• 11 دسمبر, 2024

خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 14؍جنوری 2022ء

خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 14؍جنوری 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

کبھی ایسا بھی ہوتا کہ راہ گزرتے ہوئے کئی دوسرے قافلے والے جو کہ حضرت ابوبکرؓ کو ان کے اکثر تجارتی سفروں کی وجہ سے انہی جگہوں پر دیکھ چکے تھے، پوچھتے کہ
آپؓ کے ساتھ یہ کون ہے؟ تو آپؓ کہہ دیتے کہ … ھٰذَا الرَّجُلُ یَھْدِیْنِی السَّبِیْلَ۔ یہ شخص مجھے راستے کی طرف ہدایت دینے والا ہے

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد صدیقِ اکبرحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمالات اور مناقبِ عالیہ دعا کریں باقی اسیران کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے
مکرم چودھری اصغر علی کلار صاحب مرحوم اسیر راہِ مولیٰ، مکرم مرزا ممتاز احمد صاحب کارکن وکالت علیا ربوہ اور مکرم کرنل ریٹائرڈ ڈاکٹر عبدالخالق صاحب سابق ایڈمنسٹریٹر فضلِ عمر ہسپتال کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

أَشْھَدُ أَنْ لَّٓا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

گذشتہ سے پہلے خطبہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ہو رہا تھا ۔ اس میں سراقہ کا یہ ذکر ہوا تھا کہ وہ بھی انعام کے لالچ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑنے کی نیت سے نکلا تھا لیکن جب اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے اس کے آگے روکیں کھڑی کر دیں تو اس نے اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ جب آپؐ کی حکومت ہو تو مجھے امان دیجیے اور ایک تحریر لکھوائی۔ اس ضمن میں بعض روایات ہیں۔ ایک روایت کے مطابق اس کے واپس لوٹتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا

سراقہ! تیرا کیا حال ہو گا جب کسریٰ کے کنگن تیرے ہاتھ میں ہوں گے۔
سراقہ حیرت زدہ ہو کر پلٹا اور کہا کہ کسریٰ بن ہُرمُز؟

آپؐ نے فرمایا ہاں وہی کسریٰ بن ہُرمز۔ چنانچہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں کسریٰ کے کنگن اور اس کا تاج اور اس کا کمر بندلایا گیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سراقہ کو بلایا اور فرمایا: اپنے ہاتھ بلند کرواور انہیں کنگن پہنائے اور فرمایا کہ کہو تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے کسریٰ بن ہُرمُز سے یہ دونوں چھین کر عطا کیں۔

(محمد رسول اللّٰہ والذین معہ لعبدالحمید جودۃ السحار جلد3 صفحہ65،الھجرۃ، مکتبۃ مصر)

یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ سفرِ ہجرت کے وقت نہیں بلکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حُنَین اور طائف سے واپس تشریف لا رہے تھے تو سراقہ بن مالک نے جِعْرَانَہ کے مقام پر اسلام قبول کیا۔ اور جعرانہ مکہ اور طائف کے راستے پر مکہ کے قریب ایک کنویں کا نام ہے۔ آپؐ نے سراقہ سے فرمایا: تمہارا اُس وقت کیا حال ہو گا جب تم کسریٰ کے کنگن پہنو گے۔

(بخاری بشرح الکرمانی جزء14 صفحہ178 کتاب بدء الخلق ’باب علامات النبوة فی الاسلام‘ داراحیاء التراث العربی بیروت)
(فرہنگ سیرت صفحہ 88 زوار اکیڈیمی کراچی 2003ء)

اس بارے میں سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس طرح لکھا ہے کہ ’’ابھی آپ تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ حضرت ابوبکرؓ نے دیکھا کہ ایک شخص گھوڑا دوڑائے ان کے پیچھے آرہا ہے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے گھبرا کر کہا۔ یارسول اللہ ؐ! کوئی شخص ہمارے تعاقب میں آرہا ہے۔ آپؐ نے فرمایا۔ کوئی فکر نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ یہ تعاقب کرنے والا سراقہ بن مالک تھا جو اپنے تعاقب کا قصہ خود اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکل گئے تو کفارِ قریش نے یہ اعلان کیا کہ جو کوئی بھی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) یا ابو بکرؓ کو زندہ یا مردہ پکڑ کر لائے گا اسے اس اس قدر انعام دیا جائے گا اور اس اعلان کی انہوں نے اپنے پیغام رسانوں کے ذریعہ سے ہمیں بھی اطلاع دی۔‘‘ یہ سراقہ کہتا ہے۔ ’’اس کے بعد ایک دن میں اپنی قوم بَنُومُدْلِجْ کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ قریش کے ان آدمیوں میں سے ایک شخص ہمارے پاس آیا اور مجھے مخاطب کر کے کہنے لگا کہ مَیں نے ابھی ابھی ساحلِ سمندر کی سمت میں دور سے کچھ شکلیں دیکھی ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ شاید وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اس کے ساتھی ہوں گے۔ سراقہ کہتا ہے کہ مَیں فوراً سمجھ گیا کہ ضرور وہی ہوں گے۔‘‘

پھر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے وہی تفصیل بیان کی ہے جو سراقہ کے تعاقب کے وقت اور فال اس کے خلاف نکلنے اور اس کے گھوڑے کے دھنسنے کے بارے میں بیان ہو چکی ہے۔ بہرحال سراقہ کہتا ہے ’’… اس سرگذشت کی وجہ سے جو میرے ساتھ گذری تھی میں نے یہ سمجھا کہ اس شخص کا ستارہ اقبال پر ہے اور یہ کہ بالآخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غالب رہیں گے۔ چنانچہ میں نے صلح کے رنگ میں ان سے کہا کہ آپؐ کی قوم نے آپؐ کو قتل کرنے یا پکڑ لانے کے لیے اس اس قدر انعام مقرر کر رکھا ہے اور لوگ آپؐ کے متعلق یہ یہ ارادہ رکھتے ہیں اور میں بھی اسی ارادے سے آیا تھا مگر اب میں واپس جاتا ہوں۔‘‘ اور پھر سراقہ کی جو باقی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ اس کے بعد سراقہ کے کنگن پہننے کی پیشگوئی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اس طرح لکھتے ہیں کہ ’’جب سراقہ واپس لوٹنے لگا تو آپؐ نے اسے فرمایا۔ سراقہ! اس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے؟ سراقہ نے حیران ہو کر پوچھا: کسریٰ بن ہُرمُز شہنشاہِ ایران؟ آپؐ نے فرمایا ہاں۔ سراقہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ کہاں عرب کے صحرا کا ایک بدوی اور کہاں کسریٰ شہنشاہِ ایران کے کنگن۔ مگر قدرتِ حق کا تماشا دیکھو کہ جب حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایران فتح ہوا اور کسریٰ کا خزانہ غنیمت میں مسلمانوں کے ہاتھ آیا تو کسریٰ کے کنگن بھی غنیمت کے مال کے ساتھ مدینہ میں آئے۔ حضرت عمرؓ نے سراقہ کو بلایا جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہو چکا تھا اور اپنے سامنے اس کے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن جو بیش قیمت جواہرات سے لدے ہوئے تھے پہنائے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ240تا242)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں کہ ’’انہوں نے‘‘ یعنی مکہ والوں نے ’’اعلان کر دیا کہ جو کوئی محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) یا ابوبکرؓ کو زندہ یا مردہ واپس لے آئے گا اس کو سواونٹنی انعام دی جائے گی اوراس اعلان کی خبر مکہ کے اِردگرد کے قبائل کو بھجوا دی گئی۔ چنانچہ‘‘ اس وقت ’’سراقہ بن مالک ایک بدوی رئیس اس انعام کے لالچ میں آپؐ کے پیچھے روانہ ہوا۔ تلاش کرتے کرتے اس نے مدینہ کی سڑک پر آپ کو جالیا۔ جب اس نے دو اونٹنیوں اور ان کے سواروں کو دیکھا اور سمجھ لیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی ہیں تو اس نے اپنا گھوڑا ان کے پیچھے دوڑا دیا۔‘‘

