میری آنکھیں ہر پل نور کے حالے بُنتی رہتی ہیں
ہونٹوں کے پربت سے تیرے ذکر کی ندیاں بہتی ہیں
دل کُٹیا میں اِک تیرے ہی نام کی شمع جلتی ہے
ایک پجارن شب بھر اس میں تیری پوجا کرتی ہے
تُو غفار ہے مولیٰ سائیں، الرحمٰن، رحیم بھی تُو
میں کیا ہوں بس خاک ہوں مولیٰ! تو ستار، عظیم بھی تو
دن بھی تیرا، رات بھی تیری، نقش بھی تو، نقاش بھی تو
کھل کھلیان بھی تیری چھایا، دھرتی تو، آکاش بھی تو
جنگل جنگل، صحرا صحرا، بستی بستی دیکھ لیا
تیری ہستی کا جلوہ ہے، ہستی ہستی دیکھ لیا
تو میرا سانول ہے سائیں! تو ہی ہے لجپال مرا
تجھ سے میرا کیا پردہ، تو سب جانے ہے حال مرا
(جواد جاذل)