• 27 جولائی, 2024

ریزوننس Resonance

ریزوننس ایک ایسی صفت ہے جس سے زندگی کے مختلف شعبے فائدہ اٹھاتے نظر آتے ہیں ایک سادہ مثال کے ذریعے اس کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ جب آپ جھولا جھولتے ہیں تو جھولا ایک خاص فریکوئنسی کے ساتھ حرکت شروع کرتا ہے یعنی اگر ایک جھولا دو سیکنڈ میں اپنا ایک چکر مکمل کر لیتا ہے تو یہ جھولا ہمیشہ ہر چکر دو سیکنڈ میں ہی مکمل کرے گا اور اگر اس پر خاص قوت لگا کر اس کی رفتار بڑھائیں گے تو اس کا ایمپلی چیوڈ بڑھ جائے گا مگر وقت دو سیکنڈ ہی رہے گا ۔

ایمپلی چیوڈ کسی جھولے کا اپنی درمیانی پوزیشن سے ایک طرف کا فاصلہ ہوتا ہے یہ قوت جو آپ نے لگائی ہے اپلائیڈ فورس کہلاتی ہے اور ’’خاص‘‘ اس لیے کہلاتی ہے کیونکہ اس کی ایک خاص فریکوئنسی ہے جوخاص وقت پر جھولے پر لگائی گئی جس سے اس کا ایمپلی چیوڈ بڑھ گیا

جب بھی اپلائیڈ فورس کی فریکوئنسی، کسی بھی جھولے کی قدرتی فریکوئنسی سے میچ کر جاتی ہے تو اس کا ایمپلی چیوڈ بڑھا دیتی ہے یہ عمل نہ صرف جھولا بلکہ تمام آبجیکٹ، مزید برآں دنیا میں پائے جانے والا ہر ذرہ دکھا سکتا ہے کیونکہ ہر ذرہ اپنے اندر ایک قدرتی فریکوئنسی رکھتا ہے اگر آپ کی لگائی گئی قوت اس ذرہ کی قدرتی فریکوئنسی کے مطابق ہوئی تو وہ ذرہ زور زور سے حرکت شروع کر دے گا یعنی اس کا ایمپلی چیوڈ بڑھ جائے گا۔ اس خاص قوت سے ہٹ کر جتنی چاہے قوت لگا لیں وہ اس جھولے یا ذرہ کا ایمپلی چوڈ نہیں بڑھا سکتی اسی اصول پر فلک بوس عمارت اور شیشے کے پیالے کا آواز کی کسی فریکونسی سے ٹوٹ جانا بھی ممکن ہے بلکہ ٹوٹ سکتے ہیں۔

ایک شیشے کے پیالے کا آواز کی ایسی لہروں سے ٹوٹناممکن ہے جو شیشے کے پیالے کی قدرتی فریکوئنسی سے میچ کر جائے فلک بوس عمارتوں کا زوردار دھماکوں سے گرجانا دور ازقیاس نہیں۔ایم۔ آر۔آئی ٹیسٹ میڈیکل کی دنیا میں ریزوننس کی مثال ہے۔

توان مثالوں سے صرف یہ بتانا مقصود نہیں کہ ریزوننس ایک نہایت اہم عمل یا حقیقت ہے جو اس حواس سے جانچی جا سکتی ہے اور فقط مادی دنیا سے ہی اس کا تعلق ہے بلکہ جس طرح جسم اور روح کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ روح کو جسم پر فوقیت بھی ہے مثلا خوشی اور غم کے جذبات انسانی روح پر پڑتے ہیں اور انسانی جسم خوشی کا اظہار کر کے یا غم میں آنسو بہا کر روح کی کیفیات کا اظہار کرتا ہے۔ جسم اور روح کی کیفیات ایک دوسرے پر اثر ڈالتی ہیں اسی طرح روحانی لحاظ سے اس عمل ریزوننس کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ کائنات کا ہر ذرہ سچائی کی قوت لئے ہوئے ہے اور جو انسان اپنے آپ کو سچائی کی قوتوں سے مزین کرتا چلا جاتا ہے تو کائنات کے ذرے ذرے کی قوت اس کی خدمت گار/ مددگار بن جاتی ہےچونکہ ہر ذرے میں سچائی کی قوت کار فرما ہے یا یوں کہیے کہ کائنات کا ہر ذرہ سچائی پر تخلیق کیا گیا ہے اور وہ اپنی ذمہ لگائے گئے امورپر سچائی سے کاربند ہے۔ مگر انسان صاحب اختیار ہے چاہے توسچائی کی روح اختیار کرے یا اسے منحرف ہو۔ مرضی کا مالک تو ہے صرف اسی حد تک کہ کون سی راہ اختیار کرنا ہے مگر اپنے عمل کا جواب دہ بھی ہے۔

