• 8 جولائی, 2025

آؤ! اُردو سیکھیں (سبق نمبر 61)

آؤ! اُردو سیکھیں
سبق نمبر 61

آج ہم ایسے اسماء یعنی Nouns سے گفتگو کا آغاز کریں گے جن کے بعد اگر بعض حروفِ ربط یعنی Prepositions مثلاً سے، تک، میں وغیرہ آجائیں تو وہ متعلق فعل الفاظ یعنی Adverbs بن جاتے ہیں۔ جیسے کب تک، خوشی سے، زور سے، عقلمندی سے، بھُولے سے، پھُرتی سے، آرام میں، غم میں۔ اسی طرح جیسا کہ آپ جانتے ہیں اردو میں فارسی کے الفاظ کثرت سے استعمال ہوتے ہیں تو فارسی اسماء کے شروع میں اگر ب کا اضافہ کردیں تو متعلق فعل الفاظ بن جاتے ہیں۔ جیسے خوشی کو اگر بخوشی کردیں تو اس کا مطلب ہوگا برضا و رغبت ایک کام کرنا یعنی eagerly/ voluntarily اسی طرح خوبی سے بخوبی، اور بدل و جاں وغیرہ ہیں۔

بعض اسماء یعنی nouns کے بعد اگر وار لگا دیا جائے تو وہ متعلق فعل بن جاتے ہیں۔ جیسے تفصیل سے تفصیل وار(In detail, comprehensively)، ہفتہ وار (Weekly)، ماہوار (Monthly)، نمبر وار (Numerically)، ترتیب وار وغیرہ۔

اسم صفت کا دہرا استعمال

بعض اسماء صفات یعنی Adjectives بطور متعلق فعل یعنی Adverbs بھی استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے خوب، بجا، درست، ٹھیک وغیرہ۔ مثلاً خوب کہا یعنی Well said، بجا فرمایا You are right وغیرہ۔

بعض ایسے الفاظ جو ویسے تو عددی صفات ہیں اور کثرت ِ شے یعنی For a large amount or quantity of a thing استعمال ہوتے ہیں مگر خاص انداز کلام میں بطور متعلق فعل استعمال ہوجاتے ہیں۔ وہ الفاظ ہیں لاکھ اور ہزار وغیرہ۔ جیسے میں نے اسے لاکھ سمجھایا مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ ہزار سر مارا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ یہاں سر مارنا اور ٹس سے مس نہ ہو نا محاورے ہیں۔ سر مارنا کا مطلب ہے کہ کسی ضدی، نادان، یا متعصب شخص سے کسی معاملے پر دیر تک بحث کرکے اسے قائل کرنے کی کوشش کرنا۔ ٹس سے مس نہ ہونا کوئی فرق نہ پڑنا، کوئی تبدیلی پیدا نہ ہونا۔ یعنی لاکھ اور ہزار کا مطلب ہے کہ کسی مقصد کے حصول کے لئے بہت زیادہ کوشش کرنا۔

بعض اسماء ئے عام جنہیں اسم نکرہ بھی کہا جاتا ہے انہیں انگریزی میں Common Nouns کہتے ہیں۔ جمع یعنی Plural case میں بطور متعلق فعل استعمال ہوتے ہیں۔ اسم عام کا یہ استعمال محاوروں میں کیا جاتا ہے۔ جیسے بَلّیوں اچھلنا، دودھوں نہانا، پُوتوں پھلنا، اسی سے بنتا ہے دودھوں نہاؤ یعنی خوب دولت مند ہوجاؤ کامیاب ہوجاؤ اور پُوتوں پھلو یعنی خوب اولاد ہو، پُوت ہندی میں بیٹے کو کہتے ہیں۔ جھوٹوں نہ پوچھنا یعنی اخلاص و وفا مہر و مروت تو ایک طرف منافقانہ خوش دلی بھی نہ دکھانا۔

بَلّیوں اچھلنا:یہاں بَلّیوں میں حرف ب پر زبر یا فتح ہے اور اس کا معنی ہے بانس یا لکڑی کا بڑا ٹکڑا۔ اس سے مزید محاورے بھی بنتے ہیں جیسے دل بَلیوں اچھلنا یعنی انتہائی بے تاب مضطرب ہونا، گھبرانا، دل کا تیز تیز دھڑکنا۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اسم عام یعنی Common nouns ہیں پُوت کی جمع پُوتوں، دودھ کی جمع دودھوں، جھوٹ کی جمع جھوٹوں ہے پس ان الفاظ کی جمع بعض محاوروں میں بطور متعلق فعل استعمال ہوتی ہے۔اسی طرح گھنٹوں، صدیوں، زمانوں وغیرہ کو بھی استعمال کی جاتا ہے۔ جیسے میں گھنٹوں وہاں کھڑا رہا۔ اس کی ماں صدیوں اس کی راہ تکتی رہی۔ خدا کا مہدیؑ کئی زمانوں کے بعد ظاہر ہوا۔

