کرے پاک آپ کو تب اس کو پاوے
روح پرور۔ ایمان افروز واقعات
قسط 3
آپ تو ہمارے ساتھ ہیں
منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ لدھیانہ کا واقعہ ہے کہ بارش ہو کر تھمی تھی۔حضورؑ باہر سیر کو جا رہے تھے۔میاں چراغ دین جو اُس وقت لڑکا تھا اور بہت شوخ تھا،چلتے چلتے گر پڑا۔میں نے کہا اچھا ہوا یہ بڑا شریر ہے۔ حضرت صاحبؑ نے چپکے سےفرمایا کہ بڑے بھی گر جاتے ہیں۔یہ سن کر میرے تو ہوش گم ہو گئے اور بمشکل وہ سیر طے کرکے واپسی پر اسی وقت اندر گیا جبکہ حضورؑ واپس آکر بیٹھے ہی تھے۔حضور میرا قصور معاف فرمائیں۔میرے آنسو جاری تھے۔حضورؑ فرمانے لگے آپ کو ہم نے نہیں کہا۔ آپ تو ہمارے ساتھ ہیں۔
(اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 156)
پس خوردہ تبرک
حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے رمضان شریف میں قادیان سے گھر آنے کا ارادہ کیا۔حضور علیہ السلام نے فرمایا:نہیں، سارا رمضان یہیں رہیں۔میں نے عرض کیا:حضور ایک شرط ہے۔حضور کے سامنے جو کھانا ہو وہ میرے لئے آ جایا کرے۔آپ نے فرمایا:بہت اچھا۔ چنانچہ دونوں وقت حضور علیہ السلام اپنے سامنے کا کھانا مجھے بھجواتے رہے۔لوگوں کو بھی خبر ہو گئی۔وہ مجھ سےچھین لیتے۔وہ کھانا بہت سا ہوتا تھا۔کیونکہ حضورؑ بہت کم کھاتے تھے۔
(اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 155)
نمازیں جمع کرنے کا جواز
حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’حضورعلیہ السلام کے عہد مبارک میں ایک دفعہ قادیان میں زیادہ عرصہ تک نمازیں جمع ہوتی رہیں۔مولوی محمد احسن صاحب نے مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ بہت دن نمازیں جمع کرتے ہو گئے لوگ اعتراض کریں گے تو ہم اس کا کیا جواب دیں گے۔حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ انہیں سے پوچھو یعنی (حضرت صاحبؑ سے) مولوی انوار حسین صاحب شاہ آبادی اس خط و کتابت میں قاصد تھے۔ان سے مجھے اس کا حال معلوم ہوا تو میں نے حضرت صاحبؑ سے جاکر عرض کر دی۔اس وقت تو حضورعلیہ السلام نے کچھ نہ فرمایا لیکن بعد عصر جب حضورؑ معمولاً مسجدمیں چھت پر تشریف فرما تھے تو آپ علیہ السلام نے ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ ایسے اعتراض دل میں کیوں اُٹھتے ہیں۔کیا حدیثوں میں نہیں آیا کہ وہ(مسیح موعودؑ )نماز جمع کرے گا ویسے تو جمع نماز کا حکم عام ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے کاموں میں اس قدر منہمک ہوگا کہ اس کو نمازیں جمع کرنی پڑیں گی۔اس وقت سید محمد احسن صاحب زار زار رو رہے تھے اور توبہ کر رہے تھے۔‘‘
(اصحاب احمدجلد چہارم صفحہ 152)
ہمارا کیا ہے،رات گزر جائےگی
ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر بہت دوست آئے تھے جن کے پاس کوئی پارچہ سرمائی نہ تھا۔ایک شخص نبی بخش نمبر دار بٹالہ نے اندر سے لحاف بچھونے منگوانے شروع کئے اور مہمانوں کو دیتا رہا۔میں عشاء کے بعد حضرت صاحبؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ علیہ السلام بغلوں میں ہاتھ دئے بیٹھے تھے اور ایک صاحبزادہ جو غالبًا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ تھے پاس لیٹے تھے اور ایک شستری چوغہ انہیں اوڑھا رکھا تھا۔معلوم ہوا کہ آپ علیہ السلام نے بھی اپنا لحاف بچھونا طلب کرنے پر مہمانوں کے لئے بھیج دیا۔میں نے عرض کیا کہ آپ کے پاس (حضور علیہ السلام کے پاس )کوئی پارچہ نہیں رہا اور سردی بہت ہے۔