• 1 مئی, 2024

لفظ آدم ،جِنّ ، جَنَّت اور ممنوع شَجَرَۃ کی حقیقت

لفظ آدم، جِنّ، جَنَّت اور ممنوع شَجَرَۃ کی حقیقت

خاکسار اور شاید بہتوں کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہوگا کہ اللہ تعالی نے پہلے نبی کا نام آدم کیوں رکھا اور اس کی مخالفت کرنے والوں کے لیے جَنّ کا لفظ کیوں استعمال کیا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ان کے رہنے والی جگہ کے لئے جنت کا لفظ کیوں اختیار کیا گیا آدم کے مخالفین کے لئے جِنّ کی بجائے کافر منکر مضل کے الفاظ کیوں نہیں استعمال کیے اور ان کے رہنے والی جگہ کے لئے جنت کی بجائے اَرض، مصر، قریۃ وغیرہ یعنی زمین شہر گاؤں وغیرہ الفاظ استعمال کیوں نہیں کیے اور ممنوع درخت کا معمہ کیا ہے لیکن جب ہم اس کے جواب کو جانتے ہیں تو دل یقین سے بھر جاتا ہے کہ یہ واقعی عالم الغیب خدا کا کلام ہے اس سے بہتر الفاظ استعمال ہو ہی نہیں سکتے تھے جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ’’کہ قرآن شریف کی جو آیات بظاہر مشکل معلوم ہوتی ہیں اور ان پر بہت اعتراض ہوتے ہیں دراصل ان کے نیچے بڑے بڑے معارف اور حقائق کے خزانے ہوتے ہیں‘‘

(سیرت المہدی روایت 166)

اس مسئلے کو حضرت مصلح موعودؓ نے سیر روحانی میں بیان کیا ہے حضرت مصلح موعودؓ نے 1938ء میں حیدرآباد، آگرہ، دہلی کے تاریخی مقامات کی سیر کی ۔ان تاریخی مقامات کی سیر کے دوران حضورپر قرآن کریم میں موجود دنیا کی ابتدائی تاریخ کے متعلق آیات کے معانی کا انکشاف ہوا مضمون شروع کرنے سے پہلے یہ واضح کردوں کہ ان الفاظ وآیات کے حضرت مسیح موعودؑ حضرت خلیفہ اولؓ، خلیفہ ثانیؓ و خلیفہ رابعؒ نے بہت سے دیگر تفسیری معانی بھی بیان کئے ہیں اور وہ تمام معانی اپنے اپنے رنگ میں الگ الگ خوبصورت مضمون بیان کرتے ہیں اور خدا کے کلام کا یہی اعجاز ہے کہ اس نے ایسا کلام اتارا ہے کہ اس کے بیک وقت کئی معانی ہوسکتے ہیں اور وہ تمام معانی درست بھی ہوتے ہیں لیکن اس مضمون میں مندرجہ بالا الفاظ کے دیگر تفسیری معانی کی بجائے اس بات پر فوکس ہوگا کہ ظاہرًا یہ الفاظ کیوں استعمال کیے گئے۔

لفظ آدم میں حکمت

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’لفظ آدم میں حکمت۔ قرآن کریم نے جو پہلے کامل انسان کا نام آدم رکھا تو اس میں بھی ایک حکمت ہے عربی زبان میں آدم کا لفظ دو مادوں سے نکلا ہے ایک مادہ اس کا ادیم ہے اور ادیم کے معنیٰ سطح زمین کے ہیں اور دوسرا مادہ اُدمہ ہے اور اُدمہ کےمعنیٰ گندمی رنگ کے ہیں پس آدم کے معنیٰ سطح زمین پر رہنے والے یا گندمی رنگ والے کے ہیں اور دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے کیونکہ کھلی ہوا اور زمین پر رہنے کی وجہ سے دھوپ کے اثر سے اس کے رنگ پر اثر پڑا‘‘

(سیر روحانی ص26)

