• 14 مئی, 2024

مغفرت الٰہی کے نظارے

تبرکات

قسط اول

ایک مرتبہ مغفرت الٰہی کے مضمون پر غور کر رہا تھا اور اس کے مختلف پہلوؤں کو سوچ کر لطف اٹھا رہا تھا کہ میرے ذہن پر ایک ربودگی طاری ہو گئی اور بعض ایسے نظارے نظر کے سامنے سے گزرے جن کے ساتھ میرے اس مضمون کا تعلق ہے ۔اب خواہ ان معاملات کو دماغی تصور سمجھ لیں ، خواہ خیالات کی رو ،خواہ نیم مکاشفہ کی حالت اس کا کوئی اثر اصل بات پر نہیں پڑتا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک علمی بات معنوی حالت سےایک صوری شکل پکڑ گئی ورنہ مطلب اور حقیقت دراصل ایک ہی ہے۔

کیا دیکھتا ہوں کہ ایک میدان میں ایک عظیم الشان دروازہ، جیسا کہ شادی بیاہ وغیرہ کی تقریبوں میں نصب کیا ہے، مجھ سے کچھ فاصلہ پر لگا ہوا ہے، نزدیک گیا تو اس کے اوپر نہایت خوبصورت حروف میں لکھا ہوا تھا : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِى شَأْنٍ

(الرحمٰن: 30)

ترجمہ: وہ ہر وقت ایک نئی حالت میں ہوتا ہے۔

اور اس بڑے دروازے کے دونوں طرف بھی عجیب و غریب قطعات لگے ہوئے تھے۔ کسی پر لکھا تھا : نَبِّیْٔ عِبَادِى أَنِّى أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

(الحجر: 50)

ترجمہ : (اے پیغمبر!) میرے بندوں کو آگاہ کر دے کہ میں بہت ہی بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہوں۔

اور کسی پر۔
إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ

(النجم : 33)

ترجمہ : تیرا رب بڑی وسیع مغفرت والا ہے۔

اور کہیں یہ لکھا تھا۔
يَغْفِرُ لِمَنْ يَشَآءُ

(آل عمران :130)

ترجمہ : وہ جسے چاہے بخش دیتا ہے۔

کسی جگہ یہ تحریر تھا۔
إِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعاً إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

(الزمر : 54)

ترجمہ : اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے۔ وہ بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

کسی جگہ۔
يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُمْ مِّن ذُنُوبِكُمْ

(ابراہیم:11)

ترجمہ : وہ تمہیں اس لئے بلا رہا ہے تا کہ وہ تمہارے گناہوں میں سے بعض بخش دے۔

اور کہیں۔
وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللّٰهُ

(آل عمران:136)

ترجمہ : اور اللہ کے سوا کون قصور معاف کر سکتا ہے ۔

غرض دونوں طرف مغفرت کے متعلق بیسیوں خوبصورت قطعات لکھے ہوئے تھے۔

میدانِ حشر

میں نے بعض لوگوں کو اس دروازہ پر بطور پہرہ داروں کے معلق دیکھا اور خیال کیا کہ شاید یہ فرشتے ہیں اور ان سے پوچھا کہ کیا میں اندر جا سکتا ہوں؟

انہوں نے کہا : ’’ہاں، آج اللہ تعالیٰ کی مغفرت کے پُر زور مظاہرے ہو رہے ہیں۔ بے شک جاؤ اور دیکھ لو۔ مگر تمہارے ساتھ ایک سرکاری چوکیدار کا ہونا ضروری ہے۔‘‘

یہ کہہ کر ان کے افسر نے اس جماعت میں سے ایک کو میرے ساتھ کر دیا اور کہا کہ ان کا نام غفران ہے، یہ تمہارے ہمراہ رہ کر تمہیں میدان حشر کی سیر کرائیں گے، اس دوران میں تم استغفار پڑھتے رہنا، کسی بات کو دیکھ کر اعتراض نہ کرنا۔

