• 17 مئی, 2024

تبلیغ دین ایک اہم فریضہ

دعوتِ اسلام ایک اہم دینی فریضہ ہے۔ علماء امت کے باشعور طبقہ پر بالخصوص فرض ہے کہ وہ دعوت دین کا کام سرانجام دیں۔ تبلیغ دین کا مشن ہر زمانہ میں جاری رہا ہے اور موجودہ حالات میں بھی اس کی بہت ضرورت ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں نبی کریم ﷺ کو تبلیغ کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ:

قُلۡ ہٰذِہٖ سَبِیۡلِیۡۤ اَدۡعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ ۟ؔ عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیۡ ؕ وَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ وَمَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ

(یوسف: 109)

تُو کہہ دے کہ یہ میرا راستہ ہے۔ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ میں بصیرت پر ہوں اور وہ بھی جس نے میری پیروی کی۔ اور پاک ہے اللہ اور میں مشرکوں میں سے نہیں۔

یہی ہم سب کا مشن ہے اور ہونا بھی چاہئے۔ ہر دور میں ایک ایسی جماعت کا وجود ضروری ہے جو ان لوگوں کو جو دین حق سے بھٹک چکے ہیں دین حق کی طرف دعوت دے۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ:

وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَیَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَیَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ

(اٰل عمران: 105)

اور چاہئے کہ تم میں سے ایک جماعت ہو۔ وہ بھلائی کی طرف بلاتے رہیں اور اچھی باتوں کی تعلیم دیں اور بری باتوں سے روکیں۔ اور یہی ہیں وہ جو کامیاب ہونے والے ہیں۔

حضرت سہل بن سعد ؓ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے حضرت علیؓ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ بخدا تیرے ذریعے ایک آدمی کا ہدایت پا جانا، تیرے لئے اعلیٰ درجہ کے سرخ اونٹوں کے مل جانے سے زیادہ بہتر ہے۔

(مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فضائل علی بن ابی طالب)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ:
سرخ اونٹ اس زمانے میں بڑی قدر و قیمت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ جس طرح اس زمانے میں بڑی بڑی کاریں ہیں یا شاید اس سے بھی زیادہ۔ کیونکہ اس زمانے میں سفر کا ذریعہ خاص طور پر ریگستان میں، اور وہ ریگستانی علاقہ ہی تھا اونٹ ہی ہوتا تھا۔ تو فرمایا کہ دنیاوی لحاظ سے جو ایک اعلیٰ معیار ہے کسی انعام کا اس سے بڑھ کر کسی کی ہدایت کا باعث بن کر کسی کو سیدھے راستے پر لا کر تم اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی برکتوں کے مورد ہو گے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی نیک کام اور ہدایت کی طرف بلاتا ہے اس کو اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا کہ ثواب اس پر عمل کرنے والے کو ملتا ہے اور ان کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہیں ہوتا۔ اور جو شخص کسی برائی اور گمراہی کی طرف بلاتا ہے اس کو بھی اس قدر گناہ ہوتا ہے جس قدر اس برائی کرنے والے کو ہوتا ہے۔

(مسلم کتاب العلم باب من سن حسنۃ او سیئۃ)

تو دیکھیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا اظہار کس طرح اپنے بندوں کو اپنی طرف بلانے والوں کو ثواب پہنچا رہا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’انسان اگر چاہتا ہے کہ اپنی عمر بڑھائے اور لمبی عمر پائے تو اس کو چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے، خالص دین کے واسطے اپنی عمر کو وقف کرے۔ یہ یاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ سے دھوکہ نہیں چلتا۔ جو اللہ تعالیٰ کو دغا دیتا ہے وہ یاد رکھے کہ اپنے نفس کو دھوکہ دیتا ہے وہ اس کی پاداش میں ہلاک ہو جاوے گا۔

پس عمر بڑھانے کا اس سے بہتر کوئی نسخہ نہیں ہے کہ انسان خلوص اور وفاداری کے ساتھ اعلائے کلمۃ الاسلام میں مصروف ہو جاوے اور خدمت دین میں لگ جاوے او ر آج کل یہ نسخہ بہت ہی کارگر ہے کیونکہ دین کو آج ایسے مخلص خادموں کی ضرورت ہے۔ اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر عمر کا کوئی ذمہ دار نہیں ہے، یہ یونہی چلی جاتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ563)

پس اگر اپنی عمروں میں برکت ڈالنی ہے، اللہ کے فضلوں کا وارث بننا ہے تو دنیا کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ پیغام پہنچا دیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’اے تمام لوگو جو زمین پر رہتے ہو! اور تمام وہ انسانی روحو جو مشرق و مغرب میں آباد ہو! میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے۔ اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی روحانی زندگی اور پاک جلال کا ہمیں یہ ثبوت ملا ہے کہ اس کی پیروی اور محبت سے ہم روح القدس اور خدا کے مکالمہ اور آسمانی نشانوں کے انعام پاتے ہیں۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ141)