دراصل اس وقت کا انسان غاروں میں رہتا تھا کیونکہ کھلی جگہ پر رہنے سے اسے جنگلی جانوروں کا خطرہ تھا آج کے آثار قدیمہ کے ماہرین بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ شروع میں انسان غاروں میں رہتا تھا سب سے پہلے نبی حضرت آدمؑ کو اس وقت کی ضرورت کے مطابق تمدن یعنی مل جل کر ایک قانون کے مطابق سطح زمین پر رہنے کی شریعت دی گئی سورۃ طٰہٰ آیت 120۔119 میں آپؑ کو دی گئی شریعت کے نمایاں اصول یہ بیان ہے کہ سب نے مل جل کر زمین پر رہنا ہے، ننگا نہیں رہنا کپڑے پہنے ہیں، کھلے آسمان نہیں رہنا گھر بنانے ہیں، کھانے پینے کا بندوبست کرنا ہے وغیرہ۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ’’حضرت آدمؑ کے زمانہ میں بھی چونکہ ایسے لوگ تھے جو قانون کی پابندی نہیں کر سکتے تھے اس لیے انہوں نے زمین پر رہنا پسند نہ کیا اور وہ بدستورغاروں میں رہتے رہے جنس ایک ہی تھی لیکن اس کا ایک حصہ توسطح زمین پر آ گیا دوسرا سطح زمین پر نہ آیا اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ جس طرح انسان کامل باہر رہنے کی وجہ سے آدم نام پانے کا مستحق بنا اسی طرح انسان ناقص غاروں میں رہنے کی وجہ سے ’جن‘ کا نام پانے کا مستحق ہوا کیونکہ جن کے معنیٰ پوشیدہ رہنے والے کےہیں پس اس وقت نسل انسانی کے دو نام ہو گئے ایک وہ جو آدم کہلاتے تھے اور دوسرے وہ جو جن کہلاتے تھے آدم کے ساتھ تعلق رکھنے والے جو لوگ تھے انہوں نے میدان میں جھونپڑیاں بنائیں مکانات بنائے اور مل جل کر رہنے لگے پس سطح زمین پر رہنے اور سورج کی شعاعوں اور کھلی ہوا میں رہنے سے گندم گوں ہوجانے کی وجہ سے وہ آدم کہلائے اسی طرح وہ انسان بھی کہلائے کیوں کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے اُنس کرتے ۔۔۔۔۔۔ اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے ان ناموں سے انہیں یاد کیوں کیا ؟ کیوں سیدھے سادے الفاظ میں انہیں کافر اور مومن نہیں کہہ دیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ لوگوں کے لیے سیدھا سادہ لفظ کافر اور مومن ہے اور ان کے لیے سیدھا سادہ لفظ آدم اور ابلیس یا انس اور جن تھا آج انسان کا دماغ اس قدر ترقی کر چکا ہے کہ وہ شریعت کے باریک درباریک مسائل کو سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے مگر آدم کے زمانہ میں جو شریعت آئی اس کا تعلق صرف تمدن اور رہائش انسانی کے ساتھ تھا اور اس وقت کے لوگوں کے لئے باریک مسائل کا سمجھنا بالکل ناممکن تھا وہ اگر سمجھ سکتے تھے تو صرف موٹی موٹی باتیں سمجھ سکتے تھے تو کافرومومن کی جگہ جن و انس دو نام انکے رکھے گئے تاکہ اس وقت کے تمدن اور بنائے اختلاف کو بھی ظاہر کر دیا جائے اور اس وقت کے لوگوں کی سمجھ میں بھی یہ بات آجائے ۔۔۔۔۔ اس زمانے میں اگر انہیں کافر کہا جاتا اور بتایا جاتا کہ تم اس لئے کافر ہو کہ تم آدم کی بات کو نہیں مانتے تو وہ اس بات کو سمجھ ہی نہ سکتے تھے کہ آدم کی بات کو نہ ماننے کی وجہ سے ہم کافر کس طرح ہوگئے‘‘

(سیر روحانی ص 28تا33)

یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ اگر آج کے انسان کو جہاز،ریل،کار وغیرہ کا بتائیں تو وہ سمجھ جائے گا لیکن اگر آج سے ہزار سال پہلے والے انسان کے سامنے یہ نام لیں گے تو وہ بالکل نہیں سمجھ سکے گا اسے سمجھانے کیلئے اسوقت کی سواریوں مثلا اونٹ، گدھا وغیرہ کی مثال دے کر سمجھانا پڑے گا جیسا کہ ہمیں حدیثوں میں اس کا نمونہ بھی ملتا ہے کہ آنحضورؐ نے آخری زمانے میں ایجاد ہونے والی تیز رفتار سواریوں کا مفہوم سمجھانے کے لیے ایک بڑے گدھے سےمثال دی جو جلد سفر طے کر لے گا تو حضرت آدمؑ کے وقت اختلاف تمدن کی بنیاد پر تھا اس لیے جنہوں نے حضرت آدمؑ کی بات مانی اور باہمی انس سے مل جل کر سطح زمین پر رہے وہ انسان یا آدم کہلائے اور جنہوں نے سطح زمین پر آنے سے انکار کیا اورغاروں میں ہی رہنا پسند کیا وہ جن کہلائے کیوں کہ جن کا لغوی مطلب چھپی چیزیا چھپ کر رہنا ہوتا ہے

