• 10 مئی, 2025

کتاب تعلیم کی تیاری (قسط 45)

کتاب تعلیم کی تیاری
قسط 45

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات ا کٹھے کئے جا رہے ہیں۔

  1. اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
  2. نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
  3. بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ تعالیٰ کے حقوق

  • اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کو مستحکم اور مضبوط کرنے کی تین صورتیں ہیں اور خدا تعالیٰ نے وہ تینوں ہی سُورۃ فاتحہ میں بیان کر دی ہیں۔

اوّل۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حُسن کو دکھایا ہے جب کہ جمیع محامد کے ساتھ اپنے آپ کو متّصف کیا ہے۔ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ خوبی بجائے خود دل کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ خوبی میں ایک مقناطیسی جذب ہے جو دلوں کو کھینچتی ہے جیسے موتی کی آب، گھوڑے کی خوبصورتی، لباس کی چمک دمک، غرض یہ حُسن پھولوں، پتوں، پتھروں، حیوانات، نباتات، جمادات کسی چیز میں ہواس کا خاصہ ہے کہ بے اختیار دل کو کھینچتا ہے۔ پس خداتعالیٰ نے پہلا مرحلہ اپنی خدائی منوانے کا حُسن رکھا ہے جب اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ فرمایا کہ جمیع اقسام حمد و ستائش اسی کے سزاوار ہیں۔

پھر دوسرا درجہ احسان کا ہوتا ہے انسان جیسے حُسن پر مائل ہوتا ہے ویسے ہی احسان پر بھی مائل ہوتا ہے اس لئے پھر اللہ تعالیٰ نے رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔ الرَّحۡمٰنِ۔ الرَّحِیۡمِ۔ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ صفات کو بیان کر کے اپنے احسان کی طرف توجہ دلائی۔ لیکن اگر انسان کا مادہ ایسا ہی خراب ہو اور وہ حُسن اور احسان سے بھی سمجھ نہ سکے تو پھر تیسرا ذریعہ سورۃ فاتحہ میں غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ کہہ کر متنبہ کیا ہے۔ اعلیٰ درجہ کے لوگ تو حُسن سے فائدہ اُٹھاتے اور جو اُن سے کم درجہ پر ہوں وہ احسان سے فائدہ اُٹھا لیتے ہیں۔ لیکن جو ایسے ہی پلید طبع ہوں اُن کو اپنے جلال اور غضب سے متوجہ کیا ہے۔ یہودیوں کو مغضوب کہا ہے اور ان پر طاعون ہی پڑی تھی۔ خدا تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں یہودیوں کی راہ اختیار کرنے سے منع فرمایا۔ یا یوں کہو کہ طاعون کے عذابِ شدید سے ڈرایا ہے۔ شیطان بے باک انسان پر ایسا سوار ہے کہ وہ سُن لیتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے۔ اصل یہ ہے کہ جب تک جذبات اور شہوات پر ایک موت وارد ہو کر اُنہیں بالکل سرد نہ کر دے خدا تعالیٰ پر ایمان لانا مشکل ہے۔ اب تو غضبِ الٰہی کے نمونے خطرناک ہیں ابھی تین مہینے باقی ہیں خدا جانے کیا ہو نے والا ہے۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ14-15 ایڈیشن2016ء)

•پس یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن شریف دہریوں کی طرح تمام امور کو اسباب طبیعیہ تک محدود رکھنا نہیں چاہتا بلکہ خالص توحید پر پہنچانا چاہتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ لوگوں نے دعا کی حقیقت کو نہیں سمجھا اور نہ قضا و قدر کے تعلقات کو جو دعا کے ساتھ ہیں تدبر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ جو لوگ دعا سے کام لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے لیے راہ کھول دیتا ہے۔ وہ دعا کو ردّ نہیں کرتا۔ ایک طرف دعا ہے۔ دوسری طرف قضا و قدر۔ خدا نے ہر ایک کے لیے اپنے رنگ میں اوقات مقرر کر دیئے ہیں۔ اور ربوبیت کے حصہ کو عبودیت میں دیا گیا ہے اور فرمایا ہے اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المؤمن: 61) مجھے پکارو میں جواب دوں گا۔ میں اس لیے ہی کہا کرتا ہوں کہ ناطق خدا مسلمانوں کا ہے، لیکن جس خدا نے کوئی ذرہ پیدا نہیں کیا یا جو خود یہودیوں سے طمانچے کھا کر مر گیا وہ کیا جواب دے گا۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ26 ایڈیشن2016ء)

