• 27 اپریل, 2024

حضرت خدیجہ ؓ

حضرت خدیجہ ؓ
تاریخ کے تناظر میں

حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا مکّہ مکرمہ 555ء میں پیدا ہوئیں۔ آپؓ کے والد ماجد کا نام خویلد تھا۔ ابتداء میں خدیجہ خویلد کے نام سے جانی پہچانی گئیں۔ شروع سے آپؓ کے اندر طہارت اور پاکیزگی کی صفت نمایاں تھی۔ خدیجہ طاہرہ کے لقب سے متعارف ہوئیں۔ آپؓ کے والد مشہور ومعروف اور بہت دولت مند تاجر تھے۔ یہ صفت بیٹی خدیجہؓ کے اندر نمایاں طور پر آگئی۔ آپؓ کو اپنے قبیلہ میں اور معاشرہ کے اندر ایک باعزت مقام اور مرتبہ حاصل تھا۔ اور بہت امیر ترین اور بااثر خاتون تھیں۔آپؓ کی دو شادیاں ہو چکی تھیں۔ ایک شوہر کا انتقال ہوا تھا جبکہ دوسرے شوہر کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ حضرت خدیجہؓ نے خود ان سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ کئی امراء رؤسائے قریش کی جانب سے تیسری شادی کے لئے پیش کش کو حضرت خدیجہؓ نے خود انکار کر دیا تھا۔ اور یہ فیصلہ لیاتھا کہ اب تیسری شادی نہیں کریں گی۔ لیکن ان کا ارادہ اس وقت بدل گیا جب انہوں نے سرور کونین حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی،جو بعد میں ان کے تیسرے شوہر بنے انہوں نے اس شخصیت میں ایسے گُن،اعلیٰ اخلاق و کردار اور خصوصیات دیکھیں تو شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ فی الحقیقت حضرت خدیجہؓ نے خود پیغمبر اسلامؐ کو منتخب کیا اور شادی کی پیشکش کی۔حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس سال جبکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علی وسلم کی عمر 25سال تھی۔

یہ صرف ان دونوں کے رشتے کی کہانی نہیں ہے بلکہ اس میں ایک ایسے مذہب نے جنم لیا جس کے پیرو کار آج اپنی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں۔حضرت خدیجہ ؓ نے پیغمبر اسلام ؐ سے اس وقت شادی کی جب انہوں ؐ نے نبوّت کا اعلان نہیں کیا تھا۔