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’آج پرانے سے پرانے آثار قدیمہ کو زمینوں میں سے کھود کھود کر اس بات کا اعلان کیا جا رہا ہے کہ ابتدائی انسان غار میں رہا کرتا تھا ۔۔۔ لوگ سر دھنتے ہیں ان کتابوں کو پڑھ کر جو آج سے صرف سو سال پہلے لکھی گئی ہے اور وہ نہیں دیکھتے اس کتاب کو جو آج سے تیرہ سو سال پہلے سےیہ مسئلہ پیش کر رہی ہے پس جن کا لفظ تیرہ سوسال پہلے سے اس کیومین (caveman) کی خبر دیتا ہے ۔۔۔۔ہمارے قرآن نے اس کیومین کا ذکر جن کے نام سے جس کے قریبًا لفظی معنیٰ کیومین کے ہی ہیں آج سے صدیوں پہلے کر دیا تھا‘‘

(سیر روحانی ص34)

اَلْجَنَّۃُ یعنی جنت کی حقیقت

جنت کا لفظی مطلب باغ ہوتا ہے اس وقت کے انسان نے شکار سیکھا تھا نہ ہی کھانا پکانا سیکھا تھا کیونکہ اگر اس نے شکار سیکھ لیا ہوتا تو وہ جانوروں کے چمڑے سے اپنے جسم کو ڈھانپتا جبکہ قرآن کریم بیان کرتا ہے کہ اس وقت کاانسان درختوں کے پتوں سے جسم ڈھانپنا تھا جیسا کہ آیت ’’طَفِقَا یَخۡصِفٰنِ عَلَیۡہِمَا مِنۡ وَّرَقِ الۡجَنَّۃِ‘‘ (سورۃ طٰہٰ: 122) اس پر دالّ ہے اسی طرح نہ ہی ابھی سبزیاں اگانے کا کام شروع ہوا تھا کیونکہ سبزیاں اگانا جانوروں کے شکار کرنے سے زیادہ بڑا تکنیکی کام ہے لہٰذا اگر سادہ شکار نہیں سیکھا تھا تو سبزیاں کہاں اگانی شروع کی ہونگی اس وقت انسان کی خوراک کا دارومدار پھلوں پر تھا اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ اور ان کے ماننے والوں کو سطح زمین پر ایسی جگہ رہائش اختیار کرنے کا کہا جہاں پھل دار درختوں کا باغ تھا جسے عربی میں اَلْجَنَّۃُ یعنی باغ کہتے ہیں چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ’’اَلْجَنَّۃ اور کُلَا مِنْھَا رَغَدًا کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کی معظم غذا پھل وغیرہ تھے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک سبزیوں ترکاریوں کے اگائے جانے کا کام ابھی شروع نہیں ہوا تھا اللہ تعالیٰ نے کہیں میوہ دار درختوں کے جھنڈ پیدا کر دیےاور انہیں حکم دیا کہ تم وہاں جا کر رہا ہو‘‘

(سیرروحانی ص45)

شَجَرَۃ کی حقیقت

جب ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ حضرت آدمؑ اور ان کے ماننے والوں کی غذا کا دارومدار پھلوں پر تھا تو پھر یہ بات سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ حضرت آدمؑ کو ایک خاص قسم کے درخت کے کھانے سے کیوں منع کیا گیا تھا یقیناً وہ درخت یا وہ درختوں کی قسم ایسی ہوگی جس سے انسان کے اخلاق طبیعت پر برا اثر پڑتا ہوگا چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ اس ممنوع درخت کے متعلق فرماتے ہیں» معلوم ہوتا ہے کہ انگور ہوگا شراب اسی سے پیدا ہوتی ہے اور شراب کی نسبت لکھا ہے کہ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ یہ بھی ممکن ہے کہ اس وقت کا انگور ایسا ہی ہوکہ بغیر سڑانے گلانے کے اس کے تازہ شیرا میں نشہ ہوتا ہوجیسے تاڑی کہ ذرا سی دیر کے بعد اس میں نشہ پیدا ہوجاتا ہے۔

(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلداول ص 517)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت الہامی طور پر بعض بوٹیوں کے خواص وغیرہ بتائے گئے تھے اور بعض اخلاقی احکام بھی دیے گئے تھے چنانچہ آیت وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّہَا اس پر دال ہے ۔۔۔۔۔ مثلًا یہ بتا دیا گیا کہ فلاں فلاں زہریلی بوٹیاں ہیں ان کو کوئی شخص استعمال نہ کرے یا فلاں زہریلی چیز اگر کوئی غلطی سے خالی تو فلاں بوٹی اس کی تریاق ہوسکتی ہے۔

