• 27 جولائی, 2025

جہاز سے گر کر بچ جانے والی دو خواتین

ویسناولویج

ہوائی سفر دنیا کا محفوظ ترین ذریعہ سفر ہے جس میں حادثات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لیکن حادثے کے امکانات موجود رہتے ہیں۔ بیچ آسمان میں دھماکہ ہو، جہاز کے ٹکڑے ہوجائیں پھر بھی کوئی زندہ بچ جائے، بادی النظر میں ایسا ناممکن نظر آتا ہے لیکن فضائی تاریخ میں ایسے واقعات بھی ملتے ہیں۔

ویسنا ولویج ایسی ایک خوش قسمت خاتون تھیں جو تینتیس ہزار فٹ کی بلندی پر جہاز میں دھماکہ ہونے کے باوجود جب سب کچھ فضاء میں ہی بکھر گیا تھا، زمین پر گری اور معجزانہ طور پر بچ گئی۔ تاریخ میں آج تک اس سے زیادہ بلندی سے گر کر کوئی نہیں بچا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی دنیا کے سب سے اونچے پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ سے سیدھا زمین پر آگرے۔ ویسنا ’’بیلگرٹ‘‘ میں پیدا ہوئی جو بعد میں یوگوسلاویہ کہلایا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے یوگو سلاویہ کی قومی ایئر لائن JAT میں بطور فضائی میزبان (air hostess) ملازمت اختیار کر لی۔ملازمت کے محض ایک سال بعد ہی یہ حادثہ پیش آیا۔ اس وقت اس کی عمر صرف 22 سال تھی۔ 26 جنوری 1972ء کے دن وہ فلائٹ 376 کے عملے کا حصہ تھی۔ جہاز اسٹالک ہوم سے بیلگریٹ جا رہا تھا جس کا پہلا پڑاؤ کوپن ہیگن میں تھا جہاں پر جہاز کا عملہ تبدیل ہوتا تھا۔ ویسنا کو اس جہاز پر نہیں ہونا تھا لیکن ایک اور فضائی میزبان جس کا نام بھی ویسنا تھا ہم نام ہونے کی وجہ سے ویسنا ولوویج کو اس جہاز کے عملے کے ساتھ غلطی سے بھیج دیا گیا۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ لیکن چھیالیس منٹ بعد جہاز کے سامان میں رکھا گیا بم زور دار دھماکے سے پھٹ گیا۔ دھماکے کی وجہ سے جہاز کا کیبن depressurizes ہوگیا اور جہاز کے ٹکڑے ہوگئے۔ جہاز میں اس وقت 28 افراد سوار تھے۔ جو تمام کے تمام جہاز کے ملبہ کے ساتھ فضا میں بکھر گئے اور نیچے گرنے لگے۔ ان میں سے کوئی بھی نہ بچ سکا سوائے ویسنا کے۔ جس وقت دھماکہ ہوا ایک fruit cart آکر ویسنا سے ٹکرائی جس نے اسے جہاز کی دم ’’fuselage‘‘ کی طرف دھکیل دیا۔ اس وجہ سے وہ باقی لوگوں کی طرح جہاز سے باہر گرنے سے محفوظ رہی۔ جہاز کا وہ حصہ ایسے زاویہ سے زمین سے ٹکرایا کہ اس کے مزید ٹکڑے نہیں ہوئے۔ نیز وہاں برف کی موٹی تہہ نے بھی اس حصہ کو مزید ٹوٹنے سے بچا لیا۔ ایک چیک دیہاتی فورا ً کریش کی جگہ پر آیا۔ اس نے ویسنا کو کراہتے ہوئے دیکھا جس کے کپڑے خون میں لت پت تھے۔ وہ شدید زخمی حالت میں تھی۔ اس کی کھوپڑی کی ہڈی، متعدد پسلیاں اور دونوں ٹانگیں ٹوٹ چکی تھیں۔ اس قدر انجریز کے باعث ممکن تھا کہ وہ بھی مر جاتی اور کوئی بھی نہ جان پاتا کہ ویسنا جہاز سے گرنے کے باوجود زندہ بچ گئی تھی۔ لیکن اس کی قسمت اچھی تھی کہ جس چیک دیہاتی نے ویسنا کو زندہ ڈھونڈا وہ دوسری جنگ عظیم میں میڈک رہ چکا تھا۔ اس نے اچھے طریقے سے ویسنا کے زخموں اور ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کی دیکھ بھال کی اور اسے محفوظ طریقے سے ہاسپٹل پہنچایا۔ وہ کئی ماہ تک کومہ میں رہی۔ ہوش میں آنے کے بعد اسے صرف اتنا یاد تھا کہ مسافر جہاز میں سوار ہو رہے ہیں۔ جب ویسنا کے والدین نے اسے اس حادثہ کے بارے میں بتایا تو ویسنا کو اس پر یقین نہیں آیا جب تک اس نے وہ اخبار نہ دیکھ لیا جس میں اس حادثہ کی خبر چھپی تھی۔ حادثہ کے دس ماہ بعد وہ چلنے پھرنے کے قابل ہو گئی جبکہ مکمل طور پر ٹھیک ہونے میں اسے سولہ ماہ لگے۔ اس کے والدین نے ویسنا کے علاج پر اخراجات کے لیے اپنی دونوں گاڑیاں بیچ دیں۔ اس حادثہ کے بعد ویسنا نے لمبی عمر پائی۔ شدید اندرونی چوٹوں کے باعث وہ کبھی ماں نہیں بن سکی۔ اس نے بطور فضائی میزبان ملازمت جاری رکھی۔ویسنا کو کافی شہرت ملی، وہ یوگوسلاویہ میں ایک سلیبرٹی بن چکی تھی۔ 2016ء میں اسے ہارٹ اٹیک ہوا جس سے وہ جانبر نہ ہو سکی۔ اس کی عمر 66 سال تھی اور وہ جہاز سے گرنے کے 44 سال بعد تک زندہ رہی۔