نفس کے حقوق

•اللہ تعالیٰ کا یہ منشا ہے کہ تمام انسانوں کو ایک نفس واحد کی طرح بناوے۔ اس کا نام وحدت جمہوری ہے جس سے بہت سے انسان بحالت مجموعی ایک انسان کے حکم میں سمجھا جاتا ہے۔ مذہب سے بھی یہی منشا ہوتا ہے کہ تسبیح کے دانوں کی طرح وحدت جمہوری کے ایک دھاگہ میں سب پروئے جائیں۔ یہ نمازیں باجماعت جو کہ ادا کی جاتی ہیں وہ بھی اسی وحدت کے لئے ہیں تاکہ کُل نمازیوں کا ایک وجود شمار کیا جاوے اور آپس میں مل کر کھڑے ہونے کا حکم اس لئے ہے کہ جس کے پاس زیادہ نور ہے وہ دوسرے کمزور میں سرایت کر کے اُسے قوت دیوے حتٰی کہ حج بھی اسی لئے ہے۔ اس وحدت جمہوری کو پیدا کرنے اور قائم رکھنے کی ابتدا اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے کی ہے کہ اوّل یہ حکم دیا کہ ہر ایک محلہ والے پانچ وقت نمازوں کو باجماعت محلہ کی مسجد میں ادا کریں تاکہ اخلاق کا تبادلہ آپس میں ہو اور انوار مل ملا کر کمزوری کو دُور کر دیں اور آپس میں تعارف ہو کر اُنس پیدا ہو جاوے۔ تعارف بہت عمدہ شئے ہے کیونکہ اس سے اُنس بڑھتا ہے جو کہ وحدت کی بنیاد ہے۔ حتٰی کہ تعارف والا دشمن ایک ناآشنا دوست سے بہت اچھا ہوتا ہے کیونکہ جب غیر ملک میں ملاقات ہو تو تعارف کی وجہ سے دلوں میں اُنس پیدا ہو جاتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ کینہ والی زمین سے الگ ہونے کے باعث بغض جو کہ عارضی شئے ہوتا ہے وہ تو دُور ہو جاتا ہے اور صرف تعارف باقی رہ جاتا ہے۔

پھر دوسرا حکم یہ ہے کہ جمعہ کے دن جامع مسجد میں جمع ہوں کیونکہ ایک شہر کے لوگوں کا ہر روز جمع ہونا تو مشکل ہے۔ اس لئے یہ تجویز کی کہ شہر کے سب لوگ ہفتہ میں ایک دفعہ مل کر تعارف اور وحدت پیدا کریں۔ آخر کبھی نہ کبھی تو سب ایک ہو جاویں گے۔ پھر سال کے بعد عیدین میں یہ تجویز کی کہ دیہات اور شہر کے لوگ مِل کر نماز ادا کریں تاکہ تعارف اور انس بڑھ کر وحدت جمہوری پیدا ہو۔ پھر اسی طرح تمام دنیا کے اجتماع کے لئے ایک دن عمر بھر میں مقرر کر دیا کہ مکّہ کے میدان میں سب جمع ہوں۔ غرضکہ اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے کہ آپس میں اُلفت اور اُنس ترقی پکڑے۔ افسوس کہ ہمارے مخالفوں کو اس بات کا علم نہیں کہ اسلام کا فلسفہ کیسا پکّاہے۔ دنیوی حکام کی طرف سے جو احکام پیش ہوتے ہیں۔ ان میں تو انسان ہمیشہ کے لئے ڈھیلا ہو سکتا ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کے احکام میں ڈھیلا پن اور اس سے بکلّی رُو گردانی کبھی ممکن ہی نہیں کونسا ایسا مسلمان ہے جو کم از کم عیدین کی بھی نماز نہ ادا کر تا ہو۔ پس ان تمام اجتماعوں کا یہ فائدہ ہے کہ ایک کے انوار دوسرے میں اثر کر کے اُسے قوت بخشیں۔