پھر آپؓ نے وہ سارا واقعہ بیان کیا ہے جو سراقہ کے گھوڑے کا ٹھوکر کھا کر گرنے کا اور فال نکالنے کا تھا۔ پھر آپ کہتے ہیں۔ سراقہ کہتا ہے کہ ’’… رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وقار کے ساتھ اپنی اونٹنی پر سوار چلے جا رہے تھے۔ انہوں نے مڑ کر مجھے نہیں دیکھا لیکن ابوبکرؓ (اِس ڈر سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی گزند نہ پہنچے) بار بار منہ پھیر کر مجھے دیکھتے تھے۔‘‘

اس تعاقب کے واقعہ کی تفصیل بیان کرنے کے بعد حضرت مصلح موعود ؓلکھتے ہیں کہ ’’… جب سراقہ لوٹنے لگا تو معاً اللہ تعالیٰ نے سراقہ کے آئندہ حالات آپؐ پر غیب سے ظاہر فرمادئیے اور ان کے مطابق آپؐ نے اسے فرمایا۔ سراقہ! اس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے۔ سراقہ نے حیران ہو کر پوچھا کسریٰ بن ہُرمز شہنشاہِ ایران کے کنگن؟ آپؐ نے فرمایا ہاں! آپؐ کی یہ پیشگوئی کوئی سولہ سترہ سال کے بعد جا کر لفظ بلفظ پوری ہوئی۔سراقہ مسلمان ہو کر مدینہ آگیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پہلے حضرت ابوبکرؓ پھر حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے۔ اسلام کی بڑھتی ہوئی شان کو دیکھ کر ایرانیوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دئیے اور بجائے اسلام کو کچلنے کے خود اسلام کے مقابلہ میں کچلے گئے۔ کسریٰ کا دارالامارة اسلامی فوجوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال ہوا اور ایران کے خزانے مسلمانوں کے قبضہ میں آئے۔ جو مال اس ایرانی حکومت کا اسلامی فوجوں کے قبضہ میں آیا اس میں وہ کڑے بھی تھے جو کسریٰ ایرانی دستور کے مطابق تخت پر بیٹھتے وقت پہنا کرتا تھا۔ سراقہ مسلمان ہونے کے بعد اپنے اِس واقعہ کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت اسے پیش آیا مسلمانوں کو نہایت فخر کے ساتھ سنایا کرتا تھا اور مسلمان اِس بات سے آگاہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ سراقہ! اس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھ میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے۔ حضرت عمرؓ کے سامنے جب اموالِ غنیمت لا کر رکھے گئے اور ان میں انہوں نے کسریٰ کے کنگن دیکھے تو سب نقشہ آپ کی آنکھوں کے سامنے پھر گیا۔ وہ کمزوری اور ضعف کا وقت جب خدا کے رسول کو اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ آنا پڑا تھا۔ وہ سراقہ اور دوسرے آدمیوں کا آپؐ کے پیچھے اِس لئے گھوڑے دوڑانا کہ آپ کو مار کر یا زندہ کسی صورت میں بھی مکہ والوں تک پہنچا دیں تو وہ سو اونٹوں کے مالک ہو جائیں گے اور اس وقت آپؐ کا سراقہ سے کہنا۔ سراقہ اس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے۔ کتنی بڑی پیشگوئی تھی۔ کتنا مصفٰی غیب تھا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے سامنے کسریٰ کے کنگن دیکھے تو خدا کی قدرت ان کی آنکھوں کے سامنے پھر گئی۔ انہوں نے کہا سراقہ کو بلاؤ۔ سراقہ بلائے گئے تو حضرت عمرؓ نے انہیں حکم دیا کہ وہ کسریٰ کے کنگن اپنے ہاتھوں میں پہنیں۔ سراقہ نے کہا اے خدا کے رسول کے خلیفہ! سونا پہننا تو مسلمانوں کے لئے منع ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ہاں منع ہے مگر ان موقعوں کے لئے نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے ہاتھ میں سونے کے کنگن دکھائے تھے یا تو تم یہ کنگن پہنو گے یا میں تمہیں سزا دوں گا۔ سراقہ کا اعتراض تو محض شریعت کے مسئلہ کی وجہ سے تھا ورنہ وہ خود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھنے کا خواہش مند تھا۔ سراقہ نے وہ کنگن اپنے ہاتھ میں پہن لئے اور مسلمانوں نے اس عظیم الشان پیشگوئی کو پورا ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20 صفحہ224تا 226)

پھر ذکر آتا ہے کہ واپسی پر ایک قافلے نے جو قریش نے ہی آپ کی تلاش میں بھیجا تھا سراقہ سے آپؐ کے قافلے کے متعلق پوچھا لیکن سراقہ نے نہ صرف یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قافلے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا بلکہ اس طرح کی گفتگو کی کہ تعاقب کرنے والے واپس لَوٹ گئے۔

(ماخوذ از سبل الھدیٰ والرشاد جلد3 صفحہ249 ،جماع ابواب الھجرۃ الی المدینۃ…. دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)

اس سفرِِ ہجرت میں اُمّ مَعْبَد کا ایک واقعہ

ہے جس کا ذکر ملتا ہے۔ ہجرت کے اس سفر کے دوران ایک خیمے کے پاس سے گزرتے ہوئے زادِ راہ کی طلب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قافلہ رکا۔ یہ اُمّ مَعْبَد کا خیمہ تھا۔ اُمّ مَعْبَد کا نام عَاتِکہ بنت خالد تھا۔ ان کا تعلق خُزَاعہ کی شاخ بنو کعب سے تھا۔ یہ حضرت حُبَیْش بن خالد کی ہمشیرہ تھیں جنہیں صحابی ہونے اور روایت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اُمّ مَعْبَد کے خاوند کا نام ابومعبد تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں وفات پائی۔ ابو مَعْبَد کا نام معلوم نہیں۔ اُمّ مَعْبَد کا خیمہ قُدَیْد مقام پر تھا۔ قُدَیْد مکہ کے قریب ایک قصبہ کا نام ہے جو رَابِغْ سے چند میل کے فاصلے پر جنوب میں واقع تھا۔ یہیں پر مشہور بت مَنَاۃ نصب تھا۔ اہلِ مدینہ اس کی پرستش کیا کرتے تھے۔

(الروض الانف جلد2 صفحہ325 نسب اُمّ مَعْبَد و زوجھا، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(فرہنگ سیرت صفحہ232)

