• 17 مئی, 2024

دورِجدید کی فردوسِ بریں

آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد خلافت راشدہ کے قیام اور اس کے اختتام کے ساتھ ہی مسلم امت میں تقسیم کی ایک ایسی رو چلی جس کی دراڑیں آج پندرہ سو سال کے قریب عرصہ گزر جانے کے بھی نہیں بھریں۔ جس شیطان نے اللہ سے مہلت مانگی تھی کہ وہ لوگوں کو بہکاتا رہے گا اس کی چیرہ دستیاں اور مکاریاں اب انتہاء کو پہنچی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ یہاں تک مسیح موعود آیا اور اس لڑائی میں شیطان کو فکر اور دلائل کے میدان میں پچھاڑ گیا اس کی وفات کے بعد اس کے خلفاء اب اس آخری زمانہ میں اپنی جماعت کے ساتھ اس شیطان کے ساتھ آخری جنگ لڑنے میں مصروف ہیں اور شیطان نے بھی پینترے بدل لئیے ہیں آنحضرتﷺ کے دور کے بعد مسیح موعودؑ کے نزول تک مسلمانوں میں جہاں تقسیم نظر آتی ہے وہاں فکری و علمی ترقی بھی نظر آتی ہے، اُس دور میں نئے نظریوں نے پرانی سوچوں کی جگہ لے لی اور جدید فلسفوں نے پرانے فلسفیوں کی دقیانوسی کو منوں مٹی تلے دبا دیا تھا۔ اُس دور میں شیطان کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں تھا کہ مختلف نظریوں اور فرقوں میں(کبھی اباحتی، کبھی امام غائب سے متعلق، کبھی نبیوں میں خدا حلول کر جانا جیسے عقائد، کبھی حضرت علی کو نبی کبھی خدا غرض کیا کیا ذکر کیا جائے) لوگوں کو بانٹ کر ان کو دین سے دور کر دےکیونکہ مسلمان امت پوری دنیا میں تو پھیل رہی تھی لیکن مرکزیت سے محروم ہو چکی ہوئی تھی اور خلافت کے اٹھ جانے کے بعد امت بادشاہوں اور فاتحین کی سلطنتوں میں بٹ کر رہ گئی تھی اور غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں اکثر فرقوں کے راہنما مجوسی، یہودی اور عیسائی فتنہ پرداز تھے جو مسلمان کا بھیس بدل کر بگاڑ پیدا کرتے تھے۔، مگر آج شیطان کے پاس یہ حربہ نہیں ہے۔ اس کے ترکش میں یہ تیر ختم ہو چکے ہیں اور یہ بازی اب وہ ہار چکا ہے کیونکہ قیام خلافت کے ساتھ ہی جماعت قائم ہو چکی ہے اور اب وہ اس جماعت میں فکری تقسیم اور فلسفہ کی بنیاد پر تقسیم کی چال نہیں چل سکتا۔ کیونکہ ایک ایسا حصارِ عافیت اب قائم ہو چکا ہے جس کی دیواریں ساتویں آسمان تک جاتی ہیں، تو پھر اب کیا؟

نئی شیطانی راہیں

دجال کی شاطرانہ روش اور یاجوج و ماجوج کی قوت و ترقی نے شیطان کے لیے بہت سی نئی راہیں استوار کر دی ہیں۔ جہاں ایک طرف مغرب اور مشرق میں یورپی و مغربی تہذیب نے نئی نسل کو اپنے دین اور روایات سے دور کرنے کے سامان مہیا کر دیے ہیں تو دوسری طرف میڈیا اور سوشل میڈیا پر جھوٹ اور فریب کا ایک ایسا جال بچھا دیا ہے کہ جس سے فرار ممکن نظر نہیں آتا۔