نفس اور اخلاق کی پاکیزگی حاصل کرنے کا ایک بڑا ذریعہ صحبت صادقین بھی ہے۔ جس کی طرف اللہ تعالےٰ اشارہ فرماتا ہے کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ (التوبہ: 119)۔ یعنی تم خدا تعالیٰ کے صادق اور راستباز لوگوں کی صُحبت اختیار کرو تاکہ اُن کے صدق کے انوار سے تم کو بھی حصّہ ملے۔ جو مذاہب کہ تفرقہ پسند کرتے ہیں اور الگ الگ رہنے کی تعلیم دیتے ہیں وہ یقیناً وحدت جمہوری کی برکات سے محروم رہتے ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے تجویز کیا کہ ایک نبی ہو جوکہ جماعت بنا وے اور اخلاق کے ذریعہ آپس میں تعارف اور وحدت پیدا کرے۔

(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ129-130 ایڈیشن 1984ء)

•30؍مئی 1902 ء کی شام کو مختلف باتوں کے تذکرہ میں یہ ذکر شروع ہوا کہ لوگ جناب کے اس فقرہ پر کہ میں مسیح اور حسین سے بڑھ کر ہوں۔ بہت جھلا رہے ہیں۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:۔ ‘‘ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جو خواہ مخواہ بلا کسی قسم کے استحقاق کے اپنے تئیں محامد، مناقب اور صفاتِ محمودہ سے موصوف کرنا چاہتے ہیں۔ گویا وہ یہ چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی کبریائی کی چادر آپ اوڑھ لیں۔ ایسے لوگ لعنتی ہوتے ہیں۔

دوسری قسم کے وہ لوگ ہوتے ہیں جو طبعاً ہر قسم کی مدح و ثنا اور منقبت سے نفرت اور کراہت کرتے ہیں۔ اور اگر وہ اپنے اختیار پر چھوڑ دیئے جاویں تو دل سے پسند کرتے ہیں کہ گوشہءِ گمنامی میں زندگی گذار دیں۔ مگر خدا تعالیٰ اپنے مصالح اور باریک حکمتوں کی بِنا پر اُن کی تعریف اور تمجید کرتا ہے اور در حقیقت ہونا بھی اسی طرح چاہیے۔ کیونکہ جن لوگوں کو وہ مامور کر کے بھیجتا ہے اُن کی ماموریت سے اس کا منشا یہ ہوتا ہے کہ اس کی حمدوثنا اور جلال دنیا میں ظاہر ہو۔ اگر ان ماموروں کی نسبت وہ یہ کہے کہ فلاں مامور جسے میں نے مبعوث کیا ہے ایسا نکمّا، بُزدل، نالائق، کمینہ، سفلہ اور ہر قسم کے فضائل سے عاری اور بیگانہ ہے تو کیا خدا تعالیٰ کی اس کے ذریعہ سے کوئی صفت قائم ہو سکے گی۔ حقیقت میں خدا کا ان کی تمجید اور مدارج اور فضائل بیان کرنا اپنے ہی جلال اور عظمت کی تمہید کے لیے ہوتا ہے۔

وہ تو اپنے نفس سے بالکل خالی ہوتے ہیں اور ہر قسم کے مدح و ذَم سے بے پرواہ ہوتے ہیں چنانچہ سالہا سال اس سے پہلے جبکہ نہ کوئی مقابلہ تھا نہ گردو پیش میں کوئی مجمع تھا۔ نہ یہ مجلس اور اس کی کوئی تمہید تھی اور نہ دنیا میں کوئی شہرت تھی۔ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں میری نسبت یہ فرمایا کہ:۔
(ترجہ) … میں اپنے قلب کو دیکھ کر یقین کرتا ہوں کہ کل انبیاء علیہم السلام طبعاً ہر قسم کی تعریف اور مدح و ثنا سے کراہت کرتے تھے مگر جو کچھ خدا تعالیٰ نے اُن کے حق میں بیان فرمایا ہے اپنے مصالح کی بنا پر فرمایا ہے اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ الفاظ میرے الفاظ نہیں خدا تعالیٰ کے الفاظ ہیں اور یہ اس لیے کہ خدا تعالیٰ کی عزّت اور جلال اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عزّت اور عظمت اور جلال خاک میں ملا دیا گیا ہے اور حضرت عیسیٰ اور حضرت حسین کے حق میں ایسا غلو اور اطرا کیا گیا ہے کہ اس سے خدا کا عرش کانپتا ہے۔