یہ سن کر جونہی میں نے اس صحرائے محشر کی طرف قدم بڑھائے تو فرشتہ غفران نے میرا بازو پکڑ لیا۔ پکڑتے ہی میں اور وہ دونوں گویا اُڑنے لگے، اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ جہاں اور جدھر ہم جانا چاہتے ہیں پل جھپکنے میں جا پہنچتے ہیں۔ چلتے چلتے دیکھتا ہوں کہ جہاں تک نظر کام کرتی ہے انسان ہی انسان ہیں، مگر سب کے سب برہنہ۔ سوائے بعض خاص خاص کے جو کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ ایک ٹولی یہاں ہے تو دوسری وہاں۔ ہر جگہ جمگھٹے لگے ہیں اور ہر جمگھٹے اور مجمع کے درمیان ایک ترازو یعنی میزان نصب ہے۔ اسی طرح جہاں تک نظر کام کرتی تھی یا تو انسان نظر آتے تھے یا میزانیں تھیں یا فرشتے۔ مگر کیا مجال جو ذرا بھر بھی غُل یا شور ہو۔ یوں معلوم ہوتا تھا گویا مردے کھڑے ہیں اور سوائے اس کے جسے بولنے کی اجازت ہو کوئی لفظ کسی کے منہ سے نہ نکلتا تھا۔ یاں یا غفور یا ستار یا غفار کے الفاظ ہر طرف نہایت دھیمی آواز میں سنائی دیتے تھے اور کبھی کبھی جب کسی کی آواز نا واجب طور پر بلند ہو جاتی تو معاً ایک طرف سے بگل بجتا سنائی دے جاتا۔ وَخَشَعَتِ الأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَـٰنِ فَلاَ تَسْمَعُ إِلاَّ هَمْساً

(طٰہٰ :109)

ترجمہ : اور رحمٰن (خدا کی آواز) کے مقابلہ میں (انسانوں کی) آوازیں دب جائیں گی پس تو سوائے کھُسر پُھسر کے کچھ نہ سنے گا۔ جس پر ایک ایسا سکوت طاری ہو جاتا جیسا آدھی رات کے وقت قبرستانوں میں ہوا کرتا ہے۔

عرشِ عظیم

غرض ایسے نظارے دیکھتے ہوئے ہم آگے بڑھے اور جہاں پہنچے یہی حال دیکھا، حتیٰ کہ میں تھک گیا، اتنے میں غفران نے کہا کہ وہ سامنے عرشِ عظیم ہے۔ میں نے نظر اٹھائی تو سوائے ایک روشنی اور نور کے کچھ نظر نہ آیا۔ مگر خود بخود اس قدر دہشت اور رعب اُس طرف نظر کر کے مجھ پر طاری ہوا کہ میری گھگھی بندھ گئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اس لاانتہا میدان میں یہ مقام ہر جگہ سے یکساں قریب نظر آتا ہے، اور وہاں کے احکام ہر شخص کو ایسے ہی صاف سنائی دیتے ہیں گویا وہ ہمارے سامنے اور بالکل پاس ہی ہے۔ بے انتہا فرشتے اس جگہ کے گرد چکر لگا رہےتھے۔ کوئی گروہ یہ کہہ رہا تھا :

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَغْفِرُکَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا

اور کوئی یہ کہ

رَبَّنَا اغْفِرْ مَنْ فِی الْاَرْضِ

اور کوئی

رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ

(المومنون : 119)

ترجمہ: اے میرے رب! معاف کر اور رحم کر کا ورد کر رہا تھا۔

کوئی یَا غَفُوْرُ الرَّحِیْم کا

اور کوئی یَا عَفُوٌّ یَا غَفُوْرٌ یَا سَتَّارٌ یَاغَفَّارٌ کا۔

غرض وہ لوگ طرح طرح کے جملے پڑھتے جاتے تھے اور ایک طرف سے آتے اور دوسری طرف غائب ہو جاتے تھے۔

