• 26 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت کی اصلاح کے حوالہ سے ایمان افروز روایات

؎خدا سے وہی لوگ کرتےہیں پیار
جوسب کچھ ہی کرتے ہیں اس پر نثار
اسی فکر میں رہتے ہیں روز وشب
کہ راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب

انبیاءؑ کا اصل کام بندوں کا خدا کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کرنا ہوتا ہےنیز عقائد کی اصلاح اور بدعات اور رسم و رواج کا خاتمہ اسی اصل مقصد کے حصول کی کڑیاں ہیں۔ اس اصل مقصود کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام اپنی انتہائی فکرمندی کا اظہارکرتے ہوئے فرماتے ہیں:
چند دن سے ایک خیال میرے دماغ میں اس زور کے ساتھ پیدا ہورہا ہے کہ اس نے دوسری باتوں سے مجھے بالکل محو کر دیا ہے بس ہر وقت اٹھتے بیٹھتے وہی خیال میرے سامنے رہتا ہے میں باہر لوگوں میں بیٹھتا ہوں اور کوئی شخص مجھ سے کوئی بات کرتا ہے تو اس وقت بھی میرے دماغ میں وہی خیال چکرلگا رہا ہوتا ہے وہ شخص سمجھتا ہے کہ میں اس کی بات سن رہا ہوں مگر میں اپنے اس خیال میں محو ہوتا ہوں جب میں گھر جاتا ہوں تو وہاں بھی وہی خیال میرے ساتھ ہوتا ہے غرض ان دنوں یہ خیال اس زور کے ساتھ میرے دماغ پرغلبہ پائے ہوئے ہے کہ کسی اور خیال کی گنجائش نہیں رہی وہ خیال کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ میرے آنے کی اصل غرض یہ ہے کہ ایک ایسی جماعت تیار ہو جاوے جو سچی مومن ہو اور خدا پر حقیقی ایمان لائے اور اسکے ساتھ حقیقی تعلق رکھے اور اسلام کو اپنا شعار بنائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر کاربند ہو اور اصلاح و تقویٰ کے راستے پر چلے اور اخلاق کا اعلیٰ نمونہ قائم کرے تاکہ پھر ایسی جماعت کے ذریعے دنیا ہدایت پاوے اور خدا کا منشاء پورا ہو پس اگر یہ غرض پوری نہیں ہوتی تو اگر دلائل و براہین سے ہم نے دشمن پرغلبہ بھی پا لیا اور اس کو پوری طرح زیر بھی کر لیا تو پھر بھی ہماری فتح کوئی فتح نہیں کیونکہ اگر ہماری بعثت کی اصل غرض پوری نہ ہوئی تو گویا ہمارا سارا کام رائیگاں گیا مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ دلائل و براہین کی فتح کے تو نمایاں طور پر نشانات ظاہر ہو رہے ہیں اور دشمن بھی اپنی کمزوری محسوس کرنے لگا ہے لیکن جو ہماری بعثت کی اصل غرض ہے اسکے متعلق ابھی تک جماعت میں بہت کمی ہے اور بڑی توجہ کی ضرورت ہے بس یہ خیال ہے جو مجھے آجکل کھا رہا ہے اور یہ اس قدر غالب ہورہا ہے کہ کسی وقت بھی مجھے نہیں چھوڑتا‘‘۔

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 258)

ایک موقع پر کسی نے عرض کیا کہ حضورؑ کے پاس بعض لوگ ایسے آتے جاتے ہیں جنکی داڑھیاں منڈھی ہوتی ہیں فرمایا:
’’تمہیں پہلے داڑھی کی فکر ہے مجھے ایمان کی فکر ہے‘‘۔

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر257)

ایک روایت میں ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے فرمایا کہ ایک دفعہ میں نے کسی شخص سے ایک زراعتی کنواں ساڑھے تین ہزار روپیہ میں رہن لیا مگر میں نے اس سے نہ کوئی رسیدلی اور نہ کوئی تحریر کروائی اور کنواں بھی اسی کے قبضے میں رہنے دیا ۔کچھ عرصہ کے بعد میں نے اس سے کنویں کی آمدکا مطالبہ کیا تو وہ صاف منکر ہو گیا اور رہن کا ہی انکار کر بیٹھا۔۔۔ کسی نے یہ خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک پہنچا دی اور مولوی صاحب کے نقصان پر افسوس کیا مگر حضرت صاحب نے فرمایا کہ تمہیں ان کے نقصان کی فکر ہے مجھےایمان کی فکر ہے مولوی صاحب نے کیوں دوسرے شخص کو ایسی حالت میں رکھا جس سے اسکو بد نیتی کا موقعہ ملا اور کیوں اسلامی حکم کے مطابق اس سے کوئی تحریر نہ لی اور کیوں اس سے باقاعدہ قبضہ نہ حاصل کیا؟

