• 6 مئی, 2024

رمضان کا انتساب براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہے

خاکسار جب لاہور اور پھر اسلام آبادمیں خدمات دینیہ بجا لا رہا تھا، ان شہروں میں قیام کے دوران کبھی کبھار مختلف اخبارات، رسائل و میگزینز میں سےاہم تراشے اور بعض اوقات مکمل رسائل و میگزینز ہی محترم مولانا دوست محمد شاہد،مورخ احمدیت کوریکارڈ میں محفوظ کرنے کے لئے بھجوایا کرتا تھا۔ محترم مولانا موصوف کی شخصیت کا ایک وصف یہ تھا کہ آپ اپنے نام آنے والے خطوط، مکتوبات کا جواب بے حد مصروفیات کےباوجود اپنے ہاتھ سےرقم کرکے دیا کرتےتھے اور شعر کا یہ مصرعہ اکثر لکھا کرتے تھے۔

تجھ کو اس لطف کی اللہ ہی جزاء دے ساقی

خطوط کے جواب میں جن الفاظ کو نمایاں کرنا مقصود ہوتا ان الفاظ کو جلی (Bold Font) کر کے لال و سبز رنگ سے لکھتے اور فقروں کے نیچے رنگ دار لکیر کھینچا کرتے گویا یوں لگتا جیسے رنگ رنگ کے موتی پروئے ہوں۔

ایک دفعہ خاکسار نے کچھ تراشے جب آنمکرم کو بھجوائے تو ماہ رمضان تھا۔ آپ نے ان تراشوں کی وصولی کے خط میں لکھا کہ ‘‘رمضان کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا انتساب براہ راست اللہ تعالیٰ سے کیا گیا ہے کیونکہ بعض احادیث کے مطابق رمضان خود اللہ جلشانہٗ کا اسم مبارک بھی ہے۔’’

(درمنثور للسیوطی)

یہ خط 23/ اکتوبر 2004ء کا تحریر شدہ ہے۔ جو میرے ایک دوست زاہد محمود نے مہیا کرکے رمضان کے حوالے سے اداریہ لکھنے کی درخواست کی ہے۔

مکرم عبدالسمیع خان استاد جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا نے خاکسار کی درخواست پر اس حدیث کے درج ذیل الفاظ مہیا فرمائے ہیں۔

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ، لَا تَقُوْلُوْا رَمَضَانَ فَانَّ رَمَضَانَ اِسْمٌ مِنْ اَسْمَاءِ اللّٰہ وَلٰکِنْ قُوْلُوْا شَھْرُ رَمَضَانَ۔

(السنن الکبریٰ بیہقی جلد 4 صفحہ 339 کتاب الصیام،حدیث نمبر 7904)

ترجمہ:۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان کو رمضان نہ کہا کرو کیونکہ رمضان، اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے بلکہ رمضان کو ماہ رمضان کہا کرو۔

الغرض ماہ رمضان کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ مکرم مولانا مرحوم کے مطابق رمضان کا انتساب خود اللہ تعالیٰ نے اپنے سے کیا ہے۔ یہ مبارک دن خالق حقیقی کو اپنا بنانے، اس کو سینے سے لگانے کے دن ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ان مبارک دنوں کو اللہ کو مَل لینے کے دن کہا کرتے تھے۔ ایک موقع پر آپ نے ایک واقعہ یوں بیان فرمایا کہ:
ایک دفعہ ایک بادشاہ نے اپنے محل کے دروازے کھول کر درباریوں سے کہا کہ فلاں سے فلاں وقت تک یہ محل کھول دیا گیا ہے۔ آپ جو قیمتی اشیاء لینا چاہتے ہیں اٹھا کر لے جائیں۔ ایک ہوشیار اور دانا بوڑھا درباری اٹھ کر دھیرے دھیرے بادشاہ کی طرف بڑھنے لگا اور جا کر بادشاہ کو ہاتھ لگا کر کہنے لگا کہ بادشاہ سے بڑھ کر کوئی چیز قیمتی نہیں ہو سکتی۔ جس نے بادشاہ کو مَل لیا بادشاہ اس کا ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی ماہ رمضان کا محدود وقت ہوتا ہے۔ اس میں اپنے خدا کو ہاتھ لگا لیں۔ اس کو مَل لیں اور جس کا خدا ہو جائے ساری دنیا اس کی ہو جاتی ہے۔ اس کو کسی اور کو مَلنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ دوسرے معنوں میں یوں کہہ لیں کہ ماہ رمضان میں رمضان خدا کو مَلنے کی ضرورت ہے۔