فرمانے لگے مہمانوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہئے اور ہمارا کیا ہے رات گزر جائے گی۔نیچے آکر میں نے نبی بخش نمبردار کو بہت بُرا بھلا کہا کہ تم حضرت صاحبؑ کا لحاف اور بچھونا بھی لے آئے۔وہ شرمندہ ہوا اور کہنے لگا کہ جس کو دے چکا ہوں اس سے کس طرح واپس لوں اور پھر میں مفتی فضل الرحمان یا کسی اور سے، ٹھیک یاد نہیں رہا،لحاف بچھونا مانگ کر اوپر لے گیا۔ آپ نے فرمایا۔کسی اور کو دے دو۔مجھے تو اکثر نیند بھی نہیں آیا کرتی اور میرے اصرار پر بھی آپ نے نہ لیا اور فرمایا:کسی مہمان کو دے دو۔پھر میں لے آیا ۔
(اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 135)
جَلال اور جَمال
حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت اقدس علیہ السلام کو خارش ہو گئی اور انگلیوں کی کھائیوں میں پھنسیاں تھیں اور تَر تھیں۔دس گیارہ بجے دن کے میں نے دیکھا تو آپ علیہ السلام کو بہت تکلیف تھی۔میں تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا آیا۔ عصر کے بعد جب میں پھر گیا۔تو آپ علیہ السلام کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔میں نے عرض کی کہ خلاف معمول آج حضورعلیہ السلام کیوں چشم پُر نم ہیں۔آپ نے فرمایا کہ میرے دل میں ایک خیال آیا کہ اے اللہ ! ایک عظیم الشان کام میرے سپرد ہے اور میری صحت کا یہ حال ہے۔اس پر مجھے پُر ہیبت الہام ہوا کہ: ’’تیری صحت کا ہم نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔‘‘
فرمایا کہ اس الہام نے میرے وجود کا ذرّہ ذرّہ ہلا دیا اور میں نہایت گریہ و زاری کے ساتھ سجدہ میں گر گیا۔خدا جانے کس قدر عرصہ مجھے سجدہ میں لگا۔جب میں نے سر اُٹھایا تو خارش بالکل نہ رہی اور مجھے اپنے دونوں ہاتھ حضور نے دکھائے کہ دیکھو کہیں پھُنسی ہے؟ میں نے دیکھا تو ہاتھ بالکل صاف تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی پھُنسی بالکل نکلی ہی نہیں۔
(روایات ظفر اصحاب احمدجلد چہارم صفحہ134 تا 135)
خدائی کے دعویٰ دار سے علاج کا انکار
حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت صاحبؑ کو دوران سر کا عارضہ تھا۔ایک طبیب کے متعلق سنایا گیا کہ وہ اس پر خاص ملکہ رکھتا ہے۔ اسے بُلوایا گیاکرایہ بھیج کر کہیں دور سے۔اس نے حضور علیہ السلام کو دیکھا اور کہا کہ دو دن میں آرام کر دوں گا۔یہ سن کر حضرت صاحبؑ اندر چلے گئے اور حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کو رقعہ لکھا کہ اس شخص سے میں ہرگز علاج نہیں کروانا چاہتا۔یہ کیا خدائی کا دعویٰ کرتا ہے۔اس کو واپس کرایہ کے روپئے اور مزید پچیس روپئے بھیج دئے کہ یہ دے کر اسے رخصت کردو۔
(اصحاب احمدجلد چہارم صفحہ 107)
اس کو کہتے ہیں دلداری
حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ دو شخص منی پور آسام سے قادیان آئے اور مہمان خانہ میں آکر انہوں نے خادمانِ مہمان خانہ سے کہا کہ ہمارے بستر اُتارے جائیں،چارپائی بچھائی جائے۔خادموں نے کہا آپ خود اپنا اسباب اتروائیں،چارپائیاں بھی مل جائیں گی۔دونوں مہمان اس بات پر رنجیدہ ہو گئے اور فوراً یکّہ میں سوار ہوکر واپس روانہ ہو گئے۔میں نے مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ سے یہ ذکر کیا تو مولوی صاحب فرمانے لگے۔جانے دو ایسے جلد بازوں کو۔