ایک فرشتہ صفت انسان
ڈاکٹر سید تاثیر مجتبیٰ مرحوم
مؤرخہ 28اکتوبر2021ء کو برادرم محترم سید قمر سلیمان صاحب نے صبح سات بجے کے قریب بذریعہ فون اطلاع دی کہ محترم ڈاکٹر سید تاثیر مجتبیٰ صاحب آج صبح انتقال فرما گئے ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ اس اچانک خبر سے انتہائی دکھ ہوا۔ مکرم ڈاکٹر صاحب سے میرا تعلق سیرالیون جانے سے قبل 1974ء کے قریب سے تھا۔ خاکسار 18 ستمبر 1975ء کو پہلی مرتبہ ربوہ سے سیر الیون کے لئے روانہ ہوا تھا۔
جب دفتر مجلس نصرت جہاں (واقع احاطہ قصر خلافت) میں ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو موصوف اپنے بزرگ والد صاحب مکرم ڈاکٹر سید غلام مجتبیٰ صاحب کے ہمراہ دفتر تشریف لائے تھے۔ محترم مسعود احمد جہلمی صاحب (مربی سلسلہ) اس وقت سیکرٹری مجلس نصرت جہاں کے طور پر کام کر رہے تھے۔ اور خاکسار اسی دفتر میں کلرک درجہ اول کی آسامی پر تھا۔
اس روز دونوں باپ بیٹا سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثالثؒ سے ملاقات کر کے آئے تھے۔ اور ڈاکٹر مجتبیٰ صاحب نے اپنے اس بیٹے (تاثیر مجتبیٰ) کو بطور واقف زندگی ڈاکٹر حضور انور ؒ کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ تاثیر صاحب اس وقت ابھی میڈیکل کے طالب علم تھے۔
مسعود جہلمی صاحب کو ڈاکٹر غلام مجتبیٰ صاحب نے بتایا کہ حضور ؒ نے فرمایا ہے کہ ’’انہیں پال پوس کر تیار کر کے پیش کریں‘‘۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب ڈاکٹر تاثیر صاحب وقف کے لیے تیار ہو گئے تو انہیں پہلی مرتبہ مجلس نصرت جہاں کی طرف سے مؤرخہ 28 اپریل 1982ء کو گھانا بھجوایا گیا۔ جہاں انہیں یادگار اور نمایاں خدمات کی توفیق ملی۔ بلانمود ونمائش نہایت خاموشی اور محبت سے خدمت کرنے والے مخلص فدائی واقف زندگی تھے۔
احمدیہ ہسپتال اسکورے (گھانا) کا آغاز مکرم ڈاکٹر سید تاثیر صاحب کے والد محترم ڈاکٹر سید غلام مجتبیٰ صاحب نے 1971ء میں کیا اوربعد ازاں اسی ہسپتال میں ڈاکٹر تاثیر صاحب کو خدمت کا سلسلہ جاری رکھنے کا موقع ملا۔
جب خاکسار کا تقرر مار چ 2003ء میں سیکرٹری مجلس نصرت جہاں کے طور پر ہوا تو اسی سال اتفاق سے خاکسار کا نام نمائندہ تحریک جدید برائے جلسہ سالانہ UK 2003 حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے منظور فرمایا۔ اور یوں مجھے خلافت خامسہ کے پہلے جلسہ سالانہ UK میں شمولیت کی سعادت نصیب ہوئی۔ اور پیارے آقا کا پہلی مرتبہ دیدار، زیارت اور شرف ملاقات نصیب ہوا۔
اس جلسہ کے موقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو افریقہ میں مجلس نصرت جہاں کے تعلیمی وطبی ادارہ جات کا visit کرنے کے لیے افریقہ جانے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ خاکسار نے 14 اکتوبر 2003ء سے 25 دسمبر 2003ء تک آٹھ ممالک (گھانا، نائجیریا، ، بینن، نائیجر، بورکینا فاسو، آئیوری کوسٹ، گیمبیا، اور سیرالیون) کا دورہ کیا۔
اس دورہ کا سب سے پہلا ملک گھانا تھا جہاں 15 دن قیام رہا اور اس دوران مکرم ڈاکٹر سید تاثیر مجتبیٰ صاحب سے اسکورے حاضر ہو کر ملاقات کرنے اور ہسپتال دیکھنے کا موقع ملا۔ رہائش کا انتظام ڈاکٹر صاحب کی قیام گاہ کے ساتھ ملحق مہمان خانہ میں تھا۔
مجھے علم تھا کہ مکرم ڈاکٹر تاثیر صاحب لمبا عرصہ افریقہ میں گزارنے کی وجہ سے مختلف عوارض اور بیماریوں کاشکار تھے۔ چنانچہ شام کے کھانے سے فارغ ہو کر خاکسار نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ آپ کو افریقہ میں بہت سال ہو گئے ہیں۔ اب آپ بیمار بھی رہتے ہیں۔ اگر آپ اجازت دیں کہ خاکسار حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں عرض کرے کہ اب آپ کا ربوہ میں فضل عمر ہسپتال میں تبادلہ فرما دیں۔ ڈاکٹر صاحب کو یہ پیشکش قبول کرنے میں شرح صدر نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی یہی کہا اگر آپ مناسب خیال کریں تو حضور انور کو تبادلہ کا کہہ دیں۔ اگلے دن صبح جب ملاقات ہوئی تو محترم ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ کل رات جو ہمارے تبادلہ کی بات ہوئی تھی وہ رہنے دیں۔ میں نے اندازہ لگایا کہ جب ڈاکٹر صاحب نے میری تجویز کا ذکر اپنی بیگم صاحبہ سے کیا ہو گا تو بیگم صاحبہ کا یہی مشورہ ہو گا کہ خود کہہ کر تبادلہ نہیں کروانا تا کہ وقف کی روح پر آنچ نہ آئے۔ وقف کا تقاضہ ہے کہ جب تک حضور خدمت میں رکھیں خاموشی سے اور بشاشت سے اور ہر تکلیف برداشت کرتے ہوئے کام کرتے چلے جانا ہی بابرکت اور مناسب ہے۔
