• 25 اپریل, 2024

آپ کا بچہ آٹزم کا شکار تو نہیں؟

آپ کا بچہ آٹزم کا شکار تو نہیں؟
بظاہر نارمل اور پر سکون نظر آنے والے بچوں میں آٹزم کی علامات ہو سکتی ہیں

بچوں کی پرورش بہت زیادہ توجہ کی متقاضی ہے۔خصوصاً اس مرحلہ پر جب وہ بول نہیں سکتے اور ان کے پاس اپنی ہر تکلیف اور ضرورت کے اظہار کے لیے فقط رونے کا آپشن ہی ہوتا ہے۔ اس رونے دھونے کو سمجھنے میں بھی اس وقت زیادہ دقت پیش آتی ہے جب گھر میں کوئی ’’سیانا‘‘ فرد نا ہو جو آپ کو بتائے کہ بچے کو فلاں تکلیف ہے۔یہی مسئلہ ہمارے ساتھ درپیش تھا اور ہم میاں بیوی نے اس کے حل کے لیے انٹرنیٹ سے مدد لی۔عزیزم حمزہ ظفر اب دو سال کا ہو چکا ہے اور بفضلہ تعالیٰ اپنے ہم عمر بچوں کی نسبت صحت مند اور چست ہے اور ہمیں اطمینان تھا کہ ضرورت کے اظہار کے استعارات کو ہم اچھی طرح سمجھنے میں کامیاب رہے ہیں۔

چند روز قبل ایک دوست کے واٹس ایپ اسٹیٹس پر آٹزم کے بارے میں ایک لنک دیکھا جس کے ساتھ ’’ضرور پڑھا جائے‘‘ کی تاکیدتھی۔چنانچہ کھول کر اسے پڑھا تو تشویش ہوئی کہ ایسی علامات والے بچے ہمارے گرد و پیش میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ ماں باپ کو اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ ان کا بچہ کسی ایسی ’’کنڈیشن‘‘ کا شکار ہے اور اسے ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ اس آرٹیکل کے لنک میں ایک شخص نے اپنی کہانی بیان کی تھی جس کے مطابق ان کا بچہ بالکل نارمل تھا اور تین ماہ کی عمر میں اس نے رینگنا شروع کر دیا تھا۔اس کا کہنا تھا کہ بچے میں مجموعی علامات مثبت تھیں اور ایک ماہر تعلیم ہونے کے ناطے میں اس کی ہر حرکت کو نوٹ کرتا تھا اور مجھے لگتا تھا کہ میں اس کا مطلب بخوبی سمجھتا ہوں لیکن بعد میں مجھے احساس ہوا کہ میں غلطی پر تھا۔سب کچھ معمول کے مطابق تھا اور نویں مہینے میں بچے نے چلنا شروع کر دیا لیکن اپنی پہلی سالگرہ تک اس نے بولنا شروع نہیں کیا اور اس بات نے ہمیں کافی پریشان کیا تھا۔میرےحلقہ احباب میں موجود لوگوں نے مجھے پریشان دیکھ کر خوامخواہ بہت زیادہ سوچ بچار کرنے والا شخص قرار دیا اور یقین دلایا کہ حارث جلد ہی بولنا شروع کر دے گا۔اب وہ اٹھارہ ماہ کا ہو چکا ہے لیکن باتیں نہیں کرتا،کیا مجھے فکر کرنی چاہیے؟ لوگوں کا جواب بدستور یہی تھا کہ نہیں،وہ ٹھیک ہو جائے گا اور ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔افسوس اس بات کا ہے کہ میں نے لوگوں کی بات پر اعتبار کیا۔بچہ ہمارے فون کرنے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرتا اور پورا دن بے چین دکھائی دیتا تھا۔بالآخر میں نے لوگوں کی باتوں کو درخور اعتنا نہ جانا اور اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔وہ ڈاکٹر کو دیکھ کر خوف زدہ تھا۔تین ماہ کے علاج کے بعد ڈاکٹر نے مجھے ماہر نفسیات کے پاس جانے کا مشورہ دیا جہاں اس میں Autism Spectrum Disorder اور ADHD کی تشخیص ہوئی۔اس دن کے بعد سے بطور والدین ہماری زندگی بالکل بدل گئی اور مجھے اپنے آپ کو یہ باور کرانے میں کچھ دن لگے کہ وہ معاشرے کا حصہ بن کر ایک عام زندگی گزار سکے گا۔

