• 13 مئی, 2024

کشمیر کی پہلی جنگِ آزادی کا ایک اہم ورق

اڑی سیکٹر (کشمیر) کا معرکہ (جولائی 1948ء) اور پہلا نشانِ حیدر
بریگیڈیئر اکبر خان اور میجر جنرل نذیر احمد ملک کا جرأتمندانہ فیصلہ اور کامیاب کارروائی

3جون 1947ء کے اعلان کے بعد برصغیر کی تقسیم کے نتیجہ میں بھارت اور پاکستان دو الگ الگ ملک معرضِ وجود میں آئے لیکن اس کے جلد بعد جب ریاستوں کے الحاق کے متعلق قاعدے اور اصول کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت نے ریاست جموں و کشمیر پر زبردستی قبضہ جمانا چاہا تو کشمیر کی پہلی جنگ آزادی (1947-48ء) کی ابتداء میں پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے (اب کے۔پی۔کے) کے جری قبائلی محاذ پر پہنچے اور زبردست یلغار کرتے ہوئے ان کے بعض دستے سری نگر کے بالکل قریب پہنچ گئے ۔ لیکن کچھ معتبر ذرائع کی تحقیق کے مطابق ان قبائلیوں کے کمانڈر میجر خورشید انور کی غلطی اور تساہل کے باعث ان لوگوں کو کافی دور تک پسپا ہونا پڑا۔ بعد میں بہرحال کشمیر میں جنگ جاری رہی۔ جس کے نتیجہ میں یکم جنوری 1948ء کو بھارت اپنی شکایت لے کر اقوام متحدہ میں پہنچ گیا۔

جناب حسن ظہیر کی تفصیلی کتاب ’’راولپنڈی سازش 1951ء‘‘ سے کچھ اہم مندرجات

مندرجہ بالا کتاب وطنِ عزیز کے سابق مرکزی سیکرٹری اور اہل علم و قلم حسن ظہیر کی انگریزی تصنیف کا ترجمہ ہے جو سہیل انجم نے کیا اور 2002ء میں اسے آکسفرڈ یونیورسٹی پریس (کراچی) نے شائع کیا۔ قابل مصنف نے متذکرہ کتاب میں مختلف موضوعات اور مندرجات کو متعدد کتابوں اور دستاویزات کے حوالوں سے واضح کیا ہے۔ یہاں کچھ اہم مندرجات اور اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں۔

بھارتی حکومت کی درخواست اور پاکستان کا بھرپور جواب جناب حسن ظہیر اپنی متذکرہ کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

’’یکم جنوری 1948ء کو بھارتی حکومت نے اقوام متحدہ سے اس کے منشور کی شق 35کے تحت رجوع کیا جس میں سلامتی کونسل سے درخواست کی گئی کہ وہ پاکستان سے کشمیر میں حملہ آوروں کی مدد روکنے کو کہے کیونکہ یہ مدد بھارت کے خلاف جارحیت ہے، اگر پاکستان ایسا نہ کرے تو بھارتی حکومت مجبور ہو گی کہ ذاتی دفاع میں حملہ آوروں کے خلاف فوجی اقدام کے لئے پاکستان کے علاقے میں داخل ہو جائے۔‘‘

(صفحہ128- 127)

’’اقوام متحدہ سے رجوع کرنے کے نتائج بھارت کی توقع سے مختلف نکلے۔ پاکستان کو کشمیر میں مداخلت کرنے پر جھڑکی تو کیا ملتی، وہ سلامتی کونسل کی توجہ کشمیری عوام کی خواہشات معلوم کرنے کی طرف مبذول کرانے میں کامیاب ہو گیا۔‘‘

(صفحہ 128)

(راقم عرض کرتا ہے کہ سلامتی کونسل میں پاکستان کی جانب سے بھارت کے دلائل اور جارحانہ موقف کا مدلل اور مسکت جواب پاکستان کے وزیر خارجہ حضرت چوہدری سر محمد ظفراللہ خان دے رہے تھے اور چوہدری صاحب نے ہی کشمیریوں کے حق خودارادیت کے سلسلے میں یو این کی قراردادیں منظور کرائیں۔) جناب حسن ظہیر مزید لکھتے ہیں:

