• 17 جولائی, 2025

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 4)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط4

مفارقت میں کشش

… قرآن کریم کس قدر عالی مضامین کو کیسے انداز اور طرز سے بیان کرتا ہے۔ پھر قرآن شریف میں ایک مقام پر رات کی قسم کھا ئی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ اس وقت کی قسم ہے جب وحی کا سلسلہ بند تھا۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ ایک مقام ہے جو ان لوگوں کے لئے جو سلسلۂ وحی سے افاضہ حاصل کرتے ہیں آتا ہے۔ وحی کے سلسلہ سے شوق اور محبت بڑھتی ہے۔ لیکن مفارقت میں بھی ایک کشش ہوتی ہے جو محبت کے مدارجِ عالیہ پر پہنچاتی ہے۔ اللہ تعالےٰ نے اس کو بھی ایک ذریعہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ اس سے قلق اور کرب میں ترقی ہوتی ہے اور روح میں ایک بیقراری اور اضطراب پیدا ہوتا ہے جس سے وہ دعاؤں کی روح اس میں نفخ کی جاتی ہے کہ وہ آستانۂ الوہیت پر یا رب یا رب کہہ کر اور بڑے جوش اور شوق اور جذبہ کے ساتھ دوڑتی ہے۔ جیسا کہ ایک بچہ جو تھوڑی دیر کے لئے ماں کی چھاتیوں سے الگ رکھا گیا ہو۔ بے اختیار ہو کر ماں کی طرف دوڑتا اور چلاتا ہے۔ اسی طرح پر بلکہ اس سے بھی بیحد اضطراب کے ساتھ روح اللہ کی طرف دوڑتی ہے اور اس دوڑ دھوپ اور قلق و کرب میں وہ لذت اور سرور ہوتا ہے جس کو ہم بیان نہیں کرسکتے۔ یاد رکھو۔ روح میں جس قدر اضطراب اور بے قراری خداتعالےٰ کے لئے ہوگی۔ اسی قدر دعاؤں کی توفیق ملے گی اور ان میں قبولیت کا نفخ ہوگا۔ غرض یہ ایک زمانہ ماموروں اور مرسلوں اور ان لوگوں پر جن کے ساتھ مکالماتِ الٰہیہ کا ایک تعلق ہوتا ہے آتا ہے اور اس سے غرض اللہ تعالیٰ کی یہ ہوتی ہے کہ تا ان کو محبت کی چاشنی اور قبولیت دعا کے ذوق سے حصہ دے اور ان کو اعلیٰ مدارج پر پہنچا دے تو یہاں جو ضحی اور لیل کی قسم کھائی۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدارج عالیہ اور مراتب محبت کا اظہار ہے اور آگے پیغمبر خداؐ کا ابراء کیا کہ دیکھو دن اور رات جو بنائے ہیں۔ ان میں کس قدر وقفہ ایک دوسرے میں ڈال دیا ہے۔ ضحٰی کا وقت بھی دیکھو اور تاریکی کا وقت بھی خیال کرو۔ مَاوَدَّعَک رَبُّکَ (الضحٰی: 4)۔ خدا تعالیٰ نے تجھے رخصت نہیں کر دیا۔ اس نے تجھ سے کینہ نہیں کیا بلکہ ہمارا یہ ایک قانون ہے۔ جیسے رات اور دن کو بنایا ہے اسی طرح انبیاء علیہم السلام کے ساتھ بھی ایک قانون ہے کہ بعض وقت وحی کو بند کردیا جاتا ہے تاکہ ان میں دعاؤں کے لئے زیادہ جوش پیدا ہو۔ اور ضحٰی اور لیل کو اس لئے بطور شاہد بیان فرمایا۔ تا آپؐ کی امید وسیع ہو اور تسلی اور اطمینان پیدا ہو۔ مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان قسموں کے بیان کرنے سے اصل مدعا یہ رکھا ہے کہ تا بدیہات کے ذریعہ نظریات کو سمجھا دے۔ اب سوچ کر دیکھو کہ یہ کیسا پرحکمت مسئلہ تھا مگر ان بدبختوں نے اس پر بھی اعتراض کیا

چشم بداندیش کہ برکندہ باد
عیب نماید ہنرش در نظر

(ملفوظات جلد اول صفحہ 228-230 آن لائن ایڈیشن 1984)

تہجد میں رو رو کر دعائیں مانگو

  • یکم فروری 1898ء۔ ’’آج تیسرا روز ہے۔ الہام ہوا کہ یَوۡمَ تَأۡتِیۡکَ الۡغَاشِیَۃُ۔ یَوۡمَ تَنۡجُوۡا کُلُّ نَفۡسٍ بِمَا کَسَبَتۡ۔ یعنی ایک خوفناک غشی ڈالنے والا۔ انسان کو چاروں طرف سے گھیرنے والا وقت آنے والا ہے۔ اس وقت ہر ایک شخص اپنے اعمال کے سبب سے نجات پائے گا۔ اس وقت ہم ہر ایک شخص کو اس کے اعمال کے موافق جزا دیں گے۔‘‘

