• 17 مئی, 2024

روٹی (قسط دوم، آخری)

روٹی
قسط دوم، آخری

اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِیْ الْقُرْآن کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں۔

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ نمبر27)

قرآن میں آتا ہے کہ لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ (البقرہ: 257) مطلب دین اسلام میں کو ئی سختی نہیں، مجھ سے اگر کوئی اس آیت کریمہ کا مطلب معلوم کرے تو میں کہوں، دین اسلام میں کو ئی سختی نہیں سوائے ایک تعلیم کے اور وہ ہے مسکین کے لیے روٹی کا انتظام کرنا۔

اسلام میں مسکین کو کھانا کھلانے کے متعلق پہلے جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ ہی کتنی سخت تعلیم ہے۔ لیکن جواب لکھا جارہا ہے وہ تو بے انتہاء سخت تعلیم ہے۔ اب د یکھیں کسی سے بھی سوال کیا جائے کہ ایک آدمی نیک عمل کرتا ہے اور دوسرا نہیں کرتا۔تو جواب یہ آئے گا کہ جو بھی نیک عمل کرتا ہے تو اچھی بات ہے اور جو نہیں کرتا غلط کرتا ہے۔ دہریہ کا بھی یہ ہی جواب ہوگا۔ عام سیدھی سادھی سی بات ہے۔ عمل کی بنیاد پر اچھے بر ے کا فیصلہ ہے۔

اسلام میں نماز پڑھنے کا تاکیدی حکم ہے۔ مطلب یہ کہ جو نمازپڑھتا ہے بہت اچھا کرتا ہے اور جو نہیں پڑھتا تو وہ غلط کرتا ہے لیکن یہ کہیں حکم نہیں ہے کہ اگر کو ئی نمازی دوسرے کو نماز کی طرف ترغیب نہیں دلاتا تو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بن سکتا ہے۔

اسلام میں مسکین وغریب کو روٹی یاخوراک کاسامان دینے کا انتہائی تاکیدی حکم ہے۔ مطلب یہ کہ جو مسکین کے لیے روٹی یا خوراک کا خیال کرتا ہے بہت اچھا عمل کرتا ہے اور جو کرسکتا ہے اور پھر نہیں کرتا وہ غلط کر تا ہے۔ لیکن اسلام میں ایک آدمی جو یہ نیکی کرتا ہے اور دوسروں کو اس طرف ترغیب نہیں دلاتا تو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناراضگی کا موجب بن سکتا ہے۔

مذہب اسلام میں یہ واحد اتنی بڑی نیکی ہے کہ صرف مسکین غریب کے لیے روٹی کا انتظام نہیں کرنا بلکہ ایک دوسرے کو اس کی طرف توجہ بھی دلانی ہے۔ یہ واحد اتنی بڑی نیکی ہے کہ صرف ایک دوسرے کو توجہ اور یاددہانی کرانے پر ہی اللہ تعالیٰ کی بے حد خوشنودی ہے۔ اور اگر صرف یاددہانی بھی نہیں کراتے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت ناراضگی کا اظہار ہے۔ اگر ایک با ر بھی قرآن کریم میں یہ تعلیم آتی تو مسلمانوں کے لیے انتہائی تاکیدی حکم تھا۔ لیکن ایک بار نہیں، قرآن شریف میں باربا ر تواتر کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے ان لوگوں پر جو ایک دوسرے کو اس طرف یاددہانی یا ترغیب تک نہیں دلاتے۔

قرآن کریم میں اس اہم انسانی مسئلہ کے متعلق عظیم الشان تعلیم ملتی ہے۔ حیران و پریشان ہو جاتا ہوں کہ سچے مذہب اسلام میں انسانیت کی خدمت کے متعلق کتنی سخت تعلیم ہے۔اب براہ کرم غور اور نوٹ کیجیے گا کہ مندرجہ ذیل تما م آیا ت میں مسکین کو کھانا کھلانے کی با ت نہیں ہورہی بلکہ ایک دوسرے کو اس طرف یاددہانی وترغیب دلانے کی با ت ہورہی ہے۔

پہلی آیت: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ (الحاقہ: 35) اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا تھا۔

