• 14 مئی, 2024

مکرم مولانا غلام احمد فرّخ کی یادیں

مولانا غلام احمد فرخ 1917ء میں قادیان کے قریب ایک گاؤں تھہ غلام نبی میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کے والد کا نام میاں غلام قادر تھا جو صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے ۔دینی تعلیم مدرسہ احمدیہ قادیان میں حاصل کرنے کے بعد 1937ء میں میدان جہاد میں اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور پھر 44 سال تک تک مسلسل بے نفس ہو کر خدمتِ دین کرتے رہے اور اپنے بھائی مولانا غلام حسین ایاز کی طرح میدانِ جہاد میں ہی 17 اور 18۔اپریل 1981ء کی درمیانی شب وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن

میرےوالد مکرم چوہدری شریف احمد اکثر ہمیں یہ واقعہ سنایا کرتے تھے کہ تقسیم سے قبل جب وہ میرے ماموں مکرم مسعود احمد کی بارات کے ساتھ چک 99 شمالی کے لئے سفر کر رہے تھے،اسی ٹرین میں محترم مولانا صاحب بھی سفر کر رہے تھے ۔آپ تبلیغی گفتگو کرتے رہے۔ بعدازاں جب آپ سو گئے تو ایک شخص نے آپ پر قاتلانہ حملہ کر دیا جس سے آپ زخمی ہوگئے۔ قریبی اسٹیشن پر گاڑی رُکی تو ہمیں بھی اطلاع ہوگئی۔ مکرم والد صاحب بتاتے تھے کہ میں نے اپنا پنجاب کا سفر موقوف کردیا اور سکھر میں محترم مولانا صاحب کے ساتھ اتر گیا۔ جب ان کی طبیعت سنبھل گئی تو ان کی اجازت سے میں دوسری ٹرین کے ذریعہ منزلِ مقصود کی طرف روانہ ہوا۔

آپ ہر فرد جماعت سے ذاتی تعلق رکھتے تھے اور جہاں ایک بھی احمدی رہتا ہو وہاں آپ پہنچتے تھے۔ ہم نے ایسا بھی دیکھا کہ بارش ہو رہی ہے، ہر طرف کیچڑ ہے اور حضرت مولانا صاحب پیدل آرہے ہیں ۔انہوں نے ایک مجاہدانہ زندگی بسر کی اور دن رات ایک ہی دھن تھی ؎

کام مشکل ہے منزلِ مقصود ہے دُور
اے میرے اہل وفا سست کبھی گام نہ ہو

دُور دراز کے سفر سے تھکے ہوئے آتے تو اپنا سائیکل لیتے اوربیت الظفر پہنچ جاتے۔ نماز سے پہلے تشریف لاتے اور احباب کے ساتھ دینی اُمور کے بارے میں بات چیت کرتے ۔جماعتوں کے دوروں پہ جاتے ہوئے کسی نوجوان یا فرد ِجماعت کو ساتھ لے لیتے۔ ایک دفعہ ایک جماعت میں گئے تو مجھے ساتھ لے گئے اور وہاں پہنچ کر مجھے کہا کہ آپ نے بھی کچھ کہنا ہے، چاہےاخبار یا رسالے سے کوئی مضمون پڑھ دیں۔ یہ ان کا تربیت کرنے کا انداز تھا جس سے ہم ساری زندگی مستفید ہوئے۔

محترم مولانا صاحب کو لمبا عرصہ سندھ کے اضلاع میں خدمت کا موقع ملا۔ آپ نے سندھ میں جماعتوں کے قیام اور ان کی تعلیم و تربیت کے حوالہ سے بہت نمایاں کام کیا۔ محترم حاجی عبدالرحمن ڈاہری نے اپنے مضمون ’’محترم مولانا غلام احمد فرخ کی یاد میں‘‘ تحریر فرمایا۔

’’اے سرزمین سندھ کے احمدی باشندو! تم اُن کے احسان کو کبھی فراموش نہ کرنا اور جب تک زندہ رہو، اُن کے لئے بلندی درجات کی دُعائیں کرنا کیونکہ یہ پیارا انسان تمہارے حق میں ایک نعمت غیر مترقبہ کا مقام رکھتا ہے۔ جس خلوصِ نیت، محبت، خُوش خُلقی اور دَرد و دلسوزی، حسن و احسان سے اُس نے تمہیں احمدیت کے نور سے روشناس کرایا اور شرک کے اندھیروں سے نکال کر اللہ تعالیٰ کے آستانۂ وحدت پر لاجھکایا۔ یہ اُس کا ہی حصہ تھا بفضل اللہ تعالیٰ‘‘

