• 18 مئی, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 59)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 59

الاخبار

الاخبار نے اپنی اشاعت 17 فروری 2011ء پر عربی سیکشن میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک خطبہ جمعہ فرمودہ 1 نومبر 2011ء کا خلاصہ حضور انور کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس خطبہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی آیت یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوۃ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ (154) تلاوت فرما کر ان کے معانی کی وضاحت فرمائی۔

حضور نے فرمایا کہ الٰہی جماعتوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف مستقل مزاجی سے ہر وقت جھکے رہنے کی تلقین فرمائی ہے اور اس کے ساتھ صبر اور دعاؤں سے مومنین کو کامیابی ملتی ہے۔ تمام انبیاء نے بھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی حکم فرمایا ہے اور ہمیں کامیابیاں صبر اور دعا سے ہی حاصل ہونی ہیں اگر اللہ کے راستے میں تکالیف آنی ہیں تو پھر بھی کسی قسم کا شکوہ زبان پر نہ لاؤ۔

اس کے بعد حضور انور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کو جن تکالیف سے گذرنا پڑا اس کا ذکر فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا کہ مستقل مزاجی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے چلے جاؤ اور اگر تکالیف آئیں تو ان کو برداشت کرو ان سے پریشان نہ ہو۔ یہ نہیں کہ آج تو دعاؤں پر زور دے دیا۔ آج نمازیں پڑھ لیں اور اگلے دن نمازوں کی طرف توجہ نہ ہوئی۔

فرمایا آج کل بعض لوگوں نے احمدیوں کو اپنے ایمان سے ہٹانے کی بھی کوشش شروع کی ہوئی ہے۔ کہ آپ کے خلیفہ یہ خوش فہمی پیدا کر رہے ہیں کہ صبر کرو اور تکلیف کا دور گذر جائے گا۔ اور سو سال کا عرصہ گذر گیا یہ تکالیف ابھی تک پھر دور کیوں نہ ہوئیں۔ اگر ان اعتراض کرنے والوں نے قرآن کریم پڑھا ہو تو پتہ لگ جائے گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں کو کتنا لمبا عرصہ تکالیف سے گذرنا پڑا بعض علاقوں میں تو غاروں میں چھپ کر زندگی بچائی گئی اور اپنے ایمان کی حفاظت کی گئی پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دور دیکھ لیں مکہ میں کیا کچھ نہ ہوا۔

حضور انور نے حضرت مسیح موعودؑ کا ایک حوالہ بھی پیش فرمایا جس میں آپؑ فرماتے ہیں: ’’اس جماعت میں جب داخل ہوئے ہو تو اس کی تعلیم پر عمل کرو۔ اگر تکالیف نہ پہنچیں تو پھر ثواب کیوں کر ہو۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں تیرہ برس تک دکھ اٹھائے۔ تم لوگوں کو اس زمانہ کی تکالیف کی خبر نہیں اور نہ وہ تم کو پہنچی ہیں مگر آپؐ نے صحابہؓ کو صبر ہی کی تعلیم دی آخر کار سب دشمن فنا ہوگئے۔ ایک زمانہ قریب ہے کہ تم دیکھو گے یہ شریر لوگ بھی نظر نہ آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ اس پاک جماعت کو دنیا میں پھیلائے…… تھوڑی مدت صبر کے بعد دیکھو گے کہ کچھ بھی نہیں ہے……… ہماری جماعت خدا تعالیٰ کی حمایت میں ہے اور دکھ اٹھانے سے ایمان قوی ہوتا ہے صبر جیسی کوئی شئے نہیں‘‘

(مأخوذ از خطبات مسرور جلد ہشتم صفحہ 583)

الانتشار العربی

الانتشار العربی نے اپنی اشاعت 17 فروری 2011ء میں صفحہ 23 پر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ کا خلاصہ حضور انور کی فوٹو کے ساتھ شائع کیا ہے۔ یہ خطبہ جمعہ حضور انور نے 12 نومبر 2010ء کو ارشاد فرمایا تھا۔ اس خطبہ کا خلاصہ گزشتہ دوسرے اخبار کے حوالہ سے پہلے گذر چکا ہے۔