اب دیکھیں مضمون یہ ہے کہ مسکین کی خدمت کے لیے ایک دوسرے کو یاددہانی کراتے رہنا چاہیے۔ انتہائی سختی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ ایک دوسرے کو اس اہم انسانی مسئلہ کو یاد کراتے رہا کرو۔ بصورت دیگر اللہ تعالیٰ کی بے حدناراضگی کا موجب بن سکتا ہے۔اصل میں اس اور دوسری آیات میں منفی انداز میں اس اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اب اگر مضمون مثبت انداز میں ہوتا کہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دی جائے تو معنی یہ نکلتے کہ جو ترغیب دے اچھی بات اور جو نہ دے کوئی با ت نہیں۔ مگر ان آیا ت میں منفی انداز سے تلقین دلانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ کوئی بھی اس اہم ترین فرض سے باہر نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے معاشرہ کے ہر فرد پر فرض قرار دیا ہے کہ ایک دوسرے کو اس اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلائے، شعور پیدا کرائے، ایک دوسرے کو یہ فعل کرنے کے لیے ابھارے۔ اسلام میں انسانیت کی کتنی حسین اور عظیم تعلیم ہے کہ صرف اس اہم انسانی مسئلہ پر با ت کرنا ہی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا با عث ہے۔ اسلام میں انسانی مسئلہ پر با ت کرنا ہی اللہ تعالیٰ کی رضا ہے۔

یہاں ایک نقطہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ بعض دفعہ قارئین کو یہ خیال ہوتا ہے کہ ایک ہی با ت مضمون میں با رباربیان کی جارہی ہے۔ اس کی دواہم وجوہات ہیں۔

اول: ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ مضمون اتنا اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ
با ربار دوہرا یا جاتا ہے۔ اب دیکھیں اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ایک دفعہ حکم نہیں دیا بلکہ با ر بار ایک ہی مضمون اور تقریباً ایک طرح کے الفاظ دہرائے جارہے ہیں کہ جو ایک دوسرے کو مسکین کے لیے روٹی کے لیے نہیں ابھارتا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناراضگی کا سبب بن سکتا ہے۔

دوسری: ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جواب دینا مقصد ہوتا ہے۔ جتنا شدید اعتراض اتنا شدید جواب۔ مخالفین اسلام تم یہ کہتے ہو کہ اسلام میں انسانیت سے متعلق تعلیم نہیں ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اسلام میں تو انسانیت پر صرف با ت کر نا ہی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا باعث ہے اور نہ کرنے پر خدا واحدولاشریک کی ناراضگی ہے۔

دوسری آیت: قرآن حکیم میں آتا ہے کہ وَلَا تَحٰٓضُّوۡنَ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ (الفجر: 19) اور نہ ہی مسکین کو کھانا کھلانے کی ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہو۔

وہی مضمون دوبارہ کہ اگر کو ئی شخص مسکین و غریب کو کھانا کھلانے کی طرف توجہ دلاتا ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے حد خوشنودی حاصل کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اور اگر ایک دوسرے کو اس اہم مسئلہ کی طرف متوجہ بھی نہیں کراتا تو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بن سکتا ہے۔

اس آیت میں اور دوسری آیا ت میں جو ترغیب کا ذکر آیا ہے اس کو ذرا کھول دینے کی ضرورت ہے۔ معاشروں میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ مثلاً

اول۔ انتہائی بخیل تو ہر طرح کی کوششیں کرتا ہے کہ نہ کھانا کھلائے اور نہ ہی ووسروں کو اس کی تلقین کرے۔

دوم۔ بعض بخیل ایسے بھی ہوتے ہیں کہ دوسروں کے توجہ دلانے پر کچھ نہ کچھ مسکین کے لیے خوراک کا انتظام کر دیتے ہیں۔

سوم۔ بعض کے حالات ایسے ہوتے ہیں کہ خود کی روٹی کاسامان بڑی مشکل سے ہوتا ہے۔ لیکن ان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس بڑی نیکی کا حصہ بنا جائے۔ اسلام میں کو ئی نیکی سے محروم نہ رہ جائے اس کے لیے سب کو برابر کا موقع دیا ہے۔ اب ایسے لوگ تلقین اور ترغیب تو ایک دوسرے کو دلاسکتے ہیں۔ کوئی تو ایسی خوبی یا فن اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کرتا ہو گا جس سے یاددہانی کراسکتے کہ اس طرف توجہ کی جائے۔ اور نہیں تو ایسے خیراتی ادارہ، فوڈ بینک میں چند گھنٹے ہی دے سکتے ہیں۔ کوئی بھی ایسا عمل اور فعل تو کرسکتے ہیں کہ جس سے دوسرے کو ترغیب ہوکہ مسکین کے لیے روٹی کا خیال رکھا جائے۔

