• 25 اپریل, 2024

پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فکر تھی کہ مومنین کی توبہ حقیقی توبہ ہو۔ آندھی، بادل وغیرہ کو دیکھ کر آپ کاپریشان ہونا اس وجہ سے بھی تھا کہ کہیں مومنوں کی بدعملیاں کسی آفت کو بلانے والی نہ بن جائیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
جب بھی دنیا میں زمینی یا آسمانی آفات آتی ہیں توخدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والا ہر شخص اس خوف سے پریشان ہو جاتا ہے کہ آج جو آفت ایک علاقہ میں آئی ہے کل ہمیں بھی کسی مشکل میں مبتلا نہ کر دے۔ ہمارا کوئی عمل خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والا نہ بن جائے۔ اور یہ حالت ایک حقیقی مومن کی ہی ہو سکتی ہے۔ اُس کی ہو سکتی ہے جس کو یہ فہم اور ادراک حاصل ہو کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے۔ اور جب یہ سوچ ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے اُس کی رضا کی راہوں پر چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور ایسے ہی مومنوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ ہُم مِنْ خَشْیَۃِ رَبِّہِمْ مُّشْفِقُوْنَ (المومنون: 58) کہ یقینا وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے خوف سے کانپتے ہیں۔ اور اس خوف کی وجہ سے بِآیٰتِ رَبِّھِمْ یُؤْمِنُوْنَ (المومنون: 59)۔ اپنے ربّ کی آیات پر ایمان لاتے ہیں۔ آگے پھر بیان ہوتا ہے کہ اُس کا شریک نہیں ٹھہراتے۔ ہر حالت میں اُن کا رُخ خدا تعالیٰ کی طرف ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ آفات میں گھِر گئے تو خدا تعالیٰ یاد آگیا۔ جب آفات سے باہر آئے تو خدا تعالیٰ کو بھول گئے۔ نہیں، بلکہ ہر حالت میں، چاہے تنگی ہو یا آسائش ہو، مشکل میں ہوں یا سکون میں ہوں، اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتے ہیں اور نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کو یاد رکھنا اُس وقت بھی ہوتا ہے جب خدا تعالیٰ نے انہیں ہر قسم کی بلاؤں اور مشکلات سے محفوظ رکھا ہوتا ہے اور کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوتی اور جب کسی مشکل میں گرفتار ہوتے ہیں یا کسی بھی قسم کے موسمی تغیّر یا آفت کو دیکھتے ہیں تواُس وقت وہ مزید اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں اور تا قیامت ہر آنے والے مومن کے لئے اسوہ حسنہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسے حالات میں کیا عمل ہوتا تھا اور کیا حالت ہوتی تھی۔ اس بارہ میں حضرت عائشہؓ سے ایک روایت ہے۔ آپ فرماتی ہیں کہ:
’’جب تیز آندھی آتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کرتے کہ اے اللہ! مَیں تجھ سے اس آندھی میں مضمر ہر ظاہری اور باطنی خیر کا طالب ہوں اور اس کے ہر ظاہری و باطنی شر سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘

(سنن ترمذی کتاب الدعوات باب ما یقول اذا ھاجت الریح حدیث 3449)

نیز آپ یعنی حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب آسمان پر بادل گھر آتے تو آپ کا رنگ بدل جاتا اور آپ کبھی گھر میں داخل ہوتے اور کبھی باہر نکلتے۔ کبھی آگے جاتے اور کبھی پیچھے اور جب بادل برس جاتا تو آپ کی گھبراہٹ ختم ہو جاتی۔ کہتی ہیں کہ یہ بات مَیں آپ کے چہرہ مبارک سے پہچان لیتی تھی۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ ایک بار مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس گھبراہٹ کا سبب پوچھا تو آپؐ نے فرمایا کہ اے عائشہ! یہ اس لئے ہے کہ کہیں یہ بادل قومِ عاد پر عذاب لانے والے بادل جیسا نہ ہو۔

قومِ عاد کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہوں نے جب بادل کو اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ یہ تو ہم پر مینہ برسانے والاہے لیکن وہ عذاب لانے والا بن گیا۔

(صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب ما جاء فی قولہ: و ھو الذی یرسل الریاح بشرا …… حدیث 3206)