حضورؑ کو اس واقعہ کا علم ہوا تو نہایت جلدی سے ایسی حالت میں کہ جوتا پہننا بھی مشکل ہو گیا حضور علیہ السلام ان کے پیچھے پیچھے نہایت تیز قدم سے چل پڑے۔ چند خدام بھی ہمراہ تھے۔میں بھی ساتھ تھا۔ نہرکے قریب پہنچ کر ان کا یکّہ مل گیا اور حضورعلیہ السلام کو آتا دیکھ کر وہ یکّہ سے اُتر پڑے۔حضورعلیہ السلام نے ان کو واپس چلنے کے لئے فرمایا کہ آپ کے واپس ہونے کامجھے درد پہنچا۔چنانچہ وہ واپس ہوئے۔ حضور علیہ السلام نے یکّہ میں سوار ہونے کے لئے فرمایا اور کہا کہ میں ساتھ ساتھ چلتا ہوں۔مگر وہ شرمندہ تھے اور وہ سوار نہ ہوئے۔اس کے بعد مہمان خانے میں پہنچے۔ حضور علیہ السلام نے خود ان کے بستر اُتارنے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔مگر خدام نے اُتار لیا۔حضورعلیہ السلام نے اسی وقت دو نواری پلنگ منگوائے اور ان کے بستر ان پر کروائے اور ان سے پوچھا آپ کیا کھائیں گے اور خود ہی فرمایا کیونکہ اس طرف چاول کھائے جاتے ہیں اور رات کو دودھ کے لئے پوچھا۔غرض یہ کہ ان کی تمام ضروریات اپنے سامنے مہیا فرمائیں اور جب تک کھانا آیا وہیں ٹھہرے رہے۔اس کے بعد حضورعلیہ السلام نے فرمایا کہ ایک شخص جو اتنی دور سے آتا ہے راستہ کی تکالیف اور صعوبتیں برداشت کرتا ہے۔یہاں پہنچ کر سمجھتا ہے کہ اب منزل پر پہنچ گیا۔اگر یہاں آکر بھی اس کو وہی تکلیف ہو تو یقیناً اس کی دلشکنی ہوگی۔ ہمارے دوستوں کو اس کا خیال رکھنا چاہئے۔اس کے بعد جب تک وہ مہمان ٹھہرے رہے حضورؑ کا یہ معمول تھا کہ روزانہ ایک گھنٹہ کے قریب ان کے پاس آکر بیٹھتے اور تقریر وغیرہ فرماتے۔جب وہ واپس ہوئے تو صبح کا وقت تھا۔حضورؑ نے دو گلاس دودھ کے منگوائے اورانہیں فرمایا۔یہ پی لیجئے اور نہر تک انہیں چھوڑنے کے لئے ساتھ گئے۔ راستہ میں گھڑی گھڑی ان سے فرماتے رہے کہ آپ تو مسافر ہیں آپ یکّہ میں سوار ہو لیں،مگر وہ سوار نہ ہوئے۔نہر پر پہنچ کر انہیں سوار کراکر حضور علیہ السلام واپس تشریف لائے۔
(اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 93-94)
اوپر بھی پانی اور نیچے بھی پانی
حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ منشی اروڑا صاحب،محمد خان صاحب اور خاکسار قادیان سے رخصت ہونے لگے۔گرمیوں کا موسم تھا اور گرمی بہت سخت تھی۔اجازت اور مصافحہ کے بعد منشی اروڑا صاحب نے کہا حضور گرمی بہت ہے۔ہمارے لئے دعا کریں کہ پانی ہمارے اوپر اور نیچے ہو۔حضور علیہ السلام نے فرمایا۔ خدا قادر ہے۔میں نے عرض کیا۔حضوریہ دعا ان کے لئے فرمانا میرے لئے نہیں کہ ان کے اوپر نیچے پانی ہو۔قادیان میں یکّہ میں سوار ہوکر ہم تینوں چلے تو خاکروبوں کے مکانات سے ذرا آگے نکلے تھے کہ یکدم بادل آکر سخت بارش شروع ہو گئی۔اس وقت سڑک کے گرد کھائیاں بہت گہری تھیں۔تھوڑی دور جاکر یکّہ اُلٹ گیا۔منشی صاحب بدن کے بھاری تھے۔ وہ نالی میں گر گئے اور محمد خان صاحب اور میں کود پڑے۔منشی اروڑاصاحب کے اوپر نیچے پانی اور وہ ہنستے جا رہے تھے۔
(اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 94)
رائی کےدانے کے برابر ایمان