حضور انور نے اس خطبہ میں انبیاء اور ان کی جماعتوں پر آنے والے ابتلاؤں کا ذکر فرمایا ہے۔ اور قرآنی آیات اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوۃ سے صبر اور دعا کی تلقین، دیگر قرآنی آیات، احادیث نبویہؐ اور حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات سے پیش فرمائی ہیں۔ اخبار نے اپنے پورے صفحہ پر یہ خلاصہ خطبہ دیا ہے۔ اور آخر میں ہمارے مشن کا فون نمبر بھی دیا ہے۔

پاکستان ایکسپریس

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 18 فروری 2011ء میں صفحہ 13 پر خاکسار کا مضمون ’’صلح و صفائی اور امن و آتشی کی گم شدہ جنتیں‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ یہ نفس مضمون وہی ہے جو اس سے قبل دوسرے اخبار کے حوالہ سے گذر چکا ہے۔

ڈیلی بلیٹن

ڈیلی بلیٹن نے اپنی اشاعت 23 فروری 2011ء میں صفحہA-9 پر ایک مضمون شائع کیا ہے جو ہمارے نو احمدی مسلم امریکن بھائی محمد عبد الغفار صاحب نے (چینو مسجد) لکھا ہے۔ جس کا عنوان ہے کہ ’’مسلمانوں کا قتل کرنا درست اور صحیح اسلام نہیں ہے‘‘

وہ لکھتے ہیں کہ میں نے اسلام کو قبول کیا ہے۔ اور مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے اسلام کوقبول کیا مگر مجھے اس بات پر بہت افسوس ہے کہ بعض مسلمان مسلمانوں کا قتل جائز سمجھتے ہیں یا دوسرے مذاہب کے لوگوں کا قتل جائز سمجھتے ہیں یہ صحیح اسلام ہے ہی نہیں۔ اور یہ سب کچھ ان نام نہاد مسلمان علماء کی طرف سے ہے جو اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور ناموس کی خاطر ایسے کرتے ہیں۔ ان کا یہ غلط کام اسلام کو بدنام کرنے والی بات ہے۔ میں ان کے ان غلط اقدام کی وجہ سے ان کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ معصوم لوگوں کو قتل کرنا اور وہ بھی اللہ کے نام پر کہاں کا اسلام ہے؟ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں کس قدر غم زدہ ہوں اور افسوس کرتا ہوں کہ انہوں نے ایک فرقہ مسلمہ احمدیہ جس کا میں بھی ممبر ہوں ان کے افراد کو قتل کیا جا رہا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ابھی 6 فروری کو ایک گھناؤنا جرم کیا گیا ہے کہ انڈونیشیا کے ایک دیہات میں 1500 مسلمانوں کے ایک طبقہ نے 20 بے گناہ اور غیر مسلح افراد پر حملہ کیا جن میں سے 3 احمدیوں کو سفاکانہ اور ظالمانہ طور پر مارا گیا اور قتل کیا گیا جب کہ وہاں کی پولیس موجود تھی اور یہ سب کچھ تماشا دیکھتی رہی۔ ان معصوم لوگوں کا صرف یہ جرم تھا کہ ’’وہ احمدی مسلمان تھے‘‘ جن کو وہ مسلمان نہیں سمجھتے۔

میں جب یہ دیکھتا ہوں کہ وہ اسلام جو بانی اسلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوا اور آپؐ نے ہر قسم کی تکالیف برداشت کر کے امن کی تعلیم کو فروغ دیا۔ اس کے ماننے والے اس قدر ظلم کرتے ہیں۔ اور صرف اپنے نکتہ نظر کی وجہ سے دوسروں کے قتل کو جائز سمجھتے ہیں تو مجھے سخت افسوس ہوتا ہے۔

یہ نہیں ہوسکتا کہ اسلام شروع میں تو امن والا ہو اور اب وہ بدامنی کا پیغام دیتا ہو۔ یہ ناممکن ہے، اسلامی تعلیمات وہی ہیں جو آپؐ سے شروع ہوئیں اور قیامت تک وہی رہیں گی۔ وہ مسلمان جو خون ریزی اور اس قسم کے جہاد پر یقین رکھتے ہیں اور دوسرے معصوموں کا قتل جائز سمجھتے ہیں۔ یہ تو صحیح اسلام کی تعلیمات سے بہت دور ہے۔ حالانکہ اسلام کا صحیح معانی ہی امن، محبت اور اخوت ہے۔