(سیرروحانی ص46،47)

ایک خاص قسم کے درخت یا درختوں کو کھانے سے کیوں منع کیا گیا اس کی حقیقت کو سمجھنے کے بعد اگلی بات کو سمجھنا اورآسان ہو جاتا ہے کہ کسی درخت کا پھل کھانے سے کسی کا ننگ کیسے ظاہر ہو سکتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے فَبَدَتۡ لَہُمَا سَوۡاٰتُہُمَا۔ تو وہ اس طرح ممکن ہے کہ حضرت آدمؑ اور آپ کی بیوی یا ساتھیوں نے شیطان کے بہکاوے میں آکر ایسا پھل کھایا جس میں نشے کی تاثیر تھی اور جب انسان بیہوش یا مدہوش ہوتا ہے تو اسے پتہ نہیں چلتا کہ وہ کس حال میں ہے اس کے کپڑے ٹھیک طرح سے ہیں کہ نہیں۔ ننگ ڈھکا ہوا ہے کہ نہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے شجرہ کا ایک مطلب شجرہ شیطانی یعنی شیطانی گروہ بھی لیا ہے آپؓ فرماتے ہیں:
’’خدا تعالی نے آدم کو کہا دیکھنا شجرہ شیطانی کے قریب نہ جانا بلکہ ہمیشہ اس کے خلاف لڑائی جاری رکھنا ۔۔۔۔۔ حضرت آدمؑ نے اس حکم کے نتیجے میں شیطان سے لڑائی شروع کر دی جب شیطان نے دیکھا کہ اس طرح کام نہیں بنے گا تو اس نے صلح صلح کا شور مچایا ۔۔۔۔ حضرت آدمؑ سے غلطی ہوئی اور انہوں نے شیطان سے صلح کرلی نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی اسی جنت کے اندر آ گیا جہاں حضرت آدم اور آپ کے ساتھی رہتے تھے اور اس طرح اندر رہ کر اس نے قوم میں فتنہ و فساد پیدا کر دیا‘‘

(سیر روحانی ص52)

اور جب ان میں کمزوریاں پیدا ہوگئیں تو پھر آدم اور ان کے ساتھیوں نے جنت کے پتوں جس کی تعبیر نیک اعمال ہوتی ہے سے اس فساد کو رفع کیا حضرت خلیفہ ثانیؓ کے اس تفسیری پہلو سے ایک اورمعمہ بھی حل ہوتا نظر آتا ہے کہ چونکہ حضرت آدمؑ کے وقت انسان کی غذا کا دارومدار پھل دار درختوں پر تھا اب ظاہر ہے آدم اوراسکےساتھی الگ جگہ پر جاکر رہے اور وہ اس الگ جگہ پر موجود درختوں سے کھاتے تھے اور آدم کے مخالفین جنہوں نے غاروں میں ہی رہنا پسند کیا یعنی جن وہ غاروں کے قریب والے درختوں سے غذاحاصل کرتے تھے یعنی دونوں گروہوں کے غذا حاصل کرنے والے درخت اور ان درختوں کا علاقہ الگ الگ تھا تو آدم کو اس طرف والے درختوں سے منع کیا گیا جو غاروں کے پاس تھے جہاں سے جن پھل کھاتے تھے کیونکہ اس طرح ان کا جنوں یعنی مخالفین سے میل جول ہو جانا تھا تو ایک طرح سے حضرت آدمؑ اور ان کے ساتھیوں کو جنوں سے دور رہنے کا حکم دیا گیا تھا کیونکہ ان کے ساتھ میل جول سے آدم کے ساتھیوں کے اخلاق ایمان خراب ہو سکتا تھا تو آسان لفظوں میں یوں کہیے کہ ان کو بری صحبت سے بچایا اسی لئے حضرت مسیح موعودؑ نے غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے اور ان کے ساتھ رشتہ داریاں کرنے سے منع کیا ہے تاایسا نہ ہو کہ منکرین کی صحبت سے احمدیوں کے ایمان لغزش میں پڑیں ۔چونکہ شجرہ سے منع کرنے سے مراد اس شجرہ کے قریب رہنے والے لوگ مراد تھے اس لیے ممکن ہے کہ خاندان، گروہ کے لیے شجرہ کا لفظ استعمال کرنے کی بنیاد اسی پس منظر سے پڑی ہو۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔

(عدنان ورک)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 اگست 2021