حضرت منشی ظفراحمد کپورتھلوی رضی اللہ عنہ کی ہی روایت ہے کہ ایک دن آتھم مقابلہ پر نہ آیا۔ اس کی جگہ مارٹن کلارک بیٹھا۔یہ بہت بے ادب اور گستاخ آدمی تھا۔اس نے ایک دن چند لنگڑے،لولے اور اندھے اکٹھے کر لئے اور لاکر بٹھا دئے اور کہا کہ آپ کو مسیح ہونے کا دعویٰ ہے۔ان پر ہاتھ پھیر کر اچھا کر دیں۔اگر ایسا ہو گیا تو ہم اپنی اصلاح کر لیں گے۔اس وقت جماعت میں ایک سناٹا پیدا ہو گیا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جوابًا اشارہ فرمایا کہ ہمارے ایمان کی علامت جو کلام اللہ نے بیان فرمائی ہے یعنی استجابتِ دعا اور تین علامتیں حضورؑ نے بیان فرمائیں۔یعنی فصاحت و بلاغت اور فہم کلام اللہ اور امور غیبیہ کی پیشگوئیاں۔اس میں تم ہماری آزمائش کر سکتے ہو اور اس جلسہ میں کر سکتے ہو۔لیکن مسیح نے تمہارے ایمان کی یہ علامت قرار دی ہے کہ:
’’اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا تو لنگڑوں لولوں کو چنگا کر دو گے اور پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہلا سکو گے۔‘‘
لیکن میں تم سے اتنے بڑے نشان تو نہیں مانگتا۔ میں ایک جوتی الٹا کر دیتا ہوں۔ اگر وہ تمہارے اشارے سے سیدھی ہو جائے تو میں سمجھوں گا کہ تم میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہے۔اس وقت جس قدر مسلمان تھے خوش ہو گئے اورفریق ثانی مارٹن کلارک کے ہوش گم ہو گئے۔
(اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 86)
اللہ اس سے بہتر مضمون سمجھا دے گا
حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ اپنی تصنیف سیرۃ مسیح موعود علیہ السلام میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ جن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب ’’آئینہ کمالات ‘‘کا عربی حصہ لکھ رہے تھے۔حضور علیہ السلام نے مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کو ایک بڑا دو ورقہ اس زیر تصنیف کتاب مسودّہ کا اس غرض سے دیا کہ فارسی میں ترجمہ کرنے کے لئے مجھے پہنچا دیا جائے۔ وہ ایسا مضمون تھا کہ اس کی خدا داد فصاحت و بلاغت پر حضرت کو ناز تھا۔مگر مولوی صاحب سے یہ دو ورقہ کہیں گرگیا۔چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے ہر روز کا تازہ عربی مسودہ فارسی ترجمہ کے لئے ارسال فرمایا کرتے تھے۔اس لئے اس دن غیر معمولی دیر ہونے پر مجھے طبعًا فکر پیدا ہوا اور میں نے مولوی نور الدین صاحب سے ذکر کیا کہ آج حضرت کی طرف سے مضمون نہیں آیا اور کاتب سر پر کھڑا ہے اور دیر ہو رہی ہے۔معلوم نہیں کیا بات ہے۔یہ الفاظ میرے منہ سے نکلے تھے کہ مولوی صاحب کا رنگ فق ہو گیا۔کیونکہ یہ دو ورقہ مولوی صاحب سے کہیں گر گیا تھا۔بےحد تلاش کی مگر مضمون نہ ملا اور مولوی صاحب سخت پریشان تھے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اطلاع ہوئی تو حسب معمول مسکراتے ہوئے باہر تشریف لائے اور خفا ہونا یا گھبراہٹ کا اظہار کرنا تو درکنار الٹا اپنی طرف سے معذرت فرمانے لگے کہ مولوی صاحب کو مسوّدہ کے گُم ہونے سے ناحق تشویش ہوئی۔مجھے مولوی صاحب کی تکلیف کی وجہ سے بہت افسوس ہے۔ میرا تو یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے گمشدہ کاغذ سے بہتر مضمون لکھنے کی توفیق عطا فرما دے گا۔ ‘‘
(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ601-602)
اللہ تعالیٰ کا خاص احسان