نیویارک سٹی میں قدیم مشرقِ وسطی کی تاریخ کے پروفیسر رابرٹ ہوئیلینڈ کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہؓ کی شخصیت کی تفصیلی تصویر پیش کرنا مشکل ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا گیا ہے وہ ان کے انتقال کے کافی سال بعد لکھا گیا ہے۔ پروفیسر موصوف نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تاہم زیادہ تر تاریخی ذرائع کے مطابق وہ آزادانہ فیصلے کرنے اور پختہ ارادوں والی خاتون تھیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے اپنے ہی کزن کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا جبکہ ان کا خاندان روایتی طور پر اس رشتہ کی حمایت میں تھا۔ لیکن وہ اپنے شوہر کا انتخاب خود کرنا چاہتی تھیں اور وہ اس ارادہ میں کامیاب بھی ہوئیں۔ حضرت خدیجہؓ ایک ایسے کامیاب تاجر کی بیٹی تھیں جس نے اپنے خاندانی کاروبار کو ایک وسیع کاروبار ی سلطنت میں تبدیل کر دیا تھا۔والد کی فجار کی جنگ میں ہلاکت کے بعد حضرت خدیجہؓ نے کاروبار خود سنبھال لیا۔ مورخ بیٹی ہیوز کا کہنا تھا کہ انہیں خود اپنے طور پر دنیا میں آگے بڑھناآتا تھا۔حقیقت میں ان کی کاروباری ذہانت نے ہی انہیں اس راستہ پر ڈالا جس نے آگے چل کر دنیا کی تاریخ بدل دی۔ حضرت خدیجہ ؓ مکّہ سے جو کاروبار کرتی تھیں اس کے لئے مشرق وسطیٰ کے بڑے بڑے شہروں میں ان کے تجارتی قافلہ سفر کرتے تھے۔ یہ تجارتی قافلے طویل سفر طے کر کے جنوبی یمن اور شمالی شام جیسے شہروں تک جایا کرتے تھے۔ یونیورسٹی آف لیڈیز میں اسلامی تاریخ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر فوزیہ بورا کے مطابق حالانکہ ان کی دولت کا ایک بڑا حصہ انہیں وراثت میں ملا تھا لیکن خود ان کی کوششوں سے ان کا کاروبار بہت وسیع ہوا تھا۔ وہ خود انفرادی طور پر بھی ایک کامیاب کاروباری خاتون تھیں جن میں بہت خود اعتمادی تھی۔ وہ اپنے کاروبار کے مختلف کاموں کے لئے اپنے رشتہ داروں اور دیگر لوگوں کی خدمات بھی حاصل کرتی تھیں۔ حضرت خدیجہ ؓ نے اس ضمن میں اس شخص سے بھی رابطہ کیا اور ان سے اپنے ایک تجارتی قافلہ کی سربراہی کرنے کو کہا جو مکّہ میں صادق اور امین کے لقب سے جانے جاتے تھے اور ساتھ ہی اپنے غلام میسرہ کو بھی ان کے ساتھ کر دیا اور یہ نصیحت کی کہ اس بات کا خیال رکھنا دورانِ سفر کس طرح کا سلوک کرتے ہیں۔ دوسرا کسی بھی معاملہ میں ان سے اختلاف نہیں کرنا۔ تیسرا تم جس طرح میرے غلام ہو اسی طرح تم ان کے غلام بن کر رہنا۔ ابھی آدھا سفر ہی طے ہوا تھا حضرت خدیجہؓ کے غلام میسرہ نے دل میں کہا تم مجھے کیا نصیحت کرتی ہو کہ ان کا غلام بن کے رہنا۔ میں تو غلام ہی ہوں دنیا کا معزز ترین شخص بھی ان کی صحبت میں رہے گا تو وہ بھی ان کا غلام بن جائے گا۔ دورانِ سفر پیغمبر اسلام ؐ ایک درخت کے نیچے آرام کرنے کے لئے بیٹھ گئے سامنے سے ایک عیسائی راہب کا گزر ہوا بے ساختہ اس کی زبان سے نکلا اس درخت کے نیچے وہی شخص بیٹھتا ہے جو خدا کا نبی ہوتا ہے۔ یہ سن کر غلام میسرہ تذبذب میں پڑ گئے لیکن انہیں کیا معلوم کہ محمد بن عبداللہ ؐ تو اس وقت سے نبی تھے جب حضرت آدم کی مٹی گوندھی جا رہی تھی۔

حضرت خدیجہ ؓ جلد ہی اس شخص سے متاثر ہو ئیں اور بہت مداح ہو گئیں اور پیغمبر اسلام ؐ سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ حضرت خدیجہ ؓ سے شادی کے بعد پیغمبر اسلام ؐ کو اپنے مقصد کے لئے زبر دست استحکام اور معاشی مدد ملی۔ کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلام ؐ اور حضرت خدیجہ ؓ کے ہاں چار اولادیں ہوئیں لیکن ان میں سے صرف ایک بیٹی ہی زندہ رہیں۔ مسلم انسٹی ٹیوٹ آف لندن کی پروفیسر رافیہ حافظ کہتی ہیں کہ سماجی نظر میں اگر دیکھیں تو آپ کو اس وقت کے حالات کو بھی ذہن میں رکھنا ہو گا وہ ایک کثرت ازدواج والا معاشرہ تھا۔ اس زمانہ میں زیادہ تر مردوں کی کئی کئی بیویاں ہوا کرتی تھیں لیکن جب تک حضرت خدیجہؓ زندہ رہیں پیغمبر اسلام ؐ نے دوسری شادی نہیں کی۔