’’سلامتی کونسل سے ترت کارروائی کی اور فریقین کے موقف سننے کے بعد (اپریل) 1948ء کو منظورہ کردہ قرارداد کے ذریعے اقوام متحدہ کمیشن برائے بھارت اور پاکستان (یواین سی آئی پی) قائم کیا۔ یہ تین ارکان پر مشتمل تھا جن کی تعداد بعد میں بڑھا کر پانچ کر دی گئی۔ سلامتی کونسل میں بحث چلتی رہی اور…ایک جامع مسودہ قرار داد اس کے صدر جنرل مک ناٹن نے پیش کی جس میں منصفانہ استصواب رائے کے لئے بھرپور حفاظتی انتظامات کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔‘‘

(کتاب’’راولپنڈی سازش 1951ء‘‘ صفحہ 128-127)

کمانڈر انچیف پاکستان آرمی کی اطلاعات

’’20۔اپریل 1948ء کو پاکستان آرمی کے کمانڈر انچیف نے حکومتِ پاکستان کو مطلع کیا کہ بھارت کشمیر میں حملے کے لئے فوج میں اضافہ کر رہا ہے اور یہ 17 جنوری کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی صاف خلاف ورزی ہے جس میں دونوں حکومتوں کو کوئی ایسا قدم اٹھانے سے اجتناب کی ہدایت کی گئی تھی جو صورتحال کو مزید خراب کرے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ کشمیر میں بھرپور جارحانہ کارروائی کے لئے بھارتی فوج میں اضافہ فروری 1948ء کے اواخر میں بہت تیزی سے شروع ہوا۔… کمانڈر انچیف نے سفارش کی کہ یہ از بس ضروری ہے کہ بھارتی فوج کو اڑی پونچھ نوشہرہ کے عمومی خط سے آگے پیش قدمی نہ کرنے دی جائے۔‘‘

(صفحہ129 اور 130)

حکومت پاکستان کا فیصلہ

’’حکومت پاکستان نے سفارش قبول کر لی اور پاکستان آرمی کو حکم دیا کہ کشمیر میں جا کر آزاد افواج کے زیر قبضہ علاقے کا دفاع کریں اور بھارتیوں کو پاکستان کی سرحدوں میں اچانک داخل نہ ہونے دیں۔… پاکستانی فوجی دستے داخل ہوئے تو کشمیر کی کارروائیوں کی پوری کمان پاکستان جی ایچ کیو منتقل ہو گئی اور آزاد جی ایچ کیو کو ختم کر دیا گیا۔‘‘

(صفحہ130)

101 – بریگیڈ راولپنڈی پہنچا دیا گیا
اپریل کے اواخر میں اکبر خان کو حکم دیا گیا کہ جلد از جلد 101 بریگیڈ کو سڑک کے راستے راولپنڈی پہنچائیں۔… اگلے روز تک بریگیڈ راولپنڈی پہنچ چکا تھا اور اوجھڑی کیمپ میں اکٹھا ہو گیا۔… بریگیڈ کی تفصیلات بتاتے ہوئے اکبر خان کہتے ہیں کہ راولپنڈی سے 10 مئی کو ڈویژنل کمانڈر نے میرے بریگیڈ کے بعض حصے اڑی سیکٹر میں مخصوص مقامات پر قبضے کے لئے بھیجے۔‘‘

(صفحہ130)

میجر جنرل نذیر احمد ملک

اڑی سیکٹر میں بھارتی کارروائی

بھارتی کارروائی 18 مئی کو شروع ہوئی اور اس نے اڑی سیکٹر میں تین حملے کئے،ایک حملہ دریائے جہلم کے دونوں جانب اور ایک شمال میں ٹیٹوال کی سمت۔ 20 مئی کو دوپہر تک تشویشناک خبریں آنے لگیں… بھارتی اڑی اور چکوٹھی کے درمیان کسی جگہ پہنچ گئے تھے۔ آزاد (افواج) پسپا ہو کر بکھر گئیں۔ اکبر خان نے وہ بٹالین واپس مانگی جو ان کے بریگیڈ سے لے لی گئی تھی اور شام کو … محاذ کی طرف روانہ ہو گئے۔‘‘

(صفحہ131)

’’یکم جون کو کشمیر کی صورتحال کے بارے میں حکومت کو دی گئی بریگیڈیئر شیر خان کی رپورٹ میں اڑی سیکٹر کی خراب تصویر پیش کی گئی۔… رپورٹ میں سب سے زیادہ تشویش اڑی ٹیٹوال سیکٹر پر ظاہر کی گئی تھی جہاں اصل کارروائی ہو رہی تھی۔ دریائے جہلم کے شمال میں بھارتی فوج چار بٹالین کا بریگیڈ لے کر بڑھی تھی اور ٹیٹوال پر قبضہ کر لیا تھا۔ … ٹیٹوال میں بھارتی فوج ہر چند کہ فضائی کمک پر قائم تھی لیکن وہ مظفرآباد کے لئے بہت سنگین خطرہ تھی۔ زبردست نقل و حرکت ہو رہی تھی اور پاکستانی فوج بھاری نقصانات کے ساتھ پسپا ہو رہی تھی۔’’

