• 25 اکتوبر, 2024

یورپ کی شرک آلودہ فضاء میں ہمارا طریقِ عمل

یورپ کے ماحول میں رہتے ہوئے ہر طرف بدیوں اور برائیوں کا ایک سیل رواں جاری ہے،گویا کہ آگ کا ایک سمندر ہےیعنی ہر سمت آگ ہی آگ ہے،جس سے حفاظت اور تحفظ کا بغیر خدا کے فضل کے سوچنا بھی ناممکن ہے،ہمارے ہاتھ میں ایک خدا کا فضل اور رحم ہی ہے کہ جس کی بناء پر ہم مسیح آخر الزمان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئےخیر و عافیت کے حصار میں آسکتے ہیں۔

صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار

(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ145)

خدا کے پیارے مسیح موعود و مہدیٔ معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو تقریباً ایک صدی قبل ہی تشنہ روحوں کو یوں متنبہ فرما دیا تھا۔
’’اے یورپ! تو بھی امن میں نہیں۔‘‘

(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ269)

یورپی معاشرہ کی کیفیت

یورپی معاشرہ میں صرف ایک شدید مادہ پرست انفرادیت باقی رہ گئی ہے جو مستقل دنیاوی راحتیں اورجنسی لذتیں حاصل کرنے کی طلب گار ہے۔حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ ،یورپی معاشرہ کی کیفیت بیان کرتے ہوئےارشاد فرماتے ہیں۔
’’یورپ کے معاشرے کو اگر دو لفظوں میں بیان کیا جائے تو وہ تموج پیدا کرتا ہے، بے چینی پیدا کرتا ہے، ایسی تحریکات آپ کے سامنے رکھتا ہے،جس کے نتیجہ میں دل بے اطمینانی ہی محسوس نہیں کرتا بلکہ اس کے اندر طلب کی ایک ایسی آگ بھڑکتی ہے جو کسی پانی سے نہیں بجھ سکتی۔‘‘

(خطاب برموقع صد سالہ جلسۂ سالانہ قادیان بھارت فرمودہ مؤرخہ27 دسمبر1991ء)

آخر کس طرز طریق کو اختیار کیا جائے؟

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان یورپ کی رنگینیوں و رعنائیوں میں زندگی بسر کرتے ہوئے آخر کس طرز طریق کو اختیار کرے؟

اس کا جواب تو الله تعالیٰ نے پندرہ سو سال قبل ہی اپنے پاک کلام میں یوں بیان فرما دیا۔

صِبۡغَۃَ اللّٰہِ ۚ وَمَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبۡغَۃً

لبقرہ:139)

الله کا رنگ پکڑو اور رنگ میں الله سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے۔

اسی طرح سے پھر ہر اس شخص کے لئے جو الله اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے، دستور عمل اس چیز کو قرار دیا۔

لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ

(الاحزاب:22)

یقیناً تمہارے لئے الله کے رسول میں نیک نمونہ ہے۔

زندگی کا فیشن تو ہم آنحضرتؐ سے سیکھیں گے

حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ زندگی کا فیشن سیکھنے کی جانب رہنمائی کرتے ہوئےارشاد فرماتے ہیں۔
’’بعض لوگ اپنی بیوقوفی کی وجہ سے اس بات کو نہیں سمجھتے،وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی فیشن میں ہے حالانکہ فیشن میں کوئی زندگی نہیں۔اصل زندگی تو اس فیشن میں ہے جو دین کا فیشن ہے۔اس میں نہیں ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فرمایاکہ

یہ زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں۔

پس زندگی کا فیشن تو ہم آنحضرتﷺ سے سیکھیں گے نہ کہ کسی اور سے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ 31 دسمبر 1982ء)

آج کے پر آشوب دور میں ہمارے لئے ڈھال

حقیقت یہ ہے کہ دورحاضر کی شرک آلودہ فضاء میں یَعْبُدُوْنَنِیْ کا وعدہ بھی مومنوں کے حق میں صرف اور صرف خلافت کے سائے میں رہ کر ہی پورا ہو سکتا ہے۔

