یہ عاجز نصرت جہاں سکیم کے تحت وقف کر کے کچھ عرصہ گھانا مغربی افریقہ میں بھی متعین رہا ۔اس دوران کچھ ہفتوں کے لئے مجھے گھانا کے شہر کماسی میں وقت گزارنے کا موقع ملا ،وہاں میرا تعارف مولانا بشیر احمد قمر صاحب کے ساتھ ہوا۔
مولانا قمر صاحب کم گو شخصیت کے مالک تھے۔ مجھے یاد ہے کہ صبح تیار ہو کر اپنے کمرے سے نکلتے اور جو کچھ بھی ناشتہ کےلئے میسر ہوا کرتا کھا کر تبلیغ کے لئے نکل جاتے ۔شام کو واپس تشریف لاتے تو کبھی کبھار تبلیغی اسفار کے دوران اگر کوئی خاص بات ہوئی ہوتی تو ہمیں ضرور بتاتے۔ عاجز نے آ پ کو دنیاوی خواہشات سے مبرّا پایا ۔آپ نے اپنے آپ کو خدا کے رنگ میں رنگ لیا تھا ،یعنی آپ نفس مطمئنہ کی ایک اعلیٰ مثال تھے ۔میرے ساتھ آپ نے کبھی کوئی دنیاوی بات نہیں کی۔ ان دنوں میں ایک غیر شادی شدہ نوجوان تھا۔ ایک دفعہ کہنے لگے کہ ’’تم بہت کنجوس آ دمی ہو‘‘۔ میں نے کہا ’’مولانا وہ کیسے؟‘‘ فرمایا کہ ’’تم شادی نہیں کرتے۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ ’’میں کسی قابل ہو جاؤں توشادی بھی کر لوں گا۔‘‘ فرمایا کہ ’’یہ فضول دلیل ہے مزا تو تب ہے جب تمہارے پاس صرف ایک روٹی ہو اور پھر آدھی تم خود کھاؤ اور آدھی اپنی بیوی کو کھلاؤ۔‘‘
اس بات کو تقریباً چالیس برس بیت چکے ہیں اور مجھے بہت سی باتیں یاد نہیں۔ بس صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہر لمحہ خدا تعالیٰ پہ توکل ایک مومن کی شان کے مطابق آپ کا طرہ امتیاز تھا۔ آپ کی عاجزی انکساری سے اس عاجز نے بہت کچھ سیکھا ایک دفعہ کہنے لگے کہ ’’جو شخص آ پ کو کہے کہ میرے لئے دعا شوا کرنا نہ تو اس شخص کو دعا پہ یقین ہوتا ہے نہ ہی وہ دعا کے معاملہ میں سنجیدہ ہوتا ہے‘‘
امریکہ آ نے کے بعد، میں ایک مرتبہ خاص طور پر ربوہ آ پ کے گھر آپ سے دعا کی درخواست کرنے گیا اس عاجز نے ہدیہ کے طور پر کچھ پیسے دینے چاہے مگر آپ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ واپسی پر وہ پیسے میں نے آپ کے کمرے کی دہلیز پر رکھ دیے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آ پ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ہمیں بھی اور آپکی نیک اولاد کو بھی آپ کی دعاؤں سے متواتر حصّہ ملتا رہے، آمین۔
(ڈاکٹر محمد اشرف میلو۔امریکہ)