جولیانا کوپیک

جولیانا ہائی اسکول سے گریجویٹ کرنے کے بعد اپنی والدہ کے ساتھ لیما سے پکالپا (پیرو) جا رہی تھی تاکہ وہ وہاں موجود اپنے والد کے ساتھ گریجوئیشن کی خوشیاں منا سکے۔ چھٹیوں کی وجہ سے رش بہت زیادہ تھا اور جس ائیر لائن کی انہیں ٹکٹ ملی اس کی شہرت اچھی نہیں تھی اور ماضی میں اس کے دوجہاز کریش ہو چکے تھے۔ پکالپا سے روانہ ہونے کے بعد اچانک موسم خراب ہونا شروع ہوگیا۔ آناً فاناً ان کا جہاز کالے سیاہ بادلوں میں گھر گیا۔ جہاز کے ایک پر پہ بجلی گری اور انجن میں آگ لگ گئی۔ جولیانا کی والدہ نے کھڑکی سے یہ منظر دیکھا اور جولیانا کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا اور بولیں ’’اب سب کچھ ختم ہو گیا‘‘۔ جہاز کے کئی ٹکڑے ہو چکے تھے اور تیزی سے زمین پر گر رہا تھا۔ جولیانا کو سیٹ بیلٹ نے نشست کے ساتھ جکڑ رکھا تھا۔ جولیانا کے مطابق وہ کسی ہیلی کاپٹر کے پنکھے کی طرح لہراتے ہوئے نیچے گر رہی تھی۔سیٹ بیلٹ بندھے ہونے کی وجہ سے زمین پر گرنے کے باوجود اسے ایسی چوٹیں نہیں آئیں جو جان لیوا ہوتیں۔ زمین پر گرتے ہی اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور اگلے بائیس گھنٹے کیا ہوا اسے کچھ یاد نہیں۔ البتہ اس کا کہنا ہے کہ اس دوران اسے ہوش آیا ہوگا کیونکہ جب وہ ہوش میں آئی تو سیٹ بیلٹ کھلا ہوا تھا اور وہ اپنی نشست کے پاس زمین پر پڑی ہوئی تھی۔اس نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھا، صبح کے نو بج رہے تھے۔ جہاں جہاز کریش ہوا وہ ایک گھنا جنگل تھا۔ جہاں سانپ اور جنگلی جانور بکثرت پائے جاتے تھے۔جولیانا کی جگہ کوئی اور ہوتا تو خود کو جنگل میں اس طرح تنہا پا کر ضرور گھبرا جاتا۔ دراصل جولیانا کا بچپن جنگل میں گزرا تھا۔اس کی والدہ ornithologist تھیں اور اس کے والد بھی مشہور biologist تھے اور پیرو کے Museum of Natural History میں ریسرچر تھے۔ چنانچہ جولیانا کے لیے جنگل کوئی نئی چیز نہیں تھی اور ایسے ماحول سے وہ اچھی طرح مانوس تھی۔ والدین کی تربیت کے باعث وہ جانتی تھی کہ جنگل سرسبز جہنم نہیں ہے جیسا لوگ کہتے ہیں۔اسے اپنے بارے میں زیادہ فکر نہیں تھی وہ اپنی ماں کے بارے میں زیادہ پریشان تھی۔ اسے معلوم تھا کہ جنگل میں گم ہوجانا بہت آسان ہے اس لیے وہ یہ جگہ چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔ کریش کے چار دن بعد اس نے گدھ کی آواز سنی اور انہیں زمین پر اترتے دیکھا۔ اس نے اپنی والدہ سے سن رکھا تھا کہ گدھ زمین پر تب ہی اترتے ہیں جب انہیں زمین پر مردار نظر آئیں۔ اس نے آواز کا تعاقب کیا تو کچھ دور اسے تین افراد اور نظر آئے۔وہ اپنی نشستوں پر سیٹ بیلٹ کے ساتھ جکڑے ہوئے تھے اور اتنی زور سے زمین پر گرے تھے کہ تین فٹ تک مٹی میں دھنس گئے تھے۔ ان کے صرف پاؤں نظر آ رہے تھے جن میں سے ایک خاتون تھی۔ اس نے لکڑی سے پاؤں ٹٹول کر دیکھے۔ یہ جولیانا کی والدہ نہیں تھی کیونکہ وہ پاؤں پر نیل پالش نہیں لگاتی تھیں۔

اسی دوران اس نے ریسکیو جہازوں کی آواز سنی لیکن اسے یقین تھا کہ جنگل بہت زیادہ گھنا ہونے کی وجہ سے اسے کوئی بھی اوپر سے دیکھ نہیں پائے گا۔خود اس کے لیے بھی ممکن نہیں تھا کہ کسی طرح اپنی موجودگی کا سگنل دے سکے۔ اس نے کچھ دن کریش کی جگہ پر رک کرکسی اور بچ جانے والے کا انتظار کیا۔اسے یقین ہو چلا تھا کہ اب کوئی نہیں آئے گا، مزید یہاں رکنا خود اپنی موت کو گلے لگانے کے مترادف ہے۔ اسے اپنے بل بوتے پر اپنی بقاء کی کوشش کرنی ہے۔ پانی کا حصول مشکل نہیں تھا لیکن کھانے کا انتظام کرنا دشوار تھا۔ زخمی ہونے کے باعث وہ درختوں پر چڑھنے سے بھی قاصر تھی۔ اسے معلوم تھا کہ جنگل میں کئی پودے زہریلے ہوتے ہیں۔ ٹافیوں کا پیکٹ ہی اس کا کھانا تھا جو اسے کریش والی جگہ سے ملا تھا اور وہ احتیاط سے تھوڑا تھوڑا استعمال کر رہی تھی۔ جولیانا نے بتایا کہ اس نے جنگلی مینڈک پکڑنے کی کوشش کی لیکن کمزوری کے باعث انہیں پکڑ نہ پائی۔یہ اس کے لیے اچھا ہی ہوا۔ بعد میں جب اس نے اسٹڈی کی تو اسے معلوم ہوا کہ جو مینڈک وہ پکڑنا چاہ رہی تھی وہ زہریلے تھے۔

