• 19 اپریل, 2024

دوسری شرط بیعت کی بقیہ باتیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر آپ اس کے بارہ میں مزید فرماتے ہیں۔ دوسری شرط میں بہت ساری باتیں شامل ہیں۔ فرمایا کہ:
’’زنا کے قریب مت جاؤ یعنی ایسی تقریبوں سے دور رہو جن سے یہ خیال بھی دل میں پیدا ہو سکتا ہو۔ اور ان راہوں کو اختیار نہ کرو جن سے اس گناہ کے وقوع کا اندیشہ ہو۔ جو زنا کرتا ہے وہ بدی کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے۔‘‘ (آج کل جو ٹی وی پروگرام ہیں، بعض چینلز ہیں، بعض انٹر نیٹ پر آتے ہیں یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو ان برائیوں کی طرف لے جانے والی ہیں۔ نظر کا بھی ایک زنا ہے، اُس سے بھی بچنا چاہئے۔ ہر ایسی چیز جو برائیوں کی طرف لے جانے والی ہے فرمایاکہ اُس سے بچو۔) ’’زنا کی راہ بہت بری ہے یعنی منزل مقصود سے روکتی ہے اور تمہاری آخری منزل کیلئے سخت خطرناک ہے۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد10 صفحہ342) (تمہاری منزل مقصودکیا ہونی چاہئے، اللہ تعالیٰ کی رضا اور یہی آخری منزل ہے اور اس کے رستے میں یہ چیز روک بنتی ہے)

پھر اسی دوسری شرط کی جو دوسری باتیں ہیں، اُس میں مثلاً بدنظری ہے، اُس کے بارہ میں فرمایا:
’’قرآنِ شریف نے جو کہ انسان کی فطرت کے تقاضوں اور کمزوریوں کو مدنظر رکھ کر حسبِ حال تعلیم دیتا ہے، کیا عمدہ مسلک اختیار کیا ہے قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ (النور: 31) کہ تو ایمان والوں کو کہہ دے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں۔ یہ وہ عمل ہے جس سے اُن کے نفوس کا تزکیہ ہوگا۔ فروج سے مراد صرف شرمگاہ ہی نہیں بلکہ ہر ایک سوراخ جس میں کان وغیرہ بھی شامل ہیں اور ان میں اس امر کی مخالفت کی گئی ہے کہ غیر محرم عورت کا راگ وغیرہ سنا جاوے۔ پھر یاد رکھو کہ ہزار درہزار تجارب سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جن باتوں سے اﷲ تعالیٰ روکتا ہے آخر کار انسان کو اُن سے رُکنا ہی پڑتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ105 ایڈیشن 1988ء)

پھر آپ مزید فرماتے ہیں۔ ’’اسلام نے شرائط پابندی ہر دو عورتوں اور مردوں کے واسطے لازم کئے ہیں۔ پردہ کرنے کا حکم جیسا کہ عورتوں کو ہے، مردوں کو بھی ویسا ہی تاکیدی حکم ہے۔ غضّ بصر کا۔ نماز، روزہ، زکوۃ، حج، حلال و حرام کا امتیاز، خدا تعالیٰ کے احکام کے مقابلے میں اپنی عادات، رسم و رواج کو ترک کرنا وغیرہ وغیرہ ایسی پابندیاں ہیں جن سے اسلام کا دروازہ نہایت ہی تنگ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر ایک شخص اس دروازے میں داخل نہیں ہوسکتا۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ614 ایڈیشن 1988ء)

فسق و فجور سے بچنے کے لئے آپ فرماتے ہیں:
’’جب یہ فسق وفجو ر میں حد سے نکلنے لگے‘‘ (یعنی مسلمان یا دوسرے مذاہب کے لوگ) ’’اور خدا کے احکام کی ہتک اور شعائر اللہ سے نفرت ان میں آگئی اور دنیا اور اس کی زیب وزینت میں ہی گم ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی‘‘ (یہ مسلمانوں کے ذکر میں فرمایا) ’’اسی طرح ہلا کو، چنگنیر خان وغیرہ سے برباد کروایا۔ لکھا ہے کہ اس وقت یہ آسمان سے آواز آتی تھی اَیُّھَاالْکُفَّارُ اقْتُلُوْ االْفُجَّارَ۔ (یعنی اے کافرو! فاجروں کو قتل کرو) غر ض فاسق فاجر انسان خدا کی نظر میں کافر سے بھی ذلیل اور قا بل نفرین ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ108 ایڈیشن 1988ء)

(خطبہ جمعہ 23؍ مارچ 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

کسی کو حقیر مت سمجھو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 ستمبر 2021