(صفحہ 131)

آخر 101 بریگیڈ نے دشمن کی پیش قدمی روک دی
’’بھارتی دریا جہلم کے جنوب میں بڑی سڑک کے ساتھ دفاع توڑتے ہوئے بارہ میل تک گھس گئے تھے اور 101 بریگیڈ نے انہیں چکوٹھی پر روک دیا تھا۔‘‘

(صفحہ132)

آگے چل کر لکھا ہے: ’’بہرحال جون کے آخر تک بھارتی پیش قدمی مکمل طور پر رک گئی جس کا بڑا سبب یہ تھا (کہ) مظفرآباد کی طرف گامزن (بھارتی۔ناقل) فوجی دستے چکوٹھی سے آگے نہیں بڑھ پا رہے تھے۔ اس لڑائی کے مختلف تذکروں سے اس امر میں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ بھارتی پیش قدمی کو روکنے کا سہرا اکبر خان کو جانا چاہئے۔ زمین، قبائلیوں، بے قاعدہ رضاکاروں، مختلف تدابیر اور دستیاب ساز و سامان کے موثر استعمال سے اور سب سے بڑھ کر اپنے جوانوں اور افسروں کی دلیرانہ قیادت کرتے ہوئے اکبر خان نے نامساعد حالات میں لڑائی جیتی۔‘‘

(صفحہ133)

میجر جنرل نذیر احمد کی کمان اور پنڈو پہاڑی پر قبضہ کی منظوری

یہ جولائی (1948ء۔ناقل) کا واقعہ ہے… پنڈو پہاڑی کی ڈھلان پر دریا کے دوسری جانب بھارت کی پہاڑی گنیں نظر آرہی تھیں اور چکوٹھی میں آزاد افواج پر اور عقب میں سڑک پر پانچ میل تک غالب پوزیشن میں تھیں۔ اب میدان جنگ کی کمان میجر جنرل نذیر احمد (پہلے احمدی جرنیل۔ ناقل) کے زیر کمان پشاور میں 9 ڈویژن کو منتقل ہو چکی تھی۔ ڈویژنل کمانڈر کی منظوری سے 9ہزار فٹ کی بلندی پر پنڈو گاؤں پر قبضہ کرنے کی تیاریاں شروع کر دی گئیں۔

(’’راولپنڈی سازش 1951ء‘‘ صفحہ133)

اکبر خان کی کتاب سے حیرت انگیز تفصیل

اب یہ سارا ماجرا اکبر خان کی انگریزی کتاب Raiders in Kashmir جس کا ترجمہ جنگ 1965ء کے مشہور وقائع نگار اور مصنف عنایت اللہ نے بعنوان ’’کشمیر کے حملہ آور‘‘ کیا ہے، سے پڑھتے ہیں: متذکرہ کتاب میں اکبر خان بتاتے ہیں:

’’ہندوستانیوں کا حملہ تو ختم ہو گیا تھا لیکن اوڑی فرنٹ پر ابھی لڑائی ختم نہیں ہوئی تھی… دونوں طرف جانی نقصان ہو رہا تھا۔ ہمارے لئے ضروری ہو گیا تھا کہ دفاعی مورچوں کو بہتر بنا لیں۔ پانڈو پہاڑی کی ایک ڈھلان پر دشمن کے مونٹین توپخانے کی ایک سیکشن، دریا کی دوسری طرف ایسی جگہ پوزیشن میں تھی کہ گزشتہ تین ہفتوں سے چکوٹھی اور اس کے پیچھے سڑک کی پانچ میل لمبائی مسلسل گولا باری کی زد میں تھی۔ یہ سیکشن چونکہ بلندی پر تھی اس لئے رات کے وقت بھی ہماری نقل و حرکت محفوظ نہیں تھی۔ ان توپوں کو ختم کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا گیا تھا۔ نہ ان پر الگ تھلک حملہ کیا جا سکتا تھا۔ یہی ایک طریقہ تھا کہ پانڈو پہاڑی پر قبضہ کیا جائے۔ ہمارے آدمی یہی چاہتے تھے لیکن یہ بہت کٹھن مہم تھی جس کے لئے ہمارے پاس ذرائع نہیں تھے اور یہ مہم ہمارے رول میں بھی نہیں تھی کیونکہ ہمارا رول دفاعی تھا۔ تاہم ڈویژن کمانڈر نے اجازت دے دی۔‘‘