*حدیث میں آتا ہے کہ جب رمضان آتا ہے تو جنت کہتی ہے کہ یا اللہ! اس مہینے میں اپنے بندوں کو میرے لئے خاص کر دے۔ (بیہقی شعب الایمان) مجمع الزوائد کے الفاظ یوں ہیں

فَاتَّقُوْا شَھْرَ رَمَضَانَ فَاِنَّہٗ شَھْرُ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ

کہ رمضان کے مہینے کا خاص خیال رکھو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے جو بڑی برکت والا اور بلند شان والا ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس مضمون کو ایک جگہ یوں بیان فرمایا ہے:
’’میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ رمضان سے پورے طور پر فائدہ اٹھائیں کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے برکات نازل ہونے کے خاص دن ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک سخی اپنے خزانہ کے دروازے کھول کر اعلان کر دے کہ جو آئے، لے جائے۔ برکتوں اور رحمتوں کے دروازے اپنے بندوں کے لئے کھول دیتا ہے اور کہتا ہے کہ آؤ اور آ کر لے جاؤ۔‘‘

(تربیتی درس از صدارت عمومی جلد اول صفحہ:126)

*ماہ رمضان کی ’’رمضان خدا‘‘ سے ایک نسبت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمائی ہے:

ذَاکِرُ اللّٰہِ فِیْ رَمَضَانَ مَغْفُوْرٌ لَہٗ وَسَائِلُ اللّٰہِ فِیْہِ لَایَخِیْب

(جامع الصغیر)

کہ رمضان میں اللہ کا ذکر کرنے والا بخشا جاتا ہے اور اس ماہ اللہ سے مانگنے والا کبھی نامراد نہیں رہتا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’رمضان کا مہینہ مبارک مہینہ ہے، دعاؤں کا مہینہ ہے۔‘‘

(الحکم 24/ جنوری 1901ء)

*رمضان کا نام اس لئے رکھا گیا کہ یہ گناہوں کو جلا کر بھسم کر دیتا ہے۔

(کنزالعمال کتاب الصوم)

گویا ’’رمضان خدا‘‘ جس میں حلول کرے گا اس کے گناہ مٹ جائیں گے اور وہ گناہوں سے پاک و صاف ہو گا کیونکہ اللہ کی آمد سے اللہ ہی اللہ ہو گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام رمضان کے معانی دو گرمیوں کے ضمن میں فرماتے ہیں:
’’رمضان سورج کی تپش کو کہتے ہیں۔ رمضان میں چونکہ انسان اکل و شرب اور تمام جسمانی لذتوں پر صبر کرتا ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لیے ایک حرارت اور جوش پیدا کرتا ہے۔ روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہوا۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ209)

اس آرٹیکل میں قارئین کرام کو ماہ رمضان کی اہمیت و افادیت اللہ تعالیٰ کے حوالے سےبیان کر کے ماہ رمضان کے دنوں میں اپنے اندر روحانی حرارت پیدا کرنے کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔

حدیث قدسی ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ روزے میرے لئے ہیں اور میں خود ہی اس کی جزاء بنوں گا۔

*ماہ رمضان کی اہمیت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے بھی ظاہر و باہر ہے کہ آپ نے شعبان کے آخری روز صحابہ کی طرف اپنا رخ مبارک کر کے ایک خطاب فرمایا۔ جس کے آغاز میں آپؐ نے فرمایا کہ تم پر ایک ایسا عظمت اور شان والا مہینہ سایہ کرنے والا ہے جو بہت برکتوں کا مہینہ ہے۔

(مشکوٰۃ، کتاب الصوم)

