی مجبوریاں
کول ہوندے تے ہتھیں دفناوندے
پانی اکھاں دے نال نہلاوندے
آنکھوں کے پانی سے غسل دینے کا یہ تصور محبت کی معراج ہے۔
آپ 8 نومبر 1911ء کو نظام وصیت سے منسلک ہو ئے اور نصف صدی سے زائد عرصہ تک کامل وفا کے ساتھ اس عہد کی پاسداری کرتے رہے آپ کا وصیت کا نمبر 535 ہے اور وصیت میں چک 99 شمالی ضلع سرگودھا کا پتہ درج ہے۔
مہمان نوازی کا وصف آپ میں بہت نمایاں تھا، مہمان کی خاطر مدارات میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے تھے، ہر جمعہ پہ قریب کی جماعتوں سے آنے والے مہمانوں کے لئے کھانے کا انتظام کیا جاتا تھا، اس کھانے میں عموماً گوشت اور زردہ ہوتا تھا۔ راہ چلتے مسافر بھی آپ کی قیام و طعام کی سہولت سے مستفید ہوتے تھے۔ آپ جب جلسہ سالانہ قادیان جاتے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کے لئے دیسی گھی کے کنستر ساتھ لے جاتے جو آپ اور آپ کے دیگر عزیز اس مقصد کے لئے سارا سال جمع کرتے تھے۔
اپنے حلقہ احباب میں تو آپ کا احترام تھا ہی لیکن علاقہ کے لوگ بھی آپ کو تقویٰ اور طہارت کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ دعا کی قبولیت پر کامل یقین اور غیر متزلزل ایمان تھا۔ الله تعالیٰ آپ کی خواہشات کو معجزانہ طور پر پورا کر دیتا تھا، ان کی دعاوں کا فیض اُن کی نسلوں میں آج بھی جاری ہے۔
آپ میری والدہ کے ماموں اور میری خوشدامن صاحبہ کے تایا تھے۔ آپ کے درویش بیٹے کے خوبصورت شعر کے ساتھ اس مضمون کا اختتام کرتا ہوں
اوہی مالک اوہی رازق سب صفتاں دا سائیں
نام تہاڈے رہن ہمیشہ روز قیامت تائیں
(منصور احمد کاہلوں۔آسٹریلی)