سسکتی دنیا کو زیست اک دن ہمارے ہاتھوں نصیب ہو گی
خدا ہمارا بہشت اب بھی ہے، فتح ہم سے قریب ہو گی
لہو شہیدوں کا رنگ لا کر جو لالہ زاروں میں کھل اٹھے گا
نئے چمن جب کھلیں گے ہر سو بہار کتنی عجیب ہو گی
ابو ہریرہ کا قولِ برحق ’’بخے بخے‘‘ پھر سنائی دے گا
قفس یہ ابھریں گے تخت بن کر، وہ سلطنت بھی عجیب ہو گی
ہدیٰ کے پرچم کو سنگ لے کر بڑھے چلے ہیں، بڑھے چلیں گے
ہزار طوفاں اٹھیں تو کیا غم، ہر اک ہوا یوں حبیب ہو گی
ہماری لذت کے اور محور، سکوں کا مرکز خدا ہمارا
جو ہم سے ملنا تو یاد رکھنا یہ دنیا آخر رقیب ہو گی
فلک پہ سورج چمک رہا ہے، اُجالا ہر سو بکھر رہا ہے
جو بند رکھو گے آنکھ اپنی تو صبح کیسے نصیب ہو گی
محبتوں کے ہمی پیمبر، ہمارے دم سے وفا سلامت
بجھے گی نفرت کی آگ جس دم ضیاء! گھڑی وہ طبیب ہو گی
(فرحت ضیاء راٹھور)