• 27 اپریل, 2024

میرے محسن ’’حضرت ملک سیف الرحمان صاحب مرحوم۔‘‘

میرے محسن ’’حضرت ملک سیف الرحمان صاحب مرحوم۔‘‘
(سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ ۔پاکستان)

بہت عرصہ سے دل میں یہ خواہش تھی کہ حضرت ملک سیف الرحمان صاحب مرحوم کی شفقتوں اور محبتوں پرمشتمل مضمون تحریر کیا جائے لیکن حضرت ملک صاحب مرحوم کے مقام و مرتبہ اور اپنی کم مائیگی کی وجہ سے اپنا یہ شعربار بار آڑے آتا رہا ۔

؎پھر اٹھا کر رکھ دیا میں نے قلم داغ
دامن چاق سینہ و گریباں دیکھ کر

کچھ روز قبل برادرم مجید سیالکوٹی صاحب کا حضرت میر داود احمد صاحب مرحوم کی یادوں پر مشتمل مضمون پڑھ کر دوبارہ ہمت کی کہ حضرت ملک سیف الرحمان صاحب مرحوم کی شفقتوں کا تقاضا ہے کہ آپ کی یادوں کو سینہ قرطاس پر منتقل کیا جائے ۔ اس لئے چند بھولی بسری یادیں تازہ کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔

1974ء کے پر آشوب دور میں خاکسار کو جامعہ احمدیہ ربوہ میں داخلہ کی سعادت نصیب ہوئی۔

7ستمبر 1974ءکی ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر جس میں اس نے احمدیہ جماعت کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جامعہ ہاسٹل میں سنی ۔ وہ بہت نازک وقت تھا۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں احمدیوں کی مخالفت عروج پر تھی ۔

ان حالات کے باعث جامعہ کے طلباء کے سالانہ امتحانات نہ ہو سکے تھے ۔ چنانچہ کچھ دنوں کے بعد طلباء کے امتحانات شروع ہو گئے ۔ چونکہ ہماری کلاس نئے داخل ہونے والے طلباء پر مشتمل تھی اس لئے ہمارے امتحانات نہیں تھے چنانچہ ہماری کلاس کویہ حکم تھا کہ جامعہ سے فارغ ہو کرکھانا کھانے کے بعد قصر خلافت میں ڈیوٹی کے لئے پہنچ جانا ہے۔ ہم حکم کی تعمیل میں فورا ًمسجد مبارک میں چلے جاتے تھے اور وہاں پر ہماری ڈیوٹی لگائی جاتی تھی ۔ مکرم ناصر سعید صاحب مرحوم اور ایک اور دوست مکرم محمد شان صاحب نئے نئے عملہ حفاظت خاص میں آئے تھے۔ نیز مکرم چوہدری محبوب احمد صاحب مرحوم عموماً ہماری ڈیوٹی لگایا کرتے تھے ۔ خاکسار اوربرادرم مکرم اخلاق احمد انجم صاحب کو قصر خلافت کے باغ میں رات کے وقت کافی عرصہ ڈیوٹی دینے کی توفیق ملی۔ گو وہ بہت نازک دور تھا لیکن بڑا یادگار وقت تھا۔ جامعہ کےدیگر طلباء کے امتحانات ختم ہونے تک حالات کچھ بہتر ہوگئے تھے اور ہماری ڈیوٹیاں لگنی بھی بند ہو گئی تھیں۔