اب جبکہ کروڑہا آدمی حضرت عیسیٰ کی مدح و ثنا سے گمراہ ہو چکے ہیں اور ایسا ہی بے انتہا مخلوق حضرت حسین کی نسبت غلو اور اطرا کر کے ہلاک ہو چکی ہے تو خدا کی مصلحت اور غیرت اس وقت یہی چاہتی ہے کہ وہ تمام عزّتوں کے کپڑے جو بے جا طور پر ان کو پہنائے گئے تھے اُن سے اُتار کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا تعالیٰ کو پہنائے جاویں۔ پس ہماری نسبت یہ کلمات در حقیقت خدا تعالیٰ کی اپنی عزّت کے اظہار اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کے لیے ہیں۔

میں حلفاً کہتا ہوں کہ میرے دل میں اصلی اور حقیقی جوش یہی ہے کہ تمام محامد اور مناقب اور تمام صفاتِ جمیلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کروں۔ میری تمام تر خوشی اسی میں ہے اور میری بعثت کی اصل غرض یہی ہے کہ خداتعالیٰ کی توحید اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی عزّت دنیا میں قائم ہو۔ میں یقیناً جانتا ہوں کہ میری نسبت جس قدر تعریفی کلمات اور تمجیدی باتیں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں۔ یہ بھی در حقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف راجع ہیں اس لیے کہ میں آپ کا ہی غلام ہوں اور آپ ہی کے مشکوٰۃِ نبوت سے نور حاصل کرنے والا ہوں اور مستقل طور پر ہمارا کچھ بھی نہیں۔ اسی سبب سے میرا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد یہ دعویٰ کرے کہ میں مستقل طور پر بلا استفاضہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے مامور ہوں اور خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہوں تو وہ مردود اور مخذول ہے۔ خدا تعالیٰ کی ابدی مُہر لگ چکی ہے۔ اس بات پر کہ کوئی شخص وصول اِ لی اللہ کے دروازہ سے آنہیں سکتا ہے بجز اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ83-85 ایڈیشن 2016ء)

بنی نوع کے حقوق

•ہماری جماعت کو یہ نصیحت ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ وہ اس امر کو مدِّنظر رکھیں جو میں بیان کرتا ہوں۔ مجھے ہمیشہ اگر کوئی خیال آتا ہے تو یہی آتا ہے کہ دنیا میں تو رشتے ناطے ہوتے ہیں۔ بعض ان میں سے خوبصورتی کے لحاظ سے ہوتے ہیں۔ بعض خاندان یا دولت کے لحاظ سے اور بعض طاقت کے لحاظ سے۔ لیکن جنابِ الٰہی کو ان امور کی پرواہ نہیں۔ اُس نے تو صاف طور پر فرما دیا کہ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ (الحجرات: 14) یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی معزز و مکرم ہے جو متقی ہے۔ اب جو جماعت اتقیا ء ہے خدا اس کو ہی رکھے گا اور دوسری کو ہلاک کرے گا۔ یہ نازک مقام ہے اور اس جگہ پر دو کھڑے نہیں ہو سکتے کہ متقی بھی وہیں رہے اور شریر اور ناپاک بھی وہیں۔ ضرور ہے کہ متقی کھڑا ہو اور خبیث ہلاک کیا جاوے اور چونکہ اس کا علم خدا کو ہے کہ کون اُس کے نزدیک متقی ہے۔ پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے۔ خوش قسمت ہے وہ انسان جو متقی ہے اور بدبخت ہے وہ جو لعنت کے نیچے آیا ہے۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ38-39 ایڈیشن 2016ء)