(کتاب ’’کشمیر کے حملہ آور‘‘ صفحہ154)

پانڈو گاؤں کا تعارف اور محل وقوع

’’پانڈو ایک گاؤں کا نام ہے جو اس نو ہزار فٹ بلند پہاڑی پر واقع ہے۔ پہاڑی کا نام بھی پانڈو ہے جو دراصل ایک پہاڑی نہیں بلکہ وسیع علاقے پر پھیلا ہوا سلسلۂ کوہ ہے۔ بِب ڈوری (گاؤں۔ناقل) کی چوٹی پر کھڑے ہو کر دشمن کی طرف دیکھو تو پانڈو سامنے نظر آتا ہے۔ دائیں طرف تین ہزار فٹ نیچے دریائے جہلم نظر آتا ہے۔ دریا کے پار سڑک نظر آتی ہے جو پہاڑوں کے پہلوؤں کو کاٹ کر گزرتی ہے۔ سڑک سے دور پرے سات آٹھ ہزار فٹ بلند پہاڑیاں ہیں۔ … اگر سامنے دیکھیں تو پہاڑیوں کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے جو دریا کے متوازی ہے۔ اس سلسلہ کوہ کے درمیان پانڈو گاؤں واقع ہے جو برسات کے موسم میں دھند یا بادلوں میں چھپا رہتا ہے۔‘‘

(کتاب ’’کشمیر کے حملہ آور‘‘ صفحہ154)

پانڈو کی غیرمعمولی اہمیت

اکبر خان اپنی متذکرہ کتاب میں واضح کرتے ہیں:

(صفحہ158)

’’اس علاقے کو جو جنگی اہمیت حاصل تھی اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ہم نے اسے جو ’’کوڈ‘‘ نام دیا تھا وہ ’’دہلی‘‘ تھا۔ بعد میں انکشاف ہوا تھا کہ ہندوستانیوں نے اسے جو ’’کوڈ‘‘ نام دیا، وہ ’’کراچی‘‘ تھا۔ … اس علاقے میں دشمن کی نفری ہماری نسبت بہت زیادہ تھی۔ لہٰذا ہماری کامیابی کا دارومدار اس چال پر تھا کہ ہم کسی ایسے مقام پر حملہ کریں جو دشمن کے لئے اہم اور نازک ہو اور جہاں وہ اپنی تمام نفری کو لڑانے کے لئے نہ لا سکے۔ پانڈو کا گاؤں ہی ایسا ایک مقام تھا جو ہماری چال کے لئے موزوں تھا۔ اس گاؤں میں دشمن کا ہیڈ کوارٹر تھا جو اس تمام علاقے میں مورچہ بند ہندوستانی فوج کا دماغ اور ذہن تھا۔… لہٰذا ہمارا ابتدائی اور بنیادی کام یہ تھا کہ ایسا راستہ دیکھیں جو ہمیں کہیں تصادم کے بغیر پانڈو کے قریب لے جائے۔‘‘

(صفحہ160)

حملے کے لئے سنسنی خیز اقدامات

’’رَیکی (دیکھ بھال) سے یہ امید بندھ گئی کہ ایسا راستہ مل سکتا ہے لیکن یہ ایسا آپریشن تھا جس میں ہمیں دشمن کے سامنے سے رات کے وقت چوری چھپے اور دبے پاؤں گزرنا تھا۔ ہمیں اس کی پوزیشنوں کے درمیان خاصا فاصلہ طے کرنا اور تاریکی میں چھ ہزار فٹ بلندی چڑھنی تھی اور اس کے بعد حملے سے پہلے کچھ دیر کے لئے کہیں آرام بھی کرنا تھا۔ یہ سب کچھ صرف ایک رات میں نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کے لئے دو راتیں درکار تھیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں دو راتیں اور ایک دن دشمن کے علاقے میں اس کے اگلے مورچوں کے عقب میں رہنا تھا اور یہ بھی کہ ہمیں اپنے آپ کو مکمل طور پر چھپائے رکھنا تھا۔ اس طرح ہمیں چھتیس گھنٹوں کے لئے بہت خطرہ مول لینا تھا۔ ہمارا سراغ مل جانے کی صورت میں دشمن ہمیں اپنے مرکز سے کاٹ دیتا اور ہم پکڑے بھی جا سکتے تھے۔ میں نے یہ خطرہ قبول کر لیا کیونکہ اس کے بغیر کامیابی کا اور کوئی طریقہ ہی نہیں تھا۔‘‘