ہم نے صحیح اسلام پر عمل کرنے سے اس زمانے کے امام مہدی، حضرت مرزا غلام احمد قادیانی (علیہ السلام) کو قبول کیا۔ جنہوں نے اس جماعت کی بنیاد 1889ء میں ڈالی اور اب یہ جماعت دنیا کے 195 ممالک میں قائم ہوچکی ہے۔ وہ مسلمان جو امن پسند ہیں اور امن کے خواہاں ہیں اور اس کے ساتھ ہی وہ لوگ جو غیر مسلم ہیں اور وہ بھی امن چاہتے ہیں۔ انہیں مل کر ان لوگوں کے خلاف اقدام کرنا چاہئے جو خون ریزی کرتے ہیں اور معصوموں کا قتل عام کرتے ہیں اور وہ سب یہ جماعت احمدیہ مسلمہ کے ساتھ کھڑے ہو کر کرسکتے ہیں کیونکہ جماعت احمدیہ کا ماٹو ہی یہ ہے ’’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘‘

ہمیں ہر ایک کے ساتھ بلا امتیاز، بلا تفریق مذہب و ملت پیار، محبت کا سلوک کرنا چاہئے کیونکہ یہی اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہیں۔ میں اپنے آپ کو احمدی مسلمان کے طور پر فخریہ پیش کرتا ہوں اور میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ اچھی باتوں کے لئے میں ہمیشہ مدد کروں۔

نیویارک عوام

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 18 تا 24 فروری 2011ء میں صفحہ1 پر خاکسار کا ایک مضمون خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا جس کا عنوان ہے۔ ’’اس سے ہوگی تیرے غم کدہ کی آبادی‘‘

خاکسار نے لکھا کہ مکرم عبدالسمیع خان صاحب کی ایک کتاب کے حوالہ سے کچھ پہلے لکھا جاچکا ہے۔ آج بھی اس مضمون میں اسی کتاب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ مہینہ ربیع الاول کا ہے۔ اور اس وجہ سے بھی سیرت مبارکہ کے بارے میں کچھ لکھا جائے۔ کیوں کہ دنیا میں جو روحانی انقلاب آیا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ اور سیرت طیّبہ کی وجہ سے ہی آیا تھا۔ اور آج بھی اسی بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنائیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں یہی فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لئے اسوۂ حسنہ ہیں۔ اس زمانے میں جو بدامنی اور افراتفری پھیلی ہوئی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ ہوتے تو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہیں مگر عمل اس کے مطابق نہیں ہیں۔ خاکسار نے مزید لکھا کہ اس وقت میرے سامنے لاس اینجلس کا ایک بڑا اخبار ڈیلی بلیٹن پڑا ہے اس کے مذہبی سیکشن میں صفحہ 4A پر جکارتہ انڈونیشیا کی ایک خبر ہے کہ وہاں مسلمانوں نے عیسائیوں کے دو چرچوں کو آگ لگا دی۔ کیوں کہ عدالت نے وہاں غیر مسلم کو توہین رسالت پر کم سزا دی تھی غصہ میں آکر مسلمانوں کے ایک گروپ نے یہ کام سرانجام دیا۔ ایک چرچ پر پتھروں کی بارش اور ان کے سکول کی بلڈنگ کو نقصان پہنچایا۔

اسی طرح گذشتہ ہفتے انڈونیشیا کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں جہاں احمدیوں کے سات خاندان اور قریباً 30 ممبر رہتے تھے کو ایک گروپ نے ان پر حملہ کر دیا انہیں گھسیٹ کر مسجد سے باہر لائے، چاقو ں کے ساتھ، چھریوں کے ساتھ، ڈنڈے سے مار مار کر تین احمدیوں کو بے دردی سے مار ڈالا اور ان کی لاشیں لٹکا کر انہیں پھر بھی ڈنڈے مارتے رہے اور پھر لاشوں کی ایسی بے حرمتی کی کہ لاشیں بھی نہ پہچانی جاتی تھیں۔ اس کی ویڈیو لوگوں نے یوٹیوب پر دیکھی۔