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر151)

حضرت مسیح موعودؑ کو اپنی جماعت کے اعلیٰ نمونہ اور تربیت کی اس قدر فکر تھی کہ اگر آپکو پتہ لگتا کہ قادیان میں کوئی اوباش بد فعل قسم کا انسان آگیا ہے تو آپؑ اسے فورا ًقادیان بدر کرنے کا حکم صادر فرماتے تا ایسا نہ ہو کہ اسکی بد صحبت دوسروں کے اخلاق تباہ کردے۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں حضرت مولوی صاحب خلیفۂ اولؓ کے بعض شاگردوں کے متعلق بدکاری کا شبہ ہوا اور یہ خبر حضرت صاحب تک بھی جا پہنچی۔ حضورؑ نے حکم دیا کہ وہ طالبعلم فورا ًقادیان سے چلے جائیں۔ مولوی صاحب نے حضرت صاحبؑ کے سامنے بطور سفارش کہا کہ حضورؑ صرف شبہ کیا گیا ہے کوئی بات ثابت تو نہیں ہوئی۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ مولوی صاحب ہم بھی تو ان کو شرعی حد نہیں لگا رہے بلکہ جب ایسی افواہیں اور شبہ پیدا ہوا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ احتیاطا ًان کو قادیان سے رخصت کر دینا چاہیے مگر ہم ان پر کوئی شرعی الزام نہیں رکھتے ۔

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر153)

اسی طرح ایک دفعہ حضرت خلیفۂ اولؓ کا ایک رشتہ دار جو ایک بھنگی چرسی اور بدمعاش آدمی تھا قادیان آیا اور اسکے متعلق کچھ شبہ ہوا کہ وہ کسی بدارادے سے یہاں آیا ہےاور اسکی رپورٹ حضرت صاحبؑ تک بھی جاپہنچی۔ حضورؑ نے خلیفۂ اولؓ کو کہلا بھیجا کہ اسے فورا ًقادیان سے رخصت کردیں۔

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 284)

دنیا کے مختلف ممالک میں جماعت پر مخالفت کی سختی، تنگی وتکالیف کے دن آتےرہتے ہیں جیسے آجکل پیارے آقا پاکستان اور الجزائر کے احمدیوں پر سختیوں کا ذکر کرکے بار بار خدا کے آگے جھکنے اور دعاؤں پرزور دینے کا فرما رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کے وقت میں بھی ایسے حالات پیش آتے اور بعض جوشیلے احمدی مقابلہ کرنے کی اجازت چاہتے تو حضورؑ انہیں امن، صبر اور دعا کی تلقین فرماتے ۔چنانچہ ایک دفعہ قادیان کے لوگوں خصوصا ًسکھوں کی ایذارسانیوں پر سید احمدنورمہاجرکابلی صاحب نے اپنی تکالیف کااظہار کیا اورمقابلہ کی اجازت چاہی مگر حضرت صاحب نے فرمایا کہ دیکھو اگر امن اور صبر کے ساتھ یہاں رہنا ہے تو یہاں رہو اور اگر لڑنا ہے اور صبر نہیں کرسکتے تو کابل چلے جاؤ۔

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر140)

اور اگر کبھی کوئی احمدی کسی بدزبان کو اسکی بدزبانی پر کچھ ردعمل دکھاتا تو آپؑ سخت ناراض ہوتے۔چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑاپنے بیٹے حضرت مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات پر صبر کے اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’پس جب قضاءوقدر کے قانون کی چوٹ بندے کو آکر لگتی ہے اور وہ اس کو خدا کے لئے برداشت کرتا ہے اور صبر سے کام لیتا ہے اور خدا کی قضا پرراضی ہوتا ہے تو پھر وہ اس ایک آن میں اتنی ترقی کر جاتا ہے جتنی کے چالیس سال کے نماز روزے سے بھی نہیں کرسکتا پس مومن کے لئے ایسے دن درحقیقت ایک لحاظ سے بڑی خوشی کے دن ہے‘‘

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 158)

پس آجکل کےمشکل حالات میں ہم صبر اور دعا اور اعلیٰ نمونہ دکھا کر وہ مقام حاصل کرسکتے ہیں جو چالیس سال کے نماز روزے سے بھی نہیں حاصل ہوسکتا۔

(مرسلہ اے ۔ اے ۔ ورک پاکستان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 اپریل 2021