حضرت خدیجہؓ کی طرح پیغمبر اسلام ؐ بھی قبیلہ قریش میں پیدا ہوئے پروان چڑھے۔ یہ وہ دور تھا جب اس علاقہ میں اکثر لوگ کئی خداؤں کی عبادت کرتے تھے۔ جب پیغمبر اسلام ؐ کو روحانی تجربات کا سلسلہ شروع ہوا اور مکہ سے قریب پہاڑ پر جا کر مراقبہ کرنے لگے تو آپؐ کی شادی کو کئی سال ہو چکے تھے۔ اس کے بعد انہیں حضرت جبرئیل کے ذریعہ وحی نازل ہونے لگی تو پیغمبر اسلام ؐ نے فیصلہ کیا کہ وہ جس کیفیت سے گزر رہے ہیں اس بارہ میں کسی سے مشورہ کریں۔ آپؐ حضرت خدیجہؓ پر بے انتہا اعتبار کرتے تھے۔حضرت خدیجہؓ نے ان کی بات سنی اور انہیں دلاسا دیا۔ کیونکہ ان کے دل نے کہا یہ عظیم اور انتہائی مقدس تجربہ ہے۔ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کی اسلامی اسکالر لیلٰی احمد کہتی ہیں کہ جب پیغمبر اسلام ؐ پر قرآنی آیات کا نزول ہوا تو ان کو اس تجربہ کو سمجھنے میں مشکل کا سامنا تھا۔ اس موقعہ پر حضرت خدیجہؓ نے ان کا ساتھ دیا۔ کئی مؤرخین کی نظر میں پیغمبر اسلام ؐ پر اترنے والی آیات کو سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ نے سُنا تھا۔ اس لئے وہ اسلام کی پہلی مسلمان خاتون بن گئیں اور اسلام قبول کرنے والی پہلی شخصیت بھی اور اوّل اُمّ المومنین بھی۔ وہ لکھتی ہیں کہ یہیں میرے خیال سے حضرت خدیجہؓ کی حمایت سے پیغمبر اسلام ؐ کو اپنا پیغام عام کرنے اور اپنے قبیلے کی مخالفت کا مقابلہ کرنے میں بہت مدد ملی۔ پروفیسر فوزیہ بورا کے مطابق جب پیغمبر اسلام ؐ نے تبلیغ شروع کی تو مکہ کے معاشرہ میں ان کی بہت مخالفت ہوئی۔ کیونکہ مختلف خداؤں کی عبادت کرنے والے معاشرہ میں وہ ایک خدا کو ماننے کا پیغام دے رہے تھے۔ اس موقعہ پر حضرت خدیجہؓ نے وہ حمایت اور تحفظ فراہم کیا جس کی پیغمبر اسلام ؐ کو اشد ضرورت تھی۔

بیٹی ہیوز کہتی ہیں اگلے دس سال تک حضرت خدیجہ ؓ نے اپنے خاندانی تعلقات اور اپنی دولت کے ذریعہ اپنے شوہر اور اسلام کی حمایت اور مدد کے لئے وہ سب کچھ کیا جو اُن کے بس میں تھا۔ 619ء میں وہ بیمار ہو گئیں اور ان کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت پیغمبر اسلام ؐ اور انؓ کی رفاقت کو 25سال ہو چکے تھے اور حضرت خدیجہؓ کا بچھڑنا ان ؐ کے لئے ایک بڑا صدمہ تھا۔ پروفیسر رابرٹ ہوئیلینڈ کے مطابق مؤرخین نے حضرت خدیجہؓ کا جس طرح ذکر کیا ہے وہ بہت متاثر کن ہے اور انہیں پیغمبر اسلام ؐ کی بہترین رفیق قرار دیا گیا ہے۔