آج ہم اور یقیناً ہم ہی وہ خوش نصیب ہیں، جن کو خدا تعالیٰ نے خلافت کی نعمت سے نوازا ہے۔ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم دل و جان سے اس سے وابستہ رہیں اور خلیفة المسیح کے نور کو براہ راست اپنے اندر جذب کریں۔ جس قدر ہم بذات خود اور اپنی اولادوں کاانکساری اور عاجزی سےخلافت سے زندہ تعلق قائم کریں گے اتنی ہی رفعتیں اور بلندیاں خدا کے حضور ہم حاصل کرتے چلے جائیں گے، اِنْ شَآءَ اللّٰہُ

الغرض آج کے اس پر آشوب دور میں خلیفہٴ وقت کی ذات بابرکات ہی ہمارے لئے وہ ڈھال ہے، جس کے پیچھے رہ کر ہم ہرقسم کی بدی اور شر سے بچنے کی ضمانت پا سکتے ہیں۔

اگر اپنی زندگیوں کو خوشگوار بنانا ہے تو دعاؤں پر زور دیں

یورپ جیسے معاشرے اور دنیامیں جہاں ہر طرف مایوسی، بے چینی، بے اطمینانی کا دور دورہ ہے،اس ماحول میں ہماراشعارکیا ہونا چاہئے کہ مادیت کی شورش سے خوشگواریت کا حصول ممکن ہو سکے،اس ضمن میں ہمارے پیارے آقا ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز رہنمائی کرتے ہوئےارشاد فرماتے ہیں۔
’’معاشرے میں آج کل بہت سارے جھگڑوں کی وجہ طبیعتوں میں بے چینی اور مایوسی کی وجہ سے ہوتی ہے، جو حالات کی وجہ سےپیدا ہوتی رہتی ہیں اور یہ مایوسی اور بے چینی اس لئے بھی زیادہ ہو گئی ہے کہ دنیاداروں اور مادیت پرستی اور دنیاوی چیزوں کے پیچھے دوڑنے کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہو گئی ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کم ہو گیا ہے اور دنیاوی ذرائع پر انحصار زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس لئے اگر اپنی زندگی کو خوشگوار بنانا ہے تو جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ دعاؤں پر زور دیں اور اسی سے آپ کی دنیا اور عاقبت دونوں سنوریں گی۔اور یہی توکل جو ہے آپ کا، آپ کی زندگی میں بھی اور آپ کی نسلوں میں بھی آپ کے کام آئے گا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ 15 اگست 2003ء)

حقیقی پیار کے نتیجہ میں اطمینان و بشاشت پیدا ہوتی ہے

اس ضمن میں حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ ارشاد فرماتے ہیں۔
’’دنیا تو پاگل ہوئی ہوئی ہے،میں نے بڑا غور کیا ہے اس وقت دنیا میں عقلمند صرف احمدی ہے۔دنیا اس دنیا کے پیچھے لگی ہوئی ہے جو عارضی اور بےاطمینانیوں سے بھری ہوئی اور پریشانیوں سے معمور دنیا ہے، جہاں ہلاکتیں ہی ہلاکتیں نظر آرہی ہیں۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں نشوں کے ذریعہ اپنے آپ کو بہلانا چاہتے ہیں اور بہلا نہیں سکتے، ہر دل میں بے اطمینانی ہے۔۔۔اگر انسان کا مقصود یہ ہو کہ اس دنیا میں بھی اس کا دل مطمئن رہے اور بشاشت کے ساتھ اپنی زندگی کے دن گزار رہا ہو تو سوائے اسلام کے کہیں اور یہ بشاشت اور اطمینان نہیں حاصل ہو سکتا۔انسان پیار تو الله تعالیٰ سے حاصل کرتا ہے جو حقیقی پیار ہے اور اسی پیار کے نتیجہ میں اطمینان اور بشاشت پیدا ہوتی ہے۔‘‘

(خطاب برموقع 18؍ویں سالانہ تربیتی کلاس مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ بحوالۂ مشعل راہ جلد دوم صفحہ273)