(الفضل 7 مئی 1981ء)

مولانا نے سندھ میں رہتے ہوئے سندھی زبان پر عبور حاصل کیا اور سندھی میں کئی کتابوں کے تراجم کئے۔ ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے بھی آپ کی تقاریر نشر ہوتی رہیں جو بڑے شوق سے سنی جاتی تھیں اور پسند کی جاتی تھیں۔ آپ نے کئی نسلوں کی تربیت میں حصہ لیا۔ جماعت احمدیہ ’’مسن باڈہ‘‘ ضلع لاڑکانہ نے اپنی تعزیتی قرارداد میں ذکر کیا ہے کہ خود مولانا نے اپنی ایک تقریر میں اظہار کیا کہ انہوں نے ’’مسن باڈہ کی چوتھی نسل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے‘‘۔

آپ نے کمال فدائیت سے خدمت کی ہے۔ حضرت مولانا اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ اسلامی شعار کی پابندی کراتےتھے اور اس سلسلےمیں کوئی لچک روا نہ رکھتے تھے۔ اجلاسات میں سب تنظیموں کی حاضری کو یقینی بناتے۔ اپنے خطابات اور بات چیت میں بعض اوقات لطائف بھی سناتے۔ آپ کی باتیں پُر اثر ہوتی تھیں۔ جماعتوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ آپ انفرادی طور پر کردار کی تعمیر پر بھی توجہ دیتے تھے۔ اس سلسلے میں خاص طور پر بچے اور نوجوان آپ کے سے زیادہ پیشِ نظر رہتے تھے ۔سر پر رومال باندھ کر نماز پڑھنے کو ناپسند کرتے تھے اور موقع پر ہی رہنمائی کرتے تھے۔رشتہ ناطہ کے معاملات کو بھی حل کر دیتے تھے۔ افراد جماعت میں بھی آپ کے لئے احترام اس قدر تھا کہ آپ کی بات کو ٹالتے نہیں تھے۔

جماعتی عہدیداران اور امراء اضلاع سے آپ کا تعاون مثالی تھا۔ آپ خود تو کثرت سے جماعتوں میں جاتے رہتے تھے۔ امرائے اضلاع سے مل کر اکٹھے بھی دورہ جات کرتے جس سے سندھ میں جماعتی نظام مضبوط بنیادوں پر قائم ہونے میں بہت مدد ملی۔ آپ نے 1937ء میں اپنی مجاہدانہ زندگی کا آغاز کیا۔ آپ کو سیالکوٹ، کراچی، کوئٹہ، سکھر، حیدرآباد اور سندھ کے مختلف علاقوں میں خدمت کی توفیق ملی۔ 1972ء سے 1976ء تک جزائر فجی میں خدمت کی توفیق پائی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو زمین کے کناروں تک پہنچانے والوں کی صف میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ آپ جہاں بھی رہے مخلصانہ جہدِ مسلسل سے جماعتوں میں بیداری کی لہر دوڑادی۔ آپ عالم با عمل تھے۔ اپنی شبانہ روز مصروفیات کے ساتھ ساتھ عبادات کا گہراذوق تھا۔ دُعاگو اور تہجد گزار تھے۔ احباب جماعت سے نہایت درجہ شفقت کا سلوک فرماتے تھے۔ آپ کی شخصیت پُر وقار اور با رُعب تھی۔ آپ خُوش خُلق، پرہیزگار اور تقویٰ شعار بزرگ تھے۔ آپ نے خود کو وقف زندگی کے تقاضوں سے اس طور ہم آہنگ کر لیا تھا کہ کوئی چیز آپ کی مجاہدانہ زندگی کی راہ میں حائل نہیں ہوئی۔ آپ اپنے اوقات اور روزمرہ کاموں کو اس طرح ترتیب دیتے تھے کہ وقت کا کوئی حصہ ضائع نہ ہو۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 22 ۔اکتوبر 2010 ءکے خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا۔

’’پس یہ لوگ تھے جنہوں نے وقفِ زندگی اور قناعت کا حق ادا کیا۔‘‘


(منصور احمد کاہلوں۔ آسٹریلیا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 مارچ 2020