پروفیسر بورا سمجھتی ہیں کہ حضرت خدیجہ ؓ کی تاریخ (سیرت) کو جاننا اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ وہ اس تصویر کو بھی غلط ثابت کرتی ہیں کہ اسلام کے ابتدائی دنوں میں عورتوں کو گھروں تک محدود رکھا جاتا تھا۔ پیغمبر اسلام ؐ نے حضرت خدیجہ ؓ کو ان کے پسند کے کام کرنے سے کبھی نہیں روکا تھا۔ تاریخ دانوں کے مطابق اس زمانہ کے لحاظ سے اسلام نے عورتوں کو زیادہ حقوق اور اہمیت دی۔ ایک مؤرخ اور مسلمان کی حیثیت سے میں سمجھتی ہوں کہ حضرت خدیجہؓ ایک متاثر کن شخصیت تھیں۔ اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ اور دوسری بیوی حضرت عائشہؓ بھی ایسی ہی شخصیات میں شامل ہیں۔ یہ دانشور خواتین تھیں جو سیاسی طور پر متحرک تھیں اور جنہوں نے اسلام کی ترویج اور اسلامی معاشرہ کے قیام میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ پروفیسر فوزیہ کہتی ہیں کہ یہ ان کے لئے بہت خوشی اور دلچسپی کا باعث ہے کہ وہ طالب علموں کو ان خواتین کے بارے میں بتائیں۔

پروفیسر ہوئے لینڈ کہتے ہیں کہ جب وہ پڑھانے کی غرض سے پاکستان آئے تو اس دوران انہوں نے حضرت خدیجہؓ کی ایک رول ماڈل کی حیثیت سے تعریف ہوتے دیکھی۔ دو طالبات نے مجھ سے رابطہ کیا کیونکہ وہ حضرت خدیجہؓ کے بارے میں مزید سوالات پوچھنا چاہتی تھیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا حضرت خدیجہؓ ان کی ہیرو ہیں ایک ایسی خاتون جو اپنا بزنس خود سنبھالتی تھیں۔

مؤرخ ہیٹی ہیوز کہتی ہیں آج اسلام میں خواتین کے موضوع پر بہت گرما گرم بحث ہوتی ہے اور کئی لوگ اسے خواتین کے استحصال سے جوڑتے ہیں۔ ہیٹی ہیوز نے اسکالر میرین فرانسواسیدہ سے سوال کیا کہ اگر آپ حضرت خدیجہؓ اور حضرت عائشہؓ جیسی عظیم خواتین کے بارے میں سوچیں تو آپ کے خیال میں یہ خواتین 21ویں صدی میں اسلام کی جو صورت ہے اس بارے میں کیا کہتیں؟

میرین فرانسواسیدہ نے جواب دیا کہ آج جس طرح اسلام پر ایک مخصوص طریقہ سے عمل کیا جا رہا ہے میرا نہیں خیال کہ یہ خواتین اسے اسلام کی روح گردانتیں۔ اور مجھے یقین ہے کہ حضرت عائشہؓ اگر آج ہوتیں اور انہیں کہا جاتا کہ کمرے سے باہر نہ نکلیں اور اپنی رائے کا اظہار نہ کریں تو ایسی صورتحال سے خوش نہ ہوتیں۔ وہ مردوں کو سکھاتی تھیں اور انہیں تعلیم دیتی تھیں اگر انہیں کچھ کہنا ہوتا تھا وہ کہہ گزرتی تھیں۔ ان کے مطابق میرا نہیں خیال کہ آج اگر حضرت خدیجہؓ کو ایک مخصوص پیرائے میں محدود کر دیا جاتا، ان کی آواز کو دبا دیا جاتا اور ان کے حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی تو وہ یہ سب کچھ قبول کر لیتیں۔ ان خواتین کی کہانیاں اسلام میں خواتین کے کردار کے بارے میں بہت سے لوگوں کے تصورات کو چیلنج کرتی ہیں۔ ہیٹی ہیوز کہتی ہیں کہ یہ بہت افسوسناک بات ہے کہ غیر مسلم دنیا میں بہت ہی کم لوگوں نے ان خواتین کے نام سنے ہیں یا وہ انہیں جانتے ہیں۔

(محمد عمر تمار پوری۔ انڈیا)

پچھلا پڑھیں

اختتام قاعدہ یسرناالقرآن و ابتدائے قرآن کریم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 مئی 2022