• 3 مئی, 2024

تم رشتوں کے لئے دین کو دیکھو

برطانیہ کی جماعتوں کے صدران کی حضور انور سے ملاقات کے دوران مکرم چوہدری رفیق صالح نے حضور انور سے سوال کیا:
پیارے حضور! میرا سوال یہ کہ آج کل ہماری جماعت میں کچھ والدین اپنی بچیوں کے رشتہ کے بارہ میں کافی پریشان رہتے ہیں۔ اور مناسب رشتہ کی تلاش میں کافی struggle (تگ و دَو) کرتے ہیں۔ ایسے والدین اور نظام جماعت کو پیارے حضور کیا نصیحت فرمائیں گے؟

حضور انور:
اتنی نصیحتیں جو میں کر چکا ہوں وہ آپ کے سامنے نہیں آئیں ابھی تک؟ سوال یہ ہے کہ رشتوں کا problem تو ہر جگہ ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کے رشتوں کے لئے جن کو یہ ہوتا ہے کہ جماعت کے اندر رشتے ہوں۔ لیکن اگر کوئی ایسے مسائل ہوں اور عمریں لڑکیوں کی بڑھ گئی ہوں اور کوئی خاص حالات پیدا ہو جائیں تو پھر اُن کے حالات کے مطابق جو رشتوں کے بارہ میں ہدایات لینی ہوتی ہیں وہ والدین خود لکھ کر پوچھ لیتے ہیں۔ اور میں نظام جماعت کو اس کے مطابق کہہ بھی دیتا ہوں، بتا بھی دیتا ہوں کہ کیا سلوک کرنا ہے اُن سے۔ یہ problem آج سے نہیں پیدا ہوئی۔ یہ ہمیشہ سے ہے اور ہر ملک میں ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمۃ اللہ تعالیٰ کے زمانے میں بھی تھی تب ہی آپ نے کہا تھا کہ رشتہ ناطہ کے سیکٹریان جو ہیں وہ elect نہ ہوں بلکہ appoint ہوں اور ایک سے زیادہ بھی بنائے جا سکیں۔ وہ اس لئے بنائے گئے تھے کہ رشتوں کے مسائل پیدا ہو رہے تھے اُس وقت بھی۔ اور اب بھی۔ اور اُن کا حل یہی ہے کہ جو جماعت کوشش کرسکتی ہے کرنی چاہئے۔ اس کے لئے میں مختلف مجالس میں، لجنہ میں بھی خدام میں بھی یہ کہہ چکا ہوں کہ آنحضرت ﷺ نے جو ہمیں فرمایا ہے کہ تم رشتوں کے لئے دین کو دیکھو تو اُس طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے، اُس کے لئے ہمیں تربیت کی ضرورت ہے۔ اپنے شعبہ تربیت کو فعال کریں، جماعتی طور پہ۔ لجنہ بھی اپنے طور پہ کریں، خدام الاحمدیہ بھی اپنے طور پہ کریں، انصار اللہ بھی اپنے طور پہ کریں۔ تو ایک ایسا ماحول پیدا ہوجائے گا جو دینی ماحول ہوگا۔ تب ہی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اُس تربیت کی وجہ سے ایک ایسا دینی ماحول پیدا ہوگیا ہے جہاں لڑکا اَور لڑکی دونوں یہ چاہتے ہیں کہ دین کو ترجیح دی جائے۔ اور دین پر عمل کرنے والے رشتے ہمیں میسر آئیں۔ تو یہ تو آپ لوگوں کا کام ہے کہ کتنی تربیت کرتے ہیں (ممبران جماعت کی)۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ لڑکے جو ہیں وہ اپنے طور پہ باہر چلے جاتے ہیں، لڑکے شادیاں کرنے لگ جاتے ہیں۔ بعض دفعہ لڑکیوں کے ماں باپ جو ہیں وہ بھی اس طرف توجہ نہیں دیتے۔ بعض ایسے بھی ہیں اور اُن کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، گو بہت زیادہ تو نہیں لیکن پھر بھی بڑھتی جارہی ہے جو کہتے ہیں کہ لڑکیاں ہماری پڑھ رہی ہیں ابھی۔ اور لڑکیوں کی خود خواہش ہوتی ہے کہ ہم بہت زیادہ پڑھ لیں۔ لڑکے اتنے پڑھے لکھے نہیں ہوتے۔ پھر وہ ایک فرق جو ہے، تعلیم میں، اس کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں لیکن ایسے بھی ہیں بعض لوگ جو اس فرق کو نہیں دیکھتے اور اللہ کے فضل سے اُن کے رشتے ہوئے اور گزارا ہو بھی رہا ہے۔ تو یہ تربیت کی ضرورت ہے۔ اگر شعبہ تربیت آپ کا فعال ہو جائے۔ اور ہر تنظیم کا فعال ہوجائے۔ اور ہر ایک کو یہ باور کرا دیا جائے کہ دین کو ہم نے فوقیت دینی ہے۔ تو نہ لڑکے باہر جاکر رشتے کریں گے، نہ لڑکیوں کے مسائل پیدا ہوں گے، نہ لڑکیوں کے لئے بعض بلا وجہ کی خود ساختہ روکیں پیدا ہوں گی۔ تو یہ کام رشتہ ناطہ کے سیکرٹریان کا بھی ہے اور تربیت کے سیکرٹریان کا بھی ہے کہ وہ کام کریں۔ اور اپنے ساتھ، ایک joint effort ہو، مشترکہ کوشش ہو جو ذیلی تنظیموں کو ملا کر کی جائے۔ تب ہی یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں نہیں تو ظاہر ہے جب جماعت بڑھے گی تو یہ مسائل بھی زیادہ بڑھیں گے اور پیدا ہوں گے۔ اس کا بہترین حل یہی ہے کہ ہماری تربیت صحیح ہو۔ اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے ہوں۔ آنحضرت ﷺ کے حکم کے مطابق۔

(This Week with Huzoor مؤرخہ 18 فروری 2022ء مطبوعہ الفضل آن لائن 14؍ مارچ 2022ء)

پچھلا پڑھیں

اختتام قاعدہ یسرناالقرآن و ابتدائے قرآن کریم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 مئی 2022