یہ ایسا بابرکت مہینہ ہے جس میں انسان اللہ تعالیٰ سے ایک رنگ میں مشابہت اختیار کر لیتا ہے۔ کم کھانا، کم بولنا اور کم سونا۔ اس حوالہ سے اللہ تعالیٰ کی مشابہت ہو جاتی ہے۔

فارسی میں ضرب المثل ہے:

کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر باکبوتر، باز با باز

کہ ایک ہم جنس پرندہ اپنے ہم جنسوں کے ساتھ پرواز کرتا ہے۔ کبوتر، کبوتر کے ساتھ اور باز، باز کے ساتھ۔ پس روزہ کا ایک روحانی فائدہ یہ ہے کہ انسان کا خدا تعالیٰ سے اعلیٰ درجہ کا اتصال پیدا ہوجاتا ہے اور خدا تعالیٰ خود اس کا محافظ ہو جاتا ہے۔

حدیث میں ہے کہ

مَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَاِحْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَاتَقَدَّم مِنْ ذَنْبِہٖ

(بخاری کتاب الایمان)

کہ جو ماہ رمضان میں ایمان کی حالت میں اور اپنا محاسبہ کرتے ہوئے عبادات کے لئے کھڑا رہا تو اس کے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

ان معانی کو ’’رمضان اللہ کا نام ہے‘‘ پر لاگو کریں تو نہایت ہی لطیف اور عمدہ معانی سامنے آتے ہیں کہ جب ایک مومن ایمان کی حالت میں اور اپنی لغزشوں اور کمزوریوں کا احتساب کرتے ہوئے ’’رمضان خدا‘‘ کو اپنے سامنے پائے گا تو خوف خدا سے وہ پاک و صاف ہو جائےگا۔

*آخر میں صحیح بخاری کی ایک ایسی حدیث رمضان کی اہمیت کے لئے رکھنا چاہتا ہوں جو اوپر بیان شدہ مضمون کو مزید اجاگر کرتی ہے وہ یہ کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ یا بعض روایات میں اذا دخل شھر رمضان کے الفاظ آتے ہیں

کہ جب رمضان کا مہینہ داخل ہوتا ہے۔ یہاں ماہ رمضان کے آنے کا ذکر نہیں کیا گیا بلکہ رمضان کے داخل ہونے کا ذکر ہے۔ تو اس کے معانی یہ ہوئے کہ جب ’’رمضان خدا‘‘ انسان کے اندر داخل ہو گا تو وہ نورانی چہرہ بن جائے گا۔ اس لئے جنت کے دروازے وا کر دیئے جائیں گےاور اس کی دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جائیں گے۔

گویا یہ حدیث بہت گہرے مضامین اپنے اندر رکھتی ہے کہ جب رمضان انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے تو پھر شیطان کو وہاں قریب پھٹکنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’روزہ اس چیز کا نام نہیں کہ کوئی شخص اپنا منہ بند رکھے اور سارا دن نہ کچھ کھائے اور نہ پیئے بلکہ روزہ یہ ہے کہ مونہہ کو کھانے پینے سے ہی نہ روکا جائے بلکہ اسے ہر روحانی نقصان دہ اور ضرر رساں چیز سے بھی بچایا جائے نہ جھوٹ بولا جائے۔ نہ گالیاں دی جائیں۔ نہ غیبت کی جائے۔ نہ جھگڑا کیا جائے۔ اب دیکھو زبان پر قابو رکھنے کا حکم تو ہمیشہ کے لئے ہے۔ لیکن روزہ دار خاص طور پر اپنی زبان پر قابو رکھتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اور اگر کوئی شخص ایک مہینہ تک اپنی زبان پر قابو رکھتا ہے تو یہ امر باقی گیارہ مہینوں میں بھی اس کے لئے حفاظت کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے۔ اور اس طرح روزہ اسے ہمیشہ کے لئے گناہوں سے بچا لیتا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ377)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بابرکت مہینہ میں اپنا احتساب کرنے اور سچے دل کے ساتھ ماہ رمضان کی برکات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

لائبریری اور اسکول کو کتب کی ڈونیشن

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 اپریل 2022