(صفحہ160)

تیاری کا کٹھن مرحلہ

حملے کی تیاریوں میں چند دن لگ گئے۔ سپلائی اور ایمونیشن وغیرہ آگے لے جانا تھا۔ سیپروں (SAPPERS۔ آگے رستہ بنانے والے جوان۔ناقل) نے دریا کے آر پار لوہے کا موٹا رسہ لگا دیا۔ اس رسے کی مدد سے بیک وقت دو آدمی یا ایک ٹوکرے میں تین سو پاؤنڈ وزنی سامان دریا کے پار لے جایا جا سکتا تھا۔ ڈمپ (ذخیرے) سے آگے قلیوں کی ضرورت تھی۔ قلی جمع کر لئے گئے۔ اس آپریشن میں دو ہزار قُلی استعمال کئے گئے تھے۔ توپخانے کو اتنا آگے لے جایا گیا جہاں سے ٹارگٹ کو زد میں لیا جا سکتا تھا۔ ہمارے پاس نو سو گولے تھے۔ یہ تعداد اس تعداد سے بہت ہی کم تھی جو دشمن کے پاس تھی۔ آپریشن کے دوران دشمن نے ہم پر صرف ایک دن میں کم و بیش تین ہزار گولے فائر کئے تھے۔ ہمارے پاس تین سو محسود قبائلی تھے۔ انہیں تین لشکروں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ہر لشکر کی نفری ایک سو تھی۔ دو کا کام یہ تھاکہ دشمن پر چھاپے مار کر اسے چین نہ لینے دیں۔ تیسرے لشکر کے ذمے یہ کام تھا کہ اگر دشمن کو اکھاڑنے میں کامیاب ہوجائیں تو یہ ایک سو قبائلی دشمن کا تعاقب کریں۔ اس لشکر کو ہم نے ایل ۔3(L-3) کا نام دیا تھا۔ آخری کام یہ تھا کہ بِب ڈوری(ایک جگہ کا نام) کے سامنے جو ندی تھی اس پر لکڑی کا پل بنانا تھا۔ یہ پل آخری رات بنا لیا گیا۔ 17جولائی تک ہم بالکل تیار تھے۔

اگلے دن سورج غروب ہونے کے بعد ہماری حملہ آور فورس جو صرف ایک بٹالین تھی ندی پار کر گئی اور چوری چھپے دشمن کے علاقے میں گھس گئی۔… جوں جوں بٹالین بڑھتی جارہی تھی جوان ٹیلی فون کا تار بچھاتے چلے جارہے تھے۔ اس طرح بریگیڈ ہیڈکوارٹر میں میرے ساتھ بٹالین کا رابطہ قائم رہا۔ وائرلیس سَیٹ بھی آگے لے جائے گئے تھے لیکن خاموش رکھے گئے تھے۔ انہیں شدید ہنگامی حالات میں استعمال کرنا تھا۔ چند گھنٹے بعد بٹالین اگلے خفیہ اڈے پر پہنچ گئی۔ وہ اب دشمن کے اگلے مورچوں کے عقب میں ایک میل سے زیادہ دور چلی گئی تھی۔ کوئی واقعہ پیش نہ آیا۔

(صفحہ161)

آپریشن کا دوسرا دن

’’اگلے دن جو آپریشن کا دوسرا دن تھا، حملہ آور فوج کو رات کا اندھیرا پھیلنے تک خفیہ اڈے میں چھپے رہنا تھا۔ ہمارا توپخانہ خاموش رہا تاکہ دشمن کو پتہ نہ چلے کہ کوئی غیرمعمولی کارروائی ہونے والی ہے۔ اس صبح میں نے قبائلیوں، آزاد کشمیریوں اور سکاؤٹس کی چھاپہ مار پارٹیوں کو مختلف مقامات پر چھاپے مارنے کے لئے بھیج دیا۔ اس کارروائی سے دشمن کو کسی بڑے حملے کا شک نہیں ہو سکتا تھا۔…