یہ مسلمان ہیں! اور یہ ان کے افعال ہیں! اس موقعہ پر جماعت احمدیہ کے روحانی پیشوا حضرت مرزا مسرور ہے(ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) نے جو خطبہ 11 فروری کو ارشادفرمایا اس واقعہ کی پوری تفصیل بیان کی ہے۔اور صبر اور دعاؤں کی تلقین کی ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ اے دشمنان احمدیت! دنیا کے کسی کونے پر بھی احمدیوں پر جو ظلم کرنا چاہتے ہو کر لو لیکن یہ ظلم تمہارے ہمیں اپنے ایمانوں سے نہ ہٹا سکے گا۔ ہر جگہ پر احمدی نے جب بھی اس پر ظلم ہوا انہوں نے فَاقْضِ مَا اَنْتَ قَاضٍ کا جواب دیا کہ جو چاہو کر لو۔

کیا مذہب اسلام اس قسم کی بربریت سکھاتا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس زمانہ جاہلیت میں لاشوں کی جو بےحرمتی ہوتی تھی اس سے منع فرمایا ہے۔ کاش مسلمان اس تعلیم کو پڑھیں، سوچیں اور عمل کریں۔

اس کے بعد خاکسار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے چند واقعات لکھے ہیں جن سے آپ کی سیرت کا یہ پہلو کھل کر سامنے آتا ہے کہ آپؐ کس قدر رحم دل تھے۔ کس قدر عجز و انکسار کے پیکر تھے۔ اور حضرت عائشہ ؓ کی یہ حدیث بھی لکھی کہ ایک دفعہ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور السلام علیکم کی بجائے السام علیکم کہا کہ (نعوذ باللہ) آپ پر لعنت ہو۔ حضرت عائشہؓ نے بار بار کہا کہ ’’تم پر لعنت ہو‘‘ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے عائشہ! نرمی اختیار کر۔ سختی سے بچو۔ حضرت عائشہؓ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ نے نہیں سنا کہ انہوں نے آپ کے بارے میں کیا کہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم نے میرا جواب نہ سنا تھا۔ میں نے صرف یہ جواب دیا تھا کہ ’’وعلیکم‘‘ کہ جو تم نے کہا تم پر بھی وہی ہو۔ میری دعا تو ان کے لئے قبول ہوگئی مگر ان کی دعا میرے لئے قبول نہ ہوگی۔

کیا یہود ’’السام علیکم‘‘ توہین رسالت نہ کر رہے تھے۔ مگر آپؐ نے کیا طریق اختیار فرمایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ایسے مواقع پر طیش اور غصہ میں نہ آتے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم سے مسلسل انکار، تکذیب دیکھ کر حلم اور صبر سے کام لیا اور بددعا نہیں کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو دعا کرتے تھے کہ اے اللہ ان کو ہدایت فرما۔ ان کو پتہ نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ پس رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ پر چلیں۔ آپؐ کی سنت کی پیروی کریں۔ کوئی تمہیں دکھ بھی دے تو اس کے لئے دعا کرو۔

ڈیلی بلیٹن

ڈیلی بلیٹن نے اپنی اشاعت 25 فروری 2011ء میں صفحہ A4 پر ہمارے متعلق ایک خبر شائع کی ہے جس کا عنوان ہے۔

‘‘Terrorist Activities Concern Local Muslims’’

’’دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے لوکل مسلمانوں میں تشویش‘‘

یہ خبر جماعت احمدیہ کے 3 افراد کا سفاکانہ اور بہیمانہ قتل کے بارے میں ہے جو واقعہ انڈونیشیا میں پیش آیا۔ اخبار لکھتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے ممبران جو یہاں مسجد بیت الحمید چینو سے تعلق رکھتے ہیں نے دنیا میں احمدی مسلمانوں کے ساتھ دہشت گردی کے واقعات پر بے چینی اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔

