• 24 اپریل, 2024

قرآن روحانی اور جسمانی بیماریوں کے لئے شفا کا موجب ہے (قسط اوّل)

آج کا میرا یہ آرٹیکل دو حصوں پر مشتمل ہے ۔ اس کی ضرورت اس لئے بھی محسوس ہوئی کہ کچھ دیر میں رمضان کی آمد ہے اور قرآن کریم کا رمضان سے بہت گہرا تعلق ہے۔ قرآن رمضان میں نازل ہونا شروع ہوا۔ رمضان کے بارے میں قرآن نازل ہوا۔ ہر سال حضرت جبرائیل علیہ السلام دنیا کی سب سے پیاری ہستی سیدنا و امامنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے پاس حاضر ہوکر نازل شدہ قرآن کی تلاوت فرماتے اور فرمایا کہ رمضان میں پڑھا ہوا قرآن کریم ایک مومن کی آخری روز شفاعت کریگا۔

لہٰذا رمضان اور قرآن کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ آج میں ایک اور نہج سے ان دونوں کا تعلق ظاہر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ بات مسلّم ہے کہ رمضان المبارک روحانی اور بعض جسمانی بیماریوں کا علاج ہے اور قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے شِفَآءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ (یونس:58) کہ تمام قلبی، جسمانی، روحانی اور نفسیاتی بیماریوں کے لئے شفاء یعنی علاج قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ دو مزید مقامات یعنی شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ (بنی اسرائیل:83) اور ھُدًی وَّشِفَآء (حٰمٓ السّجدہ:45) پر بھی اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لئے قرآن کریم کو شفاء قرار دیا ہے۔ یعنی شرک، کفر، نفاق، حسد، کینہ، بغض، ریاء، عداوت، سحر، جادو اور دیگر اعمال سیئہ سےنجات قرآن کے ذریعہ سے ملتی ہے۔

حضرت امام رازی رحمۃ اللہ نے قرآن کے شفاء ہونے سے کفر کی بیماری کا دُور ہونا نیز جسمانی بیماریوں سے شفاء بھی مراد لی ہے۔

(تفسیر کبیر الرازی جلد اول صفحہ 281)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ شِفَآءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ (یونس:58) کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں کہ
’’یہ کتاب شِفَآءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ ہے جو بیماریاں سینہ و دل سے تعلق رکھتی ہیں اس کتاب میں ان تمام بیماریوں کا علاج پایا جاتا ہے اور جو نسخے یہ کتاب تجویز کرتی ہے ان کے استعمال سے دل اور سینہ کی ہر روحانی بیماری دُور ہوجاتی ہے۔‘‘

(انوارالقرآن جلد2 صفحہ272)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’(قرآن کریم )…….. کیسی عظیم کتاب ہے کہ جس کی نظر سے کوئی باریک سے باریک روحانی بیماری بھی چھپی ہوئی نہیں اور پھر ان کا علاج بتاتی ہے اور اس کا علاج صرف اور صرف ایک ہی ہےکہ خدا سے تعلق پیدا کرو ……… اللہ سے تعلق ہے جو دراصل آپ کا علاج ہے۔ اللہ تعالیٰ سے پیار اور ایسا ذاتی اور قطعی تعلق پیدا کیا جائے کہ جس کے مقابل پر دنیا بالکل حقیر اور بے معنی اور بے حقیقت نظر آنے لگے۔‘‘

(خطبات طاہر جلد2 صفحہ501)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنے بچپن میں 5 ستمبر 1898ء کو اپنے پیارے ابا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہانی سنانے کی فرمائش کی تو آپؑ نے جو پیاری کہانی سنائی وہ خلاصۃً پیش ہے۔

ایک بزرگ کا ایک سفر کے دوران ایسے جنگل سے گزر ہوا جہاں ایک چور رہتا تھا اور ہر آنے جانے والے مسافر کو لوٹ لیتا تھا۔ اپنی عادت کے موافق اس بزرگ کو بھی لوٹنے لگا۔ اس بزرگ نے سورۃ الذاریات کی آیت 23، 24 پڑھ کر اس چور کو فرمایا۔ تمہارا رزق آسمان پر موجود ہے، تم خدا پر بھروسہ کرو‘ تقویٰ اختیار کرو، چوری چھوڑ دو، خدا خود تمہاری ضروریات پوری کرے گا۔ بزرگ کی اس درخواست کا چور کے دل پر بہت اثر ہوا۔ اس نے چوری چکاری چھوڑ دی۔ یہاں تک کہ سونے چاندی کے برتنوں میں عمدہ عمدہ کھانے ملنے لگے۔ اتفاق سے اسی بزرگ کا اُدھر سے ایک بار پھر گزر ہوا۔ چور اب نیک اور متقی بن چکا تھا ۔ اس نے ساری کیفیت بزرگ سے بیان کرکے قرآنی آیت پوچھی کہ وہ کون سی آیت تھی۔ جب بزرگ نے درج ذیل آیات دوبارہ پڑھیں کہ وَفِى السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ ۔ فَوَ رَبِّ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ اِنَّهٝ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَآ اَنَّكُمْ تَنْطِقُوْنَ (الذاریات: 23-24) ان پاک الفاظ کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ خدا تعالیٰ کی عظمت اس کے دل میں بیٹھ گئی اور تڑپ کر اس نے اپنی جان دے دی۔

