• 14 مئی, 2024

’’دعا کی حاجت تو اُسی کو ہوتی ہے جس کے سارے راہ بند ہوں اور کوئی راہ سوائے اُس کے دَر کے نہ ہو۔‘‘

’’دعا کی حاجت تو اُسی کو ہوتی ہے جس کے سارے راہ بند ہوں اور کوئی راہ سوائے اُس کے دَر کے نہ ہو۔‘‘
(حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’انسان اپنے نفس کی خوشحالی کے واسطے دو چیزوں کا محتاج ہے۔ ایک دنیا کی مختصر زندگی اور اس میں جو کچھ مصائب، شدائد، ابتلاء وغیرہ اسے پیش آتے ہیں ان سے امن میں رہے۔ دوسرے فسق و فجور اور روحانی بیماریاں جو اُسے خدا تعالیٰ سے دور کرتی ہیں ان سے نجات پاوے۔ تو دنیا کا حَسَنَہ یہ ہے کہ کیا جسمانی اور کیا روحانی طور پر یہ ہر ایک بلا اور گندی زندگی اور ذلت سے محفوظ رہے۔ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا (النساء: 29)۔‘‘ (یعنی انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے)۔ فرمایا کہ ’’ایک ناخن ہی میں درد ہو تو زندگی بیزار ہوجاتی ہے‘‘۔ فرمایا: ’’اسی طرح جب انسان کی زندگی خراب ہوتی ہے۔ (مثلاً) جیسے بازاری عورتوں کا گروہ (ہے) کہ اُن کی زندگی کیسے ظلمت سے بھری ہوئی (ہے) اور بہائم کی طرح ہے‘‘ (جانوروں کی طرح کی زندگی ہے) ’’کہ خدا اور آخرت کی کوئی خبر نہیں۔ دنیا کا حَسَنَہ یہی ہے کہ خدا ہر ایک پہلو سے خواہ وہ دنیا کا ہو، خواہ آخرت کا، ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے۔ اور فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً میں جو آخرت کا پہلو ہے، وہ بھی دنیا کی حَسَنَہ کا ثمرہ ہے۔‘‘ (اُسی کا پھل ہے۔) ’’اگر دنیا کا حَسَنَہ انسان کو مل جاوے تو وہ فال نیک آخرت کے واسطے ہے۔ یہ غلط ہے جو لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کا حَسَنَہ کیا مانگنا ہے۔ آخرت کی بھلائی ہی مانگو‘‘۔ فرمایا کہ ’’صحت جسمانی وغیرہ ایسے امور ہیں جس سے انسان کو آرام ملتا ہے اور اسی کے ذریعہ سے وہ آخرت کے لئے کچھ کر سکتا ہے اور اس لئے ہی دنیا کو آخرت کا مَزْرَعَۃ کہتے ہیں (یعنی آخرت کی کھیتی کہتے ہیں۔ دنیا میں جو بوؤگے وہی وہاں جاکے کاٹوگے۔) اور درحقیقت جسے خدا دنیا میں صحت، عزت، اولاد اور عافیت دیوے اور عمدہ عمدہ اعمالِ صالح اُس کے ہوویں تو امید ہوتی ہے کہ اُس کی آخرت بھی اچھی ہوگی۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ600 ایڈیشن 2003ء)

پھر اسی آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ یہ دعا کرو کہ ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ اس میں صرف آخرت کے عذاب نار کی طرف ہی توجہ نہیں دلائی گئی بلکہ اس سے بچنے کی دعا کرو جو اس دنیا کی بھی آگ ہے۔ اس دنیا میں بھی آگ کا عذاب ہوتا ہے۔ پس اس دعا میں دنیا اور آخرت دونوں کے عذابِ نار سے بچنے کے لئے دعا سکھائی گئی ہے۔ دنیا کے عذابِ نار جو ہیں وہ بھی قسما قسم کے ہیں، مصیبتیں ہیں اور دکھ ہیں جو اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو عذاب کے بجائے حَسَنَہ بن جاتے ہیں۔ اس دنیا میں عذابِ نار کی ایک مثال جیسا کہ میں نے ذکر کیا آجکل بعض ملکوں کے جو حالات ہیں وہ بھی ہیں۔ کوئی پتہ نہیں کہ گھر بیٹھے یا بازار میں پھرتے ہوئے کہاں سے بندوق کی گولی آئے اور کوئی گولہ پھٹے اور انسان کو لہو لہان کر دے یا اُس کی زندگی لے لے۔ کئی جانیں اسی طرح ضائع ہو جاتی ہیں۔ جہاں ایسی باتیں ہورہی ہوں، عمل ہو رہے ہوں، اس طرح کی زندگی ہو تو وہاں جب کوئی عذابِ نار سے بچاؤ کی دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول کرتے ہوئے ان چیزوں سے بچا لیتا ہے۔ آجکل کے شرور جو دہشت گردوں نے پیدا کئے ہوئے ہیں، اُن سے بچنے کے لئے بھی یہ وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کی دعا ہے۔

