• 6 مئی, 2024

آپ لوگ جو یہاں آئے ہیں جب دین کی خاطر ہجرت کر کے آئے ہیں تو پھر ہمیشہ سچائی کو قائم کریں

آپ لوگ جو یہاں آئے ہیں جب دین کی خاطر ہجرت کر کے آئے ہیں تو پھر ہمیشہ سچائی کو قائم کریں
اور اپنے ایمان کو مضبوط کریں اور روزِ جزا پر ایمان اور یقین رکھیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی کتاب ’’تریاق القلوب‘‘ میں فرماتے ہیں کہ: ’’مرتبۂ شہادت سے وہ مرتبہ مُراد ہے جبکہ انسان اپنی قُوّتِ ایمان سے اِس قدر اپنے خدا اور روزِ جزا پر یقین کرلیتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھ سے دیکھنے لگتا ہے۔ تب اس یقین کی برکت سے اعمال صالحہ کی مرارت اور تلخی دور ہو جاتی ہے۔ خدا تعالیٰ کی ہرایک قضاء و قدر بباعث موافقت کے شہد کی طر ح دِل میں نازل ہوتی اور تمام صحنِ سینہ کو حلاوت سے بھر دیتی ہے۔ اور ہر ایک اِیلام انعام کے رنگ میں دِکھائی دیتا ہے۔ سو شہید اُس شخص کو کہا جاتا ہے جو قُوّتِ ایمانی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا مشاہدہ کرتا ہو اور اُس کے تلخ قضاء و قدر سے شہد شیرین کی طرح لذّت اُٹھاتا ہے۔ اور اِسی معنے کے رُو سے شہید کہلاتا ہے۔ اور یہ مرتبہ کامل مومن کے لئے بطور نشان کے ہے۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ420-421)

روز جزاء پر ایمان تو ہر مومن کو ہے لیکن اس پر یقین کیا ہے؟ اس پر یقین خدا تعالیٰ سے اس دنیا میں تعلق پیدا کرنے سے ہے۔ دنیا دار بھی اپنے محبوب کی خاطر کئی سختیاں برداشت کر لیتے ہیں تو خدا تعالیٰ جو سب محبوبوں سے زیادہ محبوب ہونا چاہئے، اُس کی خاطر کتنی سختیاں برداشت کرنے کی ضرورت ہے؟ جبکہ دنیا کی محبتیں تو یا وقت کے ساتھ ساتھ ماند پڑ جاتی ہیں یا پھر اس دنیا میں ختم ہو جاتی ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی محبت کے پھل تو اس دنیا سے گزرنے کے بعد اگلی زندگی میں اَور بھی بڑھ کر لگتے ہیں۔ نیک اعمال کی جزا خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں لے جاتی ہے۔ بعض اعمال جو انسان اس دنیا میں کرتا ہے، بیشک بعض اوقات سخت اور کڑے ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک دنیادار تو جھوٹ بول کر اپنی دنیاوی بہتری کے سامان کر لیتا ہے لیکن ایک حقیقی مومن جھوٹ کو شرک کے برابر سمجھ کرکبھی جھوٹ بول کر فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ سچائی بعض اوقات اس دنیا میں نقصان کا باعث بھی بن رہی ہوتی ہے یا اُسے بنا رہی ہوتی ہے۔ مثلاً احمدیت ایک سچائی ہے۔ خدا تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق آنے والے مسیح موعود اور مہدی معہود کو ہم ماننے والے ہیں لیکن یہی سچائی احمدیوں کو بہت سے ممالک میں اور سب سے بڑھ کر پاکستان میں مشکلات میں گرفتار کئے ہوئے ہے۔ اس کے اظہار پر احمدیوں کو سزائیں دی جاتی ہیں لیکن پھر بھی ایمان پر قائم ہیں۔ یہاں ضمناً یہ بھی بتا دوں کہ احمدی حالات کی وجہ سے پاکستان سے ہجرت کر کے یہاں اسائلم کے لئے آتے ہیں تو سچائی کے اظہار کی وجہ سے اُنہیں اپنے ملکوں سے یہ ہجرت کرنی پڑ رہی ہے۔ لیکن یہاں آ کر اگر جھوٹ اور غلط بیانی کو وہ اپنے اسائلم کا ذریعہ بنا لیں گے تو سارے کئے دھرے پر پانی پھیر دیں گے۔ ان ملکوں میں سچائی کی ابھی بھی بہت قدر ہے۔ بعضوں کے کیس تو بڑے جینوئن (Genuine) ہوتے ہیں، بعضوں کے مقدمات ہیں، ماریں پڑی ہوئی ہیں، مخالفتیں، دشمنیاں ہیں۔ لیکن بعض ایسے بھی ہیں جن کوکچھ نہیں ہے لیکن سچ بول کراگر وہ یہی بتا دیں کہ ایک مسلسل ٹارچر اور لاقانونیت اور احمدیوں کے خلاف جو قانون ہے اُس نے ہماری زندگی کی آزادی چھین لی ہے اور اب ایسے حالات ہیں کہ ہم اس کو مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ بیشک پاکستان میں ابھی لاکھوں کی تعداد میں احمدی ہیں اور ان شاء اللہ تعالیٰ رہیں گے لیکن ہر ایک کا برداشت کا معیار مختلف ہوتا ہے۔ ہم میں اب برداشت نہیں رہی اس لئے ہم یہاں ہجرت کرآئے ہیں۔ تو اس بات کو یہ لوگ سمجھتے ہیں اور ہمدردی کے جذبے کے تحت اسائلم یا لمبا ویزادے دیتے ہیں۔ لیکن اگر جھوٹ بولیں تو پھر ایک جھوٹ کے لئے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ یوں بعضوں کے کیس تو خراب ہوتے ہی ہیں یا اگر بالفرض بعض کیس پاس بھی ہو جائیں تو یہ بات تو یقینی ہے کہ ایسا شخص پھر اپنے خدا کو ناراض کرنے والا بن جاتا ہے۔