حضرت اقدسؑ نے ان الہامات کے بعد جماعت کو بڑی تاکید کی کہ تیاری کرو۔ نمازوں میں عاجزی کرو۔ تہجد کی عادت ڈالو۔ تہجد میں رو رو کر دعائیں مانگو کہ خدا تعالیٰ گڑگڑانے والوں اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کو ضائع نہیں کرتا۔

ہمارے مبارک امام علیہ السلام بھی باربار یہی وصیت فرماتے ہیں کہ جماعت متقی بن جاوے اور نمازوں میں خشوع و خضوع کی عادت کریں۔ اور ایک روز بڑے درد سے فرمایا کہ اصلاح و تقویٰ پیدا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ تم میری راہ میں روک بن جاؤ ۔۔۔

(منقول از خط مولوی عبدالکریم ؓ محررہ 4فروری 1898ء مندرجہ الحکم جلد2 نمبر2 صفحہ10 پرچہ 6مارچ 1898ء)

دعائیہ کلمات فرمودہ حضرت مسیح موعودؑ

پاک کلماتِ دعائیہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مبارک ہونٹوں سے نکلے ہوئے ہیں

  • اے ربّ العالمین! تیرے احسانوں کا میں شکر نہیں کرسکتا۔ تو نہایت ہی رحیم وکریم ہے اور تیرے بے غایت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہوجاؤں۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تو راضی ہوجائے۔ میں تیری وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما۔ اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ آمین ثم آمین۔

(الحکم جلد2 نمبر1 صفحہ9 پرچہ 20فروری 1898ء)

حضرت اقدسؑ کی پاک باتیں

  • 5فروری 1898ء۔ (1) دعا کے بعد جلدی جواب ملے تو عموماً اچھا نہیں ہوتا۔ توقف کامیابی کا موجب ہوتا ہے۔ (2) خدا تعالیٰ کا بظاہر تلوّن بھی رحمت ہے۔
  • 22فروری 1898ء۔ (3) دنیا کی دولت، سلطنت اور شوکت رشک کا مقام نہیں ہے۔ مگر رشک کا مقام دعا ہے۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ 234-235،آن لائن ایڈیشن 1984ء)

قبولیت دعا میں توقف کامیابی کا موجب ہے

یہ یاد رکھو کہ دعا کے لئے اگر جلدی جواب مل جاوے تو عموماً اچھا نہیں ہوتا۔ پس دعا کرتے ناامید نہ ہو۔ دعا میں جس قدر دیر ہو اور اس کا بظاہر کوئی جواب نہ ملے تو خوش ہو کر سجدہ ہائے شکر بجالاؤ کیونکہ اس میں بہتری اور بھلائی ہے۔ توقف کامیابی کا موجب ہوتا ہے۔

دعا بہت بڑی سِپر کامیابی کے لئے ہے۔ یونسؑ کی قوم گریہ و زاری اور دعا کے سبب آنے والے عذاب سے بچ گئی۔ میری سمجھ میں محاتبت مغاضبت کو کہتے ہیں۔ اور حوت مچھلی کو کہتے ہیں اور نون تیزی کو بھی کہتے ہیں اور مچھلی کو بھی۔ پس حضرت یونسؑ کی وہ حالت ایک مغاضبت کی تھی۔ اصل یوں ہے کہ عذاب کے ٹل جانے سے ان کو شکوہ اور شکایت کا خیال گزرا کہ پیشگوئی اور دعا یوں ہی رائیگاں گئی اور یہ بھی خیال گزرا کہ میری بات پوری کیوں نہ ہوئی۔ پس یہی مغاضبت کی حالت تھی۔ اس سے ایک سبق ملتا ہے کہ تقدیر کو اللہ بدل دیتا ہے اور رونا دھونا اور صدقات فرد قرارداد جرم کو بھی ردی کردیتے ہیں۔ اصول خیرات کا اسی سے نکلا ہے۔ یہ طریق اللہ کو راضی کرتے ہیں۔ علم تعبیر الرؤیا میں مال کلیجہ ہوتا ہے۔ اس لئے خیرات کرنا جان دینا ہوتا ہے۔ انسان خیرات کرتے وقت کس قدر صدق و ثبات دکھاتا ہے اور اصل بات تو یہ ہے کہ صرف قیل و قال سے کچھ نہیں بنتا۔ جبتک کہ عملی رنگ میں لاکر کسی بات کو نہ دکھایا جاوے۔ صدقہ اس کو اسی لئے کہتے ہیں کہ صادقوں پر نشان کردیتا ہے۔ حضرت یونسؑ کے حالات میں در منثور میں لکھا ہے کہ آپ نے کہا کہ مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ جب تیرے سامنے کوئی آوے گا۔ تجھے رحم آجائے گا

ایں مشتِ خاک راگرنہ بخشم چہ کنم

(ملفوظات جلد اول صفحہ 237-238،آن لائن ایڈیشن 1984)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

لائبریری اور اسکول کو کتب کی ڈونیشن

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 اپریل 2022