اللہ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک سچی تڑپ کے ساتھ نوع انسانی کی سچی ہمدردی اور امت محمدیہ کے ساتھ محبت کے جذبے کے تحت حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا یہ پیغام دنیا کے ہر فرد تک پہنچانے والا ہو اور ہم اُسے پہنچاتے چلے جائیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے آج کل، جیسا کہ پہلے میں نے کہا، ایم ٹی اے کا بھی ایک ذریعہ نکال دیا ہے، اپنے دوستوں کو اس سے متعارف بھی کرانا چاہئے۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ پیغام پہنچانے کے، تبلیغ کرنے کے بھی کوئی طریقے، سلیقے ہوتے ہیں۔ اس سچی تڑپ اور جوش اور جذبے کے ساتھ حکمت اور دانائی کا پہلو بھی مدنظر رہنا چاہئے۔ حکمت کے ساتھ اس پیغام کو پہنچانا چاہئے تاکہ دنیا پر اثر بھی ہو اور جس نیت سے ہم پیغام پہنچا رہے ہیں وہ مقصد بھی حاصل ہو، نہ کہ دنیا میں فساد پیدا ہو۔ اس لئے اس قرآنی آیت کو اس معاملے میں ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے۔

(خطبہ جمعہ 4؍جون 2004ء)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ہمارے اختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھر بہ گھر پھر کر خداتعالیٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں اور اس ہلاک کرنے والے شرک اور کفر سے جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے لوگوں کو بچا لیں۔ اگر خداتعالیٰ ہمیں انگریزی زبان سکھا دے تو ہم خود پھر کر اور دورہ کرکے تبلیغ کریں اور اس تبلیغ میں زندگی ختم کر دیں خواہ مارے ہی جاویں۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ219)

آج کے اس دور میں وہ گروہ جس کا ذکر مندرجہ بالا آیت میں ہوا ہے وہ جماعت احمدیہ ہی ہے اور امت مسلمہ میں یہی ایک ایسی جماعت ہے جو کہ رسول اللہ ﷺ کے عاشق صادق کی طرف سے دی گئی تعلیمات میں سے حقیقی اسلام کو سمجھ کر اور خلیفہٴ وقت کے زیر نظر یہ کام سرانجام دے رہی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں کہ:
’’آج دنیا کے جو حالات ہیں احمدی ہی دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ سے دوری کا نتیجہ ہے ہمارا کام تبلیغ کرنا ہے ہدایت دینا یا نہ دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ انسان عالم الغیب نہیں ہے اس لئے ہم نہیں جانتے کہ کس شخص پر اثر ہوگا اس لئے ہم نتائج کے بارہ میں ذمہ دار نہیں ہیں۔ ہم سے بس اتنا پوچھا جائے گا کہ کیا ہم نے اپنا تبلیغ کا فرض پورا کیا ہے یا نہیں اور اپنی حیثیت کے مطابق لوگوں تک پیغام پہنچایا ہے یا نہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ مؤرخہ 8 ستمبر 2017ء)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’جسے نصیحت کرنی ہو اسے زبان سے کرو۔ ایک ہی بات ہوتی ہے وہ ایک پیرایہ میں ادا کرنے سے ایک شخص کو دشمن بنا سکتی ہے اور دوسرے پیرائے میں دوست بنا دیتی ہے۔ پس وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ کے موافق اپنا عمل درآمد رکھو۔ اسی طرز کلام ہی کا نام خدا نے حکمت رکھا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے یُؤۡتِی الۡحِکۡمَۃَ مَنۡ یَّشَآءُ‘‘ (البقرہ: 270)

(الحکم جلد7 نمبر9 مؤرخہ 10 مارچ 1903ء صفحہ8)

پس ہم سب کو اس طرف توجہ دینی چاہئے اور اس بات کی فکر کرنی چاہئے۔ جب کل ہم سے پیغام پہنچانے کے متعلق پوچھا جائے گا تو ہم کیا جواب دیں گے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی دین کا علم سیکھے اور اس پر عمل کرتے ہوئے اپنے قول اور فعل کو ایک جیسا بنائے اور ایسا کرنے کے لئے ہمیں چاہئے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کریں اور اپنے آپ کو اس سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ جیسا کہ آپ ؑ فرماتے ہیں کہ:
’’اگر انسان کی گفتگو سچے دل سے نہ ہو اور اس میں عملی طاقت نہ ہو تو وہ اثر پذیر نہیں ہوتی ہماری باتیں عند اللہ کوئی وقعت نہیں رکھتیں جب تک عمل نہ ہو‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ42-43)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’ہمارے غالب آنے کے ہتھیار استغفار، توبہ، دینی علوم کی واقفیت، خداتعالیٰ کی عظمت کو مدنظر رکھنا اور پانچوں وقت کی نمازوں کو ادا کرنا ہیں۔ نماز دعا کی قبولیت کی کنجی ہے۔ جب نماز پڑھو تو اس میں دعا کرو اور غفلت نہ کرو اور ہر ایک بدی سے خواہ وہ حقوق الٰہی کے متعلق ہو یا حقوق العباد کے متعلق ہو بچو‘‘۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ221-222)

اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

(ساگر شفیق۔ مبلغ سلسلہ سپین)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