گذشتہ ہفتے 3 احمدی مسلمانوں کو انڈونیشیا کے ایک گاؤں میں بے دردی اور بہیمانہ اور سفاکانہ طریق سے قتل کر دیا گیا۔ جماعت احمدیہ مسجد بیت الحمید کے ممبران نے اس پر پریشانی اور دکھ کااظہار کیا ہے۔ دنیا میں احمدی مسلمانوں کے ساتھ ناروا اور امتیازی سلوک کر کے انہیں بے دردی سے دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے نام پر کیا جارہا ہے۔ ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس کام سے باز رہا جائے اور اس کی بجائے رحم دلی، محبت اور ہمدردی کا اور انصاف کا وطیرہ اختیار کیا جائے۔ امام شمشاد نے ان خیالات کا اظہار کیا۔

انڈیا پوسٹ

انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 25 فروری 2011ء میں صفحہ 19، 20 پر ہمارے تعلق سے ایک خبر شائع کی ہے۔ جس کا عنوان ہے۔

‘‘Ahmadiyya Pained By Murders In Indonisia’’

احمدیوں کو انڈونیشیا میں ان کے افراد کے قتل پر بہت دکھ اور درد ہے

اخبار نے انڈیا پوسٹ کی سروس کے حوالہ سے خبر دی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ گذشتہ اتوار 6 فروری 2011ء کو جماعت کے تین افراد کا انڈونیشیا میں بہت ہی بے دردی سے سفاکانہ اور بہیمانہ قتل ہوا ہے۔ ایک ہزار سے زائد لوگوں نے جماعت احمدیہ کے چند افراد پر چاقوؤں اور چھریوں سے حملہ کیا۔ ان احمدیوں کے قتل کے علاوہ 5 احمدیوں کو شدید زخمی کیا گیا اور اس کے علاوہ ایک احمدی گھرانہ، دو کاریں اور ایک موٹر سائیکل کو بھی نذر آتش کیا گیا۔

لوکل پولیس موقعہ پر موجود ہونے کے باوجود اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی باوجود اس کے کہ پولیس کو اس حملہ کی پہلے سے خبر بھی تھی انہوں نے کوئی حفاظتی قدم نہیں اٹھایا۔ اور اخبار نے لکھا کہ اس بھیانک جرم کے باوجود کسی کو پکڑا بھی نہیں گیا۔

جماعت احمدیہ عالمگیر کے روحانی پیشوا (حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) نے جماعت احمدیہ کو اس موقعہ پر صبر اور دعاؤں کی تلقین کی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس بہیمانہ اور سفاکانہ جرم سے ہمیں اور ہر امن پسند کو شدید دکھ اور درد پہنچا ہے۔ جب ان مردہ لاشوں کو ڈنڈوں سے مزید مارا جا رہا تھا اس وقت پولیس بے بس کھڑی تماشا دیکھتی رہی اور انہیں اس ظلم اور سفاکی کا مظاہرہ اور لاشوں کی بے حرمتی کرنے دی گئی۔

دنیا میں جماعت کے خلاف جب بھی جہاں کہیں بھی ایسا واقعہ پیش آتا ہے تو ہم صبر کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں اور انتقامی کارروائی نہیں کرتے بلکہ خدا ہی کی طرف جھکتے ہیں اور اس سے مدد مانگتے ہیں۔ یہ یقینی اور پکی بات ہے کہ جنہوں نے یہ ظلم کیا ہے وہ خدا تعالیٰ کو یقیناً جواب دہ ہوں گے اور اس کے عذاب کا مزہ چکھیں گے۔ جماعت احمدیہ نے انڈونیشیا کے حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس کا نوٹس لیں اور اپنی قانونی ذمہ داری ادا کریں اور وہ یہ کہ اپنے تمام شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرے۔بدقسمتی سے انڈونیشیا میں 2008ء میں ایک قانون پاس ہوا جس کی وجہ سے انڈونیشیا میں جماعت اپنا لٹریچر شائع نہیں کر سکتی اور نہ ہی اپنے مذہب کے مطابق عمل کر سکتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ جماعت کے خلاف ہر شخص کارروائی کر سکتا ہے۔ اور اس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ اور عیسائی فرقہ کے لوگ بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں۔

اس موقعہ اور قتل اور سفاکانہ ظلم پر تبصرہ کرتے ہوئے چنیو میں مسجد بیت الحمید کے امام سید شمشاد ناصر نے کہا ہے کہ اس واقعہ پر ہم سخت درد اور تکلیف اور افسوس محسوس کر رہے ہیں خصوصاً یہ واقعہ جس میں بے دردی کے ساتھ بہیمانہ طور پر 3 احمدیوں کو قتل کیا گیا ہے۔