جامعہ احمدیہ کے پہلے سال کے اختتام پر امتحان دینے کے بعد رخصتوں پر خاکسار بھی اپنے گاؤں چلا گیا۔ خاکسار کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ جامعہ کا نتیجہ الفضل اخبار میں شائع ہوتا ہے گو کہ ہمارے گھر میں الفضل اور دیگر تمام رسائل باقاعدہ آتے تھے۔ چونکہ خاکسار کو اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ ہمارا نتیجہ بھی روز نامہ الفضل میں شائع ہوتا ہے اس لئے نتیجہ کا پتہ بھی نہ چلا۔ رخصتوں کے بعد جب واپس آیا تو پتہ چلا کہ خاکسار کی ترجمۃ القرآن میں کمپارٹمنٹ تھی اور چھٹیوں کے دوران کمپارٹمنٹ کے امتحانات ہو چکے ہیں۔ چونکہ خاکسار نے امتحان نہیں دیا تھا اس لئے مجھے فیل قرار دے کر دوبارہ درجہ ممہدہ میں رہنے دیا گیا ۔ خاکسار نے مکرم پرنسپل صاحب حضرت ملک سیف الرحمان صاحب کی خدمت میں درخواست دی کہ مجھے تو کمپارٹمنٹ کا علم نہیں تھا اس لئے مجھے ایک موقع دیا جائے لیکن انہوں نے فرمایا کہ اب تو نئی کلاسیں شروع ہو گئی ہیں اب ایسا ممکن نہیں ۔ خاکسار نے دوبارہ درجہ ممہدہ میں جانا شروع کیا لیکن دل مطمئن نہ ہوتا تھا اور کئی دفعہ خاکسار کلاس کی بجائے لائبریری میں آ کر بیٹھ جاتا تھا ۔ایک روز خاکسار لائبریری میں بیٹھا تھا کہ ہمارے ایک استاد لائبریری میں تشریف لائے اور خاکسار کو ادھر بیٹھے دیکھ کر پوچھا کہ آپ ادھر کیوں بیٹھے ہیں؟ خاکسار نے تمام قصہ ان کے گوش گزار کیا کہ لا علمی کی وجہ سے میں کمپارٹمنٹ کا امتحان نہیں دے سکا اور مجھے اب دوبارہ درجہ ممہدہ میں بیٹھنا پڑ رہا ہے لیکن میرا دل مطمئن نہیں ہوتا ۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ اپنی کلاس میں جائیں چنانچہ حکم کی تعمیل میں میں کلاس میں چلا گیا ۔ تقریباً ایک یا دو گھنٹے کے بعد مجھے جامعہ کے کارکن مکرم میجر نذیر صاحب بلانے آئے کہ پرنسپل صاحب آپ کو بلا رہے ہیں ۔حاضر ہونے پر فرمایا کہ اگرچہ یہ جامعہ کی روایت نہیں کہ امتحانات کے بعد کسی انفرادی طالب علم کا امتحان لیا جائے ۔ لیکن آپ کو موقع دیا جاتا ہے اور پاس ہونے کے لئے 85 فیصد نمبر لینے ضروری ہیں ۔ نیز پرنسپل صاحب نے مکرم عبدالمغنی زاہد صاحب کو جو ہمارے ترجمۃ القرآن کے استاد تھے، رقعہ لکھا کہ ان کا امتحان لیا جائے اور پاس ہونے کے لئے 85 فیصد نمبر لینے ضروری ہیں ۔ الحمداللہ کہ خاکسار نے چند روز تیاری کی اور 90 فیصد کے قریب نمبر لے کر امتحان پاس کیا جس کےبعد خاکسار کو درجہ اولیٰ میں بیٹھنے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ حضرت ملک سیف الرحمان صاحب مرحوم کی پہلی شفقت تھی جسے آج بھی یاد کرکے ان کی اوراپنےاستاد کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لئے دل کی گہرائیوں سے دعا نکلتی ہے ۔

اس کے بعد حضرت ملک سیف الرحمان صاحب مرحوم کی شفقت اور پیار کا سلسلہ شروع ہوا ۔ کئی مواقع پر دفتر میں بلا کر چائے سے تواضع کرتے۔ حضرت ملک سیف الرحمان صاحب مرحوم کی شفقتوں کے کچھ واقعات بغیر کسی خاص ترتیب کے پیش ہیں ۔ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ حضرت میر داود احمد صاحب مرحوم نے جامعہ میں جو اعلیٰ روایات قائم کی تھیں میں پوری کوشش کرتا ہوں کہ ان روایات کو قائم رکھوں گو بعض اوقات اس میں بعض مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔ خاکسار کو یاد ہے کہ درجہ ثانیہ میں ہم نے ربوہ سے خوشاب تک کا پیدل سفر کیا تھا جو کہ جامعہ کے کورس کا ایک حصہ تھا ۔ اس سفر میں طلباء کو اشد ضرورت کے وقت استعمال کے لئے پانچ روپے پاس رکھنے کی اجازت ہوتی تھی لیکن پیدل سفر کی تکمیل کے بعد وہ دکھانے ہوتے تھے کہ میں نے یہ پیسے خرچ نہیں کیے۔ پیدل سفر کے تیسرے روز جب ہم خوشاب سے سرگودھا پہنچے تو حضرت ملک صاحب مرحوم طلباء کی حوصلہ افزائی کے لئے سرگودھا تشریف لائے تھے ۔ گو کہ طلباء کو اُنہیں اشیاء پر گزارا کرنا پڑتا تھا جو سفر کے آغاز پر جامعہ کی طرف سے مہیاکی جاتی تھیں تاہم سرگودھا میں ملک صاحب مرحوم کی طرف سے سفر میں شامل تمام طلباء کو چند اشیاء خوردونوش دی گئی تھیں جو کہ ہمارے لئے غنیمت اور حضرت ملک صاحب مرحوم کی شفقت کا اظہار تھا۔

