جس موضوع کو آج تحریر کا حصہ بنایا جا رہا ہے اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے محبت سے ہے۔ اس کیٍ بھی آگے کئی شاخیں ہیں۔ ایک تو من حیث المخلوق تمام انسانوں اور چرندپرندسے محبت ہے۔ ایک بغیر تمیز رنگ و نسل وبلا تفریق مذہب دنیا بھر میں بسنے والے انسانوں سے ہے خواہ وہ یہودی ہوں، عیسائی ہوں، ہندوہوں یا مسلمان۔
ایک مسلما نوں سے محبت ہے۔ آنحضورﷺکے ارشاد اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَ یَدِہٖ کے مطابق ایک فرقہ کےماننے والوں یعنی اپنے احبابِ جماعت سے محبت اورپیارسے پیش آنا ہے۔ ایک دوسرے کی خاطر قربانی کرنا اور اپنے بھائی یا بہن کو اپنے اوپر ترجیح دینا۔ اس کی ایک شاخ اپنے عزیزواقارب اور اہل خانہ سے حسن سلوک اور پیار سے پیش آنا ہے۔
اس مضمون کو جب ہم قرآن و حدیث کے حوالہ سے دیکھتے ہیں تو آنحضرتﷺ کو اپنے لئے نمونہ پاتے ہیں۔جن کی تربیت اور رفاقت کے زیر اثر آپ ﷺ پر ایمان لانے والے صحابؓہ نے بھی آپس میں پیارومحبت و الفت کے ایسے پھول بکھیرے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس نمونہ کو دیکھ کر اور خوش ہو کراسے قرآن میں محفوظ کر دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ (الحشر:10)
وہ اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں باوجود اس کے کہ انہیں خود تنگی درپیش تھی۔ (ہجرت پر انصار بھائیوں کے رویہّ کا ذکر ہے)
مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ (الفتح:30)
کفارکے مقابل پر بہت سخت اور آپس میں بے انتہارحم کرنے والے ہیں۔ تلطّف اور ملاطفت سے پیش آنے والےہیں۔
آنحضرتﷺ فرماتے ہیں:۔
اَلْخَلْقُ عیَالُ اللّٰہِ فَاَحَّبُ الْخَلْقِ اِلَی اللّٰہِ مَنْ اَحْسَنَ اِلَی عیَالِہِ
مخلوق اللہ کا عیال ہے۔ اللہ کو مخلوق میں وہ بہت پیارا ہےجو اس کے عیال سے حسنِ سلوک کرے۔ (مشکوٰۃ)
آئیں قرآن و حدیث میں بیان اس اسوہ کو واقعاتی شکل یا نگاہ سے دیکھیں۔ آقا ومولاحضرت محمدﷺ کے متعلق تاریخ میں آتا ہے کہ آپﷺ صحابہؓ کے گھروں میں جایا کرتے۔ ان کے حال احوال دریافت فرماتے، عیادت کرتے، مشکلات ومصائب پر صحابہؓ کا حوصلہ بڑھاتے اور غرباء کی تکالیف کو دورکرنے کی کوشش فرماتے۔
ایک روایت میں ہےکہ فجرکی نماز کے بعد نمازیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے۔ حال احوال دریافت فرماتے اور نماز میں آنے والے ریگولر صحابیؓ اگر غیر حاضر
ہوتا تو فوراً اس کے گھر جاتےکہ کہیں بیمار تو نہیں ۔
فرمایا کرتے:۔ ’’مجھے غرباء میں تلاش کرو۔‘‘
ایک دفعہ ایک صحابیؓ اپنے دوست کوجو ابھی اسلام نہیں لائے تھے، آنحضورﷺ سے ملانے مدینہ لائے۔ وہ یہ کہتا ہوا مدینہ میں داخل ہوا کہ ’’اگر تمہارا رسول غریبوں کے ساتھ یا غریب لوگوں میں پایا گیا تو میں ایمان لے آؤں گا۔‘‘ اس کی یہ خواہش پوری ہوئی اور وہ ایمان لے آیا۔
ایک اور مشہور واقعہ میرے مضمون کی عکاسی کرتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضور ﷺ حضرت سعدبن عبادہؓ کے گھر گئے۔ السلام علیکم کہہ کر اجازت چاہی۔ حضرت سعدؓ نے آہستگی سے جواب دیا۔ آنحضورﷺبھی سلام کرتے رہے۔ 3 بار کرنے کے بعد جب حضورﷺ واپس لوٹے تو حضرت سعدؓ لپکے اور کہا کہ حضورﷺ میں تو سلامتی کی دعا چاہنے کی خاطر بار بار آپﷺ سے السلام علیکم سنتا تھا۔
فرمایا کرتے۔ ’’قرابت نوازی۔حسن خلق اور خوشگوار ہمسائیگی سے بستیاں آباد ہوتی ہیں اور عمریں دراز ہوتی ہیں۔‘‘
حضرت سعد بن وقاصؓ کے گھر عیادت کے لئے آنحضورﷺتشریف لے گئے۔ جہاں حضرت سعدؓ نے باقاعدہ حضورﷺ سے باربار اپنی خواہش کو دُہرا کر کم از کم /31 قربانی کی اجازت چاہی تھی۔
صحابہؓ کا بھی یہی طریق تھا۔ امیر صحابہؓ اپنے سے کم حیثیت والے صحابہؓ کے گھروں میں جاتے، عیادت کرتے، حال احوال دریافت کرتے، تحفے تحائف دیتے۔
دلچسپ روایت:۔ آنحضورﷺ نے صبح کی نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد پوچھا ۔آج روزہ کس نے رکھا؟ حضرت عمرؓ نے عرض کی کہ حضور میں نے نیت نہیں کی۔ حضرت ابوبکرؓ نےکہا کہ میں نے کر لی تھی۔ مریض کی عیادت کس نے کی؟ حضرت عمر ؓ نے کہا حضور صبح سویرے عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی کرآیا ہوں۔
