• 14 مئی, 2025

بچوں کو اخلاقی و تربیتی کہانیاں سنانے کا ماحول بنانے کی ضرورت

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمدخلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک روز کسی بیمار بچہ نے کسی سے کہانی کی فرمائش کی تو اس نے جواب دیا کہ ہم تو کہانی سنانا گناہ سمجھتے ہیں ۔اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا :
’’گناہ نہیں۔ کیونکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی کبھی کبھی کوئی مذاق کی بات فرمایا کرتے تھے اور بچوں کو بہلانے کے لئے اس کو روا سمجھتے تھے جیسا کہ ایک بڑھیا عورت نے آپ سے دریافت کیا کہ حضرت کیا میں بھی جنّت میں جاؤں گی؟۔ (آپ ﷺ نے) فرمایا : نہیں۔ وہ بڑھیا یہ سُن کر رونے لگی۔ فرمایا۔ روتی کیوں ہے۔ بہشت میں جوان داخل ہوں گے۔ بوُ ڑھے نہیں ہوں گے یعنی اس وقت سب جوان ہوں گے ۔

اسی طرح سے فرمایا :
ایک صحابیؓ کی داڑھ میں درد تھا ۔ وہ چھوہارا کھاتا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چھوہارا نہ کھا کیونکہ تیری داڑھ میں درد ہے ۔ اس نے کہا کہ میں دُوسری داڑھ سے کھاتا ہوں۔

پھر فرمایا کہ ’’ایک بچہ کے ہاتھ سے ایک جانور جس کو حمیر کہتے ہیں چُھوٹ گیا۔ وہ بچہ رونے لگا۔ اس بچہ کا نام عمیر تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمیر ما فعلت بک حمیر۔ اے عمیر! حمیر نے کیا کیا؟۔ لڑکے کو قافیہ پسند آگیا۔ اس لئے چُپ ہو گیا۔‘‘

(ملفوظات جلد8 صفحہ414 تا 415)

سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اپنے بچوں کو دینی کہانیاں سُنایا کرتے تھے ۔ ایک دفعہ محرم کے مہینے میں آپؑ نے اپنے بچوں کو سیّدنا حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کی کہانی (کا واقعہ) سُنایا ۔ جس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد ؓ بیان فرماتے ہیں :
’’ایک دفعہ جب محرم کا مہینہ تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے باغ میں ایک چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے آپ ؑ نے ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم (سلمہا) اور ہمارے بھائی مبارک احمد مرحوم کو جو سب بہن بھائیوں میں چھوٹے تھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا ’’آؤ !میں تمہیں محرم کی کہانی سناؤں‘‘ پھر آپ ؑ نے بڑے دردناک انداز میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعات سنائے آپؑ یہ واقعات سناتے جاتے تھے اور آپؑ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور آپؑ اپنی انگلیوں کے پوروں سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔ اس دردناک کہانی کو ختم کرنے کے بعد آپؑ نے بڑے کرب کے ساتھ فرمایا۔

’’یزید پلید نے یہ ظلم ہمارے نبی کریم ؐ کے نواسے پر کروایا مگر خدا نے بھی ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب میں پکڑ لیا۔‘‘

اس وقت آپؑ پر عجیب کیفیت طاری تھی اور اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشہ کی المناک شہادت کے تصور سے آپؑ کا دل بہت بے چین ہو رہا تھا اور یہ سب کچھ رسول پاک ؐ کے عشق کی وجہ سے تھا۔‘‘

(روایت حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم ؓ۔ سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد ؓ،صفحہ31)

ہمارے بچپن کے دور میں ’’دادی اماں‘‘ کی کہانیاں مشہور تھیں۔ جب رات تاروں بھرے آسمان تلے ستاروں کی روشنی میں خاندان کی بزرگ خواتین اپنے بچوں کو کہانیاں سُنایا کرتیں اور بچے کہانیاں سنتے سنتے آسمان کی وُسعتوں میں کھو کر سو جایا کرتے تھے۔ یہ سبق آموز کہانیاں تعلیم و تربیت اور اخلاقیات کی عمارت کی پختگی اور مرمت کا کام کرتی تھیں۔ پھر اگلے روز بہن بھائی اکٹھے بیٹھ کر ان کہانیوں کو دہرایا کرتے تھے۔ آج اس مادی دنیا میں جب سوشل میڈیا نے معاشرے کو اپنے قبضہ میں لے رکھا ہے ۔اسی وجہ سے بچوں میں تنہائی عام ہے۔ بڑوں سے روابط کم ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ کھلے آسمان کے نیچے اور دوسرے اوقات میں بھی کہانیاں سنانے کا تصّور ختم ہوتا جا رہا ہے۔ جبکہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور علم میں اضافہ کے لئے یہ ایک ہمہ گیراور لا زوال طریق ہے۔

اس مفید طریق کو آج پھر رواج دینے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے بعض بزرگ جنہوں نے سیّدنا حضرت مصلح موعود ؓکی تقاریر و خطابات کوبراہ راست حضورؓ کی زبان مبارک سے سُنا ۔ اب آج کا نوجوان طبقہ کتابوں میں ان کے خطابات پڑھتا ہے وہ بخوبی اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ آپؓ کے خطابات اور تقاریر چھوٹے چھوٹے واقعات اور کہانیوں پر مشتمل ہیں جوپہلے دور میں بزرگوں کی زبانی کہانیوں کے رنگ میں دلچسپی سے سنی جاتی تھیں ۔ واقعات کی اہمیت کے پیش نظر،ہم مربیان و مبلغین کو بھی ہمارے بزرگ اور اساتذہ یہی نصیحت کرتے تھے کہ اپنی تقاریر و خطبات میں واقعات ضرور بیان کیا کریں ۔ اس سے دلچسپی پیدا ہوتی ہے ۔

یہ آرٹیکل لکھنے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ہمارے بزرگوں بالخصوص بزرگ خواتین کو اپنے بچوں، پوتے، پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو اپنے ارد گرد بٹھا کر اسلامی، دینی، اخلاقی اور تربیتی کہانیاں سنانی چاہئیں اور یہ کہانیاں سینہ بسینہ نسلوں میں چلنی چاہئیں جو مستقبل میں تربیت کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہو گا۔ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی امام حسینؓ بارے کہانی آج بھی جسمانی و روحانی نسل میں سینہ بسینہ چلی آرہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ذریعہ سے اپنے بچوں کی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 اگست 2021