• 4 مئی, 2025

غزل

ہم ہی وہ ہیں جو کہ چاہت کی زباں بولتے ہیں
اور ہی ہونگے جو نفرت کی زباں بولتے ہیں

آپ کو اپنا کہا، آپ بُرا مان گئے
ہم تو شاعر ہیں، محبت کی زباں بولتے ہیں

ہم نے سیکھے ہیں ہنر سارے قرآں سے لوگو
اس کے ہی نُور سے حکمت کی زباں بولتے ہیں

زہے قِسمت کہ بسی خاکِ مدینہ دِل میں
ہم کو پہچانو کہ سنّت کی زباں بولتے ہیں

خاک کر دیتے ہیں باطِل کی دلیلوں کو ہمیش
پہلواں ربّ کے صداقت کی زباں بولتے ہیں

پہنچی تبلیغ زمینوں کے کناروں تک ہے
وقفِ نو اپنے قیامت کی زباں بولتے ہیں

اے مسیحا تیرا ہر بول ہی ہوگا پورا
لفظ دِل کے تیرے قُدرَت کی زباں بولتے ہیں

ہو گا مغرب سے طلوع،شان سے دینِ اسلام
ربّ کے اِلہام یہ قِسمت کی زباں بولتے ہیں

سُنتے ہیں ارض و سما کان لگا کر سارے
ابن منصور خِلافت کی زباں بولتے ہیں

بات کرتے ہیں تو لمحے بھی مہک اُٹھتے ہیں
شجرِ گل کیسی یہ نکہت کی زباں بولتے ہیں

دُکھ بدل جاتے ہیں راحت میں دُعا سے اِن کی
آسماں والے یہ رحمت کی زباں بولتے ہیں

اشک تھمتے ہی نہیں سُن کے ہمارے یارا
ایسی خطبے میں نصیحت کی زباں بولتے ہیں

ایسے ہی لفظ نہیں چیختے ہیں شاعروں کے
جانے کس درد کی وحشت کی زباں بولتے ہیں

دھواں اُٹھتا ہے دلوں سے یہ ہمارا ہر سُو
ہم ہیں پردیسی جو ہجرت کی زباں بولتے ہیں

اے وطن تُو بھی یہ قُدرت کے اِشاروں کو سمجھ
تیرے حالات قیامت کی زباں بولتے ہیں

آگ لگ جاتی ہے جب بھی یہ دہن کھولتے ہیں
ملاّں کیا دیس کے نفرت کی زباں بولتے ہیں

(عبدالجلیل عبادؔ ۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

سالانہ تقریب تقسیم انعامات و اسناد جامعہ احمدیہ تنزانیہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 فروری 2020