چہارم۔ کچھ لوگ مسکین کا خیال رکھتے ہیں لیکن ایک دوسرے کو تلقین نہیں کرتے۔ اس لیے ایک دوسرے کو تلقین کرنا بہت ضروری ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو۔

پنچم۔ اور کچھ لوگ مسکین کا خیال کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ دوسرے بھی مسکین کاخیال رکھتے ہیں اس کے باوجود ایک دوسرے کو تلقین کرتے ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ آیا ت کریمہ ہی ہیں۔ جس کے تحت ایک دوسرے کو تلقین کرکے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا مقصد ہوتا ہے۔

تیسری آیت: پھر ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ (الماعون: 4) اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا تھا۔

وَلَا یَحُضُّ: اور نہیں رغبت دلاتا اور نہیں تاکید کرتا۔

عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ: مسکین کے کھانا کھلانے پراور نہ کسی دوسرے کواس امر کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ مسکین کو کھانا کھلایا کرے۔

(حقائق الفرقان)

پس لَا یَحُضُّ کے معنے ہوں گے وہ آمادہ نہیں کرتا۔ ترغیب نہیں دلاتا۔

(تفسیر کبیر)

پھر دوبارہ وہی مضمون۔ اب اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں توجہ دلائی ہے ایک دوسرے کو توجہ دلاتے رہو۔

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ہمارے پیارے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے اس مضمون کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ
’’اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ مسکینوں کو کھانا کھلاتو دیتا ہے مگر خلوص نیت سے نہیں۔ کیونکہ اگر وہ سچے دل سے کھانا کھلاتا تو دوسرں کو بھی اس کی ترغیب دلاتا۔ کیونکہ جو اچھی چیزہواس کی دوسروں کو بھی تلقین کی جاتی ہے مگر وہ آپ تو کھانا کھلاتا ہے لیکن دوسرے کو اس کی ترغیب نہیں دیتا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص شرم اور لحاظ کے مارے ایسا کرتا ہے۔ سچے دل سے ایسا نہیں کرتا اور اس کے دل میں اس کام کرنے کی تڑپ نہیں ہے۔ گویا سوال کرنے پر مسکین کو کھانا کھلاتا ہے خود غربا کی خدمت کا شوق نہیں رکھتا۔ تحریک کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غرباء کو بغیر مانگے روٹی مل جاتی ہے۔ جب لوگ ایک دوسرے کو غربا ء کی امداد کی تلقین کرتے رہیں تو غربا ء کو مانگنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔‘‘

(تفسیر کبیر سورۃ الماعون آیت نمبر4)

خاکسار تو تھوڑا بہت لکھتا رہتا ہے تو یہ مضمون لکھ کر اس جانب توجہ اور ترغیب دلائی ہے۔ ترغیب دلانے کے تو بے شمار طریقے ہوسکتے ہیں۔ ہر کوئی بہتر جانتا ہے کہ کس طرح توجہ دلائی جائے۔ کوئی پیسہ خرچ کرسکتا ہے، کوئی اس منصب پر ہو تا ہے کہ سب کو توجہ دلاسکتا ہے، کوئی اپنا وقت فوڈ بینک میں دے سکتا ہے۔ بے شمار طریقے ہیں۔

بس مختصرا ًیہ کہ کوئی بھی ایساعمل یا فعل جس سے کہ دوسرے کو اس کی طرف ترغیب ہو یا دوسرے کے دل میں بھی تحریک پیدا ہو تو نہ صرف ایسا عمل درست ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں بے حد خشنودی کا بھی باعث ہے۔

قرآن میں آتا ہے کہ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے۔

(النحل: 126)

یہ ہر کوئی خود بہتر فیصلہ کرسکتا ہے کہ کون سی حکمت بہتر ہے اور کس طرح توجہ دلائی جائے۔ لیکن ایک اصولی بات ہے کہ توجہ دلاتے رہنا چاہیے تا کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو۔

خداتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا ہمیں تاکیدی حکم ہے کہ مسکینوں، یتیموں اور اسیروں کو کھانا کھلایا جائے۔

حضر ت خلیفۃ المسیح الثالث ؓ نے مورخہ 17 دسمبر 1956ء کے خطبہ جمعہ میں مسکین کو کھانا کھلانے کی تحریک فرمائی۔ آپؓ نے فرمایا کہ
’’پس ہمارے خدانے ایک حکم دیا ہے ہمارے پیارے رسول ﷺ نے تاکید فرمائی ہے کہ محتاجوں کو کھانا کھلاؤ اور ہم نے اس تاکیدی ارشاد پر عمل کرنا ہے۔ یہ ایک بڑی اہم ذمہ داری ہے۔ آپ کا فرض ہے کہ آپ اس کو ہر وقت یاد رکھیں اور اس کے متعلق ہر وقت سوچتے رہیں کیونکہ یہ ایک ایسی بات ہے جس پر عمل کرنے سے بڑے خوشکن نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔‘‘

(خطبات ناصر جلد اول صفحہ نمبر45)

دن بر ے آئے اکٹھے ہو گئے قحط و وبا

(درثمین)

آج تو قدرتی قحط سالی بھی ہے اور مصنوعی قحط سالی بھی، غربت اور افلاس میں بھی بے انتہا اضافہ ہوگیا ہے، خانہ جنگی کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہے۔ پھر یہ Covid-19کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ دنیا ہی Lockdown ہو گئی ہے۔ مارچ کے آخری ہفتے میں اخباروں میں خبر آئی کہ

The World is in a recession – IMF Chief

لیکن جب حالات نارمل ہوں گے تو معیشت کو ہلا دینے والا طوفان آئے گا۔ ترقی پذیر ممالک کی معیشت تو متاثر ہو گی مگر جو ترقی یافتہ ممالک ہیں وہ بھی اس سے محفوظ نہیں رہیں گے۔ ایک چیز یقین کے ساتھ سب کو نظر آرہی ہے کہ غربت،بھوک اور افلاس میں بے انتہا اضافہ ہوگا۔ اور ایسی صورتحال میں اکیلے حکومتیں مقابلہ نہیں کرسکتی۔

ہر مصیبت سے بچا اے میرے آقا ہر دم
حکم تیرا ہے زمیں تیری ہے دوراں تیرا

(درثمین)

بس اس سارے پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے خاکسار کی تو اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آج یہ تحریک پھر سے زندہ ہوجائے۔ آمین

’’مسکینوں کے کھانے کی فکر کرو۔‘‘ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل

(حقائق الفرقان تفسیر سورۃ الفجرصفحہ 386)

مسکین کو کھانا کھلانا انتہائی احسن عمل ہے۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے فرمایا کہ
’’ہر نیکی صدقہ ہے۔‘‘

(صحیح مسلم جلد چہارم حدیث نمبر 1659، مشکوۃ اور مسند)

یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب ﷺ کا وعدہ ہے کہ صدقہ کسی بھی صورت میں مال میں کمی نہیں کرتا۔

حدیث شریف میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے فرمایا:
’’صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔‘‘

(صحیح مسلم جلد13 حدیث 4675)

قرآن شریف میں آتا ہے کہ

اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔

(البقرہ: 277)

ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز خطبہ جمعہ میں ایک حدیث بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’صدقہ دینے میں جلدی کرو کیونکہ بلائیں صدقات کو تجاوزنہیں کر سکتیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ مورخہ 13 مارچ 2020ء)

آخر میں خاکسار ہمارے پیارے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے بابرکت اقتباس پر مضمون ختم کرتا ہے۔ آپ ؓ فرماتے ہیں کہ:
’’میں پھر کہتا ہوں کہ یاد رکھو آج کل کے ایام میں مسکینوں اور بھوکوں کی مدد کرنے سے قحط سالی کے ایام کی تنگیوں سے بچ جاؤ گے۔ خداتعالیٰ مجھ کو اور تم کو توفیق دے کہ جس طرح ظاہری عزتوں کیلئے کوشش کرتے ہیں۔ ابدالآباد کی بھی کوشش کریں۔ آمین‘‘

(حقائق الفرقان تفسیر سورۃ الدھر آیت نمبر9 صفحہ نمبر291)

(منصور احمد خان۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 مئی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