مکرم بابوعبدالغفار 1908ء میں کانپور میں پیداہوئے۔ خاندان میں احمدیت آپ کے والد ماسٹرخدابخش کے ذریعہ آئی۔ ماسٹرخدابخش نیک دل اورمتقی انسان تھے۔ انہوں نے اہل خانہ سمیت 1916ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ بابو عبدالغفار نے کانپور سے ہی میٹرک کا امتحان پاس کیا۔انہوں نے تقسیمِ ملک کے بعدہجرت کرکے حیدرآبادسندھ میں مستقل رہائش اختیارکی۔ آپ کے بیٹے ذوالفقارقریشی سے لندن میں ملاقات کے دوران میں نے لفظ بابوکےبارے استفسارکیاتوانہوں نے بتایاکہ آپ اوائل زندگی سے ہی خوش لباس تھے اورپتلون وغیرہ پہنتے تھے۔اس لئے آپ کو بابو کہا جانے لگا۔ گھر کے افرادعموماًبابوجی کہہ کر آپ کا ذکرکرتے۔احباب جماعت اوردیگرحلقوں میں بھی لفظ بابو آپ کے نام کا حصہ بن گیا۔
حیدر آباد آنے کے بعد آپ نے رسالہ روڈ پر فوٹو اسپیڈ کے نام سے فوٹوسروس کا آغازکیا۔ آپ کو اپنےفن میں کمال حاصل تھا اور اس نسبت سےآپ وسیع حلقہ احباب رکھتے تھے۔سرکاری تقریبات میں بھی تصاویر کے حوالہ سے زیادہ تر آپ کوہی بلایا جاتا تھا۔ ان دنوں حیدرآباد میں جماعت کےاحباب کی تعدادبہت ہی کم تھی۔ آپ کی دکان اندرونِ سندھ سے آنے والے احمدیوں کے لئے مرکزی حیثیت رکھتی تھی۔ اس وقت تک جماعت کے پاس کوئی سینٹرنہیں تھا۔شاہی بازار میں کسی احمدی بھائی کی رہائش تھی۔ وہاں نمازِ جمعہ پڑھنا، مجھے یاد ہے۔ بعدازاں بابوجی کے والد محترم ماسٹر خدا بخش اور خود بابوجی نے باہم مشورہ سےاپنےنام الاٹ شدہ پلاٹ میں سے احمدیہ ہال گاڑی کھاتہ کے لئے جگہ دی۔جماعت نے اس جگہ پراحمدیہ ہال کی تعمیر کروائی۔ یہ حیدرآباد میں سب سے پہلا باقاعدہ سینٹر تھا جو جماعت کو میسّر آیا۔ 19نومبر 1966ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے نمازمغرب اور عشاء احمدیہ ہال میں جمع کر کے پڑھائیں اور احمدیہ ہال کا افتتاح عمل میں آیا۔ اس سے اگلے روز 20نومبر 1966ء کو بیت الظفرکا سنگِ بنیاد بھی حضورؒ نے اپنے دستِ مبارک سے رکھا۔
بابوعبدالغفار لمبے عرصہ تک جماعت حیدرآبادکے سیکرٹری اصلاح وارشاد رہے۔
آپ1956ء تا 1959ء اور پھر 1974ء تا 1980ء امیر ضلع حیدرآباد رہے۔ آپ کو تبلیغ کا بہت شوق تھا۔اپنے دائرہ احباب میں احمدیت کا پیغام پہنچانے کےعلاوہ آپ کثرت سے جماعتی تعارف کی غرض سے خطوط لکھتےرہتےتھے۔اس مقصد کے لئے دفتر میں بیٹھتےتھے اور ٹیلیفون ڈائیریکٹری سے پتہ جات لے کرپوسٹ کارڈلکھتے تھےجس میں تحریرہوتا تھا کہ مزیدرہنمائی کےلئےدیئےگئے پتہ پر رابطہ کریں۔