اس بات کے جواب میں کہ حملہ کرنے والے بھی مسلمان ہی تھے، آپ کیا کہیں گے۔ امام شمشاد نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص اپنے آپ کو مسلمان کہے اور پھر ایسا ظلم بھی کرے۔ پھر ایسے لوگ کس منہ سے لوگوں کو کہہ سکتے ہیں کہ اسلام میں داخل ہوجاؤ اسلام امن پسند مذہب ہے جب کہ خود ایسے گھناؤنے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ایسے گھناؤنے جرم کرنے والوں سے تو لوگ دور بھاگیں گے کجا یہ کہ ان کا مذہب اختیار کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ مذہب اسلام کی تعلیمات سے پوری طرح واقف نہیں ہیں اور نہ ہی اسلام اس قسم کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات امن اور محبت پر مبنی ہیں۔ ’’اسلام‘‘ کے لفظی معنی ہی یہ ہیں کہ اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دینا اور امن کے قیام کے لئے ہر قسم کی قربانی دینا۔

دنیا انٹرنیشنل

دنیا انٹرنیشنل نے اپنی اشاعت 25 فروری 2011ء اور مارچ کی اشاعت میں دو مرتبہ ایک مضمون بعنوان ’’صلح و صفائی اور امن و آشتی کی گم شدہ جنتیں‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ یہ مضمون اس سے قبل دوسرے اخبارات کے حوالہ سے اوپر گذرچکا ہے۔

ہفت روزہ نیو یارک عوام

ہفت روزہ نیو یارک عوام نے اپنی اشاعت 25 فروری تا 3 مارچ 2011ء میں خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ورق‘‘ (تحمل اور لوگوں کے ایمان کی حفاظت کا خیال) خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔خاکسار نے یہ مضمون بھی ماہ ربیع الاول کے مہینے کی اہمیت کے پیش نظر لکھا اس مضمون میں خاکسار نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ہی چند باتیں لکھی تھیں کہ لوگ اس بابرکت مہینے میں جلسے کرتے ہیں جن میں اخلاق نبوی کی باتیں بھی ضرور کرتے ہوں گے۔ اور یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی سنت سے عید میلاد النبی ثابت نہیں۔ نہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کرام نے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منایا۔ ہاں عیدالفطر اور عید الاضحیٰ کا ذکر ملتا ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہم کوئی ایسا جلسہ کریں جس میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف ہو۔ جس میں آپؐ کی سیرت کے واقعات ہوں تا لوگ اپنی اصلاح کریں۔ تربیت کریں اور اپنی اخلاقی اور روحانی حالتوں کو درست کریں اور آپؐ کے اسوہ اور چال چلن کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔ تو یہ جائز ہے۔ بلکہ بہت ضروری ہے۔

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسے 1927-1928ء میں سب سے پہلے ہندوستان میں شروع ہوئے اور اس کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ ہندوستان میں آریوں، ہندوؤں اور دیگر مخالفین اسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ پر بے جا گندے حملے کئے۔ ’’رنگیلا رسول‘‘ اور ’’امہات المومنین‘‘ جیسی کتابیں لکھیں جس سے مسلمانوں کی دلآزاری ہوئی اور ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی۔ اس وقت جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ نے ہندوستان کے تمام مسلمانوں سے یہ اپیل کی اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر سارے ہندوستان میں جلسے کریں اس سے غیر مسلموں کے شکوک و شبہات دور ہوں گے۔ دوسرے یہ جلسے مسلمانوں کی اپنی حالت بدلنے کے لئے بھی ضروری ہیں اور ان جلسوں میں غیر مسلموں کو شامل کیا جائے۔ بلکہ ان کے مقررین کو بھی آپؐ کی سیرت پر تقاریر کے لئے کہا جائے۔