خوشی اور طرب کا سماں

ساتھ ہی بسبب یوم مغفرت ہونے کے ایک خوشی اور طرب کا سماں اس نظارہ پر چھایا ہوا تھا۔ ہر گنہگار کے چہرہ پر آس اور امیدکا تبسم موجود تھا۔ لوگوں کے اعمال تُل رہے تھے اور ان کی کمی اور خامیاں فضل اور مغفرت کے انعامات سے پوری ہو رہی تھیں، کیونکہ آج صفت عفو و مغفرت کے مظاہرہ کا دن تھا اور حساب کتاب میں بے حد نرمی تھی۔ گو دوسری طرف کراماً کاتبین بھی اپنا کام کئے جاتے تھے۔ مالک و رضوان بھی گاہے گاہے آپس میں جھگڑ لیتے تھے اور سائقین و شہداء کی کشمکش بھی جاری تھی، مگر آج آخری فیصلہ ان تمام جھگڑوں کا بارگاہ حضرت غفور و رحیم سے ہی صادر ہونا تھا۔

میں اسی سیر میں مشغول تھا کہ غفران نے مجھے کہا ’’چل تجھے بعض لوگ دکھلاؤں جنہیں تو جانتا ہے اور ساتھ ہی بعض دلچسپ حالات مغفرت الہٰی کے بھی ملاحظہ کراؤں جن سےعام لوگ ناواقف ہیں۔ باقی یہ حشر اور حساب کتاب تو اسی طرح ہوتا رہے گا اور جس طرح آج بموجب

كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِى شَأْن

(الرحمٰن : 30)

ترجمہ: وہ ہر وقت ایک نئی حالت میں ہوتا ہے۔

صفت مغفرت کے تقاضا کا دن ہے اسی طرح کوئی دن جلال الٰہی اور انتقام کا آجاتا ہے تو کسی دن قہر و جبروت کا۔ مگر یہ سب ایام ان لوگوں کے اعمال اور حالات کے مطابق آتے ہیں جن کا حساب و کتاب ان اسمائے الہٰی کے مطابق ہونا ہوتا ہے اس عالم میں رحم کی تو کوئی حد نہیں ہاں عدل و انصاف بھی کبھی کبھی ہوتا ہے مگر ظلم کبھی نہیں ………

آ چل تجھے بعض تفصیلی باتیں مغفرت الہٰی کے متعلق دکھاؤں تاکہ تیرا ایمان اور محبت اپنے مالک اور آقا سے زیادہ ہو اور تاکہ تو جو ہمیشہ اپنے اعمال کی وجہ سے یاس اور نا امیدی میں گرفتار رہتا ہے کچھ اس عالیشان مغفرت سے بھی آگاہی پائے جو ہر گنہگار کا سہارا اور ہر عاصی کی پشت پناہ ہے اور جس کے بل پر عالمین کی پردہ پوشی اور بخشش ہو رہی ہے۔

انبیاء کا گروہ

یہ سن کر میں اور وہ آگے چلے اور مجمع کے پاس جا کھڑے ہوئے۔ یہ لوگ سب اعلیٰ کپڑے پہنے ہوئے استغفار میں مصروف تھے۔ غفران نے کہا ’’یہ انبیاء کا گروہ ہے جو دنیا سے ہی معصوم اور مغفور ہو کر یہاں آیا ہے۔‘‘

مغفرت کے نظارے

(1) ذرا اور آگے چلے تو دیکھا کہ ایک شخص کے گناہوں کا پلڑا بہت بھاری ہے اور اس کے نیک اعمال بہت کم ہیں۔ دوزخ کے فرشتے اُسے اپنی طرف کھینچنے لگے تو بارگاہ الٰہی سے آواز آئی۔

’’فلاں نیک شخص کو مع اپنے اعمال نامہ کے حاضر کرو۔‘‘

یہ کہنا تھا کہ وہ شخص وہاں موجود کر دیا گیا۔ فرمایا: ’’یہ اس گنہگار کا بیٹا ہے، اس کا اعمال نامہ بھی دیکھو‘‘ جب دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ ہمیشہ اپنے ماں باپ کے لئے دعائے مغفرت مانگا کرتا تھا۔ حکم ہوا کہ بیٹے کی ان دُعاؤں کو بھی باپ کی نیکیوں کے پلڑے میں ڈال دو۔ اُن کا ڈالنا تھا کہ پلڑا جھک گیا اور بہشت کے فرشتے اسے اپنے مونڈھوں پر بٹھا کر لے گئے۔

