• 7 جولائی, 2025

اللہ تعالیٰ کے دستِ قدرت کے شاہکار دُمدار ستاروں کا ظہور حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کی دلیل ہے

دمدار ستاروں کا ظہور

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ایسے کئی دمدار ستارے ظاہر ہوئے جو ایک لمبے عرصہ کے بعد منظر عام پر آئے اور یہ بھی اتفاق نہیں کہ یہ ستارے ایسے سالوں اور حالات میں ظاہر ہوئے جب حضورؑ کی طرف سے غیر معمولی اعلان اور دعاوی ہو رہے تھے۔دمدار ستارے بہت بڑی تعداد میں نظام شمسی میں پائے جاتے ہیں اور سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ زیادہ وقت سورج سے دور ہوتے ہیں اور نظر نہیں آتے جب سورج کے قریب ہوتے ہیں تو دمدار ستارے کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو سورج کے گرد اپنا چکر 200 سال میں اور بعض ہزاروں سال میں مکمل کرتے ہیں اور بہت کم ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہم زمین سے بغیر دوربین کے دیکھ سکتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود ؑکے زمانہ میں ستارہ ذوالسنین یا دمدار ستاروں کے نکلنے کی پیشگوئی احادیث اور اسلامی لٹریچر میں موجود ہے ایک حدیث میں ہے کہ امام مہدی کے ظہور کی 10علامات ہیں اور پہلی علامت دمدار ستارے کا طلوع ہونا ہے۔

(بحارالانوار جلد 52 صفحہ 268 از علامہ باقر مجلسی دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان)

مشہور محدث نعیم بن حماد نے اپنی کتاب الفتن میں کئی روایات صحابہؓ اور دوسرے راویوں سے جمع کر دی ہیں جن کو متعدد کتب میں نقل کیا گیا ہے مثلاً حضرت ابن مسعودؓ اورحضرت کعبؓ سے روایت ہے کہ مشرق سے ایک ستارہ نکلے گا وہ زمین پر اس طرح روشن ہوگا جس طرح 14 ویں کا چاند۔ پھر لکھا ہے ایک ستارہ ظاہر ہو گا جس کی کئی دمیں ہوں گی۔

(کتاب الفتن نعیم بن حماد جلد 1صفحہ 225۔229 باب علامات من السماء حدیث625۔642)

حضرت ابو جعفر محمد بن علی سے روایت ہے کہ امام مہدی سے قبل مشرق میں ستارہ ذوالسنین طلوع ہو گا یہ وہ ستارہ ہے جو طوفان نوحؑ کے وقت، ابراہیم ؑکے آگ میں ڈالے جانے کے وقت، فرعون کی غرقابی اور یحیٰ ؑکی شہادت کے وقت نکلا تھا اور یہ طلوع کسوف شمس و قمر کے بعد ہو گا۔

(کتاب الفتن نعیم بن حماد جلد 1صفحہ 224 حدیث نمبر 623)

خالد بن معدان سے روایت ہے کہ مشرق میں نور کا ایک ستون طلوع ہو گا جسے تمام اہل زمین دیکھیں گے۔

(کتاب الفتن جلد 1 ص227۔231 حدیث نمبر 633۔647)

حضرت مجدد الف ثانی نے بھی اس کا ذکر کیا ہے (مکتوبات امام ربانی صفحہ 226 مکتوب نمبر 68 بنام خواجہ شریف الدین حسین) نیز حجج الکرامہ میں نواب صدیق حسن خان اور اقتراب الساعہ میں نور الحسن خان نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔

1835 ٫میں حضرت مسیح موعودؑ کی پیدائش ہوئی اسی سال ہیلی کا دمدار ستارہ (Halley Comet) ظاہر ہوا جو دنیا کے مشہور ترین دمدار ستاروں میں سے ہے۔

ماموریت کا سال اور Great Comet

1882ء میں حضرت مسیح موعودؑ کو ماموریت کا پہلا الہام ہوا۔ اس لئے یہ سال اس دور کی تاریخ میں نہایت اہم ہے۔ اسی سال ٫1882 میں ذوالسنین ستارہ طلوع ہوا جسے دم دار ستارہ بھی کہتے ہیں۔ سائنسی اصطلاح میں اسے Great Comet کہا جاتا ہے۔ Great Comet ہر ایسے دم دار ستارے کو کہتے ہیں جو غیرمعمولی روشن ہو جائے اور ماہرین فلکیات کے حلقے سے نکل کر عوام الناس میں بھی پذیرائی حاصل کرلے۔ یہ ستارہ 1882ء میں نظر آنا شروع ہوا پہلے تو صرف طلوع آفتاب سے قبل نظر آتا تھا اور دن کی روشنی میں غائب ہو جاتا تھا مگر بعد میں اتنا نمایاں ہوگیا کہ سورج کی موجودگی میں بھی زمین سے بآسانی دیکھا جا سکتا تھا۔ ایک بار سورج کی روشنی میں بادلوں کے پیچھے سے دکھائی دے رہا تھا اس لئے اسے پچھلے ایک ہزار سال میں سب سے زیادہ روشن اور غیر معمولی ستارہ قرار دیا گیا۔ یہ ستارہ فروری ٫1883 تک بغیر کسی آلہ کے نظر آتا رہا آخری مرتبہ سپین میں جون ٫1883 میں دیکھا گیا۔

