• 14 مئی, 2024

اصحاب الصُفَّہ کے اوصاف

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’صفہ کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمدؓ نے مختلف تواریخ سے تفصیل لے کر لکھا ہے۔لکھتے ہیں کہ مسجد کے ایک گوشے میں ایک چھت دارچبوترہ بنایا گیا تھا جسے صُفّہ کہتے تھے۔ یہ ان غریب مہاجرین کے لئے تھا جو بے گھر بار تھے۔ ان کا کوئی گھر نہیں تھا۔ یہ لوگ یہیں رہتے تھے اور ’اصحاب الصُفَّہ‘ کہلاتے تھے۔ ان کا کام گویا دن رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہنا، عبادت کرنا اور قرآن شریف کی تلاوت کرنا تھا۔ ان لوگوں کا کوئی مستقل ذریعۂ معاش نہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی خبرگیری فرماتے تھے اور جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی ھدیہ وغیرہ آتا تھا یا گھر میں کچھ ہوتا تھا تو ان کا حصہ ضرور نکالتے تھے۔ بلکہ بعض اوقات آپؐ خود فاقہ کرتے تھے اورجو کچھ گھر میں ہوتا تھا وہ اصحاب الصفہ کو بھجوا دیتے تھے۔ انصار بھی ان کی مہمانی میں حتی المقدور مصروف رہتے تھے اور ان کے لئے کھجوروں کے خوشے لالا کر مسجد میں لٹکا دیا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود ان کی حالت تنگ رہتی تھی اور بسا اوقات فاقے تک نوبت پہنچ جاتی تھی اوریہ حالت کئی سال تک جاری رہی حتٰی کہ کچھ تو مدینے کی آبادی کی وسعت کے نتیجے میں ان لوگوں کے لئے کام نکل آیا اور کچھ نہ کچھ مزدوری مل جاتی تھی اورکچھ قومی بیت المال سے ان کی امداد کی صورت پیدا ہوگئی۔

بہرحال ان لوگوں کے بارے میں دوسری جگہ مزید تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ یہ لوگ دن کو بارگاہِ نبوت میں حاضر رہتے اور حدیثیں سنتے۔ رات کو ایک چبوترے پر پڑے رہتے۔ عربی زبان میں چبوترے کو صُفہ کہتے ہیں اور اسی بنا پر ان بزرگوں کو اصحابِ صفہ کہا جاتا ہے۔ ان میں سے کسی کے پاس چادر اور تہہ بند دونوں چیزیں کبھی ایک ساتھ جمع نہ ہو سکیں۔ چادر کو گلے سے اس طرح باندھ لیتے تھے کہ رانوں تک لٹک آتی تھی، کپڑے پورے نہیں ہوتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہی بزرگوں میں سے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے اہل ِصفہ میں سے ستر اشخاص کو دیکھا کہ ان کے کپڑے ان کی رانوں تک بھی نہیں پہنچتے تھے، جسم پہ کپڑا لپیٹتے تھے تو وہ گھٹنوں سے اوپر مشکل سے پہنچتا تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ معاش کا طریقہ یہ تھا کہ ان میں ایک ٹولی دن کو جنگل سے لکڑیاں چن کر لاتی اور بیچ کر اپنے بھائیوں کے لئے کچھ کھانا مہیا کرتی۔ اکثر انصار کھجور کی شاخیں توڑ کر لاتے اور مسجد کی چھت میں لٹکا دیتے۔ باہر کے لوگ آتے اور ان کو دیکھتے تو سمجھتے کہ یہ دیوانے ہیں۔ بے وقوف لوگ ہیں۔ بلاوجہ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ یا یہ بھی سمجھتے ہوں گے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے دیوانے ہیں کہ آپؐ کا دَر چھوڑنا نہیں چاہتے۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہیں سے صدقہ آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس بھیج دیتے اور جب دعوت کا کھانا آتا تو ان کو بلا لیتے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ راتوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مہاجرین و انصار پر تقسیم کر دیتے یعنی اپنے مقدور کے موافق ہر شخص ایک ایک دو دو اپنے ساتھ لے جائے اور رات کو ان کو کھانا کھلائے۔ بعض دفعہ ایسے موقعے بھی ہوتے تھے کہ کسی کو بعض مہاجرین کے سپرد کر دیا۔ کسی کو انصار کے سپرد کر دیا کہ رات کا کھانا ان کو دینا ہے۔ حضرت سعد بن عبادہؓ ایک صحابی تھے جو نہایت فیاض اور دولت مند تھے وہ کبھی کبھی اسّی اسّی مہمانوں کو اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ 80 مہمانوں تک ساتھ لے جاتے۔ رات کو ان کو کھانا کھلاتے تھے۔ ان کی کشائش تھی۔ مختلف روایتوں کے مطابق یا بعض روایتوں کے مطابق اہل صفہ کی تعداد مختلف وقتوں میں مختلف رہی تھی۔ کم سے کم بارہ افراد اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ یہاں تک کہ تین سو افراد ایک وقت مقام صفہ میں مقیم رہے تھے بلکہ ایک روایت میں ان کی کل تعداد چھ سو صحابہ کرام بتائی گئی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ30۔اگست 2019ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 مارچ 2020