لیکن ایسا نہیں ہے اس سے فرار ممکن ہی نہیں بلکہ اس سے بچاؤ کا رستہ ہمارے سامنے ہے، بس ہمیں آنکھیں کھول کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری آنکھوں پر جس جادوگری کا سحر طاری ہے اس کا توڑ وہ عصا ہمارے سامنے ہے کہ جو ہر فریب اور سحر کو ملیا میٹ کرنے کی طاقت رکھتا ہے، ہمیں اپنے کان کھول کر وہ الفاظ سننے کی ضرورت ہے جو شیطان کے ٹونوں اور اور دھوکوں کے توڑ سکے۔ ہمیں بس تھوڑا سا آگے بڑھ کر خلافت کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑنا ہے جو کب سے ہاتھ بڑھائے ہمیں تھامنے کو کھڑا ہے۔

آج کل عجیب و غریب نئی کوششوں کا پتہ چلتا رہتا ہے جو مخالفین اسلام و احمدیت اسی شیطان کے اثر میں کرتے رہتےہیں، کئی بار ایسے نوجوانوں کو سننے کا موقع ملتا ہے جو ذہنی کشمکش میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ تاریخ سے عدم واقفیت اور سوشل میڈیا پر حد سے زیادہ انحصار کبھی کبھا ر سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت محدود کر دیتا ہے۔ سوشل میڈیا کی عالمی صحبت جو کہ شیطان کے کنٹرول میں ہے کب کسی کا ذہن خراب کر دے پتہ نہیں چلتا۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ’’خدا تعالیٰ قرآن شریف میں لوگوں پر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ پہلی جماعتیں جو ہلاک ہوئیں ہیں تم ان سے کیوں سبق نہیں لیتے۔ تم بھی گزشتہ واقعات سے خبر لو۔‘‘

(انوار العلوم جلد3 صفحہ203-202)

مصنوعی جنت

ایسے میں مجھے اپنے بچپن میں پڑھے ایک اردو کے ناول کی طرف دھیان جاتا ہے جو عبدالحلیم شرر صاحب نے
’’فردوس بریں‘‘ کے نام سے لکھا تھا۔ اس ناول کے عجیب متن نے اور اس میں موجود کہانیوں نے ایک عجیب سی ذہنی ہلچل پیدا کر دی کہ کیسے پتہ چلا سکوں کہ اس میں حقیقت کتنی ہے اور فسانہ کتنا۔ پھر اس کے کافی عرصہ کے بعد جماعت کے ایک بزرگ مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ محترم ملک سیف الرحمٰن مرحوم کی ایک انتہائی شاندار کتاب ’’تاریخ افکار اسلامی‘‘ پڑھنے کا موقع ملا جس نے تاریخ پر پڑے بے شمار پردے میرے لیے ہٹا دیے۔

بہرحال بات کہیں اور نہ نکل جائے اس لئے بس یہ کہہ کر اصل مضمون کی طرف آتا ہوں کہ آگے لکھے تاریخی واقعات کے لیے میں نے اکثر اسی کتاب سے استفادہ کیا ہے۔

حصن حصین

آنحضورﷺ ایک حدیث میں فرماتے ہیں :
اسلام کا نام اور قرآن کے الفاظ باقی رہ جائیں گے مسجدیں بظاہر آباد مگر نور ہدایت سے خالی ہوں گی اور مسلمانوں کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سےبدترین مخلوق ہوں گے، ان میں سے فتنے اٹھیں گے اور ان میں ہی لوٹ جاییں گےیعنی سارے فتنوں کی جڑ اور ساری خرابیوں کا سر چشمہ وہی علماء ہوں گے۔

(مشکوۃ کتاب العلم الفصل الثالث و کنز العمال جلد6 صفحہ43)