سنو! الله ہی کےذکر سے دل اطمینان پکڑتے ہیں

یورپ نے مصنوعی آزادیاں، تسکین اور لذت کے حاصل کرنے کے لئے ہر تدبیر آزمائی، کبھی شراب کو پانی کی طرح بہایا،تو کبھی جنس کے پیچھے مارے مارے نظر آئے، کبھی تنگ لباس میں تو کبھی لباس کو خیر باد کہہ کر،کبھی ہیپیز کا دور آیا توکبھی فیشن کی دھت بالوں، جسموں اور چہروں پر سوار کی۔مگرمصنوعی آزادی کے دیوانے ہمیشہ تشنگی کا سامنا ہی کرتے رہے، کر رہے ہیں اور خدا نخواستہ کرتے رہیں گےاور یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کوئی نہ کوئی چیز تو ایسی ضرور ہے جو ناپید ہے یا جس کی کمی ہے۔

اگر عقل سے تجزیہ کیا جائے کہ وہ چیز ایک ہی ہے اور وہ مقصد حیات کا نہ ہونا ہے، زندگی گزارنے کے اسلوب سے نا آشنائی ہے اور بعد الموت حیات کے ادراک کا نہ ہونا ہے۔ دلوں کےحقیقی اورمستقل سکون تو اسی ارشاد ربانی کے تحت ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔

اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ

(الرعد:29)

سنو! الله ہی کےذکر سے دل اطمینان پکڑتے ہیں۔

یہی وہ نسخہ کیمیا ہے جس میں پیغام زندگی پنہاں ہے اور یہی وہ درعدن ہے جو ظلمتوں کی شام کو صبح نور میں بدلتا چلا جائے گا۔

یورپ کا ماحول اور تربیت اولاد

اس معاشرہ میں جہاں باغیانہ رویے آزادی کے نام پر عام ہیں، تربیت اولاد انتہائی اہم اور توجہ طلب امر ہے۔ کیونکہ آج کے بچے کل کا مستقبل ہیں لہٰذا یہ وہ جمع پونجی ہیں کہ ان پر آنے والے وقت کی عظیم دینی اور دنیاوی ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں۔

اردگرد کی معاشرتی برائیوں، منفی نوعیت کی سوچ اوربے ہنگم آزادیوں سے انہیں مثبت رجحانات کی جانب مائل کرنا اور کردار سازی اشد ضروری ہیں۔

الله تعالیٰ ہماری اولادوں کے ساتھ قیامت تک رہے

حضرت المصلح الموعودؓ ارشاد فرماتے ہیں۔
’’پس ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ الله تعالیٰ ہماری اولادوں کے ساتھ قیامت تک رہے تاکہ اس کا نام ہماری نسلیں ہمیشہ بلند کرتی رہیں۔ وہ دنیا کے لئے ایک دوسرے کا گلا نہ کاٹیں، وہ دنیا کے لئے ایک دوسرے سے نہ لڑیں، بلکہ دنیا کے ملنےپر دین کی اور زیادہ خدمت کریں اور ہر قسم کی عزت ملنے کے با وجود،دین کی خدمت کرنے میں فخر محسوس کریں اور اگرکوئی بادشاہ بھی ہو جائے تو وہ فقیر سے زیادہ متواضع ہو۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ5ستمبر1958ء بحوالہ خطبات محمود جلد39 صفحہ219)

نسلوں کی تربیت کے لئے
دعا کے ساتھ مادی تدابیر بھی اختیار کریں

حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نسلوں کی تربیت کے حوالہ سےدرج ذیل قرآنی دعا کو کثرت سے پڑھنے کی تلقین کرتےہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔

رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا وَہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ ﴿﴾

(آل عمران:9)

’’چوکس اور بیدار ہو کر اپنی زندگیاں گزاریں اور کم عمرنسل کی تربیت چھوٹی عمر سے ہی شروع کر دیں۔ تربیت پر پورا زور خرچ کریں۔ مادی تدابیر بھی اختیار کریں اور دعاؤں کے ساتھ بھی کام لیں کہ دعا سب سے بڑی تدبیر ہے،دنیا میں بڑا گند پھیلا ہوا ہے۔

یہ گند بڑا دولتمند ہے،بڑا مہذب کہلاتا ہے، اس کی نقل کرنا فخر سمجھا جاتا ہے۔ یہ جو کیفیت ہے،یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ہم خدا تعالیٰ سے مدد مانگیں اور کوشش کریں، انتہائی طور پر تدبیر اور دعا کے ساتھ کہ ہماری آئندہ آنے والی نسلیں بھی ان ذمہ داریوں کو اسی طرح بشاشت کے ساتھ اور ہمت کے ساتھ اور ایثار کے ساتھ اور قربانی کے ساتھ اداکرتی چلی جائیں،جس طرح آج الله تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطاء کر رہا ہے۔ آمین!‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ26 دسمبر1980ء)