ہماری حملہ آور بٹالین دوکالموں میں ایک دائیں ایک بائیں، دو مختلف راستوں سے پانڈو کی طرف بڑھنے لگی۔ ان دو کالموں کا پہلا کام یہ تھا کہ پَو پھٹنے تک پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جائیں۔ ان کے لئے لازمی تھا کہ وہاں تک وہ اس طرح پہنچیں کہ دشمن کو ان کی بھنک نہ ملے۔ پانڈو پر کامیاب حملہ کرنے کا یہی ایک طریقہ تھا کہ پیشتر اس کے کہ دشمن کمک منگوا لے ہم حملہ کردیں۔‘‘

(صفحہ163)

سرفروشی کی تمنا آج ہمارے دل میں ہے

اکبر خان آگے چل کر بیان کرتے ہیں: ’’اب جب کہ دونوں طرف کے دستے نو ہزار فٹ اونچی پہاڑی پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے اور ان کا درمیانی فاصلہ پانچ سو گز تھا تو دونوں طرفوں کی نفری کا تقابل ہمارے حق میں نہیں تھا۔ ہندوستانیوں کی جو نفری اگلی دو پوزیشنوں سے پسپا ہوئی تھی۔ پانڈو کی نفری سے جاملی تھی۔ اس طرح دشمن کی نفری ہم سے زیادہ ہو گئی تھی اور انہیں کچھ مزید فوائد حاصل ہو گئے تھے۔ دشمن نہایت اچھے مورچوں میں بیٹھا تھا جب کہ ہمیں کھلے علاقے میں سے آگے بڑھنا اور حملہ کرنا تھا۔ دشمن کے پاس بہت سی مشین گنیں تھیں۔ ہمارے پاس ایک بھی نہیں تھی۔ دشمن کو مدد دینے کے لئے طیارے تھے۔ ہمارے پاس کوئی طیارہ نہیں تھا اور دشمن کا توپخانہ ہمارے توپخانہ سے چار گنا زیادہ تھا۔

اس تقابل کو دیکھتے ہوئے جو کسی پہلو ہمارے حق میں نہیں تھا، دائیں کالم کے کمانڈر کو توقع تھی کہ حملہ منسوخ کر دیا جائے گا۔ میں نے کسی مزید جھجک یا تذبذب کی گنجائش نہ رہنے دی اور حکم دے دیا ’’دہلی‘‘ (پانڈو) پر سنگینوں سے حملہ کر دیا جائے اور حملے کی قیادت افسر کریں یعنی افسر آگے رہیں۔‘‘

(صفحہ169-168)

پاک فوج کا غیر متوقع حملہ

اکبر خان لکھتے ہیں: ’’ہندوستانیوں کو ہمارے جوانوں کی طرح جسمانی طور پر کسی مشکل یا سختی کا سامنا نہیں ہوا تھا۔ گزشتہ چار دنوں میں چھوٹی چھوٹی جھڑپیں لڑی گئی تھیں جن میں ہندوستانیوں کا جانی نقصان معمولی تھا۔ ان کی نفری، ان کا اسلحہ ایمونیشن، ان کا توپخانہ اور ان کے طیارے ان کے پاس صحیح و سلامت موجود تھے اور ان کے مورچے بھی پختہ اور ہر لحاظ سے اچھے تھے۔ ان پر مشکل یہ آن پڑی تھی کہ ان پر ہمارا حملہ اور ہمارے دستوں کا پانڈو تک صرف پہنچ جانا ناگہانی اور غیر متوقع تھا اور انہیں اب پتہ نہیں چل رہا تھا کہ اگلے لمحے کیا ہو جائے گا۔ ایک انجانا سا خوف ان کے اعصاب پر سوار ہو گیا تھا جس نے ان میں لڑنے کے جذبے کو بری طرح مجروح کر دیا تھا۔ … انہیں ’’گھیرے‘‘ میں سے نکل بھاگنے کا راستہ نظر آرہا تھا اور وہ بھاگ جانے کا موقعہ گنوانا نہیں چاہتے تھے۔ چنانچہ ان کے توپخانہ نے بے تحاشا گولا باری شروع کر دی۔ اس گولا باری کے نیچے اور گھنے جنگل میں چھپتے چھپاتے، ہندوستانی پانڈو سے نکل گئے۔ جب ہمارے دائیں کالم نے پانڈو پر حملہ کیا تو دیکھا کہ وہاں کوئی ہندوستانی نہیں ہے۔