پھرحضورﷺ نے پوچھا مسکین کو کھانا کس نے کھلایا؟ حضرت عمرؓ نے وہی جواب دُہرایا کہ علی الصبح کیسے؟ جبکہ حضرت ابو بکرؓ نےعرض کی کہ حضور مسجد کے دروازہ پر ایک مسکین کھڑا تھا میں نے بیٹے کے ہاتھ سے ٹکڑا لے کر اُسے دے دیا۔ فرمایا ’’اےابوبکر! تجھےجنت مبارک ہو۔‘‘ حضرت عمرؓ نے لمبی سانس لی اور کہا کہ وائے حسرت۔ یہ بڈھا کسی میدان میں مجھے آگے نہیں گزرنے دیتا۔ آنحضورﷺ نے دعادی کہ ’’اللہ تعالیٰ عمؓرپر رحم کرے۔ جب بھی وہ نیکی کا ارادہ کرتا ہے ابوبکرؓ اس سے سبقت لے جاتا ہے۔ٍ‘‘
پیشگوئیوں کے مطابق امام مہدیؑ نے بھی اس پیاری و حسین تعلیم کو اپنے ماننے والوں میں راسخ کرنا تھا۔اس پیارے اسوہ کے حوالہ سے گمشدہ جواہر کو دوبارہ اسلام اور احمدیت کی انگوٹھی میں جڑناتھا۔ جس کا ذکر سورۃ فتح کی اسی آیت میں ملتا ہے جہاں حضرت محمدﷺ اور اس کے اصحاب کے بارہ میں ذکر ہے۔ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ۔ اسی آیت میں صحابہ ؓرسول کے اسوہ کے حوالہ سے ذکر ہے کہ ان کی مثال توارت میں بھی ہے اور انجیل میں بھی بیان ہوئی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ترجمہ قرآن میں تفسیری نوٹ میں بیان فرمایاہے کہ انجیل کی مثال دور آخرین میں آنے والے مسیح اوراس کے ماننے والوں کے متعلق ہے۔
آئیں دیکھتے ہیں کہ سیّدنا حضرت مسیح موعودؑ، خلفاء اور رفقاء نے اس پہلو میں اپنے حسین نمونہ سے کیا تعلیم دی، اور کس طرح انہوں نے اپنی تعلیم اور اسوہ سے ساری جماعت کو ایک حسین، خوبصورت گلدستہ کی صورت عطا کی۔ اور جو پیار، محبت، الفت احباب جماعت کو ہے وہ مثالی ہے۔سورۃ فتح کی آیت لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ کے مطابق نہ ماننے والوں کو ہمارا پیار اور محبت سے رہنا غیظ و غضب میں بڑھاتا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ خود صحابہؓ کے گھروں میں جاتے، عیادت فرماتے، خطوط کے ذریعہ عیادت فرماتے۔ ایک موقع پر فرمایا ’’میں دو ہی مسئلے لے کرآیا ہوں۔ اوّل خدا کی توحید قائم کرو دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو۔‘‘
(ملفوظات)
پھرفرمایا ’’میری نصیحت یہی ہے کہ دو باتوں کویاد رکھو۔ ایک خداتعالیٰ سے ڈرو دوسرے اپنے بھائیوں سے ایسی ہمدردی کرو جیسی اپنے نفس سے کرتے ہو۔‘‘
(ملفوظات جلد5 صفحہ40)
پھر فرمایا
’’میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو درد ہوتا ہو اور میں نماز میں مصروف ہوں، میرے کان میں اس کی آواز پہنچ جائے تو میں تو یہ چاہتا ہوں کہ نماز توڑ کربھی اگر اس کو فائدہ پہنچاسکتا ہوں تو فائدہ پہنچاؤں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں۔ یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جائے۔‘‘
(ملفوظات جلد1 صفحہ294)
خطبہ الہامیہ میں حضرت مسیح موعودؑ کے دور کو یوم الجمعۃ قرار دیا گیا ہے۔ اور آپس میں روابط بڑھانے، میل ملاپ رکھنے اور محبت بڑھانے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور جمعہ کا دن ہوتا بھی میل ملاپ کے لئے ہے۔ ایک وقت تھا کہ دوست احباب جمعہ کے بعد آپس میں ملا کرتے تھے۔ دکھ درد بانٹتے تھے۔ اس کواب دوبارہ رواج دینے کی ضرورت ہے۔آج اس تعلیم کو پہلے سے بہت بڑھ کر راسخ کرنے کی ضرورت ہے۔ آپس میں میل ملاپ، خوشی، غمی میں بلا تفریق کسی رتبہ اور status کے احمدی احباب کے گھروں کا visit کرنے کی طرف خصوصی توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اب رمضان المبارک کا بھی ایک سبق اپنے سے کم حیثیت کے لوگوں کا خیال رکھنا ہے۔ جسے عید کےموقع پر ظاہر کرنا ضروری ہے۔
ہم میں بعض عہدیداران، محصلین اور سیکریٹریان چندہ وغیرہ کے لئے تو احباب سے رابطہ کرلیتے ہیں مگر ایسے وقت میں جب وہ کسی مشکل میں ہوں، بیمار ہوں رابطہ نہیں کرتے۔ جبکہ یہی تربیت ہے۔ پس انسان توپیدا ہی دردِدل کے واسطہ کیا گیا ہے۔ انسان کا لفظ اپنے اندر 2محبتیں لئے ہوئے ہے۔ اللہ سے اور مخلوق سے۔
If you wish to be loved, love
٭…٭…٭