• 25 اپریل, 2024

تعارف سورۃالشوریٰ (42 ویں سورۃ)

(تعارف سورۃالشوریٰ (42 ویں سورۃ))
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 54 آیات ہیں)
(ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن( حضرت ملک غلام فرید صاحب) ایڈیشن 2003)

وقت نزول اور سیاق و سباق

یہ سورت اپنی سابقہ سورت کے ساتھ ہی مکہ میں نازل ہوئی مگر نوڈلکے کے نزدیک یہ کچھ تاخیر سے نازل ہوئی۔ ابن عباس سے مرداوی اور ابن زبیر نے روایت کی ہے کہ آپ کے نزدیک یہ سورت مکہ کے اس دور کی ہے جب اسلام کی مخالفت شدید زوروں پر تھی اور مسلمان سخت تکلیف سے دوچار تھے۔ سابقہ سورت اس بیان پر ختم ہوئی تھی کہ جو کوئی بھی الہٰی تعلیمات کی مخالفت کرتا اور انہیں جھٹلاتا ہے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ اور جھٹلانے کا بد انجام بھگتتا ہے۔ موجودہ سورت کا آغاز اس بیان سے ہوا ہے کہ قرآن کریم ایک عظیم، حکیم اور غالب خدا کا کلام ہے۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم اس پیغام کو جھٹلا دے گی تو اسے اس کا انجام بھگتنا ہوگا۔

مضامین کا خلاصہ

اس سورت کا آغاز قرآنی وحی جیسے نہایت اہم موضوع سے ہوا ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسان خواہ کتنا ہی گناہ گار ہو خدا کی بخشش بہت وسیع اور اس کا فضل غیر محدود ہے۔ اس کے رحم کا تقاضا ہے کہ قرآن کریم انسان کو گناہ کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے نازل کیا جائے لیکن انسان کی فطرت ایسی واقع ہوئی ہے کہ بجائے خدا کے رحم سے فائدہ اٹھانے کے وہ اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے بتوں کی پوجا کرنےلگتا ہے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا گیا ہے کہ کفار کی حرکتوں پر غم مت کریں۔ جیسا کہ آپ ان پر کوئی داروغہ نہیں ہیں۔ آپ کا فرض محض خدا کا پیغام پہنچانا ہے باقی کام خدا کا ہے۔

پھر اس سورت میں خدا تعالی کی اس سنت کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان مذہب کے بنیادی اصولوں پر اختلاف ہوتا ہے تو خدا اپنے ایک نبی کو مبعوث کرتا ہے تاکہ ان اختلافات کو مٹائے اور انہیں سیدھا راستہ دکھائے۔ جیسا کہ تمام ادیان کے بنیادی اصول ایک جیسے ہی ہیں لہٰذا تمام رسول ایک ہی مذہب کے پیروکار ہیں یعنی خدا کی اطاعت اور فرمانبرداری۔اس (حقیقی) مذہب کی بہترین اور اکمل ترین مثال قرآنی وحی ہے۔ اسی لیے اس کو ایک خاص نام یعنی الاسلام (کامل فرمانبرداری کا) دیا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کو یہ نصیحت کی گئی ہے کہ جملہ انسانیت کو اس اکمل ترین اور آخری الہٰی تعلیم کی طرف دعوت دیں اور اس راہ میں کسی بھی ظلم و تعدی کی پرواہ نہ کریں۔ یہ سورۃ مزید بتاتی ہے کہ قرآنی احکامات پر عمل پیرا ہونا یا ان کی نا فرمانی کرنا اچھے اور برے اعمال پر منتج ہوتا ہے۔ اور یہ اعمال قوموں یا فرد واحد کے مقدر کا فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کا مستقبل روشن ہے یا تاریک۔ان کی زندگیوں میں ایک ایسا دن آتا ہے کہ جب ان کے اعمال کا پلڑا متوازن ہوتا ہے اگر ان کے اچھے اعمال ان کے برے اعمال سے بڑھ جائیں تو نعمتوں اور فرحت کی زندگی ان کے انتظار میں ہوتی ہے اسی طرح ان کے برے اعمال ان کے اچھے اعمال سے بڑھ جائیں تو پھر مایوسی اور تکلیف کی زندگی انہیں ملتی ہے۔

پھر اس سورت میں بتایا گیا ہےکہ آپ ﷺ نے بہت زیادہ محنت سے کام کیا ہے اور حق کے لیے بے حد تکلیف اٹھائی ہے اور یہ سب اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ انسانی ہمدردی سے سیر ہو کر محض اس خواہش کے تابع کیا ہے کہ کاش انسان خدا کے ساتھ سچا اور حقیقی تعلق باندھے۔ کیا ایسا مخلص اور امانتدار اور بنی نوع انسان کا بھلا چاہنے والا خدا پر بہتان باندھ سکتا ہے؟ پھر بھی آپ ﷺ کی قوم نے آپ پر ایسے بھیانک گناہ (خدا پر بہتان باندھنے کا) الزام لگایا۔انہیں کیوں اس سادہ حقیقت کی سمجھ نہیں آتی کہ خدا پر بہتان باندھنا سمِ قاتل ہے جو بہتان باندھنے والے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے پھر تباہ و برباد ہونے کی بجائے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نیک کاوشیں بہترین نتائج پیدا کر رہی ہیں اور آپ کا مقصد نہایت منظم اور دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہا ہے (جو آپ ﷺ کی صداقت کی دلیل ہے)۔

پھر اس سورت میں مادی دنیا کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی ہے کہ جب زمین خشک سالی کا شکار ہوتی ہے تو خدا آسمان سے بارش بھیجتا ہے۔ اسی طرح جب زمین روحانی طور پر خشکی کا شکار ہوتی ہے تو خدا نے (روحانی) آسمانی بارش قرآن کریم کی صورت میں نازل کی۔ پھر مختصر طور پر ایک اسلامی ریاست کے بنیادی اصول یعنی شوری کا ذکر کیا گیاہے جس کے ذریعہ اسلامی ریاست اور ملکی ترقی کے اہم معاملات کا حتمی فیصلہ کیا جاتا ہے۔ شوریٰ کے ذریعہ اسلامی سزاؤں کے قوانین کی بنیادیں وضع کی جاتی ہیں۔ اس کے مطابق سزا کا بنیادی مقصد کسی قصور وار کی اخلاقی حالت کو بہتر کرنا ہے۔ اسلام میں ایسی راہبانہ عیسائی تعلیم کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ہر حالت میں اپنا دوسرا گال بھی پیش کردو، نہ ہی اس یہودی تعلیم کی کہ ضرور آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت نکالا جائے۔

اپنے اختتام پر یہ سورت بتاتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محض ایک نذیر ہیں اور آپ نے اپنی قوم کو ہوشیار کر دیا ہے۔ آپ ﷺان لوگوں پر داروغہ نہیں ہیں۔آپ ﷺ (روحانی) زندگی عطا کرنے والے اور نور ہیں اور آپ انسان کے مقصدِ پیدائش کی حقیقت کا ادراک عطا کرنے والے ہیں۔ اس سورۃ کے آخر پر الہٰی وحی کی تین اقسام بیان کی گئی ہیں۔

٭…٭…٭

(مرسلہ: مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 جنوری 2021