ماہر نفسیات کے ساتھ متعدد سیشن کرنے کے بعد بحیثیت والدین ہم نے محسوس کیا کہ ہمیں بچوں کی پرورش کے بہت سارے اصولوں اور عادات کو چھوڑنا پڑے گا جو نسل در نسل ہمارے اس معاشرے میں رائج ہیں۔جیسا کہ بچوں کو بات بے بات ڈانٹنا صرف اس وجہ سے کہ ان کی عادات اور رویے ہمیں پسند نہیں ہیں۔چونکہ میں اپنے دور طالب علمی میں ایک شاندار اسٹوڈنٹ رہا ہوں اور ایسے ہی ایک غیر معمولی ذہین بچے کی توقع کر رہا تھا۔ایک سافٹ ویئر انجینئر ہونے کے ناطے چاہتا تھا کہ اپنے بچے کو پروگرامنگ سکھاؤں اور وہ پانچ سال کی عمر میں اپنی پہلی ایپ لاؤنچ کرے۔حارث اب ساڑھے چار سال کا ہے لیکن تاحال وہ اپنا پہلا ’’ہیلو ورلڈ‘‘ پروگرام نہیں لکھ سکتا اور اپنے ہم عمر بچوں کے لحاظ سے تعلیمی معیار میں بھی پیچھے ہے اور میرے طے کیے ہوئے پیمانے پر بھی پورا نہیں اترا۔

حارث اب جملے بول سکتا ہے لیکن ان میں سے کئی جملے ایسے ہیں جیسے وہ بد تمیزی سے بات کر رہا ہو۔وہ عام بچوں کی طرح کلاس میں تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیتا لیکن ہم نے کبھی بھی اس کا موازنہ کسی دوسرے بچے سے نہیں کیا۔ بلکہ اگر کسی نے ایسی کوشش بھی کی تو سختی سے ایسی کوشش کی حوصلہ شکنی کی۔میرے بیٹے کے آٹزم نے میرے اس خیال پر یقین کی نفی کی کہ بچے غیر معمولی ذہانت اور صلاحیت کے ساتھ پیدا ہو سکتے ہیں۔مجھے اس بات کا ادراک ہوا کہ حارث جیسے بچے کوئی سوپر ننجا کی طرح پیدا نہیں ہوتے۔وہ وقت کے ساتھ سیکھ سکتے ہیں گر کر تمام مشکلات کے خلاف کھڑے ہونے اور دنیا میں اپنا مقام بنانے کی ہمت رکھ سکتے ہیں۔میں نے ایسے بچوں کو اسی طرح گلے لگانا اور ان کے لیے یکساں احترام اور محبت سے پیش آنا سیکھا ہے جس طرح ہم ذہین بچوں کے ساتھ پیش آتے ہیں۔

آپ میری کہانی سے سیکھ سکتے ہیں کہ بچوں کے لیے خواب دیکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن ذہنی طور پر تیار رہیں کہ ان خوابوں کی تعبیر آپ کی توقع کے برعکس بھی ہو سکتی ہے۔اگر ایسی کوئی علامت اپنے بچے میں دیکھیں یا کوئی دوسرا اس کی نشاندہی کرے تو کھلے دل کے ساتھ اس حقیقت کو تسلیم کریں اور جتنا جلدی ممکن ہو ڈاکٹر کے پاس جائیں۔

آٹزم کی وجوہات اور علامات

یہ بچوں میں پائی جانے والی ایک خاص کنڈیشن ہے جس کا آغاز بالعموم اڑھائی سے تین سال کے درمیان ہوتا ہے لیکن جیسا کہ مضمون کے ابتدائی حصہ میں بیان ہوا ہے چند ایک علامات ایک سال کی عمر سے بھی ظاہر ہونا شروع ہو سکتی ہیں۔اس کا سب سے پہلا اثر بچے کی بولنے کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔بچہ دیر سے بولنا شروع کرتا ہے اور بولتے وقت بات بھی مکمل نہیں کر پاتا۔الگ تھلگ رہتا ہے۔ باقی بچوں سے گھل مل نہیں پاتا۔بھیڑ سے گھبراتا ہے۔

آٹزم کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں جینیاتی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں اور ماحول کے زیر اثر بھی بچے اس کا شکا ہو سکتے ہیں۔ماہرین کے مطابق آٹزم کے کیسز میں پندرہ فیصد حصہ جینیاتی ہوتا ہے جو نسل در نسل چلتا ہے۔پھر ایسے بچوں میں یہ کنڈیشن زیادہ دیکھنے میں آئی جن کی مائیں چالیس سال یا اس سے اوپر عمر کی تھیں۔یعنی بڑی عمر میں جنم دینے والی ماؤں کے بچوں میں آٹزم ہونے کے زیادہ امکانات پائے گئے ہیں۔ دوران حمل بہت زیادہ ادویات کا استعمال بھی بچوں میں اس کنڈیشن کا سبب بنتا ہے۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق لڑکیوں کی نسبت یہ کیفیت لڑکوں میں چار گنا زیادہ پائی گئی ہے۔