ایک موقع پر ہماری کلاس نے اپنے ایک کلاس فیلو مکرم ملک محبوب احمد صاحب کی دعوت پر خوشاب کے قریب ان کے گاؤں ڈوھڈا جانے کا پروگرام بنایا لیکن سفر پر کیسے جایا جائے یہ ایک اہم مسئلہ تھا چنانچہ خاکسار نے حضرت ملک صاحب مرحوم سے درخواست کی کہ اگر ہمیں انصار اللہ کے دفتر کی گاڑی دلوا دیں تو ہم پیٹرول کی قیمت ادا کر دیں گے ۔مکرم ملک صاحب نے خاکسار کی درخواست منظور کرتے ہوئے اس کا انتظام کر دیا اور ہمارا وہ سفر بہت یاد گاررہا۔ مکرم ملک محبوب احمد صاحب کے والد صاحب، بھائی اور دیگر عزیزوں نے ہمارا پر تپاک استقبال کیا اور دعوت کے لئے بکرا ذبح کیا گیا۔ کچھ دنوں کے بعد مکرم ملک صاحب مرحوم نے خاکسار کو دفتر میں بلا کر کہا کہ انصار اللہ کے دفتر سے پیٹرول کا بل آیا ہے۔حسب وعدہ اس کی ادائیگی کا انتظام کریں ۔ جامعہ کے دوران اس دور میں معمولی وظیفہ اور حالات کے پیش نظر خاکسار کی کوشش کے باوجود رقم کا انتظام نہ ہو سکا۔ تقریبا ًایک ماہ کے وقفہ سے انصار اللہ والوں نے پھر رقم کا مطالبہ کیا ۔مکرم ملک صاحب نے خاکسار کو دوبارہ طلب کیا اور انصار اللہ کا بل ادا کرنے کا کہا۔ خاکسار نے عرض کیا کہ میں نے کوشش کی ہے لیکن رقم کا انتظام نہیں ہو سکا جس پر آپ فرمایا کہ آجکل میرے مالی حالات بھی اتنے اچھے نہیں بہرحال ٹھیک ہے ۔ خاکسار کو علم نہیں کہ بعد میں حضرت ملک صاحب مرحوم نے وہ رقم کب اور کیسے ادا کی لیکن بعد میں کبھی اس کا ذکر نہ کیا ۔

جامعہ میں تعلیم کے دوران خاکسار کی بائیں آنکھ میں زخم کی طرح کی کوئی چیز نمودار ہونی شروع ہو گئی جس کے باعث خاکسار کو تشویش لاحق ہوئی۔ خاکسار نے مکرم ملک صاحب مرحوم سے فضل عمر ہسپتال جانے کی اجازت طلب کی ۔مکرم ملک صاحب مرحوم نے خاکسار کو دفتر میں حاضر ہونے کا ارشاد فرمایا اور ایک خط دے کر فرمایا کہ سرگودھا میں آنکھوں کے اس معالج کے پاس چلے جائیں۔ چنانچہ خاکسار سرگودھا میں اس معالج کے پاس چلا گیا۔مکرم ملک صاحب مرحوم کا خط دیکھ کر وہ بہت شفقت سے پیش آئے خاکسار کو علم نہیں کہ وہ معالج احمدی تھے یانہیں۔لیکن بڑے نفیس اور لباس سے رکھ رکھاؤ والے انسان لگتے تھے۔ بہر حال آنکھوں کا معائنہ کرنے کے بعد کہنے لگے کہ یہ ناخونہ کی ابتداء ہے چنانچہ انھوں نے ایک آئی ڈراپس دیا کہ یہ استعمال کریں امید ہےکہ یہ ادھر ہی رک جائے گا لیکن اگر مزید پھیلا تو پھر دیکھیں گے۔ انھوں نے نہ تو خاکسار سے کوئی فیس لی اور نہ ڈراپس کی رقم۔ ۔خاکسار کو علم نہیں کہ حضرت ملک صاحب مرحوم نے ڈاکٹر صاحب کے نام خط میں کیا لکھا تھا بہر حال خاکسار نے وہ ڈراپس استعمال کیے اور بعد میں بھی خرید کر کچھ عرصہ استعمال کئے ۔الحمدللہ کہ آج بھی ناخونہ کا نشان اتنا ہی ہے لیکن اس کی وجہ سے کوئی تکلیف نہیں۔