لیکن پانڈو کا قصہ یہیں پر تمام نہ ہوا۔ مجھے جب اطلاع ملی کہ ہندوستانی پیٹھ دکھا گئے ہیں تو میں نے ان کے تعاقب میں قبائلی پٹھانوں کا تیسرا لشکر بھیج دیا۔ پانڈو کے گرد و نواح میں جو قبائلی تھے وہ بھی اس لشکر سے مل کر دشمن کے تعاقب میں چلے گئے۔ ہندوستانی ڈری ہوئی بھیڑوں کی طرح پہاڑی سے اترتے گھنے جنگل میں بھاگے تھے۔ انہیں توقع تھی کہ جنگل انہیں پناہ میں لے لے گا لیکن قبائلی ان پر بھیڑیوں کی طرح جاپڑے۔ …

جب قبائلی واپس آئے تو ان میں سے بیشتر ہندوستانی وردی پہنے ہوئے تھے اور وہ اپنے ساتھ بے انداز اسلحہ، ایمونیشن اور دیگر سامان لائے تھے۔

(صفحہ172-171)

دشمن کا اسلحہ اور دیگر سامان جو ہاتھ آیا

تقریباً ایک سو تیس رائفلیں بمع ایمونیشن تھیں۔ تقریباً اڑھائی لاکھ راؤنڈ ایمونیشن بکسوں میں بند تھا۔ دو بڑی مارٹر گنیں، چودہ دو انچ مارٹر گنیں اور ایک مشین گن تھی۔ مارٹر گنوں اور توپوں کے تقریباً ایک ہزار گولے اور راشن کا جو ذخیرہ پٹھان اٹھا لائے تھے وہ خاصا زیادہ تھا۔

پانڈو ہمارے ہاتھ لگ جانے سے ہندوستانیوں کے باقی دفاعی مورچے تاش کے گھروندے کے طرح ڈھیر ہو گئے۔ … ہم ناک کی سیدھ میں صرف چھ میل آگے بڑھے تھے لیکن ہمارے قبضے میں نوے مربع میل علاقہ آگیا تھا۔‘‘

(صفحہ173-172)

(اقتباسات از کتاب ’’کشمیر کے حملہ آور‘‘ (انگریزی) تصنیف میجر جنرل اکبر خان۔ ترجمہ عنایت اللہ اشاعت اول مئی 1973ء۔ ناشر مکتبہ داستان لمیٹڈ ۔ 4شارع فاطمہ جناح لاہور)

اب قند مکرر اور خلاصہ کے طور پر جناب حسن ظہیر کی کتاب سے مندرجہ بالا حیرت انگریز اور لرزہ خیز عسکری مہم کا چند سطور میں جاذب نظر بیان درج کیا جاتا ہے:

’’یہ جولائی کا واقعہ ہے… اب میدان جنگ کی کمان میجر جنرل نذیر احمد کے زیر کمان پشاور میں 9 ڈویژن کو منتقل ہو چکی تھی۔ ڈویژنل کمانڈر کی منظوری سے 9ہزار فٹ کی بلندی پر پنڈو گاؤں پر قبضہ کرنے کی تیاریاں شروع کر دی گئیں۔ یہ بڑی نمایاں فوجی کارروائی تھی جس میں پاکستان آرمی کے افسروں اور جوانوں نیز اسکاؤٹوں، قبائلیوں اور دیگر رضاکاروں کی قوت اور برداشت کا کڑا امتحان ہوا۔ اکبر خان کی استقلال و شجاعت سے بھرپور قیادت کے بغیر یہ غیرمعمولی جدوجہد ممکن نہ تھی جنہوں نے پوری کارروائی کی منصوبہ بندی اور نگرانی کی۔ پنڈو کی طرف چڑھائی کے آخری مرحلے پر حملے کا زور برقرار رکھنے اور دفاع کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کے لئے انہوں نے قافلہ کمانڈر کو 22 اور23 جولائی کی درمیانی رات کے دوران افسران کی سربراہی میں (فوجی جائزے کے لئے) گشتی ٹیمیں، بھیجنے اور صبح کے وقت پنڈو گاؤں پر افسران کی قیادت میں سنگینوں سے دھاوا بولنے کے احکامات سخت اور اٹل الفاظ میں دئیے۔ خوش قسمتی سے جب پاکستانی فوجی پہنچے تو بھارت گاؤں خالی کر چکے تھے۔ اڑی سیکٹر پر بھارتی حملے کی ناکامی سے پنڈت نہرو پریشان ہو گئے اور انہیں اندیشہ لاحق ہو گیا کہ کشمیر میں بھارت افواج کو مزید دھچکے نہ پہنچیں۔’’

(صفحہ133)

