• 18 مئی, 2024

اصحاب احمد کے قابل تقلید نمونے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس یہ واقعات اُن خاندانوں کے لئے بھی اہم ہیں جن کے یہ بزرگ تھے اور قابلِ تقلیدنمونہ ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ ہر آنے والے احمدی کے ایمان میں ترقی اور استقامت کا نمونہ ہیں۔ اس لئے نو مبائعین بھی خاص طور پر اس کا مطالبہ کرتے ہیں اور پھر جیسا کہ مَیں نے کہا اس ذریعہ سے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت کا بھی پتہ چلتا ہے جو ہمارے ایمان کو جِلا بخشتا ہے۔

پہلی روایت حضرت نظام الدین صاحبؓ کی ہے۔ یہ پہلے بھی ایک دفعہ اَور رنگ میں بیان ہوئی تھی۔ کہتے ہیں کہ ہم اہلحدیث اپنے آپ کو متقی اور ہر ایک حرام اور جھوٹ سے پرہیز کرنے والا خیال کرتے تھے۔ ایک دفعہ مارچ کا مہینہ تھا۔ غالباً 1902ء کا ذکر ہے۔ ہم چند اہلحدیث جہلم سے لاہور بدیں غرض روانہ ہوئے کہ چل کر انجمن حمایت اسلام لاہور کا جلسہ دیکھیں جو سال کے سال ہوا کرتا تھا۔ ہم لاہور پہنچ کر جلسہ گاہ جا رہے تھے کہ پنڈال کے باہر دیوار کے ساتھ ایک مولوی صاحب کھڑے ہوئے وعظ فرما رہے تھے۔ ایک ہاتھ میں قرآنِ مجید تھا، دوسرے ہاتھ سے چھوٹے چھوٹے اشتہارات بانٹ رہے تھے اور منہ سے یہ کہتے جاتے تھے کہ مرزا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ کوڑھی ہو گیا ہے اس لئے کہ نبیوں کی ہتک کرتا تھا اور خود کو عیسیٰ کہتا تھا۔ اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ کی قسم اُٹھا کر یہی الفاظ مذکورہ بالا دہراتا جاتا تھا۔ کہتے ہیں ہم یہ سن کر حیران ہو گئے اور اپنے دل میں کبھی وہم بھی نہ گزرا تھا کہ کوئی شخص اس قدر بھی جرأت کر سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر جھوٹ بولتا ہے اور قرآنِ مجید اُٹھا کر جھوٹ بولتا ہے۔ کہتے ہیں ہم تین آدمی تھے۔ مَیں نے اس سے اشتہار لے لیا اور پڑھنے لگا۔ اس پر بھی یہی مضمون تھا کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مرزا کوڑھی ہو گیا، نبیوں کی ہتک کرتا تھا وغیرہ وغیرہ۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ چلو قادیان چلیں۔ (اللہ تعالیٰ نے ان کو سیدھے راستے پر لانا تھا، بیعت کا موقع دینا تھا، تو یہ مولوی کا اعلان ہی تھا جو ان کے لئے قادیان جانے کا ذریعہ بن گیا) تا کہ مرزا صاحب کا حال آنکھوں سے دیکھ کر اپنے شہر کے مرزائیوں کو کہیں گے جو ہر روز ہمارے ساتھ گفتگو کرتے رہتے ہیں اور جو اعتراض ہمارے علماء کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تمہارے چودھویں صدی کے علماء جھوٹ بولتے ہیں۔ (یعنی احمدی یہ کہتے ہیں۔) ہمارا بیان تو چشمدید ہو گا اور پھر ہم اس طرح احمدیوں کو خوب جھوٹا کریں گے۔ (کہتے ہیں) میرے ساتھیوں نے پہلے تو انکار کیا مگر میرے زور دینے پر پھر راضی ہو گئے۔ ہم تینوں لاہور سے سوار ہوئے۔ بٹالہ گئے اور وہاں سے عصر اور شام کے درمیان قادیان پہنچ گئے۔ مہمان خانہ میں گئے، مغرب کی نماز کا وقت قریب تھا تو مَیں نے کسی سے پوچھا کہ مرزا صاحب جہاں نماز پڑھتے ہیں وہ جگہ ہمیں بتاؤ کہ ہم اُن کے پاس کھڑے ہو کر اُن کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک شخص شاید وہی تھا جس سے ہم نے پوچھا تھا میرے ساتھ ہو لیا اور وہ جگہ بتائی جہاں حضور کھڑے ہو کر نماز ادا کیا کرتے تھے۔ چونکہ وقت قریب ہی تھا مَیں وہیں بیٹھ گیا جہاں حضور نے میرے ساتھ داہنے ہاتھ آ کر کھڑا ہونا تھا، باقی دونوں دوست میرے داہنے ہاتھ کی طرف بیٹھ گئے۔ یہ مسجد حضور کے گھر کے ساتھ ہی تھی جس کو اب مسجد مبارک کہتے ہیں۔ یہ اُس وقت اتنی چھوٹی ہوتی تھی کہ بمشکل اس میں چھ یا سات صفیں لمبائی میں کھڑی ہو سکتی تھیں (یعنی چھ سات صفیں بنتی تھیں) اور ایک صف میں قریباً چھ آدمی سے زیادہ نہیں کھڑے ہو سکتے تھے، یعنی پینتیس چالیس آدمی کی جگہ تھی۔ کہتے ہیں چند منٹ کے بعد مغرب کی اذان ہوئی اور پھر چند منٹ بعد حضرت اقدس تشریف لے آئے۔ ہمارے قریب ہی دروازہ تھا اس میں سے حضور نکل کر میرے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم آگے کھڑے ہو گئے۔ مؤذن نے تکبیر شروع کر دی۔ تکبیر کے ختم ہونے تک مَیں نے حضور کے پاؤں سے لے کر سر تک سب اعضاء کو دیکھا۔ حتی کہ سرِ مبارک کے بالوں اور ریش مبارک کے بالوں پر جب میری نگاہ پڑی تو میرے دل کی کیفیت اور ہو گئی۔ مَیں نے دل میں کہا کہ الٰہی! اس شکل اور صورت کا انسان میں نے آج تک کبھی نہیں دیکھا۔ بال کیا تھے؟ جیسے سونے کی تاریں تھیں اور آنکھیں خوابیدہ، گویا ایک مکمل حیا کا نمونہ پیش کر رہی تھیں۔ ہاتھ اور پیروں کی خوبصورتی علیحدہ دل کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ اسی عالم میں محو تھا کہ الٰہی یہ وہی انسان ہے جس کو ہمارے مولوی جھوٹا اور نبیوں کی ہتک کرنے والا بتاتے ہیں۔ میں اسی خیال میں غرق تھا کہ امام نے اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہا اور نماز شروع ہو گئی۔ گو مَیں نماز میں تھا مگر جب تک سلام پھِرا مَیں اس حیرانی میں رہا کہ الٰہی! وہ ہمارا مولوی جس کی داڑھی بڑھی ہوئی اور شرعی طور پر لبیں تراشی ہوئیں، قرآنِ مجید کو ہاتھ میں لئے ہوئے قسمیں کھا رہا ہے اور سخت توہین آمیز الفاظ میں حضور کا نام لے لے کر کہہ رہا ہے کہ مرزا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ کوڑھی ہو گیا۔ اسی خیال نے میرے دل پر شبہ اور شکوک کا ایک اور دریا پیدا کر دیا۔ کبھی تو دل کہتا کہ قرآن اٹھا کر اور خدا کی قسم کھا کر بیان کرنے والا کبھی جھوٹ کہہ سکتا ہے؟ (یعنی ایسا تصور ہی نہیں تھا کہ اُن کے مولوی کیا کچھ کہہ سکتے ہیں۔) شاید یہ شخص جو نماز میں کھڑا ہے مرزا نہ ہو کوئی اَور ہو۔ نئے آدمیوں کو دھوکہ دینے کے لئے ایسا کیا جاتا ہو۔ اور پھر جس وقت حضور کی صاف اور سادہ نورانی شکل سامنے آئی تو دل کہتا کہ کہیں وہ قسم اُٹھانے والا دشمنی کی وجہ سے جھوٹ نہ بول رہا ہو کہ لوگ سن کر قادیان کی طرف نہ جائیں۔ خیر نماز ہو گئی۔ حضور شاہ نشین پر بیٹھ گئے۔ اول تو آواز دی کہ مفتی صاحب ہیں تو آگے آ جاویں۔ جب مفتی صاحب آگے آئے تو پھر حضور نے فرمایا کہ مولوی صاحب کہاں ہیں؟ میں نے دیکھا کہ مولوی صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الاول مولوی نور الدین صاحب سب سے آخری صف میں سے اُٹھ کر تشریف لائے۔ حضور نے باتیں شروع کر دیں جو طاعون کے بارے میں تھیں۔ فرمایا ہم نے پہلے ہی لوگوں کو بتا دیا تھا کہ مَیں نے فرشتوں کو پنجاب میں سیاہ رنگ کے پودے لگاتے دیکھا اور پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا یہ طاعون کے درخت ہیں جو آئندہ موسم میں پنجاب میں ظاہر ہونے والے ہیں۔ مگر لوگوں نے اس پر تمسخر کیا اور کہا کہ طاعون ہمیشہ سمندر کے کناروں تک رہی، اندر ملک میں وہ کبھی نہیں آئی۔ مگر اب دیکھو کہ وہ پنجاب کے بعض شہروں میں پھوٹ پڑی ہے۔ غرض عشاء تک حضور باتیں کرتے رہے۔ عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد حضور اندر تشریف لے گئے۔ ہم بھی آ کر سو رہے۔ آپس میں باتیں کرتے رہے کہ یہ کیا بھید ہے؟ ہمارا مولوی تو قرآن اُٹھا کر اور خدا کی قسم کھا کر کہتا تھا اور یہاں معاملہ برعکس نکلا۔ خیر صبح ہم لوگ اٹھے تو ارادہ یہ ہوا کہ مولوی نور الدین صاحب سچ بولیں گے، ان سے دریافت کرتے ہیں کہ یہی مرزا صاحب ہیں یا کوئی اَور۔ جب اُن کے مطب میں گئے تو ایک مولوی صاحب نے اعتراض پیش کیا کہ پہلے جتنے نبی ولی گزرے ہیں وہ تو کئی کئی فاقوں کے بعد بالکل سادہ غذا کھاتے تھے اور مرزا صاحب سنا ہے کہ پلاؤ زردہ بھی کھاتے ہیں۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ نے ان کو جواباً کہا کہ مولوی صاحب! مَیں نے قرآنِ مجید میں زردہ اور پلاؤ کو حلال ہی پڑھا ہے۔ اگر آپ نے کہیں دیکھا ہے کہ حرام ہے تو بتا دیں۔ اس مولوی نے تھوڑی دیر جوسکوت کیا تو مَیں نے جھٹ وہ اشتہار نکال کر مولوی صاحب کے آگے رکھا کہ ہمارا ایک مولوی قَسم بھی قرآن کی اُٹھا کر کہتا تھا کہ مرزا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ کوڑھی ہو گئے ہیں اور ہم کو جو بتایا گیا ہے کہ یہی مرزا صاحب ہیں وہ تو تندرست ہیں۔ آپ بتائیں کہ یہی مرزا صاحب ہیں جن کو ہم نے نماز میں دیکھا ہے یا کوئی اَور۔ تو خلیفہ اوّلؓ نے بھی جھٹ جیب میں ہاتھ ڈال کر وہی اشتہار نکال کر بتلایاکہ دیکھو ہم کو تمہارے مولویوں نے یہ اشتہار روانہ کیا ہے۔ اب یہ مرزا ہے اور وہ تمہارے مولوی جس نے قرآن ہاتھ میں پکڑ کر جھوٹ بولا۔ جس کو چاہو سچا مان لو۔ بس پھر کیا تھا میرے آنسو نکل گئے۔ مَیں نے دل میں کہا کہ کمبخت اب بھی تُو بیعت نہ کرے گا۔ واقعی یہ مولوی زمانے کے دجّال ہیں۔ ہم تینوں نے ظہر کے وقت حضور کی خدمت میں عرض کی کہ ہم کو بیعت میں لے لیں۔ حضور نے کہا جلدی مت کرو۔ کچھ دن ٹھہرو۔ ایسا نہ ہو کہ پھر مولوی تم کو پھسلاویں اور تم زیادہ گناہگار ہو جاؤ۔ مَیں نے رو رو کر عرض کی کہ حضور! مَیں تو اب کبھی پھسلنے کا نہیں۔ خیر دوسرے روز ہم تینوں نے بیعت کر لی اور گھر واپس آگئے۔ (ماخوذ از رجسٹرز روایات صحابہ (غیرمطبوعہ) رجسٹر نمبر5 صفحہ45تا 49۔ روایت حضرت نظام الدین ٹیلر صاحبؓ)

( خطبہ جمعہ 24؍اگست 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 03؍دسمبر 2021ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 دسمبر 2021