جامعہ میں تعلیم کے دوران ایک روز ربوہ میں طوفانی بارش ہوئی ہر طرف پانی اور کیچڑ تھا اس لئے اکثر طلباء جامعہ نہ گئے بلکہ ہاسٹل میں اپنے کمروں میں آرام کرتے رہے تھوڑی دیر کے بعد جامعہ کے دو کارکن میجر نذیر صاحب اور سلیم صاحب نے آکر ملک صاحب کا پیغام دیا کہ تمام طلباء جامعہ پہنچیں چنانچہ طلباء تیار ہو کر جامعہ پہنچے ملک صاحب مرحوم نے اسمبلی ہال میں سب کو اکٹھے ہونے کا ارشاد فرمایا اور تمام طلباء کے آنے پر مختصر خطاب میں فرمایا کہ میں ستر سالہ بوڑھا آدمی ہوں اگر میں سائیکل پر اپنے گھر سے آ سکتا ہوں تو آپ نوجوان ہاسٹل سے کیوں نہیں آسکے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جس مقصد کے لئے آپ نے زندگی وقف کی ہے اس میں تو شائد آپ کو دریا عبور کرنے پڑیں یا برف پوش پہاڑ سر کرنے پڑیں اگر آپ اس معمولی بارش سے ڈر گئے تو میدان عمل میں کیسے کامیاب ہو گے ۔ پھر فرمایا کہ اب آپ سب اپنی اپنی کلاسوں میں جائیں ۔

حضرت ملک صاحب مرحوم طلباء کے لباس پر بھی بڑی توجہ دیتے تھے۔ کلاسز کے آغاز سے قبل صبح جامعہ گراؤنڈ میں اسمبلی اور حاضری ہوتی تھی جسکی نگرانی مکرم ملک مبارک احمد صاحب مرحوم کرتے تھےاور اسکا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا کرتا تھا ۔ اور ہر کلاس لائن کی صورت میں کلاس روم میں جاتی تھی اکثر اوقات ملک صاحب مرحوم سامنے کھڑے ہو کر ہر طالبعلم کو سر سے پاؤں تک چیک کرتے اور اگر کسی کے لباس میں کمی ہوتی تو توجہ دلاتے حتی کہ اگر کسی کے جوتے کا تسمہ کھلا ہوتا تو اسے لائن سے باہر نکال کر تسمہ باندھنے کا کہتے۔ بعض اوقات لیٹ آنے والے طلباء کو اسمبلی گراؤنڈ سے پہلے روک لیتے اور بعد میں سزا کے طور پر جامعہ گراؤنڈ کا بھاگ کر چکر لگانے کا کہتے ۔

جامعہ میں تعلیم کے دوران خاکسار نے ایک خواب دیکھا کہ ’’خاکسار جامعہ کے ہاسٹل میں سویا ہوا ہے اور ایک طالبعلم مجھے کہتا ہے کہ اٹھ جاؤ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے ملنے آ رہے ہیں اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت ملک سیف الرحمان صاحب مرحوم جامعہ کے چند طلباء کے ہمراہ میرے کمرا کی طرف آ رہے ہیں ۔آپ کے ہاتھ میں ایک کاغذ ہے جس پر پندرہ بیس کے قریب سوالات لکھے ہیں چنانچہ میرے پاس آ کر اس کاغذ کی طرف توجہ دلا کر آپ خاکسار سے فرماتے ہیں کہ آپ نے تمام سوالات ٹھیک حل کئے ہیں کیا ہی اچھا ہوتا کہ آخری سوال بھی حل کر دیتے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی خواب کا نظارہ ختم ہو گیا ۔ خواب سے بیدار ہو کر خاکسار نے یہ خواب بعینہ حضرت ملک صاحب مرحوم کی خدمت میں لکھ دیا۔ کافی دنوں کے بعد ملک صاحب مرحوم نے خاکسار سے فرمایا کہ چھٹی کے بعد مجھے مل کر جانا چنانچہ خاکسار حاضر ہوا تو خواب کے حوالہ سے بعض نصائح فرمائیں ۔ فجزاھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء۔