پھر ایسا ہوا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے کچھ عرصہ بعد از خود ان کی واپسی پاکستان کا حکم فرمایا۔ اس طرح مکرم ڈاکٹر صاحب کا افریقہ میں عرصہ خدمت تقریبا 21 سال بنتا ہے۔
آخری وقت تک آپ نے فضل عمر ہسپتال ربوہ میں خدمت کا سلسلہ جاری رکھا۔
اس وقت اسکورے میں مکرم ڈاکٹر نعیم احمد صاحب اور انکی اہلیہ محترمہ ڈاکٹر امتہ الحیی صاحبہ بنت مولانا محمد اعظم اکسیر صاحب خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔
ڈاکٹر تاثیر مجتبیٰ صاحب کی رحلت کی خبر سن کر ڈاکٹر نعیم صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں اظہار تعزیت کیا اور بتایا کہ اب بھی اتنے سالوں بعد لوگ ڈاکٹر تاثیر صاحب کو محبت سے یاد کرتے ہیں۔
حضور انور نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ 29 اکتوبر2021ء میں فرمایا:
ڈاکٹر نعیم صاحب جو آج کل اوسوکورے (Asokore) ہسپتال کے انچارج ہیں، وہ کہتے ہیں کہ بطور انچارج مشنری ڈاکٹر اوسو کورے (Asokore) میں اکیس سال خدمات بجا لاتے رہے اور کہتے ہیں آج ان کی وفات کی خبر سن کے بہت سارے لوگ اس قصبے کے بھی اور اس علاقے کے بھی آئے اور ان کا تعلق ڈاکٹر صاحب کے ساتھ تھا۔ سارے بہت رنجیدہ تھے اور خاص طور پر تعزیت کر رہے تھے اور کہتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب بہت سادہ طبیعت، کم گو اور اپنے کام میں مگن رہنے والے غریب پرور اور نہایت مہمان نواز شخصیت کے حامل تھے۔ اسی طرح ان کو دنیاوی علم کے ساتھ جماعتی کتب اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے کا بھی گہرا لگاؤ تھا۔ پھر ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے احمدیہ ہسپتال اوسو کورے (Asokore) میں بلا شبہ سرجری کے میدان میں بہت بہترین خدمات انجام دیں جس کا پھل آج بھی ہم ان مریضوں کی صورت میں دیکھتے ہیں جو مغربی افریقہ کے مختلف ممالک سے اس ہسپتال میں علاج اور شفا کی غرض سے آتے ہیں اور اپنی سادہ افریقن زبان میں مجتبیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ تاثیر مجتبیٰ ان کا نام تھا تو ڈاکٹر مجتبیٰ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ان کے والد بھی یہاں کچھ سال رہے ہیں۔ اسی نام سے پھر یہ نام آگے بھی چلتا رہا۔ انہوں نے ہسپتال کے کمپاؤنڈ میں ایک خوبصورت مسجد بھی بنوائی۔
اس جگہ بر سبیل تذکرہ یہ بھی عرض کر دوں کہ جب خاکسار روکوپر (سیرالیون) میں مع فیملی مقیم تھا۔ تو انہی ایام میں مکرم ڈاکٹر صاحب کے والد مکرم ڈاکٹر سید غلام مجتبیٰ صاحب اور والدہ محترمہ خالہ نصرت صاحبہ احمدیہ ہسپتال روکوپر میں کچھ عرصہ تک خدمت پر مامور رہے۔ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا تحسین بھی ساتھ تھا اور ہمارے سکول روکوپر میں پڑھتا تھا۔
مہمان نوازی اس فیملی کی نمایاں صفت تھی۔ اور غریب پروری ان کا ہمیشہ شعار رہا۔ ہم سب پاکستانی جو بھی اس وقت روکوپر میں تھے ان کے ڈائنگ ٹیبل سے مزے مزے کے کھانے کھاتے رہے ہیں۔ اور آج بھی ان کی مہربانیاں عقیدت سے یاد کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس سارے خاندان پر بہت فضل فرمائے اور خدمت کرنے والے نوجوان اور بزرگ اس خاندان میں ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں۔ آمین
فی الوقت بھی ڈاکٹر غلام مجتبیٰ صاحب کے ایک واقف زندگی پوتے مکرم ڈاکٹر سید قمر احمد توقیر BDS گزشتہ 14 سال سے نائجیریا میں احمدیہ ڈینٹل سرجری کانو کے انچارج کے طور پر خدمت کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ خدا کرے کہ یہ سلسلہ نسل در نسل اسی طرح چلتا رہے۔ آمین
(مبارک احمد طاہر)