اُمّ مَعْبَد ایک بہادر اور مضبوط خاتون تھیں۔ وہ اپنے خیمے کے صحن میں بیٹھی رہتیں اور وہاں سے گزرنے والوں کو کھلاتی پلاتیں۔ آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں نے اس سے گوشت اور کھجوروں کے متعلق پوچھا تا کہ یہ اس سے خرید سکیں لیکن اس کے پاس ان میں سے کوئی چیز نہ تھی۔ اس وقت اُمّ مَعْبَد کی قوم محتاج اور قحط زدہ تھی۔ اُمّ مَعْبَد نے کہا اگر ہمارے پاس کچھ ہوتا تو ہم تم لوگوں سے اسے دور نہ رکھتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیمے کے ایک کونے میں بکری نظر آئی تو آپؐ نے پوچھا اے اُمّ مَعْبَد! یہ بکری کیسی ہے؟ اس نے عرض کیا کہ یہ ایک ایسی بکری ہے کہ جسے کمزوری نے ریوڑ سے پیچھے رکھا ہوا ہے۔ یعنی اس میں اتنی طاقت بھی نہیں ہے کہ ریوڑ کے ساتھ باہر چرنے جا سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کیا اس میں دودھ ہے؟ اس نے کہا: یہ اس سے کہیں زیادہ کمزور ہے۔ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ اس میں دودھ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم مجھے اجازت دیتی ہو کہ میں اس کا دودھ دوہ لوں؟ اس نے کہا کہ اگر آپ کو اس میں دودھ دکھائی دے رہا ہے تو ضرور دوہ لیں مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بکری منگوائی اور اس کے تھن پر ہاتھ پھیرا اور اللہ عزّوجلّ کا نام لیا اور اُمّ مَعْبَد کے لیے اس کی بکری میں برکت کی دعا کی۔ بکری آپ کے سامنے آرام سے کھڑی ہو گئی اور اس نے خوب دودھ اتارا اور جگالی شروع کر دی۔ پھر آپؐ نے ان سے ایک برتن منگوایا جو ایک جماعت کو سیر کر سکتا تھا۔ اس میں اتنا دودھ دوہا کہ جھاگ اس کے اوپر تک آگئی۔ پھر اُمّ مَعْبَد کو پلایا یہاں تک کہ وہ سیر ہو گئیں۔ پھر آپؐ نے اپنے ساتھیوں کو پلایا یہاں تک کہ وہ بھی سیر ہو گئے۔ ان سب کے آخر میں آپؐ نے خود نوش کیا اور فرمایا: قوم کو پلانے والا آخر میں پیتا ہے۔ پھر کچھ وقفہ کے بعد آپ نے اس برتن میں دوبارہ دودھ دوہا یہاں تک کہ وہ بھر گیا اور اسے اُمّ مَعْبَد کے پاس چھوڑ دیا۔ پھر آپؐ نے وہ بکری خریدی اور سفر کے لیے نکل پڑے۔

(سبل الہدیٰ والرشاد جلد 3 صفحہ 244-245 فی ہجرۃ رسول اللّٰہﷺ… دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)

لکھا ہے کہ

ایک طرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے جاںنثار رفیق سفر حضرت ابوبکرؓ خدائی تائید و نصرت کے ساتھ گویا محافظ فرشتوں کے جلو میں عازم سفر تھے اور دوسری طرف اہل مکہ نے گویا ابھی تک ہار نہیں مانی تھی۔

وہ بھی مسلسل آپ کے تعاقب میں تھے۔ چنانچہ قریش کی طرف سے تعاقب کرنے والی ایک پارٹی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرتے کرتے اُمّ مَعْبَد کے خیمے تک بھی آن پہنچی اور یہ لوگ اپنی سواریوں سے اترتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھنے لگے۔ اُمّ مَعْبَد جو تھیں وہ کچھ بھانپ گئیں اور کہنے لگیں کہ تم ایسی بات پوچھ رہے ہو کہ مَیں نے تو کبھی نہیں سنی اور نہ ہی مجھے سمجھ آ رہی ہے کہ تم لوگ کیا چاہتے ہو اور جب ان لوگوں نے اپنے سوال میں کچھ سختی کرنا چاہی تو اس جہاں دیدہ بہادر خاتون نے کہا کہ دیکھو! اگر تم ابھی مجھ سے دُور نہ ہوئے تو مَیں اپنے قبیلے والوں کو آواز دے کر بلا لوں گی۔ وہ اس خاتون کے مقام و مرتبہ کو جانتے تھے۔ لہٰذا عافیت اسی میں جانی کہ واپس لَوٹ جائیں۔

(محمد رسول اللّٰہ والذین معہ… لعبدالحمید جودۃ السحار جلد3 صفحۃ67،الھجرۃ، مکتبۃ مصر)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی راستے میں تھے کہ انہیں حضرت زبیرؓ ملے جو مسلمانوں کے ایک قافلے کے ساتھ شام سے تجارت کر کے واپس آ رہے تھے۔ حضرت زبیرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر ؓکو سفید کپڑے پہنائے۔

(صحیح البخاری کتاب المناقب باب ھجرۃ النبیﷺ و اصحابہ الی المدینۃ حدیث 3906)

اس ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں لکھا ہے کہ ’’راستہ میں زبیر بن العوامؓ سے ملاقات ہو گئی جو شام سے تجارت کر کے مسلمانوں کے ایک چھوٹے سے قافلے کے ساتھ مکہ کو واپس جارہے تھے۔ زبیر نے ایک جوڑا سفید کپڑوں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ایک حضرت ابوبکرؓ کی نذر کیا اور کہا مَیں بھی مکہ سے ہو کر بہت جلد آپؐ سے مدینہ میں آملوں گا۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ242)

پھر بخاری کی ایک روایت ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ راہ گزرتے ہوئے کئی دوسرے قافلے والے جو کہ حضرت ابوبکرؓ کو ان کے اکثر تجارتی سفروں کی وجہ سے انہی جگہوں پر دیکھ چکے تھے پوچھتے کہ آپؓ کے ساتھ یہ کون ہے؟ تو آپؓ کہہ دیتے کہ

یہ مجھے راستہ دکھانے والے ہیں۔

ھٰذَا الرَّجُلُ یَھْدِیْنِی السَّبِیْلَ۔ یہ شخص مجھے راستے کی طرف ہدایت دینے والا ہے۔ لوگ سمجھتے یہ گائیڈ ہیں اور حضرت ابوبکر ؓ کی مراد راہ ہدایت سے ہوتی۔

(صحیح بخاری کتاب مناقب الانصارباب ہجرۃ النبیﷺواصحابہ الی المدینۃ حدیث نمبر 3911)

اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس طرح لکھا ہے کہ ’’چونکہ حضرت ابوبکرؓ بوجہ تجارت پیشہ ہونے کے اس راستہ سے بارہا آتے جاتے رہتے تھے اس لئے اکثر لوگ ان کو پہچانتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پہچانتے تھے۔ لہٰذا وہ ابو بکرؓ سے پوچھتے تھے کہ یہ تمہارے آگے آگے کون ہے۔ حضرت ابو بکرؓ فرماتے۔ ھٰذَا یَھْدِیْنِی السَّبِیْلَ۔ یہ میرا ہادی ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ شاید یہ کوئی دلیل یعنی گائیڈ ہے جو راستہ دکھانے کے لئے حضرت ابوبکرؓ نے ساتھ لے لیا ہے۔ مگر حضرت ابوبکرؓ کا مطلب کچھ اَور ہوتا تھا۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ242)

منزلِ مقصود

تک پہنچنے کے بارے میں لکھا ہے کہ آٹھ دن سفر کرتے ہوئے خدائی نصرتوں کے ساتھ آخر کار پیر کے دن آپؐ مدینہ کے راستے قُبا پہنچ گئے۔ حدیث میں ہے کہ پیر کے دن آپؐ پیدا ہوئے۔ پیر کے دن مکہ سے نکلے اور پیر کے دن مدینہ پہنچے اور پیر کے دن آپؐ کی وفات ہوئی۔

(سبل الھدیٰ والرشاد جلد3 صفحہ253 ،جماع ابواب الھجرۃ الی المدینۃ…. دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ243)

قُبا ایک کنویں کا نام تھا جس کی نسبت سے بستی کا نام بھی قبُا مشہور ہو گیا جہاں انصار کے قبیلہ بنو عَمرو بن عوف کے لوگ آباد تھے۔ یہ بستی مدینہ سے دو میل کے فاصلے پر تھی۔