جامعہ احمدیہ میں تعلیم کے دوران خاکسار اور خاکسار کے دوست ملک محبوب احمد صاحب نے جامعہ میں منعقدہ مشاعرہ میں حصہ لیا ۔یہ خاکسا ر کی پہلی غزل تھی ۔ مجلس علمی جامعہ کی طرف سے اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک شعر

چشم مست ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے
ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا

کا دوسرا مصرعہ ’’ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا۔ طرہ مصرعہ تھا

چنانچہ خاکسار کی غزل کو بہت پذیرائی ملی ۔ اور حاضرین نے دل کھول کر داد دی۔ ان داد دینے والوں میں حضرت ملک صاحب مرحوم بھی شامل تھے کچھ عرصہ کے بعد خاکسار نے آپ کی خدمت میں خط لکھا کہ خاکسار اپنی شاعری میں ساجد تخلص رکھنا چاہتا ہے نیز دعا کی درخواست کی۔ جس کے جواب میں فرمایا کہ ٹھیک ہے لیکن خیال رکھنا ایسا نہ ہو کہ آپ کی شاعری میدان عمل میں آپ کے کاموں میں روک بنے۔ الحمدللہ کہ حضرت ملک سیف الرحمان صاحب مرحوم کی وہ دعا اس رنگ میں پوری ہوئی کہ آج تک اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی میری شاعری کو میرے جماعتی کاموں میں روک نہیں بننے دیا۔ الحمدللہ علی ذلک
جامعہ میں تعلیم کے دوران آخری سال میں ہماری کلاس تیرہ طلباء پرمشتمل تھی حضرت ملک صاحب مرحوم ہماری کلاس کے طلباء سے بہت شفقت فرماتے تھے جن میں سے برادران مکرم منیر جاوید صاحب (پرائیویٹ سیکریٹری) عبدالماجد صاحب طاہر (ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن) اور ملک محبوب احمد صاحب کو تخصص کرنے کے بعد کچھ عرصہ جامعہ احمدیہ ربوہ میں پڑھانے کی توفیق ملی۔حضرت ملک صاحب مرحوم کی شفقتوں کی وجہ سے بعض دیگر کلاسوں کے طلباء ہماری کلاس کو شہزادوں کی کلاس کہہ کر بلاتے تھے۔

ایک موقع پر ہم نے لالیاں کے قریب جنگل میں پکنک کا پروگرام بنایا اور اس میں شمولیت کے لئے حضرت ملک صاحب مرحوم کو بھی مدعو کیا آپ نے ہماری دعوت کو بخوشی قبول کیا ہم سب تو سائیکلوں پر لالیاں جنگل تک چلے گئے لیکن ملک صاحب مرحوم کے لئے ہم نےمنڈی کے ایک دوست بابر صاحب سے درخواست کی کہ وہ اپنی جیپ پر محترم ملک صاحب مرحوم کو لے آئیں انھوں نے ہماری درخواست کو قبول کرتے ہوئے اس کا انتظام کر دیا یہی نہیں بلکہ پکنک کے اختتام پر شام کو حضرت ملک صاحب مرحوم کو لینے کے لئے دوبارہ آئے۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔

آپ نے اس پکنک میں بھرپور حصہ لیا اور آپ بہت خوش نظر آتے تھے ہم نے وہیں پر سالن وغیرہ تیار کیا اور لالیاں سے ایک تنور سے روٹیاں لگوائیں ملک صاحب مرحوم نے وہیں ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔ مچھلی کا شکار کرتے رہے اور شام تک ہمارے ساتھ رہ کر ہماری حوصلہ افزائی فرمائی یہ بہت یاد گار پکنک تھی
جب ہم جامعہ کے آخری سال میں تھے تو جامعہ کی سالانہ کھیلوں کے انتظامات ہماری کلاس کے سپرد تھے۔ برادرم مکرم نعمت اللہ بشارت صاحب مبلغ ڈنمارک کمیٹی کے انچارج تھے۔ ہم نے جامعہ بلڈنگ سے ہاسٹل کی طرف جانے والے راستہ اور جامعہ گراؤنڈ کے داخلی راستہ پر ایک گیٹ تیار کیا۔ خاکسار اور برادرم ارشاد ملہی صاحب مبلغ امریکہ شام کے وقت چنیوٹ سے گلاب کے پھولوں کی تازہ پتیاں لے کر آئے جنہیں گیٹ کے درمیان جھنڈے میں لپیٹ دیا ۔ اگلی صبح محترم پرنسل ملک سیف الرحمان صاحب مرحوم کھیلوں کے افتتاح کے لئے تشریف لائےاورجھنڈا لہرایا تو گلاب کی پتیاں آپ پر نچھاور ہوئیں ۔آپ نےاس نئی روایت کو بہت سراہا اور بہت محظوظ ہوئے کہ جامعہ میں ایسا طریق پہلی دفعہ اختیار کیا گیا ہے

جامعہ کے آخری سال شاہد کلاس میں امتحانات کے بعد فراغت ہوتی تھی پھر بھی جامعہ میں حاضری ضروری ہوتی اور روزانہ کی ڈائری بھی لکھنی ہوتی تھی۔ ایک دفعہ ہمارے کلاس انچارج مولانا مرزا نصیر صاحب کہیں گئے ہوئے تھے فارغ وقت دیکھ کر خاکسار، ارشاد ملہی صاحب اور عبدالباسط صاحب آف انڈونیشیا چائے پینے کے لئے جامعہ کی کینٹین پر چلے گئے اسی دوران ملک صاحب مرحوم ہماری کلاس میں تشریف لائے اور ہمیں غیر حاضرپا کر ہم تینوں کو پچاس پچاس روپے جرمانہ اور دس دن صبح کی نماز مسجد مبارک میں ادا کرنے کی سزا دی گئی۔ نمازوں کے بارہ میں تو علم نہیں کہ کتنی مسجد مبارک میں ادا کیں لیکن جرمانے کی رقم ادا نہ کی۔ کچھ دنوں کے بعد برادرم مکرم عبدالباسط صاحب کی انڈونیشیا کے لئے روانگی تھی ہم انہیں الوداع کہنے کے لئے ربوہ ریلوے اسٹیشن پر گئے محترم ملک صاحب مرحوم بھی تشریف لائے۔ اس موقع پر مکرم عبدالباسط صاحب نے ملک صاحب سے درخواست کی کہ انھیں جو جرمانہ کیا گیا تھا چونکہ وہ ادا نہیں کر سکے۔ اس لئے وہ معاف کر دیں ملک صاحب مرحوم نے مسکرا کر فرمایا ٹھیک ہے۔ اس پر مکرم عبدالباسط صاحب نے موقع غنیمت جان کر عرض کیا کہ قریشی داؤد احمد اور ارشاد ملہی کا جرمانہ بھی معاف کر دیں چنانچہ ملک صاحب نے از راہ شفقت ہمارا جرمانہ بھی معاف کر دیا۔ اس کے بعد ہم تین طلباء خاکسار، برادرم ارشاد ملہی صاحب اور برادرم مکرم ظفر احمد ناصر صاحب نے ملک صاحب سے اجازت طلب کی کہ ہم مکرم عبدالباسط صاحب کو الوداع کہنے کے لئے شیخوپورہ تک جانا چاہتے ہیں۔ آپ نے از راہ شفقت اس کی بھی اجازت دے دی چنانچہ ہم تینوں شیخوپورہ تک ٹرین پر مکرم عبدالباسط صاحب کے ساتھ گئے اور وہاں سے بذریعہ بس رات کو واپس آ گئے۔