یعنی ہمیں خود آنحضرت ﷺ نے بتا دیا کہ امت کو اندرونی طور پر خراب کرنے والے اس آخری زمانہ میں کون ہوں گے۔ یہ علما ء اور شریر مخلوق ہے جن کو شیطان نے اس دور میں اپنا آلہ کار بنایا ہے اور یہ خود اور لوگوں کو اپنا آلہ کار بنا کر امت کو بد سے بدترین کرتے جا رہے ہیں بلکہ یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے بعد تو ان کی توپوں کا رخ صرف جماعت احمدیہ ہی کی طرف ہو گیا ہے اور یہ مسلسل اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کس طرح اس قلعے کی دیواروں پر کمند ڈال سکیں یا اس میں سوراخ کر سکیں اور اپنے فتنے کے بیج اس زرخیز زمین میں بو سکیں۔ اس کے لیے کبھی یہ جھوٹ اور الزام تراشیوں اور مکاریوں کا سہارا لیتے ہیں کبھی اپنے کارندوں کے ذریعے ظلم و جبر کرواتے ہیں میڈیا اور سوشل میڈیا پر گند اچھالتے ہیں کبھی ان چند گنتی کے محروم لوگ جو احمدیت کی برکات چھوڑ کر خود کو ایکس احمدی کہلوانا پسند کرتے ہیں کو ساتھ ملا کرتو کبھی کمزور احمدیوں کی تلاش میں ان کو ٹریپ کر کے کوشش کرتے رہتے ہیں کہ اس جماعت میں بھی ویسے ہی بگاڑ پیدا ہو جائے جیسا کہ خود ان کے دلوں اور لوگوں میں ہے۔ لیکن یہ نہیں جانتے کہ اس قلعے پر کمند ڈالنا کسی کے بس کی بات نہیں اس حصن حصین کا رکھوالا اللہ ہے۔ اور جیسے آسمان کا تھوکا واپس منہ پر آتا ہے ویسے ہی ان کی سازشیں اور فتنے انہی پر لوٹائے جاتے ہیں اور ہر بار یہ ناکام اور مایوسی کا شکار ہوتے ہیں۔

ایک تاریخی شعبدہ باز

عباسی دور حکومت میں ایک شخص تھا جو کہ اُس زمانے کے لحاظ سے کیمسٹری کا ماہر اور شعبدے بازی میں کمال رکھنے والا شخص تھا ہاشم بن حکیم المرزوی جو حکیم مقنع خراسانی کے نام سے بھی مشہور ہے، وہ کہتا تھا کہ الٰہی طاقتوں نے اس کے بدن میں حلول کر لیا ہے اس لیے وہ خدائی طاقتوں کا مالک ہے، غیب کا جاننے والا ہے اور مردے زندہ کر سکتا ہے۔ اپنے چیچک زدہ چہرہ کو چھپانے کے لیئے ہر وقت نقاب پہنا کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میں اس لیے اپنا نقاب نہیں اتارتا کہ کہیں لوگ میرے نور اور جلال سے جل نہ جائیں۔ خراسانی ترکستان میں ایک پہاڑ پر ایسا انتظام اس نے کیا ہوا تھا کہ ایسا لگتا کہ چاند پہاڑ کے ایک طرف آکر دوسری طرف اس کےقلعہ میں اتر جاتا ہے۔ اس قسم کے نظر کے دھوکوں اور چالاکیوں کی وجہ سے قرب و جوار کے ان پڑھ لیکن جنونی قسم کے فدائی لوگ اس کے ہم نوا اور گرویدہ ہو گئے تھے جو اس کی ہر بات پر یقین کرنے اور فدا ہونے کو تیار رہتے تھے۔ اس نے بھی اپنے پیروکاروں کو ہر طرح کی آزادی دی ہوئی تھی کہ بس میری بات مانو اس کے بعد نہ نماز کی ضرورت ہے نہ ہی حرام چیزوں سے بچنے کی