(معجم البلدان لشھاب الدین یاقوت الحموی جلد4 صفحہ377 زیر لفظ ’’قبا‘‘ مطبوعہ المکتبۃ العصریۃ بیروت 2014ء)

بعض کے نزدیک قبُا کا فاصلہ مدینہ سے تین میل تھا۔ اس کو عالیہ بھی کہتے ہیں۔

(فرہنگ سیرت صفحہ230)

مدینہ میں مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے روانگی کا سن لیا تھا۔ وہ ہر صبح حَرَّہ تک جایا کرتے تھے اور آپؐ کا انتظار کرتے۔ مدینہ دو حَرّوں کے درمیان ہے۔ حَرَّہ سیاہ پتھریلی زمین کو کہتے ہیں۔ مدینہ کی مشرق کی جانب حَرَّۂ وَاقِمْ ہے جس کو حَرَّۂ بنو قُرَیظہ بھی کہتے ہیں اور دوسرا حَرَّةُ الْوَبُرَة ہے جو مدینہ کے مغرب میں تین میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہاں تک کہ دوپہر کی گرمی انہیں لَوٹا دیتی۔ صبح جاتے، انتظار کرتے اور دوپہر کو واپس آ جاتے۔ ایک دن مدینہ والےوہ لوگ کافی دیر انتظار کے بعد لَوٹے۔ پھر جب وہ اپنے گھروں میں پہنچے تو ایک یہودی شخص اپنے قلعوں میں سے ایک قلعہ پر کسی کام کے لیے چڑھا تا کہ وہ اس کو دیکھے تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھیوں کو دیکھ لیا جو سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ سراب ان سے ہٹ رہا تھا۔ یہودی اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور اس نے اپنی بلند آواز سے کہا۔ اے عرب کے لوگو! یہ تمہارے وہ سردار ہیں جن کا تم انتظار کر رہے ہو تو مسلمان ہتھیاروں کی طرف لپکے اور حَرَّہ کے میدان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سمیت داہنی طرف مڑے یہاں تک کہ آپ بنو عمرو بن عوف کے محلے میں ان کے ساتھ اترے اور یہ سوموار کا دن تھا اور ربیع الاول کا مہینہ۔ حضرت ابوبکر لوگوں کے لیے کھڑے ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش تشریف فرما تھے اور انصار میں سے وہ لوگ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا تھا، آئے اور حضرت ابوبکرؓ کو سلام کرنے لگے۔ یہاں تک کہ دھوپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑنے لگی۔ حضرت ابوبکرؓ آگے بڑھے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پراپنی چادر سے سایہ کیا۔ اس وقت لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو عمرو بن عوف کے محلے میں دس سے زائد راتیں یا بخاری کی ایک روایت کے مطابق چودہ راتیں ٹھہرے اور اس مسجد کی بنیاد رکھی جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی۔

(صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار باب ہجرۃ النبیﷺ و اصحابہ الی المدینۃ حدیث نمبر 3906)
(صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ حدیث نمبر428)
(فرہنگ سیرت صفحہ101-102)

بخاری کی اس روایت کے مطابق

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سے زائد راتیں قُبا میں قیام فرمایا۔

ایک روایت کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عَمرو بن عوف یعنی قُبا میں سوموار، منگل، بدھ اور جمعرات، چار دن قیام فرمایا اور جمعہ کو مدینہ کی طرف نکلے۔ ایک اور روایت میں ذکر ہے کہ آپؐ نے بائیس راتیں قیام فرمایا۔

(السیرة الحلبیة جلد 2 صفحہ 75، باب عرض رسول اللّٰہﷺ نفسہ… ،دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

حضرت مصلح موعودؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قُبا میں آمد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’سراقہ کو رخصت کرنے کے بعد چند منزلیں طے کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچ گئے۔ مدینہ کے لوگ بےصبری سے آپ کا انتظار کر رہے تھے اور اِس سے زیادہ ان کی خوش قسمتی اَور کیا ہو سکتی تھی کہ وہ سورج جو مکہ کے لئے نکلا تھا مدینہ کے لوگوں پر جا طلوع ہوا۔جب انہیں یہ خبرپہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے غائب ہیں۔‘‘ یعنی مدینہ والوں کو ’’تو وہ اسی دن سے آپ کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کے وفد روزانہ مدینہ سے باہر کئی میل تک آپ کی تلاش کے لئے نکلتے تھے اور شام کو مایوس ہوکر واپس آجاتے تھے۔ جب آپ مدینہ کے پاس پہنچے تو آپ نے فیصلہ کیا کہ پہلے آپؐ قُبا میں جو مدینہ کے پاس ایک گاؤں تھا ٹھہریں۔ ایک یہودی نے آپ کی اونٹنیوں کو آتے دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ قافلہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ وہ ایک ٹیلے پر چڑھ گیا اور اس نے آواز دی۔ اے قَیْلَہ کی اولاد! (قَیْلَہ مدینہ والوں کی ایک دادی تھی)‘‘ سو قَیْلَہ کی اولاد کے نام سے بھی وہاں کے لوگوں کو پکارا جاتا تھا۔ ’’تم جس کے انتظار میں تھے آگیا ہے۔ اِس آواز کے پہنچتے ہی مدینہ کا ہر شخص قُبا کی طرف دوڑ پڑا۔ قُبا کے باشندے اِس خیال سے کہ خد اکا نبی ان میں ٹھہرنے کے لئے آیا ہے خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔ اِس موقع پر ایک ایسی بات ہوئی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی کے کمال پر دلالت کرتی تھی۔ مدینہ کے اکثر لوگ آپ کی شکل سے واقف نہیں تھے۔ جب قُبا سے باہر آپ ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ بھاگتے ہوئے مدینہ سے آپ کی طرف آرہے تھے تو چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ سادگی سے بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے نا واقف لوگ حضرت ابوبکرؓ کو دیکھ کر جو عمر میں گو چھوٹے تھے مگر ان کی داڑھی میں کچھ سفید بال آئے ہوئے تھے اور اسی طرح ان کا لباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بہتر تھا، یہی سمجھتے تھے کہ ابوبکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور بڑے ادب سے آپ کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جب یہ بات دیکھی تو سمجھ لیا کہ لوگوں کو غلطی لگ رہی ہے۔ وہ جھٹ چادر پھیلا کر سورج کے سامنے کھڑے ہوگئے اور کہا یا رسول اللہؐ! آپ پر دھوپ پڑ رہی ہے میں آپ پر سایہ کرتا ہوں اور اِس لطیف طریق سے انہوں نے لوگوں پر ان کی غلطی کو ظاہر کر دیا۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد20 صفحہ226-227)

اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بخاری کا ایک حوالہ درج فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘‘بخاری میں بَرَاء بن عَازِب کی روایت ہے کہ

جو خوشی انصار کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے وقت پہنچی تھی ویسی خوشی کی حالت میں مَیں نے انہیں کبھی کسی اَور موقع پر نہیں دیکھا۔

ترمذی اور ابن ماجہ نے انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو ہم نے یوں محسوس کیا کہ ہمارے لیے مدینہ روشن ہوگیا اور جب آپؐ فوت ہوئے تو اس دن سے زیادہ تاریک ہمیں مدینہ کا شہر کبھی نظر نہیں آیا۔