(2) جب ہم آگے بڑھے تو اسی طرح کا ایک اور گنہگار اپنی قسمت کو رو رہا تھا۔ حکم ہوا کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر پر کتنے مومنین نے دعائے مغفرت کی ہے؟

جب اس کا حساب لگایا گیا اور وہ دُعائیں جو محض ناواقف راہ گزروں نے اس کی قبر پر کی تھیں، وزن کی گئیں تو وہ بھی کُود تا پھاند تا مغفرت کے ملائکہ کی گود میں بیٹھ کر وہاں سے رخصت ہوا۔

(3) آگے چلے تو ایک اور گنہگار کمٔی اعمال صالحہ کی وجہ سے متأسف کھڑا تھا۔ حکم ہوا کہ جس جس شخص نے کسی قسم کی حق تلفی اس کی کی ہے یا اس کی غیبت وغیرہ کی ہے ان لوگوں کی نیکیاں ان کی حق تلفیوں اور غیبتوں کے عوض اسے دے دو۔ میں نے دیکھا کہ اوروں کی ہزاروں نیکیاں اس طرح اس شخص کے حصہ میں آگئیں اور وہ بخشا گیا۔

(4) ذرا اور آگے بڑھے تو دیکھا کہ ایک شخص وہاں بھی اپنے مالک کے پنجے میں گرفتار ہے۔ آواز آئی یہ تو فلاں کتاب کا مصنّف ہے جس کی وجہ سے کئی نسلوں نے نیکی اور اسلام سیکھا ہے۔ پس اس کتاب کے پڑھنے کی وجہ سے ہر نیکی کرنے والا نہ صرف نیکی کا ایک اجر خود پائے گا بلکہ اتناہی اجر مصنّف کو بھی ملے گا۔

چنانچہ حساب کتاب کیا گیا تو ایک لاانتہاء خزانہ باقیات الصالحات کا اس مصنف کے قبضہ میں آ گیا۔ مالک نے اپنی گرفت ڈھیلی کر دی اور رضوان کا اسسٹنٹ اسے لے کر اپنے ہاں چلا گیا۔

(5) اور آگے چلا تو دیکھا کہ ایک عورت کھڑی رو رہی ہے، اس کا اعمال نامہ بدکاری سے بھرا پڑا ہے، ایک یاس اور نا امید کی اس پر طاری ہے آواز آئی کہ

’’اس فاسقہ و فاجرہ عورت نے کوئی پسندیدہ عمل بھی کیا ہے؟‘‘

کرا ماً کاتبین میں سے ایک بولا کہ حضور! ایک دن جنگل میں سفر کر رہی تھی اور ایک کتا پیاس کے مارے زبان لٹکائے کنویں کے کنارے ہانپ رہا تھا۔ یہ اس کنویں میں اُتری، آپ پانی پیا، پھر اپنی جوتی میں پانی بھر کر سامنے لائی اور کتے کو پلایا۔

ارشاد ہو اہم نکتہ نواز ہیں، ہمیں اس کا یہ عمل اتنا پسند آیا تھا کہ ہم نے اسی وقت اسے بخش دینے کا عہد کر لیا تھا، اب ہماری مغفرت کی چادر اس پر ڈال دو اور جہاں جانا چاہتی ہے اسے لے جاؤ۔

(6) پھر آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک شور سابر پا ہے۔ ایک عا جز گنہگار ہے اور پاس ہی ایک مرصع نیکو کار۔ اس گنہگار کی بد اعمالیاں دیکھ کر وہ نیکو کار کہنے لگا کہ خدا کی قسم !تجھے خدا کبھی نہیں بخشے گا اس بات پر حاضرین میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں اور بعض لوگ کہنے لگے یہ مولانا سچ فرماتے ہیں یہ شخص ایساہی ہے۔