افسوس کہ اب مسلمانوں کے ہاں اس کی شکل بدل گئی ہے وہ جلوس نکالتے ہیں ریلیاں نکالتے ہیں۔ کبھی سمندروں میں تو کبھی خشکی پر۔ اس کا کیا مقصد ہے یہ تو وہی جانتے ہوں گے۔ خاکسار نے مزید لکھا کہ چند دن ہوئے TV پر ایک پروگرام دیکھا جس میں میزبان نے ہندوستان کے ایک عالم دین مولانا وحید الدین صاحب کو فون پر بات چیت کرنے کی دعوت دی۔ جب اینکر نے ان سے ایک سوال کیا تو اس کے جواب میں مولانا نے کہا کہ مسلمانوں نے دین کی تعلیم میں نقص پیدا کر دیا ہے جس کی وجہ سے تفرقہ پیدا ہوگیا ہے۔ مدارس میں بھی صحیح تعلیم نہیں دی جارہی کیوں کہ اس میں شدت پسندی آگئی ہے۔ اور دہشت گردی نے جنم لے لیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اور بتا رہے ہیں اور ہم کچھ اور کر رہے ہیں۔ اسلام کی تعلیم نے مسلمانوں پر کچھ اثر نہیں کیا۔ وہ اس وقت اہل مغرب کو اسلام کا پیغام دینے کی پوزیشن میں ہرگز نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا اس وقت احترام انسانیت تو نام کو بھی نہیں ہے۔ اسلام میں احترام، عفو اور درگذر کی تعلیم ہے غلو کی نہیں، دوسروں کے ساتھ ہم بالکل الٹ معاملہ کر رہے ہیں۔ قرآن میں تو خیر کی تعلیم ہے‘‘۔

مولانا وحید الدین نے بالکل صحیح اور بجا فرمایا ہے۔ کاش اس پر مسلمان عمل کریں۔ خاکسار نے اس مضمون میں ایک اور مثال بھی لکھی ہے کہ ایک دوست نے مجھے ای میل بھجوائی ہے جس میں ایک TV پر میزبان نے مہمان مولوی صاحب سے احترام انسانیت اور دہشت گردی کے ضمن میں توہین رسالت کا ایک سوال پوچھا۔ مولانا کا جواب سنئے اور پھر اپنا سر دھنئے……جواب ملاحظہ فرمائیں۔

مولانا نے کہا کہ ایک دفعہ بادشاہ کے دربار میں امام یوسف تھے، یہ امام یوسف امام ابو حنیفہؒ کے شاگردوں میں سے ہیں۔ کھانا پیش ہوا تو کسی نے کہا مجھے کدو بہت پسند ہے کیوں کہ رسول خدا کو کدو شریف بہت پسند تھا۔ حاضرین میں سے ایک اور نے کہا مجھے تو کدو بالکل پسند نہیں۔ اس پر امام یوسف اٹھے اور انہوں نے اس شخص پر تلوار تان لی کہ تمہارا ابھی میں قلع قمع کرتا ہوں کہ تم نے توہین رسالت کی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ علماء کا یہ حال ہے۔ اور یہ ہے توہین رسالت کا سبق۔

میزبان نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ کدو کے مقابلہ میں انسان کی اتنی ہی قدر ہے کہ تلوار کھینچ کر قلع قمع کر دیا جائے یہ کونسا اسلام ہے؟ ایسے ہی قصوں پر اسلام کا دارومدار رہ گیا ہے۔ سچ فرمایا تھا ہادیٴ برحق نے کہ آخری زمانہ میں اسلام صرف نام کا رہ جائے گا اور قرآن صرف کتابی صورت میں۔ اور مساجد ہدایت سے خالی ہوجائیں گی۔ عقلمندوں کے لئے اس میں ایک سوال ضرور ہے اور ذرا خود سوچئے۔ کہ کیا اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قدرو منزلت ہم تلوار سے منوائیں گے؟ اس سارے مضمون کو لکھنے کے بعد خاکسار نے دیباچہ تفسیر القرآن سے حضرت مصلح موعودؓ کا ایک اقتباس درج کیا ہے۔