اس ضمن میں ذاتی توجہ اور کوشش و نگرانی کے مسلسل عمل کے ذریعہ پہلے درجہ پر خدا کی ذات کا ادراک اور اس کی عبادت کی جانب طبیعتوں کا مائل کرنا اور کروانا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

خدا کی عبادت سے غفلت کی ایک سزا

حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ ،ایسے والدین کو جو اپنے بچوں کی عبادت کا خیال نہیں کرتے،انہیں متوجہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔
’’الغرض خدا کی عبادت سے غافل ہونے کی ایک سزا یہ ہے کہ جو لوگ اپنے بچوں کی عبادت کا خیال نہیں کرتے، ان کی اولادیں لازمًا ہلاک ہو جایا کرتی ہیں،اس لئے وہ اس طرف توجہ کریں اور اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں سے قتل نہ کریں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ یکم اپریل 1983ء بحوالۂ مشعل راہ جلدسوم صفحہ148)

یورپ کے ماحول میں تربیت اولاد کے زریں اصول

اسی طرح آپؒ ، تربیت اولاد اور نسلوں کو ہلاکت سے محفوظ رکھنے کے زریں اصول کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔
’’پس اس معاشرے میں جہاں ماحول نیکیوں کے مخالف ہے،جہاں بدیوں کو تقویت دینے والا ہے،وہاں بچپن سے نیکیوں سے ذاتی لگاؤ پیدا کرنا اور اس کے لئے روزمرہ کے مواقع سے فائدہ اٹھانا بہت ضروری ہے۔۔۔تمہاری نیکیوں پر سوسائٹی تمسخر اڑائے گی، تمہیں ذلیل نظروں سے دیکھےگی، لیکن تم نے سر اٹھا کر چلنا ہے۔۔۔نیکی پر خود اعتمادی یہ بہت ضروری ہے اور اس خود اعتمادی کے فقدان کے نتیجے میں نسلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔۔۔تو نیکی کی لذت حاصل کرنا اور لذت حاصل کرنا سکھانا، یہ ماں باپ کا کام ہے۔۔۔ پس اگر اپنے بچوں کے دل میں خدا کی محبت، عبادت کے حوالے سے پیدا کریں تو یہ وہ نظام ہے جو بچوں کی ہر حال میں، ہر جگہ حفاظت فرمائے گا۔۔۔ میں خدا کی قسم کھا کے کہتا ہوں اگر تم اپنے اندر وہ نقوش پیدا کر لو جو نقوش مہر محمدیﷺ کے نقوش ہیں تو اربوں آپ کی وجہ سے بچائے جائیں گے۔ ہو نہیں سکتا کہ دنیا ہلاک ہو جب تک آپ اس دنیا میں موجود ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ 20 جون 1997ء بحوالۂ مشعل راہ جلدسوم صفحہ 576-587)

یورپ کو ہلاکت سے کس طرح بچایا جا سکتا ہے؟

آنحضرتﷺ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک کشف ہے، جس میں آپؑ نے دیکھا۔
’’ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں۔‘‘

(تذکرہ صفحہ193 ایڈیشن چہارم)

اپنی تصنیف لطیف چشمۂ مسیحی میں آپؑ اس کی تشریح یوں بیان فرماتے ہیں۔
’’اس کشف کا مطلب یہ تھا کہ خدا میرے ہاتھ پر ایک ایسی تبدیلی پیدا کرے گا کہ گویا آسمان اور زمین نئے ہو جائیں گے اور حقیقی انسان پیدا ہوں گے۔‘‘

(چشمۂ مسیحی، روحانی خزائن جلد20 صفحہ376)

وہ کیا ہے نیا آسمان اور کیا ہے نئی زمین؟

اس سوال کے جواب میں آپؑ ارشاد فرماتے ہیں۔
’’نئی زمین وہ پاک دل ہیں جن کو خدا اپنے ہاتھ سے تیار کر رہا ہے، جو خدا سے ظاہر ہوئے اور خدا ان سے ظاہر ہو گا اور نیا آسمان وہ نشان ہیں جو اس کے بندے کے ہاتھ سے اسی کے اذن سے ظاہر ہو رہے ہیں۔‘‘