•کیسی عظیم الشّان بات ہے کہ آپ کو کوئی مقام ذلّت کا کبھی نصیب نہیں ہوا، بلکہ ہر میدان میں آپ ہر طرح معزز و مظفر ثابت ہوئے ہیں لیکن بالمقابل اگر مسیح کی حالت کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے۔ کہ اُنہیں کیسی ذلّت پر ذلّت نصیب ہوئی ہے بسا اوقات ایک عیسائی شرمندہ ہو جاتا ہو گا جب وہ اپنے اس خدا کی حالت پر غور کرتا ہو گا جو انہوں نے فرضی اور خیالی طور پر بنایا ہوا ہے۔ مجھے ہمیشہ تعجب اور حیرت ہوئی ہے کہ عیسائی اس تعلیم کو جو انجیل میں بیان ہوئی ہے اور اس خدا کو جس کے واقعات کسی قدر انجیل سے ملتے ہیں رکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر اسے ترجیح کیونکر دیتے ہیں مثلاً یہی تعلیم ہے کہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری بھی پھیر دو اب اس کے تمام پہلوؤں پر غور کرو تو صاف نظر آ جائے گا کہ یہ کیسی بودی اور نکمّی تعلیم ہے۔ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اُن سے بچے خوش ہو جاتے ہیں بعض سے متوسط درجے کہ لوگ اور بعض سے اعلیٰ درجہ کے لوگ۔

انجیل کی تعلیم صرف بچوں کا کھلونا ہے کہ جس کی حقیقت کچھ بھی نہیں۔ کیا اللہ تعالیٰ نے جو انسان کو اس قدر قویٰ عطا فرمائے ہیں ان سب کا موضوع اور مقصود یہی ہے کہ وہ طمانچے کھایا کرے؟ انسان انسان تب ہی بنتا ہے کہ وہ سارے قویٰ کو استعمال کرے، مگر انجیل کہتی ہے کہ سارے قویٰ کو بیکار چھوڑ دو اور ایک ہی قوت پر زور دئیے جاؤ۔ بالمقابل قرآن شریف تمام قوتوں کا مربی ہے اور بر محل ہر قوت کے استعمال کی تعلیم دیتا ہے جیساکہ مسیح کی اس تعلیم کے بجائے قرآن شریف فرماتا ہے جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَاۚ فَمَنۡ عَفَا وَاَصۡلَحَ (الشّورٰی: 41) یعنی بدی کی سزا تو اسی قدر بدی ہے مگر عفو بھی کرو تو ایسا عفو کہ اس کے نتیجہ میں اصلاح ہو، وہ عفو بے محل نہ ہو، مثلاً ایک فرمانبردار خادم ہے اور کبھی کوئی خیانت اور غفلت اپنے فرض کے ادا کرنے میں نہیں کرتا۔ مگر ایک دن اتفاقاً اس کے ہاتھ سے گرم چاء کی پیالی گر جاوے اور نہ صرف پیالی ٹوٹ جاوے بلکہ کسی قدر گرم چاء سر پر بھی پڑ جاوے تو اس وقت یہ ضروری نہیں کہ آقا اس کو سزا دے بلکہ اس کے حسبِ حال سزا یہی ہے کہ اس کو معاف کر دیا جاوے۔ ایسے وقت پر موقع شناس آقا تو خود شرمندہ ہو جاتا ہے کہ اس بیچارےنوکر کو شرمندہ ہونا پڑے گا، لیکن کوئی شریر نوکر اس قسم کا ہے کہ وہ ہر روز نقصان کرتا ہے اگر اس کو عفو کر دیا جائے تو وہ اور بھی بگڑے گا۔ اس کو تنبیہ ضروری ہے۔ غرض اسلام انسانی قویٰ کو اپنے اپنے موقع اور محل پر استعمال کرنے کی تعلیم دیتا ہے اور انجیل اندھا دھند ایک ہی قوت پر زور دیتی چلی جاتی ہے۔

گر حفظِ مراتب نہ کنی زندیقی

غرض حفظِ مراتب کا مقام قرآن شریف نے رکھا ہے کہ وہ عدل کی طرف لے جاتا ہے۔ تمام احکام میں اس کی یہی صورت ہے۔ مال کی طرف دیکھو نا مُمسِک بناتا ہے نہ مُسرف۔ یہی وجہ ہے کہ اس امّت کا نام ہی اُمَّۃً وَّ سَطًا رکھ دیا گیا۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ41-42 ایڈیشن 2016ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