استقبال کرنے والوں کی ملاقات کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی خیال کے ماتحت جس کا ذکر تاریخ میں نہیں آیا سیدھے شہر کے اندر داخل نہیں ہوئے بلکہ دائیں طرف ہٹ کر مدینہ کی بالائی آبادی میں جو اصل شہر سے دواڑھائی میل کے فاصلہ پر تھی اورجس کانام قُبا تھا تشریف لے گئے۔ اس جگہ انصار کے بعض خاندان آباد تھے جن میں زیادہ ممتاز عَمروبن عوف کا خاندان تھا اور اس زمانہ میں اس خاندان کے رئیس کلثوم بن الہِدْم تھے۔ قُبا کے انصار نے آپ کا نہایت پرتپاک استقبال کیا اورآپ کلثوم بن الہدم کے مکان پرفروکش ہو گئے۔ وہ مہاجرین جو آپؐ سے پہلے مدینہ پہنچ گئے ہوئے تھے وہ بھی اس وقت تک زیادہ تر قبُا میں کلثوم بن الہِدْم اور دوسرے معززین انصار کے پاس مقیم تھے اورشاید یہی وجہ تھی کہ آپؐ نے سب سے پہلے قُبا میں قیام کرنا پسند فرمایا۔ ایک آن کی آن میں سارے مدینہ میں آپؐ کی آمد کی خبر پھیل گئی اور تمام مسلمان جوشِ مسرت میں بیتاب ہوکر جوق در جوق آپؐ کی فرودگاہ پر جمع ہونے شروع ہو گئے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے، صفحہ264-265)

مسجد قُبا کی تعمیر

کے بارے میں آتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قُبا میں قیام کے دوران ایک مسجد کی بنیاد بھی رکھی جسے مسجد قُبا کہا جاتا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو عَمرو بن عوف کے محلے میں دس سے زائد راتیں ٹھہرے اور اس مسجد کی بنیاد رکھی جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی۔

(بخاری کتاب مناقب الانصار باب ہجرۃ النبیﷺ و اصحابہ الی المدینۃ حدیث نمبر 3906)

روایت میں ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عمرو بن عوف کے لیے مسجد کی بنیاد رکھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بنیاد رکھی تو سب سے پہلے آپؐ نے قبلے کی سمت ایک پتھر رکھا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے ایک پتھر لا کر رکھا۔ پھر حضرت عمرؓ ایک پتھر لے کر آئے اور حضرت ابوبکرؓ کے پتھر کے ساتھ رکھ دیا۔ پھر تمام لوگ تعمیر میں مصروف ہو گئے۔ جب مسجد قُبا کی تعمیر ہو رہی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک پتھر لاتے جسے آپؐ نے اپنے پیٹ کے ساتھ لگایا ہوا ہوتا۔ بڑا بھاری پتھر ہوتا۔ پھر آپؐ اس پتھر کو رکھتے۔ کوئی شخص آتا اور چاہتا کہ اس پتھر کو اٹھائے مگر وہ اٹھا نہ سکتا۔ اس پر آپؐ اسے حکم دیتے کہ اسے چھوڑ دو اور کوئی اَور پتھر لے آؤ۔

(الروض الانف جلد2 صفحہ332، تاسیس مسجد قباء، دارالکتب العلمیۃ بیروت)

مسجد قُبا کے متعلق آتا ہے کہ یہی وہ مسجد ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی تھی مگر بعض روایات میں مسجد نبوی کو وہ مسجد قرار دیا گیا ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی تھی۔ سیرتِ حلبیہ میں ذکر ہے کہ ان دونوں اقوال میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ ان دونوں مساجد میں سے ہر ایک کی بنیاد تقویٰ پر ہی رکھی گئی۔ اس بات کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے۔ اس روایت کے مطابق ان کی رائے تھی کہ مدینہ کی تمام مساجد جس میں قُبا کی مسجد بھی شامل ہے اس کی بنیاد تقویٰ پر ہی رکھی گئی ہے لیکن جس کے متعلق آیت نازل ہوئی تھی وہ مسجد قُبا ہی ہے۔

(السیرۃ الحلبیۃ جلد 2 صفحہ 75 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

دس دن یا چودہ دن قیام کے بعد

جمعہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قُبا سے مدینہ کے لیے روانہ ہوئے۔

راستے میں جب بنو سَالِم بن عوف کی آبادی میں پہنچے تو جمعہ کا وقت ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے ہمراہ وادی رَانُوْنَاء کی مسجد میں نماز جمعہ ادا کی اور ان کی تعداد ایک سو تھی۔ وادی رَانُوْنَاء مدینہ کے جنوب میں واقع ہے۔ جب آپؐ نے اس مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کی تو اس وقت سے اس مسجد کو مسجد الجمعہ کہا جانے لگا۔ یہ پہلا جمعہ تھا جو آپ نے مدینہ میں پڑھا تھا۔

(السیرة الحلبیة جلد 2 صفحہ 81، باب الھجرۃ الی المدینۃ ،دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ 349۔ باب ھجرۃ الرسول۔ دار الکتب العلمیۃ 2001ء)
(اٹلس سیرت نبویؐ صفحہ 168)

ہو سکتا ہے یہ مسجد بعد میں وہاں بنائی گئی ہو۔ اس جگہ جمعہ پڑھنے کی وجہ سے اس کا نام رکھا گیا ہو۔ پھر ذکر آتا ہے کہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اس وقت آپ نے حضرت ابوبکرؓ کو پیچھے بٹھایا ہوا تھا۔

(شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ جزء 2 صفحہ157 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)

انعام کے لالچ میں بہت سے لوگوں نے آپؐ کا پیچھا کرنے کی کوشش کی۔

ایک واقعہ کتب تاریخ میں یوں بیان ہوا ہے۔ بُرَیْدَة بن حُصَیب بیان کرتے ہیں کہ جب قریش نے اس کے لیے سو اونٹوں کا انعام مقرر کیا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ کرے یعنی آپ کو زندہ یا مُردہ پکڑ کے لائے تو مجھے بھی لالچ نے آمادہ کیا تو میں بنو سَہْم کے ستر لوگوں کے ساتھ سوار ہو کر نکلا اور آپؐ کو ملا۔ آپؐ نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ مَیں نے کہا کہ بُرَیْدَہ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکرؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے ابوبکر! ہمارا معاملہ ٹھنڈا اور درست ہو گیا۔ پھر آپؐ نے پوچھا تم کس قبیلہ سے ہو؟ مَیں نے کہا قبیلہ اسلم سے۔ آپؐ نے فرمایا سلامتی میں رہے۔ پھر پوچھا کس کی اولاد سے؟ مَیں نے کہا بنو سَہْم کی۔ آپؐ نے فرمایا اے ابوبکر تمہارا سَہْم یعنی تمہارا نصیبہ نکل آیا۔ پھر بُرَیْدَہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپؐ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَیں محمد بن عبداللہ، اللہ کا رسول ہوں۔ اس پر بُرَیْدَہ نے کہا کہ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ پھر بُرَیْدَہ نے اسلام قبول کر لیا اور سب لوگوں نے بھی جو اس کے ساتھ تھے۔ بُرَیْدَہ نے کہا: تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں۔ بنو سَہْم نے دلی خوشی سے بغیر کسی جبر کے اسلام قبول کیا۔ جب صبح ہوئی تو بُرَیْدَہ نے کہا

یا رسول اللہؐ! مدینہ میں آپؐ کا داخلہ ایک جھنڈے کے ساتھ ہونا چاہیے۔

پھر اس نے اپنا عمامہ سر سے اتارا اور اسے اپنے نیزے پر باندھ دیا اور آپؐ کے آگے آگے چلنے لگا یہاں تک کہ مسلمان مدینہ میں داخل ہو گئے۔

(شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ جزء 2 صفحہ 148 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
(السیرۃ الحلبیۃ جلد 2صفحہ 71 باب الہجرہ الی المدینہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