(کشتیٔ نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ7)

ہمارے لئے لائحۂ عمل

نئی زمین اور نئے آسمان بنانے میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود و مہدیٔ معہودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے معاون و مددگار ہم کس طرح سے بن سکتے ہیں، اس حوالہ سے پیارے آقا ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہمارے لئے لائحۂ عمل اس طرح سے وضع فرمایا ہے۔
’’اس کشف میں نئی زمین اور نئے آسمان بنانے میں آپ علیہ السلام کی جماعت کو بھی توجہ دلائی گئی ہے۔ اس لئے اب یہ دیکھنا ہے کہ آپ کی جماعت کا حصہ بن کر، آپ علیہ السلام کی بیعت میں آ کر ہم کیا کوشش کر رہے ہیں کہ ایک نئی زمین اور ایک نیا آسمان پیدا کریں۔۔۔ ایک بات تو بنیادی ہے کہ قرآن کریم کا ہر حکم ہمارے اندر تبدیلی پیدا کرنے والا ہونا چاہئے اور جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی وضاحت فرمائی ہے وہ ایک نئی زمین اور نیا آسمان ہمارے اندر بنانے والا ہے اور پھر اس کو اختیار کر کے اس پر عمل کر کے ہم میں سے ہر ایک نئی زمین اور نیا آسمان بنا سکتا ہے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔۔۔ ہم اعتقادی اور عملی لحاظ سے وہ بنیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں بنانا چاہتے ہیں۔ ہماری زمین بھی نئی بن جائے اور ہمارا آسمان بھی نیا بن جائے اور ہم وہ انسان بن جائیں جو نئی زمین اور نئے آسمان بنانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معاون و مددگار ہوں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ 5 جون 2015ء)

جرمن قوم کو ہلاکت سے بچائے بغیر یورپ نہیں بچ سکتا!

حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ ،یورپ کی تقدیر بدلنے کی بابت ارشاد فرماتے ہیں۔
’’یہ ایک انتہائی ضروری امر ہے،میں بار بار آپ کو دوبارہ اس طرف توجہ دلاتا ہوں،سہ بارہ توجہ دلاتا ہوں کہ یورپ کواگر آپ نے بچانا ہےہلاکت سے، تو جرمن قوم کو ہلاکت سے بچائے بغیر یورپ نہیں بچ سکتا۔اس قوم کو اولیت حاصل ہے،پہلےان کی طرف توجہ دیں،ان کو سنبھال لیں،پھر یہ سارا کام خود کریں گے،اسلام کی خاطر پھر یہ صف اول کے خادم دین بن جائیں گے۔اور اگر آپ جرمن قوم کو سنبھال لیں تو میں یقین دلاتا ہوں کہ یورپ کی تقدیر بدل جائے گی۔‘‘

(اختتامی خطاب برموقع تیسرا سالانہ یورپیئن اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ1986ء بحوالۂ مشعل را ہ جلدسوم صفحہ274)

اِنْ شَآءَ اللّٰہُ تَعَالیٰ

اِنْ شَآءَ اللّٰہُ تَعَالیٰ! خدائی نوشتوں اور وعدوں کے عین مطابق اس نئے نظام، زمین اور آسمان سے یورپ بھی حصہ پائے گا۔بحیثیت احمدی ہونے کے ہمیں اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ اہل یورپ کی رستگاری کے لئے بھی اپنی کوششوں کو انتہاء تک پہنچانا ہو گا تاکہ جلد از جلد حضرت خلیفةالمسیح ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اقتداء میں وہ مبارک دن آئیں کہ ا نہیں حقیقی آزادی نصیب ہو،جس سے ا ن کے دین و دنیا سنور جائیں اور یہ خطۂ ارض خدا کی حمد اور توحید کے ترانے گاتا ہوا حلقہ بگوش اسلام ہو جائے۔

آمین ثم آمین!

دین اسلام بس اب ان کی سمجھ میں آ جائے
بات یہ کچھ بھی نہیں رحم اگر وہ فرمائے

(کلام محمود صفحہ 7)

(قمر احمد ظفر۔نمائندہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