ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام
قرآن پاک سننے کا شوق
قسط 7
قرآن پاک میں ارشادِ الٰہی ہے
وَ اِذَا قُرِیٴَ الۡقُرۡاٰنُ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ وَ اَنۡصِتُوۡا لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ .
(الاعراف: 205)
یعنی جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ قرآن پاک پڑھنے کے بھی آداب ہیں اور سننے کے بھی ‘ توجہ سے سننے اور خاموشی اختیار کرنے والے کو اللہ تعالیٰ اپنے رحم سے نوازتا ہے۔ حضرت رسولِ کریم ﷺ عاشقِ قرآن تھے۔ خدا کے رحم کو جذب کرنے کے لیے یہ پاک کلام کثرت سے پڑھتے تھے اوراس کے حسن میں ڈوب کر لطف لے کر سُنتے۔ کلامِ الٰہی کے سحر سے مسحور ہوجاتے آپؐ پر رقت طاری ہوجاتی اور آنکھیں آنسو بہانے لگتیں۔
؎ دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ایک روز مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ مجھے کچھ قرآن پڑھ کر سناؤ۔ میں نے عرض کی کیا میں آپؐ کو قرآن پڑھ کر سناؤں؟حالانکہ آپؐ پر قرآن کریم نازل کیا گیا ہے۔
آنحضور ؐ نے میرا جواب سن کر فرمایا:
میں یہ پسند کرتا ہوں کہ اپنے علاوہ کسی اَور سے بھی قرآن کریم سنوں تو حضرت عبد اللہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے سورۃ النساء کی تلاوت شروع کی یہاں تک کہ میں آیت
فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا
(النساء: 42)
(پس کیا حال ہوگا جب ہم ہر ایک امت میں سے ایک گواہ لے کر آئیں گے۔ اور ہم تجھے ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے۔ ) پر پہنچا تو آنحضورؐنے فرمایا ٹھہر جاؤ۔ حضرت عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی طرف دیکھا تو آپؐ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
(بخاری کتاب فضائل القرآن باب قول المقریء للقاریء حسبک)
آپؐ کی خشیت کا یہ عالم تھا کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ نے ایک شخص کو تلاوت کرتے سنا جو سورۃ مزمل کی اس آیت کی تلاوت کررہا تھا۔ اِنَّ لَدَیۡنَاۤ اَنۡکَالًا وَّجَحِیۡمًا (المزمل: 13)
(یعنی ہمارے پاس بیڑیاں اور جہنم ہے) تو نبی کریم ﷺ بے ہوش ہوکر گر پڑے۔
(کنز العمال جلد7 صفحہ206)
اللہ تبارک تعالیٰ نے اسلام کے دور آخر میں حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو ہر لحاظ سے حضرت رسولِ کریم کا عکس بنایا فرماتے ہیں خدا نے مجھ پر اس رسول کریم ؐکا فیض نازل فرمایا اور اُس کو کامل بنایا اور اس نبی کریمﷺ کے لطف اور جُود کو میری طرف کھینچا یہاں تک کہ میرا وجود اس کا وجود ہوگیا۔ ۔ ۔ جو شخص مجھ میں اور مصطفیٰﷺمیں تفریق کرتا ہے اس نے مجھ کو نہیں دیکھا ہےاور نہیں پہچانا ہے۔
(ترجمہ خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد16 صفحہ258)
اصل اور عکس میں تفریق کی ہی نہیں جاسکتی ہو بہو ایک سے نظر آتے ہیں۔ قرآن پاک پڑھنے اور سننے سے حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا عشق ظاہر و باہر ہے۔ پاک کلام پڑھنا آپ کا سب سے محبوب مشغلہ تھا اور سن کر بھی لطف لیتے تھے دو روایات پیش ہیں۔
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحبؓ سے روایت ہے: ایک روز مغرب کے بعد حضور ؑشَہ نشین پر مسجد مبارک میں احباب کے ساتھ بیٹھے تھے کہ آپؑ کو دَوران سر کا دورہ شروع ہوااور آپؑ شہ نشین سے نیچے اتر کر فرش پر لیٹ گئے اوربعض لوگ آپؑ کو دبانے لگ گئے مگر حضورؑ نے ان سب کو ہٹا دیا۔ جب اکثر لوگ رخصت ہو گئے تو آپؑ نے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓسیالکوٹی سے فرمایا کہ کچھ قرآن شریف پڑھ کر سنائیں۔ مولوی صاحب دیر تک نہایت خوش الحانی سے قرآن شریف سناتے رہے یہاں تک کہ آپؑ کو افاقہ ہوگیا۔
(سیرۃ المہدی جلد اوّل روایت نمبر 462صفحہ 439)
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان فرماتے ہیں: میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صرف ایک دفعہ روتے دیکھا ہے اور وہ اس طرح کہ ایک دفعہ آپؑ خدام کے ساتھ سیر کے لیے جارہے تھے اور ان دنوں میں حاجی حبیب الرحمٰن صاحب حاجی پورہ والوں کے داماد قادیان آئے ہوئے تھے۔ کسی شخص نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور یہ قرآن شریف بہت اچھا پڑھتے ہیں حضرت صاحب وہیں راستے کے ایک طرف بیٹھ گئے اور فرمایا کہ کچھ قرآن شریف پڑھ کر سنائیں۔ چنانچہ انہوں نے قرآن شریف سنایا تو اس وقت میں نے دیکھا کہ آپؑ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی وفات پر میں نے بہت غور سے دیکھا تھا مگر میں نے آپؑ کو روتے نہیں پایا تھا حالانکہ آپؑ کو مولوی صاحب کی وفات کا نہایت صدمہ تھا۔
(سیرۃ المہدی جلد اوّل روایت نمبر436 صفحہ393)
قرآں کتابِ رحماں سِکھلائے راہِ عرفاں
جو اس کو پڑھنے والے اُن پر خدا کے فیضاں
اُن پر خدا کی رحمت جو اس پہ لائے ایماں
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
(درثمین)
(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)