صحیح بخاری میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ آمد کے متعلق حضرت انس بن مالکؓ کی روایت اس طرح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے اور مدینہ کے اوپر کے حصہ میں ایک قبیلہ میں جنہیں بنو عَمرو بن عوف کہا جاتا تھا اترے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان میں چودہ راتیں ٹھہرے۔ پھر بنونَجَّار کو بلا بھیجا۔ وہ تلواریں پہنے ہوئے آئے اور یہ واقعہ مجھے ایسا یاد ہے گویا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اب بھی اپنی سواری پر سوار دیکھ رہا ہوں اور حضرت ابوبکرؓ آپؐ کے پیچھے سوار تھے اور بنونَجَّار کا جتھہ آپؐ کے ارد گرد تھا۔ آخر آپؐ نے حضرت ابوایوبؓ کے صحن میں ڈیرہ ڈالا۔

(صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ باب ھل تنبش قبور مشرکی الجاھلیۃ… حدیث 428)

اس کا احوال بیان کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ’’قبُاَ میں زائد از دس دن قیام کے بعد جمعہ کے روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے اندرونی حصہ کی طرف روانہ ہوئے۔ انصار و مہاجرین کی ایک بڑی جماعت آپؐ کے ساتھ تھی۔ آپؐ ایک اونٹنی پر سوار تھے اور حضرت ابوبکرؓ آپؐ کے پیچھے تھے۔ یہ قافلہ آہستہ آہستہ شہر کی طرف بڑھنا شروع ہوا۔ راستہ میں ہی نماز جمعہ کا وقت آگیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو سَالِم بن عَوف کے محلہ میں ٹھہر کر صحابہ کے سامنے خطبہ دیا اور جمعہ کی نماز ادا کی۔ مورخین لکھتے ہیں کہ گو اس سے پہلے جمعہ کا آغاز ہوچکا تھا مگر

یہ پہلا جمعہ تھا جو آپؐ نے خود ادا کیا۔

اور اس کے بعد سے جمعہ کی نماز کا طریق باقاعدہ جاری ہو گیا۔‘‘ (تو یہاں سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسجد جو تھی وہ بعد میں بنائی گئی)۔

’’جمعہ سے فارغ ہوکر آپؐ کا قافلہ پھر آہستہ آہستہ آگے روانہ ہوا۔ راستہ میں آپؐ مسلمانوں کے گھروں کے پاس سے گزرتے تھے تو وہ جوش محبت میں بڑھ بڑھ کر عرض کرتے تھے یارسول اللہؐ! یہ ہمارا گھر، یہ ہمارا مال وجان حاضر ہے اورہمارے پاس حفاظت کاسامان بھی ہے۔ آپؐ ہمارے پاس تشریف فرما ہوں۔ آپؐ ان کے لئے دعائے خیر فرماتے اورآہستہ آہستہ شہر کی طرف بڑھتے جاتے تھے۔ مسلمان عورتوں اور لڑکیوں نے خوشی کے جوش میں اپنے گھروں کی چھتوں پرچڑھ چڑھ کر گانا شروع کیا۔

طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا
مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا
مَا دَعٰی لِلّٰہِ دَاعِ

یعنی آج ہم پر کوہِ وَدَاعکی گھاٹیوں سے چودھویں کے چاند نے طلوع کیا ہے۔ اس لیے اب ہم پر ہمیشہ کے لئے خدا کا شکر واجب ہوگیا ہے۔ مسلمانوں کے بچے مدینہ کی گلی کوچوں میں گاتے پھرتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے۔ خدا کے رسولؐ آ گئے۔ اور مدینہ کے حبشی غلام آپؐ کی تشریف آوری کی خوشی میں تلوار کے کرتب دکھاتے پھرتے تھے۔ جب آپؐ شہر کے اندر داخل ہوئے تو ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ آپؐ اس کے پاس قیام فرمائیں اور ہرشخص بڑھ بڑھ کراپنی خدمت پیش کرتا تھا۔ آپؐ سب کے ساتھ محبت کا کلام فرماتے اور آگے بڑھتے جاتے تھے حتٰی کہ آپؐ کی ناقہ بنونَجَّار کے محلہ میں پہنچی۔ اس جگہ بنونجار کے لوگ ہتھیاروں سے سجے ہوئے صف بند ہوکر آپؐ کے استقبال کے لئے کھڑے تھے اورقبیلہ کی لڑکیاں دفیں بجا بجا کر یہ شعر گارہی تھیں۔

نَحْنُ جَوَارٍ مِنْ بَنِی نَجَّارِ
یَا حَبَّذَا مُحَمَّدًا مِنْ جَارِ

یعنی ہم قبیلہ بنونجار کی لڑکیاں ہیں اورہم کیا ہی خوش قسمت ہیں کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے محلہ میں ٹھہرنے کے لئے تشریف لائے ہیں۔‘‘

(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ صفحہ 266 267-)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے اور
حضرت ابوبکرؓ کے اہل و عیال کو مدینہ بلانے کے واقعہ کا ذکر

کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’کچھ عرصہ کے بعد آپ نے اپنے آزاد کردہ غلام‘‘ یعنی مدینہ آنے کے کچھ عرصہ بعد ’’زیدؓ کو مکہ میں بھجوایا کہ وہ آپؐ کے اہل وعیال کو لے آئے۔ چونکہ مکہ والے اِس اچانک ہجرت کی وجہ سے کچھ گھبراگئے تھے اِس لئے کچھ عرصہ تک مظالم کا سلسلہ بند رہا اور اسی گھبراہٹ کی وجہ سے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے خاندان کے مکہ چھوڑنے میں مزاحم نہیں ہوئے اور یہ لوگ خیریت سے مدینہ پہنچ گئے۔ اِس عرصہ میں جو زمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خریدی تھی سب سے پہلے وہاں آپؐ نے مسجد کی بنیاد رکھی اوراس کے بعد اپنے لئے اور اپنے ساتھیوں کے لئے مکان بنوائے۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20 صفحہ230 )

مدینہ ہجرت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق سُنْح میں
حضرت خُبَیب بن اِسَاف کے ہاں ٹھہرے۔

سُنْح مدینہ کے مضافات میں ایک جگہ ہے جو مسجد نبویؐ سے تقریباً دو میل کے فاصلہ پر تھی۔ حضرت خُبیبؓ کا تعلق بنو حَارِث بن خَزْرَجْ سے تھا۔ ایک قول کے مطابق حضرت ابوبکرؓ کی رہائش حضرت خَارِجَہ بن زَید کے ہاں تھی۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 348، باب ھجرۃ الرسول ﷺ، دار الکتب العلمیۃ 2001ء)

بعض روایات کے مطابق حضرت ابوبکرؓ نے سُنْح میں ہی اپنا مکان اور کپڑا بنانے کا کارخانہ بنا لیا تھا۔ (مقالات سیرت جلد3 صفحہ 131 مکتبہ الاسلامیہ لاہور2016ء) اس سے کاروبار کیا۔ ان شاء اللہ یہ ذکر آئندہ بھی ہو گا۔

اس وقت مَیں

کچھ مرحومین کا ذکر

کرنا چاہتا ہوں جن میں سے پہلا ذکرہے

چودھری اصغر علی کلار صاحب مرحوم

جو اسیر راہ مولیٰ تھے۔ یہ محمد شریف صاحب کلار، بہاولپور کے بیٹے تھے۔ 10؍جنوری کو حالتِ اسیری میں بیمار ہوئے اور وہیں ہسپتال میں ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اس لحاظ سے

