حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’ہر ایک عمل انسان کا جو اس کے مرنے کے بعد اس کے آثار دنیا میں قائم رہیں وہ اس کے واسطہ موجب ثواب ہو تا ہے۔ مثلاً انسان کا بیٹا ہو اور وہ اسے دین سکھلائے اور دین کا خادم بنائے تو یہ اس کے واسطے صدقہ جاریہ ہے جس کا ثواب اس کو ملتا رہے گا۔ اعمال نیت پر موقوف ہیں۔ ہر ایک عمل جو نیک نیتی کے ساتھ ایسے طور سے کیا جائےکہ اس کے بعد قائم رہےوہ اس کے واسطہ صدقہ جاریہ ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد5 صفحہ190، ایڈیشن1988ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں :
’’بڑے ہی بد قسمت وہ لوگ ہیں جن کے ماں باپ دنیا سے خوش ہو کر نہیں گئے۔ باپ کی رضامندی کو مَیں نے دیکھا ہے اللہ کی رضا مندی کے نیچے ہے اور اس سے زیادہ کوئی نہیں۔ افلاطُون نے غلطی کھائی ہے۔ وہ کہتا ہے ’’ہماری رُوح جو اُوپر اور منزہ تھی ہمارے باپ اسے نیچے گِرا کر لے آئے۔‘‘
(حقائق الفرقان جلد1 صفحہ183)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں :
’’ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میری ماں کی جان اچانک نکل گئی اگر وہ بولتی تو ضرور صدقہ کرتی۔ اَب اگر مَیں صدقہ کروں تو کیا اُسے ثواب ملے گا۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں۔ تو اس نے ایک باغ جو اس کے پاس تھا صدقہ کر دیا۔
میری والدہ کی وفات کی تار جب مجھے ملی تو میں اس وقت بخاری پڑھ رہا تھا۔ وہ بخاری بہت اعلیٰ درجہ کی تھی۔ میں نے اس وقت کہا اے اللہ میرا باغ تو یہی ہے تو پھر میں نے وہ بخاری وقف کر دی۔ فیروز پور میں فرزند علی کے پاس ہے۔‘‘
(حقائق الفرقان جلد1 صفحہ184)
آپؓ مزیدفرماتے ہیں :
’’میں اپنے والدین کے لئے دعاکرنے سے کبھی نہیں تھکا۔ کوئی ایسا جنازہ نہ پڑھا ہوگا جس میں ان کے لئے دعا نہ کی ہو۔ جس قدر بچہ نیک بنے ماں باپ کو راحت پہنچتی ہے اور وہ اسی دنیا میں بہشتی زندگی بسر کرتے ہیں۔‘‘
(حقائق الفرقان جلد2 صفحہ529)
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی وفات کے وقت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :
’’آپؑ کی وفات کے معاً بعد چند لوگ گھبرائے کہ اب کیا ہو گا۔ انسان انسانوں پر نگاہ کرتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ دیکھو یہ کام کرنے والا موجود تھا یہ تو اب فوت ہو گیا ہے اب سلسلہ کا کیا بنے گا؟ جب اس طرح بعض لوگ مجھے پریشان حال دکھائی دیئے اور میں نے ان کو یہ کہتے سنا کہ اب جماعت کا کیا حال ہوگا تو مجھے یاد ہے گو میں اس وقت انیس سال کا تھا مگر میں اسی جگہ حضرت مسیح موعود کے سرہانے کھڑے ہو کر کہا کہ اے خدا میں تجھے حاضر ناظر جان کر تجھ سے سچے دل سے عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت احمدیت سے پھر جائے تب بھی وہ پیغام جو حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ تو نے نازل فرمایا ہے میں اس کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلاؤں گا۔‘‘
(روزنامہ الفضل 21؍جون 1944ء)