(حیات احمد جلد اول حصہ دوم صفحہ292)

ہمارے موجودہ امام ایدہ اللہ تعالیٰ بارہا اپنے خطبات میں رات کو سونے سے قبل سورۃ فاتحہ، آیت الکرسی اور دیگر کئی آیات پڑھ کر جسم پر پھونکنے کی تلقین فرماچکے ہیں اور یہ سنت رسول بھی ہے اور یہ بہرحال شفاء کا موجب بھی ہیں۔

اس مضمون کے حوالہ سے ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’روحانی اور جسمانی ہر قسم کے امراض کے لئے دعاؤں کی ضرورت ہے ……… آنحضرت ﷺ نے جو یہ تلقین فرمائی ہے کہ جو یہ آیات پڑھے وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہے گا تو آیات صرف پڑھنا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے مضمون پر غور کرتے ہوئے ان باتوں کو اپنانے کی ضرورت ہے ……… اگر یہ باتیں ہوں گی تو پھر انسان خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کی حفاظت میں رہے گا۔‘‘

(خطبہ جمعہ2 فروری 2018ء، الفضل انٹرنیشنل 23 فروری 2018ء تا 01 مارچ 2018ء صفحہ6-8)

اسی لئے آنحضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت رحمت باری تعالیٰ کا ذکر ہو تو وہ طلب کرنی چاہیے اور جب عذاب الہٰی کے ذکر سے گزریں تو اس سے پناہ مانگنے کی دُعا کریں۔ استغفار کریں۔ اس حوالہ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر نیکیوں کا ذکر ہو، اخلاق حسنہ کا ذکر ہو تو اللہ تعالیٰ سے اس کے لئے دُعا کرنی چاہیے اور اخلاق سیئہ اور بُرے اعمال کا ذکر ہو تو ان بدیوں اور بُرائیوں سے دور رہنے کی دعائیں کرنی چاہئیں۔ تبھی یہ قرآن ایک مومن کے لئے شفاء ثابت ہوسکتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ معوذتین اور آیت الکرسی پڑھ کر پھونکنے کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
رسول کریم ﷺ کاقاعدہ تھا کہ آپ جس وقت بستر پر تشریف لے جاتے تھے تو سورۃ اخلاص اور سورۃ فلق اور سورۃ الناس کو پڑھ کر دونوں ہاتھوں پر پھونکتے اور جسم پر جہاں جہاں تک ہاتھ جاسکتا تھا ہاتھ پھیر لیتے اور ایسا ہی تین دفعہ کرتے اور اس کے ساتھ اور بھی بعض دعائیں ملاتے تھے اور آیت الکرسی بھی پڑھتے تھے۔ یہ اس شخص کا دستور العمل تھا جس کے لئے اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ اور جس کے لئے خدا کی حفاظت ہر طرف سے قائم تھی۔ اس سے خیال کرسکتے ہو کہ اور لوگوں کے لئےایسا کرنا کس قدر ضروری ہے۔ جو لوگ یہ دعا نہیں پڑھتے اس کے یہ معنی نہیںہیں کہ ان کو اس کی ضرورت نہیں ہے ضرورت ہے مگر وہ لوگ اس سے واقف نہیں ۔ اگر جانتے تو ضرور پڑھتے لیکن میں آپ لوگوں کو آگاہ کرتا ہوں کہ قرآن کریم نے ہمیں مصائب و آفات سے بچنے کا یہ گر بتا دیا ہے اور اس سورۃ میں تمام جسمانی آفتوں کا ذکر ہے اور ان سے محفوظ رہنے کا طریق بتایا گیا ہے۔ روحانی آفات اور اس سے بچنے کا ذکر اگلی سورۃ میں ہے۔… میں نے جو آج یہ سورۃ پڑھی ہے اس کی خاص غرض ہے اور وہ یہ کہ جیسا کہ مختلف اخبارات سے معلوم ہورہا ہے پچھلے دنوں میں جو مرض پھیلا تھا وہ آج کل پھر بعض مقامات پر پھوٹ رہا ہے اور یورپ میں تو اس دفعہ قیامت کا نمونہ بنا ہوا ہے۔