پس اپنے خدا کی رضا کو ہمیشہ ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ مَیں نے جن کو بھی سچائی بیان کرنے کا کہا ہے، سچائی کی بنیاد پر اپنا کیس کرنے کا کہا ہے اور انہوں نے سچائی سے کام بھی لیا ہے اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ کے حضور جھکے بھی ہیں تو اُن کے کیس مَیں نے دیکھا ہے چند دنوں میں پاس ہو گئے ہیں۔ ایک حدیث کے مطابق تو سچائی پر قائم رہتے ہوئے دنیا کی خاطر ہجرت کرنے والے بھی شہید بلکہ صدیق ہیں۔ ابودرداءؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنے دین میں فتنے کے ڈر سے بچاؤ کی خاطرایک جگہ سے دوسری جگہ چلا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں صدیق ہے، اگر وہ اسی حالت میں فوت ہو جاتا ہے تو وہ شہید ہے۔ آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ ’’اور جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں، اپنے رب کے ہاں صدیق اور شہید ہیں۔‘‘ پھر آپؐ نے فرمایا کہ جو لوگ اپنے دین کے بچاؤ کی خاطر ایک ملک سے دوسرے ملک میں جاتے ہیں وہ قیامت کے روز عیسیٰ بن مریم کے ساتھ ایک ہی درجے کی جنت میں ہوں گے۔

(الدر المنثور فی التفسیر بالماثور تفسیر سورۃ الحدید آیت:19 جلد8 صفحہ59 دار احیاء التراث العربی بیروت ایڈیشن 2001ء)

پس آپ لوگ جو یہاں آئے ہیں جب دین کی خاطر ہجرت کر کے آئے ہیں تو پھر ہمیشہ سچائی کو قائم کریں اور اپنے ایمان کو مضبوط کریں اور روزِ جزا پر ایمان اور یقین رکھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ جزا سزا یقینی امر ہے۔ (ماخوذ از براہین احمدیہ جلد اول صفحہ460 حاشیہ نمبر11)۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ آپ نے اس کی مزید وضاحت فرمائی ہے۔ پس جب یقینی امر ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق زندگی گزار کر بہتر جزا کیوں نہ حاصل کی جائے؟ کیوں دنیاوی خواہشات کے لئے انسان اللہ تعالیٰ کی سزا کا مورد بنے۔ بہر حال یہ ایک اور مضمون ہے۔ لیکن خلاصہ یہ کہ روزِ جزا کو سامنے رکھنے والا اللہ تعالیٰ پر کامل یقین اور ایمان رکھنے والا بھی ہے اور شہید بھی۔

(خطبہ جمعہ 14؍دسمبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

گھر سے باہر جانے کی دعائیں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 فروری 2022