متفرق دمدار ستارے

ان کے علاوہ بھی حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی کے مختلف اہم سالوں میں یہ ستارے ظاہر ہوتے رہے۔ مثلاً ٫1874 میں جون سے اگست تک دمدار ستارہ ظاہر ہوا۔ اسی سال میں حضورؑ کو خواب میں ایک فرشتہ نے نان دیتے ہوئے ایک جماعت کی بشارت دی۔ 1860ء سے لے کر 1879٫ تک 20 سال کے دوران 3 غیرمعمولی چمک رکھنے والے Comet ظاہر ہوئے۔ لیکن 1880ءسے ان کا ایک سلسلہ شروع ہؤا اور 3 سال کے دوران بڑی چمک والے 4 دمدار ستارے دکھائی دیئے۔ 31 جنوری 1880ء کو ایک اور دمدار ستارہ دکھائی دیا جو 15 فروری تک آلات کی مدد کے بغیر نظر آتا رہا۔ 22 مئی 1881ء کوجنوبی افق پر ایک نیا دمدار ستارہ نظر آیا جو جولائی تک نظر آتا رہا، مئی 1882ء تا جولائی ٫1882 ایک اور دمدار ستارہ نظر آتا رہا۔ اس کے بعد 1882ء والا عظیم ستارہ دکھائی دیا۔ اس کے بعد٫1887 میں 18 جنوری سے 30 جنوری تک ایک ستارہ جنوبی کرہ ارض میں دکھائی دیا۔

1879ء جو براہین احمدیہ کی تصنیف کے آخری مراحل کا سال ہے اور ٫1896 میں جو جلسہ مذاہب عالم میں اسلام کی فتح کا سال ہے ستارے نظر آئے پھر 1901ء میں 12۔اپریل تا 4 مئی ایک Comet دکھائی دیا۔

(دمدار ستاروں کے متعلق کئی تفاصیل الفضل 3ستمبر 2010ء اور الفضل انٹرنیشنل 22مارچ 2019ء سے لی گئی ہیں۔ اصل حوالے ان کی مدد سے دیکھے جا سکتے ہیں)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان ستاروں کو اپنی صداقت کے طور پر پیش کرتے ہوئے فرمایا ۔
’’تیسرانشان ذوالسنین ستارہ کا نکلنا ہے جس کے طلوع ہونے کا زمانہ مسیح موعودؑ کا وقت مقررتھا اور مدت ہوئی کہ وہ طلوع ہو چکا ہے اسی کو دیکھ کر بعض عیسائیوں کے بعض انگریزی اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ اب مسیح کے آنے کا وقت آ گیا ہے۔

(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد22ص205)

پھر فرمایا۔
’’نواب صدیق حسن خان صاحب حجج الکرامہ میں اور حضرت مجدد الف ثانی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ احادیث صحیحہ میں لکھا ہے کہ ستارہ دنبالہ دار یعنی ذوالسنین مہدی موعود کے ظہور کے وقت میں نکلے گا۔چنانچہ وہ ستارہ 1882ء میں نکلا اور انگریزی اخباروں نےاس کی نسبت یہ بھی بیان کیا کہ یہی وہ ستارہ ہے کہ جو حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں نکلا تھا۔

(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد23 ص330)

ستارے ٹوٹنے کا نشان

ستارے ٹوٹنے کے نشان کا اشارہ سورۃ الانفطار آیت 3 سےملتا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں۔

ستاروں کا متواتر ٹوٹنا جیسا کہ آیت وَاِذَا الْکَوَاکِبُ انْتَثَرَتْ سے ظاہر ہوتا ہے۔

(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 242)

1885ء میں حضرت مسیح موعود ؑنے اپنے دعویٰ ماموریت کا اعلان عام فرمایا۔ کثرت سے اشتہارات اور خطوط کے ذریعہ عام دنیا کو بھی اور عالمی لیڈروں اور مذہبی رہنماؤں کو نشان نمائی کی دعوت دی۔ اسی سال ٫1885 میں شہب ثاقبہ کا نشان ظاہر ہوا۔ 28 نومبر ٫1885 کی رات کو کثرت سے ستارے ٹوٹے جس کی خبر ہندوستان کے علاوہ یورپ امریکا اور ایشیا کے عام اخباروں میں بڑی حیرت کے ساتھ شائع کی گئی۔