بار گاہِ الٰہی کی طرف سے اشارہ ہوا کہ اے شخص تو کون ہے میری مغفرت پر قسم کھانے والا؟ جاؤ ہم نے اسے تو بخش دیا اور تیری بابت فیصلہ بعد میں صادر ہو گا اور وہ شخص ہنستا کُودتا بہشت کے دروازے کی طرف بھاگا۔

(7) اسی طرح پھر ایک گروہ میں بعض آدمیوں کا حساب کتاب ہورہا تھا۔ یہ لوگ مومن تو تھے مگر ان کے اعمال نامے نیکیوں سے خالی تھے، کیونکہ گو وہ اپنے وقت کے نبی پر ایمان لائے تھے مگر عمر نے و فا نہ کی اور جلد ہی فوت ہو گئے، بعض کے اعمال صالحہ تو محض صفر ہی تھے۔ ایسے لوگوں کا فیصلہ بارگاہِ الٰہی سے اس آیت کے ماتحت کیا گیا۔

إِنَّا نَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطَايَانَآ أَن كُنَّآ أَوَّلَ الْمُؤْمِنِينَ

(الشعراء:52)

ترجمہ: ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارا رب ہمارے گناہ اس وجہ سے معاف کر دے گا کہ ہم سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے بن گئے۔
یعنی یہ چونکہ شروع میں ہی نبی کو مان گئے تھے اس لئے ان کا اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْن میں ہو ناہی ان کی مغفرت کے لئے کافی ہے، خواہ مسلمان ہو کر ایک عمل بھی نیک نہ کیا ہو۔

(8) یہاں سے ہم اور آگے بڑھے تو دیکھا کہ وہاں حضرت یعقوبؑ کی اولاد اپنی میزان پر سے نجات پا کر آرہی تھی اور ان کی نجات کا باعث دعائے بزرگان تھی یعنی ان کے باپ کی وہ دعائیں جو اِن کی درخواست

يٰأَبَانَااسْتَغْفِرْلَنَاذُنُوبَنَآإِنَّاكُنَّاخَاطِئِينَ

(یوسف:98)

ترجمہ: اے ہمارے باپ! آپ ہمارے حق میں (خدا سے) ہمارے گناہوں کی بخشش طلب کر یں۔ ہم یقیناً خطا کار ہیں۔ کے جواب میں بوعدہ

أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيۤ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

(یوسف:99)

ترجمہ: میں (ضرور) تمہارے لئے اپنے رب سے بخشش طلب کروں گا۔ یقیناً وہی ہے جو بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ کی گئی تھی۔

(9) ایک جگہ دیکھا کہ چند شخص اپنے گناہوں کی مصیبت میں گرفتار ہیں اور نجات کی شکل صورت نظر نہیں آتی ہے۔ حکم ہوا کہ اچھا بتاؤکہ اس دائیں طرف والے کا جنازہ کس کس نے پڑھا تھا؟

معلوم ہوا کہ چالیس موحد مسلمان اس کے جنازہ میں شریک ہوئے تھے۔ ارشاد ہوا کہ مالک! اسے چھوڑ دے، ہم نے ان چالیس مومنوں کی شفاعت جو انہوں نے نماز جنازہ میں اس کے لئے کی تھی قبول کرلی۔ پھر بائیں طرف والے کی باری آئی تو معلوم ہوا کہ اس کے مرنے کے بعد اس شہر کے اکثر اہل اللہ نے اسے نیکی سے یاد کیا تھا اور تعریف کی تھی کہ اچھا مسلمان آدمی تھا۔ فرمایا ان کی تعریف کی وجہ سے اسے بھی چھوڑ دو۔

پھر تیسرے کے بارے میں سوال پیدا ہوا کہ اس کا کیا حال ہے؟

فرشتوں نے عرض کیا کہ صرف دو مومن تھے جو اسے مرنے کے بعد نیک اور اچھا کہتے تھے۔ ارشاد ہوا چلو اسے بھی جانے دو۔

چوتھے گنہگار کی بخشش اس لئے ہو گئی کہ اس کے جنازہ میں تین صفیں مسلمانوں کی تھیں۔

پھر اور آگے چلے تو دیکھا کہ ایک گنہگار مسلمان اس لئے رہائی پا گیا کہ اس کے تین بچے اس کی زندگی میں ہی فوت ہوگئے تھے۔ اور ایک مومن عورت صرف ایک بچہ کی موت کا صدمہ اٹھانے کی وجہ سے بخش دی گئی۔