گزشتہ دنوں کراچی میں ہمارے ایک احمدی جوان آدمی، چالیس پینتالیس سال کی عمر تھی، سودا لینے کے لئے گھر سے نکلے اور دو چار منٹ کے بعد ہی وہاں بم دھماکہ ہوا جس میں پچھلے دنوں میں پچاس آدمیوں کی جان ضائع ہوئی ہے اُس میں وہ بھی شہید ہوگئے۔

پس آجکل تو جگہ جگہ آگ کے پھندے ان دہشت گردوں نے لگائے ہوئے ہیں۔ ان کے عذاب سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے بہت دعا کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ کس وقت کہاں کیا ہونا ہے۔ اس لئے انسان اُس سے مانگے کہ میرا گھر میں رہنا اور میرا باہر نکلنا تیرے فضل سے میرے لئے حَسَنَہ کا باعث بن جائے اور ان عذابوں سے مجھے بچا لے۔ اسی طرح آخرت کے عذاب سے بھی مجھے بچا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اور اقتباس پڑھتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’دعا کی حاجت تو اُسی کو ہوتی ہے جس کے سارے راہ بند ہوں اور کوئی راہ سوائے اُس کے دَر کے نہ ہو۔ اُسی کے دل سے دعا نکلتی ہے …‘‘

گزشتہ سے پہلے خطبہ میں مَیں نے اس کی حضرت مصلح موعود کے حوالے سے تھوڑی وضاحت بھی کی تھی۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ فرما رہے ہیں کہ دعا کی حاجت تو اُسی کو ہوتی ہے جس کے سارے راہ بند ہوں اور کوئی راہ سوائے اُس دَر کے نہ ہو، اُسی کے دل سے دعا نکلتی ہے۔ ’’غرض رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا۔ الخ ایسی دعا کرنا صرف اُنہیں لوگوں کا کام ہے جو خدا ہی کو اپنا رب جان چکے ہیں۔ اور اُن کو یقین ہے کہ اُن کے رب کے سامنے اَور سارے اربابِ باطلہ ہیچ ہیں‘‘۔ فرمایا کہ ’’آگ سے مراد صرف وہی آگ نہیں جو قیامت کو ہو گی۔ بلکہ دنیا میں بھی جو شخص ایک لمبی عمر پاتا ہے وہ دیکھ لیتا ہے کہ دنیا میں بھی ہزاروں طرح کی آگ ہیں۔ تجربہ کار جانتے ہیں کہ قسم قسم کی آگ دنیا میں موجود ہے۔ طرح طرح کے عذاب، خوف، خون، فقرو فاقے، امراض، ناکامیاں، ذلت و ادبار کے اندیشے، ہزاروں قسم کے دکھ، اولاد، بیوی وغیرہ کے متعلق تکالیف اور رشتہ داروں کے ساتھ معاملات میں الجھن۔ غرض یہ سب آگ ہیں۔ تو مومن دعا کرتا ہے کہ ساری قسم کی آگوں سے ہمیں بچا۔ جب ہم نے تیرا دامن پکڑا ہے تو ان سب عوارض سے جو انسانی زندگی کو تلخ کرنے والے ہیں اور انسان کے لئے بمنزلہ آگ ہیں، بچائے رکھ‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ145 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

(خطبہ جمعہ 8؍ مارچ 2013ء)

پچھلا پڑھیں

لائبریری اور اسکول کو کتب کی ڈونیشن

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 اپریل 2022