تو یہ ہے کامل بندگی اور خشیت کا اظہار، اُس خوف کا اظہار کہ وہ عظیم انسان جس سے اللہ تعالیٰ کے بے شمار وعدے ہیں۔ ہر قسم کے نقصان سے بچانے کے بھی وعدے ہیں، ترقی اور غلبے کے بھی وعدے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی پتہ ہے کہ آپؐ کی زندگی میں کوئی آفت اور مصیبت مسلمانوں پر نہیں آ سکتی، بلکہ دوسرے بھی آپ کی برکتوں سے بچے ہوئے تھے۔ کسی دجّال کا دجل کامیاب نہیں ہو سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی علم تھا کہ جب آندھی اور طوفان آئے تو آپ کے حق میں آتے ہیں۔ بدر کی جنگ ہو یا جنگِ خندق۔ آندھیاں اور طوفان دشمن کی بربادی اور ہزیمت کا باعث بنی تھیں لیکن پھر بھی آپؐ کو فکر ہے۔ اصل میں تو یہ خیال ہو گا کہ آسمانی آفت سے یہ لوگ صفحہ ہستی سے نہ مٹا دئیے جائیں۔ پس آپ کی بے چینی اُس رحم کے جذبہ کے تحت تھی جو اس رحمۃ للعالمین کے دل میں مخلوق کے لئے موجزن تھا اور آپؐ اس قدر بے چینی میں مبتلا ہو جاتے کہ جیسا کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ آپ کے چہرہ کا رنگ متغیر ہو جاتا، بدل جاتا۔ اللہ تعالیٰ کے بے نیاز ہونے کی وجہ سے آپ کو فکر ہوتی تھی کہ کہیں کچھ لوگوں کا تکبر اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں کی صحیح پہچان نہ کرنا پوری قوم کی تباہی کا باعث نہ بن جائے۔ سورۃ ھود کے بارہ میں آپؐ نے ایک جگہ فرمایا کہ اس نے مجھے بوڑھا کر دیا۔

(سنن ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب و من سورۃ الواقعۃ حدیث 3297)

قوموں کی تباہی اور بربادی کا اس سورۃ میں ذکر ملتا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اللہ تعالیٰ کے پیغام کو حقیقی طور پر سمجھتے تھے اور آپؐ سے زیادہ کوئی اور سمجھ نہیں سکتا، آپؐ کو یہ فکر رہتی تھی کہ امت کا ہمیشہ صحیح رستے پر چلتے رہنا میری ذمہ داری ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ وَلَا تَطْغَوْا (ھود: 113) پس جیسے تجھے حکم دیا جاتا ہے اس پر مضبوطی سے قائم ہوجا اور وہ جنہوں نے تیرے ساتھ توبہ کی ہے۔ اور حد سے نہ بڑھنا۔ یعنی مومنوں کوحکم ہے کہ حد سے نہ بڑھنا۔ حد سے بڑھنا خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لینا ہے۔

پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فکر تھی کہ مومنین کی توبہ حقیقی توبہ ہو۔ آندھی، بادل وغیرہ کو دیکھ کر آپ کاپریشان ہونا اس وجہ سے بھی تھا کہ کہیں مومنوں کی بدعملیاں کسی آفت کو بلانے والی نہ بن جائیں۔ یہاں مومنوں کو بھی یہ حکم ہے کہ ایک دفعہ توبہ کر لی ہے تو تمہارے سامنے جو اُسوہ حسنہ قائم ہو گیا ہے اُس کی پیروی کرو۔ ورنہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے۔ مومنوں کو حکم ہے کہ اُن لوگوں کی طرح نہ بنیں جو آفت کو دیکھ کر تو خدا تعالیٰ کو یاد کر لیتے ہیں اور جب مشکل دور ہو جائے تو پھر پرانی ڈگر پر آ جاتے ہیں۔ ایک مومن کی توبہ تو حقیقی توبہ ہوتی ہے اور مستقل توبہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ایک جگہ مثال دیتے ہوئے فرماتا ہے وَ اِذَا غَشِیَہُمۡ مَّوۡجٌ کَالظُّلَلِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۚ فَلَمَّا نَجّٰہُمۡ اِلَی الۡبَرِّ فَمِنۡہُمۡ مُّقۡتَصِدٌ ؕ وَ مَا یَجۡحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا کُلُّ خَتَّارٍ کَفُوۡرٍ (لقمان: 33) اور جب انہیں کوئی موج سائے کی طرح ڈھانک لیتی ہے تو وہ عبادت صرف اللہ کے لئے مخصوص کرتے ہوئے اُس کو پکارتے ہیں۔ پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف نجات دے دیتا ہے تو اُن میں سے کچھ لوگ میانہ روی پر قائم رہتے ہیں اور ہماری آیتوں کا انکار صرف بد عہد اور ناشکرا ہی کرتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 18؍ مارچ 2011ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 اپریل 2021