ایک میاں بیوی نظر آئے، ان کا حساب کتاب ہو رہا تھا، اتنے میں ایک دو برس کا بچہ دوڑتا ہوا کہیں سے آ گیا اور کہنے لگا کہ یہ میرا باپ ہے اور یہ میری ماں۔ مَیں جنت میں نہیں جاؤں گا جب تک ان دونوں کو ساتھ نہ لے جاؤں۔ حاضرین کی آنکھوں میں یہ نظارہ دیکھ کر آنسو آگئے۔

اتنے میں ایک اور والدین کا مقدمہ پیش ہوا اور اس کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا بچہ ،جس کے آنول نال بھی اس کے ناف کے ساتھ ہی تھے، چیخنے چلانے لگا اور کہنے لگا اے رب! میں اسقاط شده بچہ ہوں اور تیرے فضل سے مجھے جنت میں رہنے کی اجازت ملی ہے۔ مگر میں ہر گز وہاں اپنے ماں باپ کو دوزخ میں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔

حکم ہوا کہ تیری خاطر ہم نے ان کی مغفرت کر دی، لے جا ان کو بھی جنت میں۔ وہ بچہ بھی اپنی آنول نال کے ساتھ اپنے والدین کو کھینچتا ہوا جنت کی طرف لے گیا اور سب دیکھنے والے چشم پُر آب تھے۔

(10) پھر ہم آگے چلے۔ ایک شخص کے اعمال نامہ میں کچھ کسر تھی۔ وہ اس طرح پوری کی گئی کہ چونکہ وہ اپنے بزرگ والدین کی قبر کی ہر جمعہ کے دن زیارت کرتا تھا اس لئے اُسے چھوڑ دیا گیا۔ دائیں طرف ایک ایسا جم غفیر نظر آیا، جس کے لوگ اپنے اعمال کے وزن کی رُو سے بہت ناقص ثابت ہوئے تھے، مگر ان سب کی بخشش اس لئے ہوئی کہ ایک دفعہ آنحضور صلی الله علیہ وسلم تمام رات صبح تک کھڑے یہ دُعا فرماتے رہے تھے۔

إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

(المائدہ:119)

ترجمہ: اگر تُو انہیں عذاب دینا چاہے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تُو انہیں بخشنا چاہے تو تُو بہت غالب (اور) بڑی حکمتوں والا (خدا) ہے۔ پس اس دُعا کی مقبولیت کے نتیجہ میں امت محمدیہ کے یہ سب لوگ نجات پاگئے۔

(11) وہاں سے چلتے چلتے ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں ایک قاتل کھڑا تھا۔ اس کی بابت یہ سنا کہ اس شخص نے ننانوےخون کئے تھے اس کے بعد اس کے دل میں توبہ کی خواہش پیدا ہوئی اور وہ ایک راہب کے پاس گیا اور کہا ’’میری توبہ قبول ہو سکتی ہے یا نہیں؟‘‘ راہب نے جواب دیا ’’ہر گز نہیں‘‘ اور اس نے غصہ میں آکر راہب کو بھی مار ڈالا۔ پھر وہ آگے چلا لوگوں نے اسے ایک بزرگ کا پتہ دیا کہ شاید وہاں تیری توبہ کی کوئی صورت نکلے۔ یہ قاتل اس گاؤں کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں ایک جگہ وہ قضائے الٰہی سے مر گیا۔ اس پر رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں جھگڑا ہوا۔ عذاب کے فرشتے کہتے تھے کہ یہ ایک ظالم ڈاکو اور قاتل ہے اور دوسرے کہتے تھے کہ ہاں یہ ٹھیک ہے، مگر یہ تو توبہ کرنے والا تھا۔ غرض ایک ہنگامہ اس امر پر برپا تھا۔