خدا تعالیٰ نے آپ کی اس نیک خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہر آن مدد کی۔ اس بات کی دنیا گواہ ہے کہ آپ نے اس عہد کو جس شان وشوکت کے ساتھ نبھایا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الربعؒ فرماتے ہیں :
’’پس والدین کے حق میں جو دعائیں ہیں ان کے علاوہ یہ عملی تعلیم بھی ہے جس پر عمل بڑا ضروری ہے۔ والدین جو نیکی کیا کرتے تھے اور بیچ میں عمر کٹ گئی یعنی عمر منقطع ہو گئی اس نیکی کو اگر جاری رکھا جاسکتا ہو تو وہ نیکی ایسی ہےجو والدین کے درجات کو بلند کرنے کا موجب بنے گی۔
اس ضمن میں چندہ جات ہیں۔ بہت سے والدین باقاعدگی کے ساتھ چندہ دیتے ہیں اور وعدے کر دیتے ہیں بڑوں چندوں کے۔ مگر اس کے پہلے کہ وہ پورا کرسکیں ان کو موت آجاتی ہے۔ تو ایسی صورت میں بچوں کا فرض ہے کہ اگر وہ حقیقت میں ماں باپ سے محبت کرتے ہیں اور ان کے مرنے کے بعد ان کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ تو خواہ باپ فوت ہو جائےاس خواہش کے ساتھ کہ میں یہ چندہ دوں گایا ماں فوت ہو جائے، دونوں کے لئے بچوں کو اس نیکی کو جاری رکھنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سےجماعت میں یہ نیکی پائی جاتی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ ماں باپ کے مرنے کے بعد کثرت سے ان کے چندوں کو پورا کیا جاتا ہے۔ بچے چین نہیں لیتے جب تک ان کی اس نیک خواہش کو پورا نہ کر لیں خواہ کتنا ہی بوجھ اٹھاناپڑے۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں یہ نیکی بہت عام ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 4؍فروری 2000ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل17؍مارچ2000ء)
حضرت اقدس خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’مرنے کے بعد بھی ان کے لئے دعائیں کرو، ان کے لئے مغفرت طلب کرو اور اس کے علاوہ ان کے وعدوں کو پورا کرو، ان کے قرضوں کو بھی اتارو۔ بعض دفعہ بعض موصی وفات پاجاتے ہیں۔ وہ تو بچارے فوت ہو گئے انہوں نے اپنی جائیداد کا 10؍1حصہ وصیت کی ہوتی ہے۔ لیکن سالہا سال تک ان کے بچے، ان کے لواحقین ان کا حصہ وصیت ادا نہیں کرتے بلکہ بعض دفعہ انکار ہی کر دیتے ہیں، ہمیں اس کی توفیق نہیں، گویا ماں باپ کے وعدوں کا پاس نہیں کررہے۔ ان کی کی ہوئی وصیت کا احترام نہیں کر رہے۔ والدین سے ملی ہوئی جائیدادوں سے فائدہ تو اٹھا رہے ہیں لیکن ان کے جو وعدے ان ہی کی جائیدادوں سے ادا ہونے والے ہیں وہ ادا کرنے کی طرف توجہ کوئی نہیں۔ جبکہ جائیداد کا جو دسواں حصہ ہے وہ تو بچوں کا ہے ہی نہیں۔ وہ تو اس کی پہلے ہی وصیت کر چکے ہیں۔ وہ جوان کی اپنی چیز نہیں ہے وہ بھی نہیں دے رہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے بچوں کو عقل اور سمجھ دے کہ وہ اپنے والدین کے وعدوں کو پورا کرنے والے بنیں۔ یہاں تو یہ حکم ہے کہ صر ف ان کے وعدو ں کو ہی پورا نہیں کرنا بلکہ ان کے دوستوں کا بھی احترام کرناہے، ان کوبھی عزت دینی ہے اور ان کے ساتھ جو سلوک والدین کا تھا اس سلوک کو جاری رکھناہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 16؍جنوری 2004ء مطبوعہ 12؍مارچ 2004ء صفحہ10)
(ابن صادق)