اس لیے عقلمندوں اورصاحب بصیرت لوگوں کے لئے تو جینے کی دراصل ایک ہی راہ ہے جو سچائی کی ہے اگر انسان سچائی کی راہ پر ثابت قدم رہے تو یہی راہ اسے الحق (خالق کائنات) سے ملاتی ہے اورجو سچائی سے ہٹ کر گزرتا ہے اور کسی وقتی لذت خوشی یا عزت کو پاتایا پانا چاہتا ہے وہ اپنے آپ کو اس معجزانہ قوت سے دور کرتا چلا جاتا ہے کیونکہ تمام ذرات عالم سے سچائی کی قوتوں سے مزین ہیں اور سچے وجود کی طرف ہی کھنچے چلے جاتے ہیں اور غیر ممکن باتیں وقوع میں آتی ہیں جن کو دوسرے لفظوں میں معجزہ کہتے ہیں۔

ید بیضاء ہو، سمندر کا بروقت مدوجزر ہو غار ثور کا مکڑی کا جالا ہو، پانی کے مشکیزے سے قافلے کی سیرابی وغیرہ لیکن یہ ہر جگہ ظہور میں نہیں آتا۔ دراصل انبیاء کے وجود اپنے ادوار میں کامل سچائی کے مظہر ہوتے ہیں جب سے صانع مطلق نے عالم اجسام کو ذرات سے ترکیب دی ہے ہر ایک ذرے میں وہ کشش رکھی ہے جو مادی طور پر اس کی نیچرل فریکوئینسی ہے اور سچائی کی روح لیے ہوئے ہے۔ جتنا انسان سچائی کی قوتوں کو فروغ دیتا چلا جاتا ہے وہ ایک ایسا وجود بنتا جاتا ہے کہ آسمان کے ستارے، سورج اور چاند سے لے کر زمین کے سمندروں ہوا اور آگ تک ان کو شناخت کرتے ہیں اور ان کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ ہر ایک چیز طبعاً ان سے پیار کرتی ہے۔

گویا تمام سچی ارواح ایک دوسرے کے لئے ریزوننس کا کام کرتی ہیں اور ایسے اسباب جمع ہو جاتے ہیں جو اس کی کامیابی کے لئے کافی ہوں۔

تجربہ اور خدا تعالیٰ کے کلام سے یہی ثابت ہے کہ دنیا کے ہر ایک ذرے کو طبعاً ا یسے شخص سے عشق ہوتا ہے اور اس کی دعائیں ان تمام ذرات کو ایسا اپنی طرف کھینچتی ہیں جیسا مقناطیس لوہے کو۔ پس غیر معمولی باتیں جن کا ذکر کسی علم طبعی اور فلسفے میں نہیں اس کشش کی قوت کے باعث ظاہر ہو جاتی ہیں اور وہ کشش طبعی ہے۔

دراصل صادق المحبت انسان جو سچی محبت خدا تعالیٰ سے رکھتا ہے وہ یوسف ہے جس کے لئے ذرہ ذرہ اس علم کا زلیخا صفت ہے۔

Resonance
Amplitude
Applied force
Object
MRI

(فرحت سلطانہ بھٹی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