(خطبات محمود جلد6 صفحہ182)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ سخت بیمار ہوگئے۔ آپ نے اپنی اس بیماری اور سورۃ یٰسین و دیگر مسنون دعائیں پڑھنے سے شفا پانے کا ذکر اپنی کتاب ’’تریاق القلوب‘‘ میں یوں فرمایا ہے۔
’’ایک مرتبہ میں سخت بیمار ہوا یہاں تک کہ تین مختلف وقتوں میں میرے وارثوں نے میرا آخری وقت سمجھ کر مسنون طریقہ پر مجھے تین مرتبہ سورہ یٰسین سنائی۔ جب تیسری مرتبہ سورہ یٰسین سنائی گئی تو میں دیکھتا تھا کہ بعض عزیز میرے جواب وہ دنیا سے گزر بھی گئےدیواروں کے پیچھے بے اختیار روتے تھے۔ اور مجھے ایک قسم کا سخت قولنج تھا۔ اور باربار دمبدم حاجت ہوکر خون آتا تھا۔ سولہ دن برابر ایسی حالت رہی۔ اور اسی بیماری میں میرے ساتھ ایک اور شخص بیمار ہوا تھا وہ آٹھویں دن راہی ملک بقا ہوگیا۔ حالانکہ اُس کے مرض کی شدت ایسی نہ تھی جیسی میری۔ جب بیماری کو سولھواں دن چڑھا تو اُس دن بکلی حالاتِ یاس ظاہر ہوکر تیسری مرتبہ مجھے سورہ یٰسین سنائی گئی۔ اور تمام عزیزوں کے دل میں یہ پختہ یقین تھا کہ آج شام تک یہ قبر میں ہوگا۔ تب ایسا ہوا کہ جس طرح خداتعالیٰ نے مصائب سے نجات پانے کے لئے بعض اپنے نبیوں کو دعائیں سکھلائی تھیں ۔مجھے بھی خدا نے الہام کرکے ایک دعا سکھلائی اور وہ یہ ہے۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِهٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِيمِ اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ۔ اور میرے دل میں خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا کہ دریا کے پانی میں جس کے ساتھ ریت بھی ہو ہاتھ ڈال اور یہ کلمات طیبہ پڑھ اور اپنے سینہ اور پشت سینہ اور دونوں ہاتھوں اور منہ پر اس کو پھیر کہ اِس سے تو شفا پائے گا۔ چنانچہ جلدی سے دریا کا پانی مع ریت منگوایا گیا اور میں نے اسی طرح عمل کرنا شروع کیا جیسا کہ مجھے تعلیم دی تھی۔ اور اس وقت حالت یہ تھی کہ میرے ایک ایک بال سے آگ نکلتی تھی اور تمام بدن میں دردناک جلن تھی اور بے اختیار طبیعت اس بات کی طرف مائل تھی کہ اگر موت بھی ہو تو بہتر تا اس حالت سے نجات ہو۔ مگر جب وہ عمل شروع کیا تو مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ہر ایک دفعہ ان کلمات طیبہ کے پڑھنے اور پانی کو بدن پر پھیرنے سے میں محسوس کرتا تھا کہ وہ آگ اندر سے نکلتی جاتی ہے بجائے اس کے ٹھنڈک اور آرام پیدا ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ ابھی اس پیالہ کا پانی ختم نہ ہوا تھا کہ میں نے دیکھا کہ بیماری بکلی مجھے چھوڑ گئی۔ اور میں سولہ دن کے بعد رات کو تندرستی کے خواب سے سویا۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ208-209)

پس ہم پر لازم ہے کہ ہم قرآن کریم کی تلاوت اپنی مادی، روحانی اور نفسیاتی بیماریوں کے علاج کے طور پر کریں۔ اس پر غوروفکر کریں۔ تدبر کریں۔ اس میں حقائق و معارف تلاش کریں۔ تب یہ قرآن ہماری بیماریوں کےلئے تیر بہدف کام کرے گا۔ چند سال قبل ایک امریکن یونیورسٹی نے قرآن کریم کی تلاوت کے حوالہ سے یوں جائزہ لیا کہ عربی نہ جاننے والوں کو قرآن کریم کی چند آیات سنائی گئیں اور ان افراد کے ذہن پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ مشینوں کے ذریعہ لیا گیا۔ تو یہ حیران کن نتائج بھی سامنے آئے کہ یہ لوگ عربی زبان سے ناواقف ہیں۔ نہ انہوں نے کبھی قرآن سنا اور یہ مختلف ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا شکار تھے۔ بعض کی دماغی حالت ٹھیک نہ تھی لیکن قرآن کریم کی تلاوت سننے کے بعد ان کا ذہنی تناؤ ختم ہوا اور دماغ میں تازگی آگئی۔

(روزنامہ قدرت اسلام آباد 7 مئی 2017ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
’’یہ کتاب دلی شبہات کے لئے شفا ہے‘‘

(تفسیر کبیر جلد3 صفحہ93)

(باقی آئندہ ہفتہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 اپریل 2021