یہ شہیدوں میں ہی شمار ہوں گے۔

تفصیلات کے مطابق مرحوم کے خلاف 24؍ستمبر 2021ء کو پولیس سٹیشن بغداد الجدید بہاولپور میں دفعہ 295-C توہینِ رسالت (نعوذ باللہ)، توہین رسالت کا الزام تو فوراً احمدیوں پہ لگا دیتے ہیں، اس کے تحت مقدمہ درج ہوا اور 26؍ستمبر کو گرفتاری عمل میں آئی۔ گرفتاری کے بعد مرحوم بہاولپور جیل میں تھے۔ جیل میں خون کی الٹیاں آنے پر اور طبیعت خراب ہونے پر مرحوم کو 4؍جنوری 2022ء کو بہاولپور کے ہسپتال میں منتقل کیا گیا جہاں علاج جاری تھا کہ 10؍جنوری کو صبح فجر سے قبل ان کی وہاں اسیری کی حالت میں ہی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ وفات کے وقت مرحوم کی عمر 70سال تھی۔

مرحوم کی درخواست<ضمانت عدالت میں زیر سماعت تھی اور 8؍جنوری کو ضمانت کی تاریخ تھی مگر پولیس ریکارڈ لے کر نہ آئی جس پر جج نے 11؍جنوری کی تاریخ دے دی لیکن فیصلہ سے قبل ہی مرحوم مالکِ حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے۔ مرحوم تین ماہ پندرہ دن اسیرِ راہِ مولیٰ رہے۔

مرحوم نے 1971ء میں اوائل عمر میں میٹرک کے بعد خود ہی بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ احمدیت میں شمولیت کے بعد مخالفانہ حالات کا سامنا رہا اس کے باوجود ثابت قدم رہے۔ ایف سی کالج سے انہوں نے MSc. Maths کی ڈگری حاصل کی۔ دورانِ تعلیم قبول احمدیت کی بنا پر والدین نے ان کی مالی معاونت بند کر دی اور شرط رکھی کہ احمدیت چھوڑنے کی صورت میں ہی آئندہ تعلیمی اخراجات ادا کیے جائیں گے۔ اس کے باوجود مرحوم ثابت قدم رہے اور بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرتے رہے۔ تاہم مرحوم کے والد صاحب نے مرحوم کی ثابت قدمی اور تقویٰ سے متاثر ہو کر بعد میں مخالفت ترک کر دی اور اسی خدشہ کے پیشِ نظر کہ کہیں احمدی بیٹا غیر احمدی والد کی جائیداد سے محروم نہ کر دیا جائے اپنی زندگی میں ہی ان کے نام کا حصہ منتقل کر دیا تھا۔ ان کے والد نے ان کے ساتھ یہ نیکی کی۔ مرحوم بفضلہ تعالیٰ 8/1حصہ کے موصی تھے۔ مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔ نئے سال کے اعلان کے ساتھ ہی سو فیصد ادائیگی کر دیا کرتے تھے۔ خلافتِ احمدیہ سے والہانہ عشق تھا۔ واقفینِ زندگی اور مرکزی مہمانان کی عزت اور مہمان نوازی کا وصف نمایاں تھا۔ جماعتی دورہ جات میں اپنی گاڑی ہمیشہ پیش کرتے تھے۔ دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا۔ باہمت، نڈر داعی الی اللہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے کئی سعید روحوں کو مرحوم کے توسط سے بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت کی توفیق بخشی۔ صوم و صلوٰة کے علاوہ نماز تہجدکے پابند تھے۔ غریب پروری اور خدمت خلق کرنے والے نافع الناس وجود تھے۔ خاندان کے ہر فرد کی باوجود مخالفت کے مالی اور اخلاقی خدمت کی توفیق پائی۔ مرحوم کو شہادت کی بڑی خواہش تھی جو اس طرح اللہ تعالیٰ نے پوری کر دی۔

مرحوم کی اہلیہ محترمہ نے بیان کیا کہ جیل میں ملاقات کے دوران مرحوم نے ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں تین مرتبہ سلام کا پیغام ملا ہے اور دوسری خواب میں یہ بیان کیا کہ مَیں نے جیل سے اپنی میت نکلتے دیکھی ہے۔ مرحوم کو بحیثیت ناظم انصار اللہ، زعیم اعلیٰ بہاولپورشہر، سیکرٹری دعوت الی اللہ، سیکرٹری وقف جدید، سیکرٹری اصلاح و ارشاد ضلع خدمت کی توفیق ملی۔ وفات کے وقت ضلعی قاضی بھی تھے۔ مرحوم نے اپنے پسماندگان میں اپنی اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑے ہیں۔ ان کے ایک بیٹے ملک سے باہر ہی ہیں اور بیٹی بھی کینیڈا میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ اصغر علی کلار صاحب سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔ ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

باقی اسیران کے بارے میں بھی دعا کریں۔
اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔

دوسرا ذکر ہے

مرزا ممتاز احمد صاحب

کا جو وکالت علیا ربوہ کے کارکن تھے۔ پچاسی(85)سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ کے فضل سے موصی تھے۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے والد کیپٹن ڈاکٹر شیر محمد عالی صاحب کے ذریعہ ہوا جنہوں نے 1923ء میں بیعت کی تھی۔ مرزا ممتاز صاحب نے اپریل 1964ء میں دفتر امانت تحریک جدید میں بطور محرر خدمت شروع کی اور تا دم آخر اٹھاون سال تک خدمت کی توفیق پائی۔ ان کی شادی مکرم چودھری مظفر الدین بنگالی صاحب کی بیٹی ماجدہ بیگم سے ہوئی۔ ان سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔

ان کے نواسے خالد منصور لکھتے ہیں کہ نانا ہمیں ہمیشہ جماعت کی خدمت میں وابستہ رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ ہمیشہ نماز باجماعت کی اہمیت بتاتے اور تلقین کرتے۔ کہتے ہیں میرے والد صاحب کی وفات کے بعد نانا نے مجھے ان کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ ہمیشہ ان کو اپنا دوست پایا۔ ہمیشہ جماعت کے کاموں میں مصروف دیکھا۔ ایک مثالی دوست، باپ اور جماعت کے ایک مثالی کارکن تھے۔ ہر ایک سے محبت، پیار اور شفقت کا سلوک کرتے تھے۔ وقت کی پابندی بہت کرتے تھے اور اس کی اہمیت بتاتے تھے۔

ان کے ساتھ کام کرنے والے ایک کارکن سعید ناصر صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بڑا لمبا عرصہ مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ بڑی صفائی سے کام کیا کرتے تھے اور اپنا کام مکمل کرنے کے بعد اپنے ساتھیوں کے کام میں بھی ان کی مدد کیا کرتے تھے۔

پھر ایک مربی لقمان ثاقب صاحب ہیں وہ کہتے ہیں مَیں نے دیکھا کہ طبیعت کے ضعف کے باوجود اپنے مفوضہ امور مستعدی سے بخوبی سرانجام دیتے تھے۔ آخری وقت تک حافظہ کمال کا تھا۔ سالوں پہلے کے کسی معاملے کے بارے میں فوراً بتا دیتے کہ یہ معاملہ فلاں فائل میں فلاں جگہ پڑا ہوا ہے۔ شستہ مذاق کو پسند کرتے اور لطف اندوز بھی ہوتے تھے لیکن بلا وجہ فضول باتیں کرنے ،گپیں مارنے والی ان کی طبیعت نہیں تھی۔ جو کچھ وقت اپنا کام مکمل کرنے پر بچتا تو دفتر میں ہی کرسی پر بیٹھ کر کوئی پرانی فائل لے کر اس کو پڑھنا شروع کر دیتے۔