(از کتاب ’’راولپنڈی سازش 1951ء‘‘ (انگریزی) مصنف حسن ظہیر۔ ترجمہ سہیل انجم۔ اشاعت اول 2002ء آکسفرڈ یورنیورسٹی پریس۔ کراچی)

اکبر خان اپنی انگریزی تصنیف کے باب 16کا آغاز ان الفاظ سے کرتے ہیں:

(ترجمہ): ’’31دسمبر 1948ء کو نصف شب کے وقت دونوں اطراف (بھارت اور پاکستان) نے سیز فائر کا حکم دے دیا اور جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔‘‘

اکبر خان کی متذکرہ کتاب میں جنگ کے کچھ محاذوں کے فوٹو بھی شامل کئے گئے ہیں۔ ان نایاب فوٹوز میں دو میں میجر جنرل نذیر احمد بہت نمایاں ہیں۔ ایک فوٹو (صفحہ112) میں چناری فرنٹ پروہ مِس فاطمہ جناح کو Baton (فوجی افسران کی سٹک) کی مدد سے محاذ کے متعلق معلومات دے رہے ہیں۔ جبکہ دوسرا فوٹو (صفحہ122) سیز فائر کے بعد کا ہے۔ جس میں وزیراعظم لیاقت علی خان کے دائیں صدر آزاد کشمیر سردار ابراہیم خان کھڑے ہیں اور وزیراعظم کی بائیں جانب میجر جنرل نذیر احمد اور پھر ان کے ساتھ بریگیڈیئراکبر خان کھڑے ہیں۔

آزادی کی متمنی وادیٔ کشمیر کے متعلق امجد اسلام امجد نے کیا دلگداز نظم کہی ہے:

اے میرے کشمیر اے ارض دل گیر
اپنے لہو سے تو نے لکھی ہے جو روشن تحریر
بدلے گی اک روز اسی سے دنیا کی تقدیر
آزادی وہ خواب کہ جس کی آزادی تعبیر
کس نے کیا ہے کون کرے گا، خوشبو کی زنجیر
اے میرے کشمیر

(جنگ سنڈے میگزین 29ستمبر 2019ء صفحہ11کالم نمبر3)
اڑی سیکٹر کا منفرد اعزاز۔ کیپٹن محمد سرور شہید (پہلا نشانِ حیدر)

’’پاکستان کرونیکل‘‘ (پاکستان کا تاریخ وار انسائیکلوپیڈیا) کے صفحہ23 پر زیر عنوان ’’کیپٹن محمد سرور (نشانِ حیدر) کی شہادت‘‘ لکھا ہے:

’’27 جولائی 1948ء کو پاکستان کا سب سے بڑا عسکری اعزاز نشانِ حیدر حاصل کرنے والے پہلے سپوت کیپٹن محمد سرور کا یوم شہادت ہے۔
کیپٹن محمد سرور 10 نومبر 1910ء کو موضع سنگھوری، تحصیل گوجر خان ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے۔ 1944ء میں وہ فوج میں شامل ہوئے۔ 1948ء میں جب وہ پنجاب رجمنٹ کی سیکنڈ بٹالین میں کمپنی کمانڈر کے عہدے پر خدمات انجام دے رہے تھے انہیں کشمیر آپریشن پر مامور کیا گیا۔ یہ 27 جولائی 1948ء کا واقعہ ہے جب ان کی بٹالین نے اڑی سیکٹر میں دشمن کی ایک اہم پوزیشن پر حملہ کیا اس حملے کے دوران انہوں نے غیرمعمولی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔

1956ء میں جب پاکستان میں عسکری اور شہری اعزاز کا آغاز ہوا تو انہیں حکومتِ پاکستان کا سب سے بڑا عسکری اعزاز نشان حیدر دیئے جانے کا فیصلہ ہوا۔ 3 جنوری 1961ء کو یہ اعزاز ان کی بیوہ محترمہ کرم جان نے صدر پاکستان محمد ایوب خان کے ہاتھوں وصول کیا۔‘‘

(صفحہ23)

(’’پاکستان کرونیکل‘‘: تحقیق و تالیف عقیل عباس جعفری۔ طابع فضل سنز F-42 حب ریور روڈ سائٹ کراچی، اشاعت اول 2010ء)

شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

ہو موت کا جو سامنا، ڈرتے نہیں شہید
مر کر بھی کیا کمال ہے، مرتے نہیں شہید


(پروفیسر راجا محمد نصر اللہ خان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 مارچ 2020