اس نے وہ علاقہ چھاننا شروع کیا تواسے ایک پانی کا چشمہ بہتا ہوا ملا۔ اس نے اپنے والد سے سن رکھا تھا کہ اگر کبھی جنگل میں کھو جاؤ تو پانی کے بہاؤ کے ساتھ چلتے رہو۔ چھوٹے چشمے ندی میں جا کر گرتے ہیں اور ندی کسی بڑے نالے یا دریا میں گرتی ہے اور ان کے کنارے آبادی ضروری ہوتی ہے۔ اس نے ایسا ہی کیا، وہ دن کے وقت چشمے کے ساتھ چلتی جو آگے جا کر ایک چھوٹی ندی میں مل گیا تھا۔ رات ہونے پر وہ ندی کے کنارے ہی سو جاتی۔ وہ بنا بازو کے قمیض میں تھی۔کیڑے مکوڑے اس کے جسم پر کاٹتے تھے۔ اس کی گھڑی بند ہو چکی تھی اور ایک جوتا بھی کریش کے دوران کہیں کھو گیا تھا۔پتوں کے نیچے سانپوں کا خدشہ تھا اس لیے جولیانا اپنا وہ جوتا اپنے آگے پھینکتی تا کہ پتوں کے نیچے اگر کوئی سانپ ہوں تو اسے پتہ چل جائے۔ آگے جاتی جوتا اٹھاتی اور پھر اسے اپنے آگے پھینکتے ہوئے ایک ایک قدم آگے بڑھتی رہی۔ یہ بات بھی اس نے اپنے والد سے سیکھی تھی۔ اس نے مگر مچھ ندی سے باہر آتے جاتے دیکھے۔لیکن پانی میں چلنا خشکی پر چلنے کی نسبت آسان تھا۔ دسویں دن اسے ندی کنارے ایک کشتی نظر آئی۔جس کے پاس ایک چھونپڑی تھی۔ اسے کچھ امید پیدا ہوئی۔ جھونپڑی میں اسے مٹی کے تیل کا کین نظرآیا، اس نے اپنے زخموں پر تیل انڈیل دیا۔ یہ دردناک تھا لیکن اس سے افاقہ ہوا اور اس کے زخموں سے کیڑے نکل گئے۔اس نے اپنے والد کو کتے کے زخموں کو مٹی کے تیل سے صاف کرتے ہوئے دیکھا تھا۔

اگلے دن اس نے تین پیرووین آدمی دیکھے جو کوپیکا کو دیکھ کر گھبرا گئے۔ اس کے سنہرے بالوں گوری رنگت اور خون آلود آنکھوں کی وجہ سے انہوں نے اسے بھوت سمجھا۔ کوپکا نے اسپینش زبان میں ان سے بات کی اور اپنی حالت سے آگاہ کیا۔ انہوں نے اگلے دن اسے اپنی کشتی میں نزدیکی قصبے میں پہنچایا جہاں سے اسے ہاسپٹل منتقل کیا گیا۔ جولیانا فلائٹ 508 کی اکیلی زندہ بچنے والی مسافر تھی لیکن فلم ڈائریکٹر وارنر ہرگوز بھی اسی جہاز پر سفر کرنے والے تھے لیکن بالکل آخری لمحات میں ان کے پروگرام میں تبدیلی ہوئی اور انہوں نے اس جہاز میں اپنی نشست کینسل کروالی۔ جولیانا کے واقع سے متاثر ہو کر وارنر ہرگوز نے جولیانا پر Wings of Hope کے نام سے دستاویزی فلم بنائی۔

(مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

کسی کو حقیر مت سمجھو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 ستمبر 2021