جامعہ احمدیہ کی روایات کے پیش نظر جامعہ ہوسٹل میں ہماری کلاس کی الوداعی دعوت ہوئی جس میں ملک صاحب مرحوم نے بھی شرکت کی ایک جونیئر طالبعلم نے الوداعی تقریر کی جس کے بعد کلاس سیکرٹری کے طورپر خاکسار نے بھی ان کا شکریہ ادا کیا اور اپنی ایک غزل کے چند اشعار پیش کئے جنہیں بشمول ملک صاحب مرحوم سب نے بہت پسند کیا اور داد دی ان میں سے دو اشعار یوں ہیں۔

وصل کا عہد رہا تجھ سے جدا ہونے تک
دل بھی آ پہنچا تیری یاد میں اب رونے تک
جب سے یہ علم ہوا اب کہ جدا ہوتے ہیں
سحر ہو جاتی ہے اکثر ہی مجھے سونے تک

چند روز کے بعد جماعت کے ایک بزرگ ہماری کلاس میں لیکچر دینےکےلیے تشریف لائے خاکسار سارے لیکچر کے دوران پچھلی سیٹ پر سویا رہا جس پر تبصرہ کرتے ہوئے برادرم مکرم نعمت اللہ بشارت صاحب نے کہا کہ آپ کا شعر کہ

سحر ہوجاتی ہے اکثر ہی مجھے سونے تک۔

تو چند روز قبل سنا تھا لیکن اس کا عملی مظاہرہ بھی آج دیکھ لیا ہے
حضرت ملک صاحب مرحوم کی شفقتوں کے ضمن میں بھی کچھ یوں عرض کیا تھا

تیری شفقت کے سہارے دن کٹے تھے عیش میں
ان بہاروں کے نظارے خون گرمانے لگے
بوستاں میں بہت گھومے اور عنادل سے ملے
اب چمن کو چھوڑ کر اے باغباں جانے لگے

جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بھی آپ سے مسلسل رابطہ رہا

خاکسار کا پہلا تقرر عنائیت پور بھٹیاں ضلع جھنگ میں ہوا رمضان المبارک کے بابرکت ایام میں نماز تراویح کی ادائیگی کے بعد نماز وتر ادا کرتے تو ایک فیملی کے دو افراد دو وتروں کی ادائیگی کے بعد اونچی آواز میں دعا کی درخواست کرتے کہ احباب ہمارے لئے دعا کریں لیکن خاکسار کو اچھا نہ لگتا اور اس بارہ میں انقباض تھا ۔رمضان المبارک کے بعد عید کی نماز ادا کی اور ربوہ آیا اگلے روز مکرم ملک صاحب مرحوم کی خدمت میں سلام عرض کرنے حاضر ہوا ۔آپ نے حسب روایت کھانے کے لئے کچھ پیش کیا ۔ خاکسار نے موقع غنیمت جان کر وتر کی ادائیگی کے بارہ میں سوال کیا تو فرمایا کہ بہتر طریق یہ ہے کہ دو رکعت ادا کرنے کے بعد خاموشی سے تیسری رکعت ادا کی جائے اس دوران بولنا نہیں چاہیے ۔

بعد میں دوران مطالعہ سترویں کی ادائیگی کے بارہ میں پیر سراج الحق نعمانی کے ایک سوال کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد بھی پڑھا جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ ’’ایک طریق ہے جس طرح سنی پڑھتے ہیں اور دوسرا طریق یہ ہے کہ دو رکعت پڑھ کر سلام اورایک رکعت چپکے سے اٹھ کر پڑھ لے۔‘‘

(تذکرہ المہدی ص116)

کچھ عرصہ کے بعد حضرت ملک صاحب مرحوم مستقل طور پر کینیڈا تشریف لے گئے جسکے بعد ان سے ملاقات نہ ہوئی

آپ کی بیماری کی تشویش پر حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے آپ کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور یوں التجا کی جس میں حضور اقدس کی ملک صاحب مرحوم کے لئے محبت اور پیار کی واضح جھلک نظر آتی ہے

یہ شجر خزاں رسیدہ مجھے ہے عزیز یا رب
یہ اک اور وصل تازہ کی بہار تک تو پہنچے

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حضرت ملک صاحب مرحوم کی مغفرت فرمائے آپ کے درجات بلند کرے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔آمین

(قریشی داود احمد ساجد مربی سلسلہ احمدیہ ۔یو کے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 مئی 2021