فردوس بریں

عباسی دور میں ہی الحسن الصباح نے ہاشم کی طرز پر اپنی جماعت تشکیل دی، اس کے واقعہ میں علم نفسیات کا استعمال اپنے کمال کو پہنچا ہوا لگتا ہے۔ الصباح نے اپنی جماعت کو کئی حصوں یا درجوں میں تقسیم کیا اور آپس میں رابطہ کے لحاظ سے انہیں باہمی محبت، اخوت اور مرحمت کا نصب العین دیا۔ ایک گروہ کے ذمہ علمی میدا ن میں کام کرنا تھا اور دوسرے گروہ کو بطور فدائی اور خفیہ طور پر امراء اور علماء کو قتل کرنے کی تربیت دی گئی۔ یہ فدائی بڑی رازداری، انتہائی احتیاط اور بڑی جرات کے ساتھ اپنے نشانہ پر وار کرتے تھے اور اس بات سے بالکل بے نیاز ہوتے تھے کہ اس راہ میں ان کی جان چلی جائے گی یا وہ بچ جائیں گے۔ان فدائیوں کو مختلف انداز میں تیار کیا جاتا تھا۔ ایک گروہ کو بھنگ اور ایسی ہی نشہ آمیز چیزوں کی عادت ڈالی جاتی تھی یا کسی اور طریقے یعنی ہپناٹزم سے اس کے ذہن پر قابو پایا جاتا تھا اور انہیں یہ تربیت دی جاتی تھی کہ جو فرض ان کےسپرد کیا جائے انہوں نے اسے ہر حال میں سر انجام دینا ہی دیناہے۔ بھنگ کے ذریعہ یا عمل تنویم کے ذریعہ ان کو مدہوش کر کے انتہائی خوبصورت باغوں اور سبزی زاروں میں لے جایا جاتاتھا جو پہاڑی قلعوں کے اردگرد کے چشموں کے پانی سے سیراب ہوتے تھے۔ ان باغوں میں محل نما مکانوں میں ہر قسم کی نعمتیں میسر ہوتی تھیں، کھانے پینے کا خوب انتظام ہوتا تھا، نغمہ و سرور اور خوبصورت عورتوں اور حسین لڑکوں سے مزین رکھا جاتا اور جن فدایوں کو ان میں لایا جاتا ان کو کہا جاتا کہ یہ جنتیں ان کو ملتی ہیں جو امام یا نائب امام کے حکم کی دل وجان سے اطاعت کرتے اور اپنی جان کی قربانی پیش کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ یہاں محلوں میں رکھ کرپھر عمل نفسیات یا ہپناٹزم کی مدد سے ان کو باہر لایا جاتا اور ان کو کہا جاتا کہ یہ تو محض عارضی نظارہ تھا جب تم فلاں فلاں کام کرو گے اصل میں تو تب تمہیں ان جنتوں میں مستقل رہنا نصیب ہو گا۔ غرض حسن بن صباح دہشت گردی کے علم نفسیات کا ماہر تھا بلکہ یوں کہنا چاہیئےکہ بانی تھا۔ خود وہ بزدلوں کی طرح ایک مضبوط قلعے میں محصور رہتا تھا۔ اس نے اپنے احکامات پہنچانے اور عمل کروانے کے لیے اپنے نائبین کا ایک گروپ بنایا ہوا تھا جبکہ ایک گروپ جو خود حسن کے ہی تیار و تربیت شدہ ہوتے تھے ماہر نفسیات کا گروہ تھا۔ ایک اور گروہ تھا جس کے ذمے حسن کے پیغام کو لوگوں تک پہنچوانے اور منوانے کے لیے داعی تیار کرنا تھا اور یہ لوگ منطق، فلسفہ اور فقہ کے ماہر ہوتے تھے۔ ایک گروہ کا کام یہ تھا کہ وہ خفیہ طور پر دشمنوں کو قتل کریں۔ ایک گروہ کے ذمہ صرف یہ کام تھا کہ وہ عوام کو عمومی طور پر کسی گہرائی میں جائے بغیر اپنے propaganda اور نظریات سے آگاہ کریں اور اس سے مانوس کریں۔

پھر ایک گروہ نئے نئے ان کے نظریات سے متاثرہ لوگوں کا وہ گروہ ہوتا تھا جن میں اپنی بات منوانے اور اپنے عقا ئد و نظریات سے دوسروں پر بھی اثر ڈالنے کی صلاحیت ہو۔ 35سال تک وہ عباسیوں کے لیے درد سر بنا رہا اور اپنی موت کے بعد وہ انتہا پسند جماعت اور خیالات کے اتنے لوگ چھوڑ گیا تھا جنہوں نے مدتوں بعد تک ناک میں دم کیے رکھا، دوسری طرف یہ اور اس کے کارندے صلیبی کاروایوں میں بھی مسلمانوں کے مقابلے میں صلیبیوں کی مدد کیا کرتے تھے۔