اس کا شکار بچہ لوگوں میں گھلنے ملنے سے گھبراتا ہے۔کسی سے بات کرنے میں ہچکچاتا ہے۔ اگر بات کرے بھی تو عام بچوں کی طرح تسلسل کے ساتھ بات نہیں کرپاتا۔ ایسے بچے نظریں ملانے سے بھی کتراتے ہیں۔اگر کوئی کام کررہے ہیں یا کھیل رہے ہیں تو اسی میں مگن رہتے ہیں اور بلانے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرتے۔ ان میں آبسیشن بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ایک ہی رنگ کے یا ایک طرح کے ہی کپڑے پہننا چاہتے ہیں اور ایک ہی کھلونے سے کھیلتے ہیں جو انہیں پسند ہو۔ایک ہی طرح کا کھانا کھانا پسند کرتے ہیں اور اپنے مخصوص برتن میں ہی کھائیں گے۔ان کے معمول میں کمی بیشی ہونے پر روتے ہیں غصہ کرتے ہیں اور چڑچڑے ہو جاتے ہیں۔یہ الگ تھلگ رہتے ہیں اور بہت ذہین اور با صلاحیت بھی ہو سکتے ہیں۔یہ علامات جب بچے میں شدت اختیار کرتی ہیں تو بچہ خود بھی پریشان رہتا ہے اور والدین بھی بہت زیادہ پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس پریشانی میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ آٹزم کی شدت بچے کےچلنے پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔

علاج

بالعموم دو طریق سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔یہ کیفیت جب شدت اختیار کر جائے تو بچے خود یا کسی اور کو مارتے ہیں اور نقصان پہنچانے لگتے ہیں۔اس کے سدباب کے لیے ادویات کا سہارا لیا جاتا ہے جبکہ کم شدت والی علامات پر ڈاکٹر حضرات سائیکو تھراپی کا استعمال کرتے ہیں۔

یہ نسبتا ایک نئی بیماری ہے اور اس کا شکار ہونے والے بچوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔تا حال اس کا حتمی علاج اور وجوہات کا تعین نہیں کیا جاسکا۔

آٹزم کا شکار بچوں کے والدین کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ کوئی بیماری نہیں ہے اور ناہی یہ کوئی دماغی مسئلہ ہے اور اگر آپ کے اطراف میں یا عزیر و اقارب میں کوئی ایسا بچہ ہے تو اس سے مریضوں کی طرح ہرگز پیش مت آئیں۔کسی بھی قسم کے دماغی ٹیسٹ میں کچھ بھی نہیں آتا چنانچہ بچے سے ایک مریض کی طرح برتاؤ اس کے مستقبل پر بہت برے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ دوسرے بچوں کے سامنے آٹزم کے شکار بچے سے برتاؤ میں ازحد احتیاط سے کام لیا جائے۔ ماہرین کے مطابق ایسے بچوں میں تخیل کی صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کے دماغ میں ہر کام اور ہر بات جو آپ بچے سے کرتے ہیں اس کی ایک خیالی تصویر اس کے دماغ میں بنتی ہے۔اگر آپ اسے اس کے نام سے بلاتے ہیں تو ردعمل کے طور پر بچے کے دماغ میں اس کی اپنی ہی تصویر بنتی ہے۔ والدین پریشان اور اکثر اوقات زچ ہوتے ہیں کہ بچہ جواب نہیں دے رہا یا کہنا نہیں مان رہا۔ایسے میں ضروری ہو جاتا ہے کہ بچے کو اسی طریق سے ہینڈل کیا جائے۔بچے کی کھانا کھاتے وقت تصویر بنا لیں اور اگلی بار جب وہ کھانا کھانے سے انکار کرے تو اسے وہ تصویر دکھائیں۔اسی طرح ہر وہ حرکت جس سے آپ بچے کو روکنا چاہتے ہیں اس کی تصور یا وڈیو اسے دکھائیں جس میں وہ سکون سے بیٹھا ہے اور الٹی حرکت نہیں کر رہا۔بچے کی حرکات و سکنات پر گہری نظر رکھیں، کھانا اور کپڑے بدل بدل کر دیں۔مختلف اقسام کے کھلونے اسے کھیلنے کے لیےدیتے رہیں۔اسے دیگر بچوں کے ساتھ کھیلنے کے مواقع فراہم کریں تاکہ بچہ اگر ایسی کسی کیفیت سے گزر رہاہے تو بروقت اس کی نشاندہی ہو سکے اور اس کا سدباب کیا جا سکے۔

(مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 جنوری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