اسی طرح شہاب ثاقب گرنے کا ایک اور اہم واقعہ 1907ء کا ہے 31 مارچ 1907ء کو ہندوستان میں آگ کا ایک بڑا شعلہ آسمان پر ظاہر ہؤا۔ اور 700 میل تک جابجا زمین پر گرتا ہوا دیکھا گیا۔ اخبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک شہاب ثاقب تھا جس کے پیچھے ایک لمبی دوہری دھار ایسی تھی جیسا کہ دھواں ہوتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے متعلق اخبارات کی اور ہندوستان کے مختلف علاقوں سے انفرادی گواہیاں جو خطوط کی شکل میں حضورؑ کو موصول ہوئی تھیں۔ اپنی کتاب حقیقۃالوحی میں اکٹھی کر دی ہیں۔

(حقیقۃالوحی،روحانی خزائن جلد22 ص517)

1908ء کا دمدار ستارہ

حضرت مسیح موعودؑ کی وفات 1908ء میں ہوئی حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے ایک ماہ بعد ہی دمدار ستارے سے ہونے والا معلوم انسانی تاریخ کا سب سے بڑا Impact Event پیش آیا جسےTunguksa Event کہا جاتا ہے۔ 30 جون 1908ء کو روس میں ایک دریا کے کنارے ایک زور دار دھماکہ سنا گیا جو دراصل دمدار ستارے کے پھٹنے سے ہوا تھا جو زمین سے 5 سے 10 کلومیٹر بلندی پر پھٹ گیا مگر کئی سو کلومیٹر دور کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ اس کی شدت ہیروشیما پر گرائے جانے والے بم سے ایک ہزار گنازیادہ تھی اور 2150 مربع کلومیٹر رقبہ سے درختوں کا صفایا ہوگیا۔ یہ واقعہ اگر انسانی آبادی میں پیش آتا تو ایک بڑا شہر تباہ ہو سکتا تھا۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’مفسروں نے لکھا ہے کہ آنحضرتﷺ کے وقت میں جب بہت ستارے ٹوٹے تھے تو اس سے کچھ عرصہ بعد آنحضرتﷺ نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ یہ جو ستارے وغیرہ ہوتے ہیں ان کا اثر زمین پر ضرور ہوتا ہے۔ میرے دعوے سے پہلے اس قدر ستارے ٹوٹے تھے کہ ایسی کثرت آگےکبھی نہیں ہوئی تھی۔ میں اس وقت دیکھ رہا تھا کہ ستاروں کی آپس میں ایک قسم کی لڑائی ہوتی تھی۔ کوئی سو دو سو ایک طرف تھے اور سو دو سو ایک طرف تھے۔ ہمارے لئے گویا وہ ایک پیش خیمہ تھے۔ اس طرف سے اُس طرف نکل جاتے تھے اور اُس طرف سے اِس طرف نکل جاتے تھے۔

میرے خیال میں تو کسوف و خسوف کا بھی خاص اثر زمین پر ہوتا ہے دمدار ستارے کا پیدا ہونا ایک خارق عادت امر ہے۔ آسمان پر اس کا ظاہر ہونا ظاہر کرتا ہے کہ زمین پر بھی ضرور کوئی خارق عادت امر ظاہر ہوگا۔ آئندہ زمین پر جو خارق عادت نشان ظاہر ہونے والے ہوتے ہیں ان کے لئے یہ پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ اس طرف ہمیں الہام بھی ہو رہے ہیں کہ آئندہ خارق عادت نشان ظاہر ہونے والے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 260)

سابقہ انبیاء اور فلکی نشانات

صحیح بخاری سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے وقت میں بعض آسمانی تغیرات کی انبیاء بنی اسرائیل نے خبر دی تھی۔ چنانچہ روم کا عیسائی بادشاہ ہرقل جب زمانہ نبویؐ میں دورہ کرتے ہوئے ایلیا کے مقام پر آیا تو ایک دن صبح کے وقت اس کی طبیعت بہت ناساز تھی وہ علم ہیئت کا ماہر تھا اور رصد گاہوں میں بیٹھ کر ستاروں کو دیکھا کرتا تھا۔ اس نے کسی کے پوچھنے پر بتایا کہ آج رات جب میں ستاروں کا معائنہ کر رہا تھا تو میں نے وہ علامات دیکھیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عربوں کا بادشاہ یعنی نبی آخر الزمانؑ ظاہر ہو گیا ہے۔

(صحیح بخاری باب بدء الوحی)

رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں شہب بھی گرے اور اس کثرت سے گرے کہ کفار نے خیال کیا کہ شاید آسمان اور زمین تباہ ہونے لگے ہیں۔

(تفسیر ابن کثیر سورۃ الجن زیر آیت انا لمسنا السماء)

انجیل میں ہے کہ حضرت مسیحؑ کی پیدائش کے وقت ایک ستارہ ظاہر ہؤا جسے دیکھ کر کئی مجوسی یروشلم میں آئے اور بادشاہ ہیرودیس نے ان کی مدد سے مسیحؑ کی جائے پیدائش پر اطلاع پائی۔

(متی باب 2 آیت 1 تا 12)

شہب کا انبیاء سے تعلق

شہب کے گرنے کا نبی کے ساتھ کیا تعلق ہے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔
’’یہ امر واقعات اور احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کے ظہور کی علامت کے طور پر اللہ تعالی نےشہب کا گرنا سنت کے طور پر مقرر کر رکھا ہےاس کی ظاہری وجہ تو یہ ہے کہ تا اس آسمانی نشان کو دیکھ کر لوگ اس وسوسہ سے نجات پائیں کہ شاید اس کے معجزات کسی انسانی تدبیر کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ مگر کوئی تعجب نہیں کہ اس کے علاوہ بھی کوئی مخفی وجہ نبی کے زمانہ میں شہب کے گرنے کی ہو اور اس میں کوئی روحانی تاثیرات بھی ہوں جو گو انسانی نگاہ سے مخفی ہوں۔ لیکن ان شیطانی تدابیر کا ازالہ کرنے میں ممد ہوتی ہوں جو انبیاءکے دشمن کرتے رہتے ہیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 4ص 37سورۃ الحجر)

اسلام اورعلم نجوم

اس مضمون کے حوالہ سے ستاروں کے متعلق کسی وہم کا شکار نہیں ہونا چاہئے یہ سب خدا کے دست قدرت کے شاہکار ہیں اور منشاء خداوندی کے تابع ہیں ذاتی طور پر لاشے محض ہیں۔ علم نجوم اور ستاروں کی تاثیرات کس حد تک قابل قبول ہیں اور اسلام کیا رہنمائی کرتا ہے اس سلسلہ میں حضرت مصلح موعود ؓ کا فیصلہ کن بیان ملاحظہ ہو۔

’’علم نجوم یا تاثیرات نجوم کا تعلق جہاں تک حقائق سے ہے یہ ہرگز اسلام کے خلاف نہیں۔ قرآن کریم ہمیں قوانین نیچر سیکھنے کا خود حکم دیتا ہے پس یہ ناممکن ہے کہ ایک طرف تو وہ علم ہیئت میں حکمتیں رکھے، ان کے سیکھنے کا حکم دے اور پھر جو ان حکمتوں کو سیکھنا چاہے اس پر شہب مارے جائیں۔ اسلام وہم اور شک سے روکتا ہے۔ پس جہاں تک ان علوم کا تعلق تخمین اور وہم سے ہے وہ ناجائز ہیں اور جب ان کو مذہب کی طرح سمجھا جاتا ہے وہ شرک بن جاتے ہیں ستاروں کی حرکات میں تاثیرات یقیناًہیں۔ لیکن وہ قانون قدرت کا ایک جزو ہیں ہزاروں امور ایک وقت میں تاثیر ڈال رہے ہوتے ہیں۔ اپنی ذات میں کامل تاثیر جو دوسرےکی محتاج نہیں صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ پس ستارے کیا کسی اور مادی سبب کے متعلق بھی اگر کوئی شخص خیال کرے کہ وہ قطعی اور یقینی تاثیر رکھتا ہے تو وہ مشرک ہے ……… ستاروں کی تاثیرات میں اول تو سینکڑوں وہمی باتیں شامل کر دی گئی ہیں۔ لیکن جو علمی طور پر ثابت ہیں وہ بھی ہزاروں اسباب میں سے ایک سبب ہے مسبب الاسباب خدا ان کا نگران اور موکل ہے پس اسی پر توکل چاہئے۔‘‘

(تفسیرکبیر جلد4 ص 45سورۃ الحجر)

الغرض کثیر زمینی اور آسمانی نشانات سے حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت اظہر من الشمس ہے۔آپؑ نے سچ فرمایا۔

اسمعوا صوت السماء جاء المسیح جاء المسیح
نیز بشنو از زمین آمد امام کامگار
آسماں بارد نشاں الوقت می گوید زمیں
ایں دو شاہد از پئے من نعرہ زن چوں بیقرار


(عبد السمیع خان۔غانا)

پچھلا پڑھیں

سالانہ تقریب تقسیم انعامات و اسناد جامعہ احمدیہ تنزانیہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 فروری 2020