میں نے سنا کہ بارگاہِ الوہیت سے فرمان صادر ہوا کہ بتاؤ اس کی نعش میں اور اس کے وطن میں کتنا فاصلہ تھا؟ اسی طرح اس کے مرنے کی جگہ میں اور اس بزرگ کے شہر میں کتنا فاصلہ تھا؟

حضرت میکائیل کے محکمہ سے رپورٹ ہوئی کہ اس کی نعش اس بزرگ کی بستی سے بقدر ایک بالشت نزد یک تھی۔

ارشاد ہوا۔ ہم نے اس کی توبہ قبول فرمائی اور اسے بخش دیا، اس پر ہماری مغفرت کی چادر ڈال دو۔‘‘

(12) پھر اور آگے چلے۔ ایک جگہ ایک بہت بڑے گنہگار کا مقدمہ پیش ہو رہا تھا۔ کراماً کاتبین نے عرض کیا۔ یا الٰہ العالمین !یہ شخص دن کو تو گناہ کرتا تھا اور رات کو روتا تھا کہ اے میرے رب! میں نے قصور کیا ہے، مجھے معاف فرما۔ اس پر حضور کے ہاں سے اس کا قصور معاف فرمایا جاتا اور ارشاد ہوتا میرا یہ بندہ جانتا ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہوں کو معاف کر سکتا ہے اور ان کے سزا دینے پر بھی قادر ہے۔ سو اے فرشتو! گواہ رہو میں نے اسے بخش دیا۔

اس کے کچھ دن بعد وہ پھر گناہ کرتا تھا اور رات کو پھر اسی طرح دُعا کرتا تھا کہ خدایا میرے گناہ بخش دے اس وقت دوباره احدیت سے یہ حکم صادر ہو تا تھا کہ میرایہ بندہ یقین رکھتا ہے کہ میں اس کے گناہ پر گرفت بھی کر سکتا ہوں اور اسے معاف کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہوں، سو تم گواہ رہو کہ میں نے اسے پھر بخش دیا۔

کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وہ پھر گناہ کرتا تھا اور بعد میں اسی طرح پھر توبہ استغفار کر تا تھا اور حضور یہی ارشاد فرماتے تھے کہ میرا یہ بندہ یقین رکھتا ہے کہ میں اس کے گناہ پر پکڑ بھی سکتا ہوں اور اسے معاف بھی کر سکتا ہوں۔

پسں اسی طرح یہ شخض عمر بھر گناہ کرتا رہا اور اس کا اعمال نامہ سیاہ ہوتا رہا۔ اب جو کچھ ارشاد ہو کیا جائے۔

فرمایا کہ مَیں نے تو تین دفعہ کے بعد ہی کہہ دیا تھا۔

غَفَرْتُ لِعَبْدِی فَلْيَفْعَلْ مَا شَاءَ

میں نے اپنے بندہ کو بخش دیا، اب جو جی چاہے کرے۔

کیا یہ حکم ریکارڈ میں نہیں آیا؟ آخر ڈھونڈنے سے اس فرمان کی نقل بخاری اور مسلم میں مل گئی اور اس ملزم کی خلاصی ہوئی۔

(13) اور آگے بڑھے تو دیکھا کہ ایک شخص کا مقدمہ پیش ہے کرام الکاتبین نے عرض کیا۔

علاوہ اور قسم کے گناہوں کے اس پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ جب میں مر جاؤں تو میری نعش کو جلا کر آدھی راکھ ہوا میں اُڑا دینا اور آدھی سمندر میں ڈال دینا، کیونکہ خدا کی قسم! اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر گرفت کی تو مجھے ایسا عذاب ملے گا کہ مجھ سے پہلے کسی کو نہ ملا ہو گا۔

’’خیر کچھ مدت کے بعد وہ شخص مر گیا اور لڑکوں نے اس کی وصیت پر عمل کر دیا ۔جزا کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے وہ پھر زندہ کیا گیا ہے اس کی بابت کیا فرمان ہے؟‘‘