ڈاکٹر سلطان مبشر نے بھی ان کے بارے میں لکھا ہے کہ بڑی عاجزی تھی۔ ایک سینئر کارکن ہونے کے باوجود ہسپتال جب آتے تھے تو اپنی باری کا انتظار کرتے اور کبھی جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرتے۔ ان میں شکرگزاری اور احسان مندی کا بڑا وصف تھا۔ صبر کا مادہ بھی ان میں بہت زیادہ تھا۔ بڑی لمبی بیماری میں تکلیف کی زیادتی کے باوجود بھی انہوں نے بے صبری کا مظاہرہ نہیں کیا اور سوائے چند ایک دفتر کے دوستوں کے زیادہ حلقہ احباب بھی نہیں تھا۔

ہمیشہ مَیں نے بھی ان کو بڑا خاموش طبع دیکھا ہے اور اپنے چند دوستوں کے ساتھ ہی اور دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر یہی معمول ہوتا تھا لیکن بڑی محنت سے کام کرنے والے۔ بڑے اخلاص اور وفا کے ساتھ انہوں نے عمر گزاری ہے۔

اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اگلا ذکر ہے

کرنل ریٹائرڈ ڈاکٹر عبدالخالق صاحب

جو فضل عمر ہسپتال کے سابق ایڈمنسٹریٹر تھے۔ ستانوے سال کی عمر میں گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ان کے خاندان میں احمدیت ان کے والد میاں محمد عالم صاحب کے ذریعہ آئی جنہوں نے 1919ء میں بیعت کی تھی جبکہ ڈاکٹر عبدالخالق نے 1938ء میں بیعت کی تھی۔ اپنی بیعت کی تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے ابا جان الفضل منگواتے تھے۔ اس کے مطالعہ سے احمدیت کی طرف توجہ ہوئی اور 1938ء میں ہم تین بہن بھائیوں نے بیعت کر لی۔ حضرت والدہ صوم و صلوٰة کی پابند تھیں۔ ہماری بیعت کر لینے کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے بھی بیعت کر لی۔ کہتے ہیں 1939ء کے جلسہ میںجو جوبلی کا جلسہ تھا مَیں پہلی بار قادیان گیا اور بعد میں پھر اکثر جلسہ پر جانے کا موقع ملتا رہا۔ ان کی اہلیہ کی 1987ء میں وفات ہو گئی تھی۔ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔

ان کے ایک بیٹے ڈاکٹر عبدالباری امیر جماعت احمدیہ اسلام آباد ہیں۔ 1974ء میں جب بھٹو حکومت نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا ظالمانہ قانون منظور کیا تو ڈاکٹر صاحب نے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور نصرت جہاں سکیم کے تحت اپنی خدمات پیش کیں۔ مرکز کی طرف سے آپ کو 1977ء میں سیرالیون بھجوایا گیا جہاں آپ کو تین سال انسانیت کی خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ پھر 1992ء میں پی آئی اے نے تاشقند کے لیے پروازیں شروع کیں تو ڈاکٹر صاحب نے اس موقع کو مناسب سمجھتے ہوئے تاشقند اور ازبکستان میں وقف عارضی گزارنے کی درخواست دی۔ مرکز نے یہ درخواست منظور کر لی تو انہوں نے اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ سمرقند اور بخارا میں وقف عارضی کے ایام گزارے اور اس دوران میں انسانیت کی بے لوث خدمت بھی کی۔ احمدیت کا پیغام پہنچانے کی بھی ان کو سعادت ملی۔ 1994ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے ان کو فضل عمر ہسپتال ربوہ کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا جہاں آپ نے جون 2005ء تک تقریباً دس سال سے زائد خدمت کی توفیق پائی۔ آپ کے دور میں فضل عمر ہسپتال میں تعمیر و توسیع کے کئی منصوبے مکمل ہوئے۔ پھر ان کے بارے میں کسی بچے نے شاید ذکر کیا ہے کہ اسّی، اکاسی سال کی عمر کو پہنچنے کے باوجود آپ کا خدمت کا جذبہ تو جوان تھا لیکن انہیں احساس ہو رہا تھا کہ مجھے بڑھاپا آ رہا ہے۔ اس لیے انہوں نے 2005ء میں درخواست کی اور انہوں نے مجھے کہا تو پھر ان کی ریٹائرمنٹ ہو گئی۔ وہاں سے فراغت ہو گئی تو پھر انہوں نے اسلام آباد میں مستقل رہائش اختیار کر لی۔ وہاں اسلام آباد میں بھی مقامی قاضی کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے۔

ان کے بڑے بیٹے ڈاکٹر عبدالباری کہتے ہیں کہ اولاد کی دینی اور اخلاقی تربیت کا آپ کو ہر وقت فکر رہتا تھا۔ قرآن کریم کی صبح شام اور ہر وقت تلاوت میں آپ مشغول رہتے تھے۔ بہت محبوب مشغلہ تھا۔ اہم معاملات میں تمام تر فیصلہ جات آپ قرآن کریم کی روشنی میں کرتے تھے۔

ان کے داماد ڈاکٹر مظفر علی ناصر، یہ بھی ضلع واہ کینٹ کے نائب امیر ہیں، یہ کہتے ہیں کہ آج تک دن بھر کسی کو اس قدر تلاوت قرآن کریم کرتے نہیں دیکھا۔ ان کو قرآن سے عشق تھا۔ ایک مرتبہ ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے تو سٹاف اداس ہو گیا کہ ہمیں قرآن کون سنائے گا۔ سردی اور گرمی میں تہجد میں آپ کی باقاعدگی ہمارے لیے ایک نمونہ تھی۔ خلافت اور جماعت کے ساتھ گہری محبت تھی۔ بہت سادہ زندگی تھی اور کبھی کوئی شکایت نہیں کی۔

ان کے بھائی کے نواسے عبدالصمد رضوی لکھتے ہیں کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر ہر تکلیف کو برداشت کیا۔ اپنی خوشیوں سے دستبرداری اختیار کی۔ کہتے ہیں ان کے گھر ربوہ میں مجھے کئی دفعہ قیام کا موقع ملا۔ میرے لیے ان کا وجود زندہ خدا کو پہچاننے کا باعث ہوا۔ ان کی نماز تہجد بے مثل ہوا کرتی تھی۔ خلافت کی عزت اور محبت آپ میں راسخ تھی جو ہماری بہترین تربیت کا باعث ہوئی۔

فضل عمر ہسپتال کے ڈاکٹر عبدالخالق کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب ہسپتال کے نوجوان ڈاکٹروں سے محبت اور شفقت کا سلوک کرتے تھے اور سینئر ڈاکٹرز کو توجہ دلاتے کہ جونیئر ڈاکٹرز کی ٹریننگ پر خصوصی توجہ دیا کریں۔ ہسپتال کے اموال کی دیانتداری سے نگرانی اور حفاظت کیا کرتے تھے۔ غریب اور مستحق افراد کی ذاتی جیب سے مدد کیا کرتے تھے۔

ڈاکٹر محمد احمد اشرف کہتے ہیں کہ بہت متحمل مزاج تھے۔ نرم دلی، بردباری بہت زیادہ تھی، بہت شفیق وجود تھے اور زیادہ گفتگو کے عادی نہیں تھے لیکن انتظامی لحاظ سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر بہت گہری نظر رکھتے تھے اور اصولوں کی پابندی کروایا کرتے تھے۔ پھر وقفِ عارضی کے لیے دوسرے ڈاکٹروں کو تحریک بھی کیا کرتے تھے کہ فضل عمر ہسپتال میں آئیں اور اپنے داماد کو بھی، بیٹوں کو بھی کہتے تھے۔

اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کی نیکیاں ان کی اولادوں میں بھی جاری رکھے۔ نمازوں کے بعد ان کی نماز جنازہ ادا کروں گا۔

٭…٭…٭

(الفضل انٹرنیشنل 04فروری 2022ء)

پچھلا پڑھیں

گھر سے باہر جانے کی دعائیں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 فروری 2022