تحمل

تحمل آپ میں اِس قدر تھا کہ اُس زمانہ میں بھی کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے بادشاہت عطا فرما دی تھی آپ ہر ایک کی بات سنتے۔ ا گر وہ سختی بھی کرتا تو آپ خاموش ہو جاتے اور کبھی سختی کرنے والے کا جواب سختی سے نہ دیتے۔ مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے نام کی بجائے آپ کے روحانی درجہ سے پکارتے تھے یعنی یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! کہہ کر بُلاتے تھے اور غیرمذاہب کے لوگ ایشیائی دستور کے مطابق آپ کا ادب اور احترام اس طرح کر تے تھے کہ بجائے آپ کو محمد کہہ کر بلانے کے ابوالقاسم کہہ کر بلاتے تھے جو آپ کی کنیت تھی (ابو القاسم کے معنی ہیں قاسم کا باپ۔ قاسم آپ کے ایک بیٹے کا نام تھا) ایک دفعہ ایک یہودی مدینہ میں آیا اور اس نے آپ سے آکر بحث شروع کر دی۔ بحث کے دوران میں وہ بار بار کہتا تھا۔ اے محمد! بات یو ں ہے، اے محمد! بات یوں ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بغیر کسی انقباض کے اس کی باتوں کا جواب دیتے تھے۔ مگر صحابہؓ اُس کی یہ گستاخی دیکھ کر بیتاب ہورہے تھے۔ آخر ایک صحابیؓ سے نہ رہا گیا اور اُس نے یہودی سے کہا کہ خبردار! آپ کا نام لے کر بات نہ کرو تم رسول اللہ نہیں کہہ سکتے تو کم سے کم ابوالقاسم کہو۔ یہودی نے کہا میں تو وہی نام لوں گا جو اِن کے ماں باپ نے اِن کا رکھا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور اپنے صحابہؓ سے کہا دیکھو! یہ ٹھیک کہتا ہے۔ میرے ماں باپ نے میرا نام محمد ہی رکھا تھا جو نام یہ لینا چاہتا ہے اسے لینے دو اور اس پر غصہ کا اظہار نہ کرو۔

آپ جب باہر کام کے لئے نکلتے تو بعض لوگ آپ کا رستہ روک کر کھڑے ہو جاتے اور اپنی ضرورتیں بیان کرنی شروع کر دیتے۔ جب تک وہ لوگ اپنی ضرورتیں بیان نہ کر لیتے آپ کھڑے رہتے جب وہ بات ختم کر لیتے تو آپ آگے چل پڑتے۔ اسی طرح بعض لوگ مصافحہ کرتے وقت دیر تک آپ کا ہاتھ پکڑے رکھتے۔ گو یہ طریق ناپسندیدہ ہے اور کام میں روک پیدا کرنے کا موجب ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ان کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہ چھڑاتے بلکہ جب تک وہ مصافحہ کرنے والا آپ کے ہاتھ کو پکڑے رکھتا آپ بھی اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں رہنے دیتے۔ ہر قسم کے حاجت مند آپ کے پاس آتے اور اپنی حاجتیں پیش کرتے۔ بعض دفعہ آپ مانگنے والے کو اُس کی ضرورت کے مطابق کچھ دے دیتے تو وہ اپنی حرص سے مجبورہو کر اَور زیادہ کا مطالبہ کرتا اور آپ پھر بھی اُس کی خواہش پورا کر دیتے۔ بعض دفعہ لوگ کئی بار مانگتے چلے جاتے اور آپ اُن کو ہر دفعہ کچھ نہ کچھ دیتے چلے جاتے۔ جو شخص خاص طور پر مخلص نظر آتا اُسے اُس کے مانگنے کے مطابق دے دینے کے بعد صرف اتنا فرما دیتے کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر تم خدا پر توکل کرتے۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک مخلص صحابیؓ نے متواتر اصرار کر کے آپ سے کئی دفعہ اپنی ضرورتوں کے لئے روپیہ مانگا۔ آپ نے اُس کی خواہش کو پورا تو کر دیا، مگر آخر میں فرمایا سب سے اچھا مقام تو یہی ہے کہ انسان خدا پر توکل کرے۔ اس صحابی کے اندر اخلاص تھا اور ادب بھی تھا جو کچھ وہ لے چکا ادب سے اُس نے واپس نہ کیا لیکن آئندہ کے متعلق اُس نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! یہ میری آخری بات ہے اب میں آئندہ کسی سے کسی صورت میں بھی سوا ل نہیں کروں گا ………

(باقی آئندہ بدھ ان شاءاللہ)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

ذیلی تنظیموں کا تعارف اور ان کے مقاصد (کتاب)

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