ارشاد ہوا

’’اس سے پوچھو کہ تو نے ایسا کام کیوں کیا؟‘‘

وہ شخص کہنے لگا ‘‘میرے خداوند ! میں نے کبھی کوئی نیک عمل نہیں کیا اور ہمیشہ بد عملیوں ہی میں مصروف رہا۔ اس لئے اے رب! میں نے یہ بات تیرے ڈر کے مارے کی اور تُو خود سب حقیقت جانتا ہے۔‘‘

حضور باری نے یہ سن کر فرمایا ’’یہ سچ کہتا ہے، اسے چھوڑ دو۔ اس کے دل میں ضرور میر ا حقیقی تقویٰ اور خوف موجود تھا۔‘‘

(14) ایک طرف کچھ آدمی خوش خوش جنت کی سڑک پر جارہے تھے۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ تمہاری نجات ہو گئی؟

کہنے لگے ”ہاں“ پوچھا کیونکر؟ کہنے لگے کہ جب ہم کو ذاتِ باری نے مصیبت میں مبتلا دیکھا تو فرمایا میرا تو ان لوگوں سے وعدہ ہے کہ ان کو جنت میں داخل کروں گا۔

مَیں نے کہا یہ وہ وعدہ کیا تھا؟کہنے لگے کہ حضور احدیت نے اپنے رسول کی معرفت ہم سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ مَنْ كَانَتْ لَہٗ اُنْثٰى فَلَمْ يُؤَدهَا وَلَمْ يُهْنهَا وَلَمْ يُؤثِر وَلَدَهٗ عَلَيْهَا يَعْنِیْ الذُّکُورَ اَ دْ خَلَہٗ اللّٰهُ الْجَنَّۃَ

’’جس شخص کی ایک بیٹی ہو، پھر نہ وہ اسے زندہ گاڑ دے اور نہ ذلیل رکھے اور نہ تر جیح دے اس پر اپنے بیٹوں کو تو الله اُسے جنت میں داخل کرے گا۔‘‘

پس اس بات پر عمل کی وجہ سے ہم پر خدا کا فضل ہو گیا ہے۔

(15) اسی طرح ایک عورت کو دیکھا کہ باوجود اس کے کہ اس کی عبادتیں یعنی روزے، نمازیں اور صدقے بہت ہی کم تھے، تاہم اس لئے جنتی ہو گئی کہ وہ اپنے ہمسایوں کو اپنی زبان سے کبھی کوئی تکلیف نہ دیتی تھی اور سب اس سے خوش تھے۔

(16) غرض ہم اسی طرح چلتے رہے یہاں تک کہ ایک عظیم الشان گر وہ شہداء کا دیکھا جن کی گنتی اور حد وبست خیال و وہم سے بالاتر تھی۔

غفران نے بتایا کہ ان میں سے تلوار سے خدا کی راہ میں شہید ہونے والے بہت کم ہیں۔ مگر خدا تعالیٰ کی مغفرت اور رحم نے شہید بنانے کے لئے اور بہت سے سامان محض اپنے فضل سے پیدا کر دیئے۔ مثلاً جو شخص خدا کے دین کی خدمت کے کسی کام میں بغیر تلوار کے بھی اپنی موت مر جائے وہ بھی شہید ہے۔

  • جو اپنے مال کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ بھی شہید ہے۔
  • جو مومن طاعون سے مر جائے وہ بھی شہید ہے۔
  • جو عورت بچہ جن کر مرے وہ بھی شہید ہے۔
  • جو ذات الجنب سے مرے وہ بھی شہید ہے۔
  • جو دستوں کی بیماری سے مرے وہ بھی شہید ہے۔
  • جو دب کر مرے وہ بھی شہید ہے وغیرہ وغیرہ۔

غرض شہادت، مغفرت اور بلندیٔ درجات کے ایسے بہت سے راستے کھول دیئے ہیں کہ اگر مومن خدا کا شکر کرتے کرتے مر بھی جائیں تو بھی اپنے مالک کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ یہاں تک کہ جو شخص شہادت کے لئے دعا مانگتا ہے پھر خواہ اپنے بستر پر ہی اس کی جان نکلے وہ بھی شہید ہی شمار ہوتا ہے۔


(حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیلؓ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 مارچ 2020