حضرت میاں عبد اللہ سنوری صاحب رضی اللہ عنہ کو اپنے اندر ایسا عشق تھا کہ ایک دفعہ وہ قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملے۔حضرت صاحبؑ ان سے کوئی کام لے رہے تھے۔اس لئے جب میاں عبد اللہ سنوری صاحب کی چھٹی ختم ہو گئی تو انہوں نے جانے کی اجازت طلب کی۔حضور علیہ السلام نے فرمایا ! ابھی ٹھہر جاؤ۔چنانچہ انہوں نے مزید رخصت کے لئے درخواست بھجوا دی مگر محکمہ کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا کہ چھٹی نہیں مل سکتی۔انہوں نے اس امر کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کیا تو آپ نےفرمایا کہ ابھی ٹھہرو۔چنانچہ انہوں نے لکھ بھیجا کہ میں ابھی نہیں آ سکتا۔اس پر محکمہ والوں نے انہیں ڈسمس کر دیا۔چار یا چھ ماہ جتنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں رہنے کے لئے کہا تھا وہ یہاں ٹھہرے رہے۔پھر جب واپس گئے تو محکمہ نے سوال اُٹھایا کہ جس افسر نے انہیں ڈسمس کیا ہے اس افسر کا حق نہیں تھا کہ انہیں ڈسمس کرتا۔چنانچہ وہ پھر اپنی جگہ بحال ہو گئے اور پچھلے مہینوں کی جو وہ قادیان میں گزار گئے تھے۔تنخواہ بھی مل گئی۔
(اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 86-87)
اقتداء کا اعلیٰ نمونہ
حضرت مولانا محمد ابراہیم بقاپوری صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’ایک دفعہ نماز عصر میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ امام تھے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے امام کی اقتداء کا ایسا نمونہ دکھایا جو قریبًا ہم سب مقتدی ادا نہ کر سکے۔یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے دوسری رکعت کے لئے اُٹھنے میں ذرا دیر لگائی۔ہم سب مقتدی کھڑے ہو گئے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی طرح بیٹھے رہے جس طرح مولوی صاحب کھڑے ہوئے اسی طرح بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھڑے ہوئے۔‘‘
بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈ یں گے
حضرت مولانا بقاپوری صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حافظ نبی بخش صاحب فیض اللہ چک کی آنکھیں اُٹھ آئی تھیں۔ڈاکٹروں اور حکیموں سے علاج کرواتے رہے۔ کچھ فائدہ نہ ہوا۔کافی عرصہ آنکھوں کی تکلیف میں مبتلاء رہے۔فرماتے تھے کہ ایک دن مجھے خیال آیا کہ حضورؑ کا الہام ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔میں کیوں نہ برکت حاصل کروں۔چنانچہ مسجد مبارک میں بعد نماز حضورؑ تشریف فرما تھے۔حافظ صاحب کہا کرتے تھے کہ حضورؑ کے پیچھے بیٹھ جایا کرتے اور شملہ اپنی آنکھوں پر لگایا کرتے دو دن برابر لگاتے رہے۔ تیسرے دن بغیر دوا کے آنکھیں کٹورا سی ہو گئیں۔نہ لالی رہی نہ سرخی وغیرہ۔ حضورؑ کی دستارِ مبارک کا شملہ جو پیچھے لٹکتا رہتا تھا وہ ذرا سا لمبا ہوتا تھا۔
(اصحاب احمدجلد دہم صفحہ 256)
الٰہی غیرت
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ر ضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری ایک بہن تھی۔ان کا ایک لڑکا تھا۔ وہ پیچش کے مرض میں مبتلا ہوا اور مر گیا۔اس کے چند روز بعد میں گیا۔ میرے ہاتھ سے انہوں نے کسی پیچش کے مریض کو اچھا ہوتے دیکھا مجھ سے فرمانے لگیں کہ بھائی اگر تم آ جاتے تو میرا لڑکا بچ ہی جاتا۔میں نے ان سے کہا کہ تمہارے ایک لڑکا ہوگا اور میرے سامنے پیچش کےمرض میں مبتلاء ہوکر مرے گا۔چنانچہ وہ حاملہ ہوئیں اور ایک بڑا خوبصورت لڑکا پیدا ہوا۔پھر وہ پیچش کے مرض میں مبتلاء ہوا۔ان کو میری بات یاد تھی۔مجھ سے کہنےلگیں کہ اچھا دعا ہی کرو۔میں نے کہا خدا تعالیٰ آپ کو اس کے عوض میں ایک اور لڑکا دے گا۔لیکن اس کو تو اب جانے ہی دو۔چنانچہ وہ لڑکا فوت ہو گیااور اس کے بعد ایک اور لڑکا پیدا ہوا۔جو زندہ رہا۔اب تک زندہ بر سر روزگار ہے۔یہ الٰہی غیرت تھی۔
(مرقاۃ الیقین صفحہ 177-178)
(صوفیہ اکرم چٹھہ۔لندن)