پروفیسرعباس بن عبدالقادرکی شہادت کے موقع پر جب معاندین نے شہید بھائی کی تدفین کےحوالہ سے مسائل کھڑے کر دئیے تھے۔ آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نےصورت حال کوک مال بصیرت سے سنبھالا اور انتظامیہ کوقائل کیاکہ جماعت کے لئے قبرستان کی علیحدہ جگہ مختص کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسی کوشش کے نتیجہ میں قبرستان کی موجودہ جگہ جماعت کو حاصل ہوئی ۔اس وقت یہ بےآب وگیاہ جگہ شہرسے دورتھی۔ 1976ء میں لطیف آبادکی الگ مجلس قائم ہوئی اور خاکسارکو لطی آباد کے پہلے قائد کے طور پر خدمت کا موقع دیا گیا۔ ان دنوں جب وقارعمل کے لئے قبرستان کی جگہ پہ جاتےتھے، پانی ساتھ لے جانا پڑتا تھا۔ وہاں سستانے کےلئے چھاؤں بھی میسرنہیں تھی لیکن بابوجی ہماری حوصلہ افزائی کےلئے وہاں پہنچتےتھے۔
بابوجی کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ان کو ڈاکٹرعقیل بن عبدالقادر شہیدکاساتھ حاصل تھا۔ڈاکٹرصاحب بھی نافع الناس وجودتھےاورآپ کی خدمات کاایک زمانہ معترف تھا۔ان دونوں بزرگان نے بہت اوائل میں جماعت حیدرآباد کومستحکم کرنے میں کردار اداکیا۔آپ کے روابط مقامی افسران سے توتھےہی لیکن علاقہ کی سیاسی وسماجی شخصیات سے بھی گہراتعلق تھا۔اس زمانے میں جب یونیورسٹی، میڈیکل کالج اور دیگر تعلیمی اداروں میں طلباء کےلئے حصولِ تعلیم میں مشکلات تھیں انہوں نے جی۔ایم سید سے ملاقات کی۔جی۔ایم سیدحضرت چوہدری ظفراللہ خان کی خدمات کے معترف تھے۔ ان کے تعاون سے احمدی طلباء کے لئے بہت آسانی پیدا ہوئی۔
بابوعبدالغفار کوعبادات اوردعوت الی اللہ کےساتھ شوق شہادت بھی نمایاں تھا۔مکرم راناعطاءاللہ نے مجھے بتایاکہ بابوجی نے اس بات کا برملااظہارکیاکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ساری خواہشیں پوری کی ہیں۔ اب یہ خواہش ہےکہ اللہ تعالیٰ شہادت نصیب کردے۔
مکرم مبشراحمدگوندل حال لندن نے بتایاکہ پنوں عاقل اورمحراب پورمیں شہادتوں کے بعدوہاں خدام ڈیوٹی کےلئے جایاکرتےتھے۔اس وقت کےقائدصاحب نے بابوجی سے درخواست کی کہ خدام کوتلقین کریں کہ وہ خودکو ڈیوٹیوں کےلئےپیش کریں۔بابوجی نے خدام کونصیحت کرتے ہوئے فرمایاکہ ڈیوٹی پرجاتےہوئےکوئی خوف دامن گیرنہیں ہونا چاہئے۔ شہادت تو نصیبوں سےملتی ہےاوراگرکسی کی شہادت مقدر ہوچکی ہے تو وہ ڈارک روم میں بھی نصیب ہوسکتی ہے۔
9 جولائی1986ء کےدن جب بابوجی اپنی دکان کے شوروم میں بیٹھےتھے ایک شقی القلب معاندنے آپ پر خنجر سےحملہ کر کے آپ کو شہید کر دیا اور عمر بھرخدمتِ دین کے لئے خود کو ہمہ وقت پیش کرنے والا یہ وجود اپنے مالکِ حقیقی کے حضور حاضر ہوگیا۔
بلانے ولا ہے سب سے پیارا
اسی پہ اے دل تُو جاں فدا کر
(منصور احمد کاہلوں۔آسٹریلیا)