اس قدر تفصیل سے اردو زبان کے مختلف انداز اور طریق بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اردو سیکھنے والوں کو اردو زبان کا علم محض سطحی نہ ہو کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات اور تقاریر و ملفوظات میں جس اعلیٰ معیار کی اردو زبان استعمال ہوئی ہے اس کا عرفان حاصل کرنے کے لئے بہت ضروری ہے کہ قارئین کا معیار زبان بھی انتہائی درجے کا ہو۔ مثلاً حضورؑ نے اسلامی اصول کی فلاسفی میں ایک روح اور نطفہ کے درمیان تعلق میں ایک اصطلاح استعمال فرمائی ہے ‘‘مجہول الکنہ’’ جس کے معنی ہیں ایسی شے جس کی حقیقت یا ماہیئت معلوم نہ ہو۔ یعنی یہ معلوم نہ ہو کہ اصل میں وہ شے کیسی ہے۔ پس اس لحاظ سے ہمیں اپنی فہم اردو کو بہت وسیع کرنا ہوگا۔

افعال حالیہ بطور متعلق فعل
Present verbs form adverbs

اسی طرح اردو زبان میں فعل یعنی verb کی حالیہ شکل یعنی present form بھی بطور متعلق فعل کے استعمال ہوتی ہے۔ جیسے کھل کھلا کر ہنسا، بلبلا کر رویا، بچ بچا کر کر بھاگا وغیرہ۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
پھر فرماتا ہے کہ جب نیک انسان چالیس برس کا ہوجاتا ہے اور پختہ عقل کو پہنچتا ہے تب اسے خدا کی وصیتیں یاد آتی ہیں اور کہتا ہے کہ اے میرے رب! اب مجھے توفیق دے کہ تیری نعمتوں کا شکر کروں جو مجھ پر اور میرے والدین پر ہیں۔ اے میرے رب ! اب مجھ سے تو وہ کام کرا جس سے تو راضی ہوجاوے۔ اور میری اولاد کو میرے لئے صلاحیت بخش یعنی اگر میں نے والدین کے حق میں تقصیر کی تو ایسا نہ ہو کہ وہ بھی کریں۔ اور اگر میرے پر کوئی آوارگی کا زمانہ رہا تو ایسا نہ ہو کہ ان پر آوے۔ اے میرے خدا! اب میں توبہ کرتا ہوں اور میں تیرے فرمانبرداروں میں سے ہوگیا ہوں۔ سو خدا تعالیٰ نے اس آیت (الاحقاف :16)میں ظاہر فرمادیا کہ چالیسواں سال نیک بندوں پر مبارک آتا ہے اور جس میں سچائی کی روح ہے وہ روح ضرور چالیسویں سال میں حرکت کرتی ہے۔ خدا کے اکثر بزرگ نبی بھی اسی چالیسویں سال پر ظہور فرما ہوئے ہیں۔ چنانچہ ہمارے سید و مولا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ چالیسویں برس میں ہی خلق اللہ کی اصلاح کے لئے ظہور فرما ہوئے۔

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 322۔323)

اقتباس کے مشکل الفاظ کے معنے

چالیس برس: یعنی انسان کی عمر 40 سال ہوجاتی ہے۔

پختہ عقل: مضبوط قوت فکر و استدلال کا حاصل ہونا۔ یعنی انسان عقل مند ہوجاتا ہے۔ نیک و بد کی تمیز بآسانی کرسکتا ہے۔ جذبات کو دبانے کی صلاحیت آجاتی ہے۔

خدا کی وصیتیں: خدا تعالیٰ کی تعلیمات۔

صلاحیت: شعور سمجھ داری۔

تقصیر: گناہ، بے ادبی، لاپرواہی۔

آوارگی: بد چلنی، پریشانی، بربادی، غیر اخلاقی حالت۔

ظہور فرما ہونا: کسی انسان کا کسی منصب پر بیٹھنا، کسی انسان کے اعلیٰ مقام کا دنیا پر ظاہر ہوجانا، نبی کا مبعوث ہونا۔

خلق اللہ: اللہ کی مخلوق، لوگ، عام عوام۔

(عاطف وقاص۔ ٹورنٹو کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