دورِ جدید کی فردوس بریں

اب اگر ہم آج کا دور دیکھیں تو نہ تو بظاہر ہمیں ہاشم بن حکیم المرزوی نظر آتا ہے نہ الحسن الصباح نہ چاند کسی قلعے میں ڈوبتا دیکھ کر ہم سحر انگیز ہوتے ہیں نہ ہی کہیں مصنوعی جنت نظر آتی ہے لیکن دوسری طرف اگر ہم غور کریں تو محسوس ہو گا کہ شیطان نے وہ سب حربے ہتھیا کر آزادی اظہار رائے نیز مادر پدرآزاد آزادی اور ماڈرن ٹیکنالوجی میں سمو دیے ہیں۔ اب ہاشم بن حکیم المرزوی کے شعبدوں سے مرعوب ہونے کے لیے کسی پہاڑ کی چوٹی پر نہیں چڑھنا پڑتا، نغمہ و سرور کی محفلوں سے مزین اور حسین عورتوں اور مردوں کی کی صحبت کے لیے کسی حسن الصباح کی بنائی جنت میں نہیں جانا پڑتا۔

اب ہم آسانی سے کسی کے بھی نظریات سے متاثر ہو سکتے ہیں بغیر محسوس کیے اور وہی فدائیت اور بے حسی اختیار کر سکتے ہیں جو پہلے پہلے عمل تنوین اور ہپناٹزم کے ذریعے پیدا کیے جاتے تھے اور جس کے ذریعے مکار لوگ اپنے من پسند کام یہاں تک کے خود کش فدائی حملے تک کروا لیتے تھے۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ ہاشم بن حکیم کی طرح نقاب اوڑھے اور اپنی شناخت چھپائے نظر آتے ہیں اور یہ سب کام پہلے سے بہت بڑھ کر اور انتہائی غیر محسوس طور پر انٹرنیٹ، میڈیا اور سوشل میڈیا سر انجام دے رہا ہے، جہاں ایک غیر مرئی حسن الصباح نے ہر user اور پیروکار کو کھلی آزادی دے رکھی ہے کہ وہ جو چاہے کہہ سکتے ہیں جو چاہے کر سکتے ہیں جس پر چاہے الزام لگا سکتے ہیں جس کی چاہے ذاتی معلومات اور بات بیان کر سکتے ہیں، چاہے تو گھنٹوں نماز روزہ کی پرواہ کیے اس سوشل میڈیا کی جنت میں بیٹھ سکتے ہیں یہاں ایک کلک پر ساقی بھی ہے، نغمے بھی ہیں، سرور بھی ہے اور سب کچھ ہے جو ایک انسان کی فطری جبلت حیوانیت میں بدل جانے کے بعد چاہ سکتی ہے۔

آج کی فردوس بریں یہ سوشل میڈیا ہے جس کی الگ ہی دنیا ہے اور جس کے نشے و سرور نے بہت سے لوگوں کے لیئے اسے جنت بنا دیا ہے۔

اب یہ ہم پر ہے کہ آیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس ٹرانس میں قید رہیں یا آنکھیں کھول کر اس سحر سے باہر آئیں اور خلافت کے حصار میں داخل ہو کر اس دجالی سحر انگیزیوں اور جھوٹی طلسماتی جنتوں ہاشم بن حکیم المرزوی اور الحسن الصباح جیسوں کو بے نقاب کریں۔

فیصلہ ہم سب پر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو شیطانی چالوں سے ہمیشہ بچاتے ہوئے خلافت کا سچا وفادار بنائے اور حقیقی جنتوں کا وارث بنائے۔ آمین

(طاہر احمد۔ فن لینڈ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 مئی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