• 18 مئی, 2024

تلخیص صحیح بخاری سوالاً و جواباً (كتاب الإيمان قسط 2)

تلخیص صحیح بخاری سوالاً و جواباً
كتاب الإيمان قسط 2

سوال: فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ (التوبہ: 5) کا مفہوم کیا ہے؟

جواب: یہ مکمل آیت یوں ہے۔ فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (التوبہ: 5)

پس جب حرمت والے مہىنے گزر جائىں تو جہاں بھى تم فتنہ پرداز مشرکوں کو پاؤ تو اُن سے لڑو اور انہىں پکڑو اور ان کا محاصرہ کرو اور ہر کمىن گاہ پر اُن کى گھات مىں بىٹھو پس اگر وہ توبہ کرىں اور نماز قائم کرىں اور زکوٰۃ ادا کرىں تو ان کى راہ چھوڑ دو ىقىناً اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مجھے اللہ کی طرف سے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں اس وقت تک کہ وہ اس بات کا اقرار کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اور یہ کہ محمد ؐ اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز ادا کرنے لگیں اور زکوٰۃ دیں۔ جس وقت وہ یہ کرنے لگیں گے تو مجھ سے اپنے جان و مال کو محفوظ کر لیں گے، سوائے اسلام کے حق کے۔ رہا ان کے دل کا حال تو ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔

(اس آیت پہ مستشرکین نے بہت ہی لا یعنی حاشیہ چڑھائے ہیں۔ اس آیت کا نزول فتح مکہ کے بعد ہوا، جب حضورؐ نے عکرمہ جیسے دشمن کو بھی اس کے دین پر قائم رہتے ہوئے مکّہ میں رہنے کی اجازت دی تھی، تو اس تناظر میں اس آیت کی تشریح حضورؐ کے فعل مبارک سے ہوگئی کہ یہ آیت خاص وقت اور خاص حالات اور فتنہ پرداز (terrorist) لوگوں کے لئے ہی ہے۔ جو اشتعال انگیزی اور فتنہ پردازی سے باز نہیں آتے۔) (واللہ اعلم بالصواب)۔

سوال: کیا ایمان عمل کا نام ہے؟

جواب: کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (الزخرف 73) اور ىہ وہ جنت ہے جس کے تم، ان اعمال کى وجہ سے جو تم کرتے رہے ہو، وارث بنائے گئے ہو۔

اور بہت سے اہل علم حضرات نے آیت فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ (الحجر 93) کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ یہاں عمل سے مراد لا إله إلا اللّٰہ کہنا ہے اور آیت ہے لِمِثْلِ هَذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُونَ (الصافات 62) پس چاہئے کہ اسی کے مطابق سب عمل کرنے والے عمل کرىں۔ ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ عمل سے ہی ایمان کا اظہار ہوتا ہے۔

سوال: کون سے اعمال افضل ہیں؟

جواب: حضورؐ سے پوچھا گیاکون سا عمل افضل ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔

کہا گیا، اس کے بعد کون سا؟ آپ ؐ نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ پوچھا گیا، پھر کیا ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا حج مبرور۔

سوال: اگر کوئی کسی کے خوف سے مسلمان ہو تو اسے مسلمان کہا جائے گا؟

جواب: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا (الحجرات: 15)

جنگلی کہتے ہىں کہ ہم اىمان لے آئے تُو کہہ دے کہ تم اىمان نہىں لائے لىکن صرف اتنا کہا کرو کہ ہم مسلمان ہوچکے ہىں۔

(تو معلوم ہوا کہ انہیں مسلمان کہا جاسکتا ہے۔اور وہ خود کو مسلمان کہیں تو انہیں منع نہیں کیا جا سکتا۔)

سوال: کیا اسلام کے علاوہ کوئی اور دین بھی نجات دہندہ ہے؟

جواب: إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ (آل عمران: 20) ىقىناً دىن اللہ کے نزىک اسلام ہى ہے وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ (آل عمران 86) اور جو بھى اسلام کے سوا کوئى دىن پسند کرے تو ہرگز اس سے قبول نہىں کىا جائے گا۔ ان آیات میں لفظ اسلام بمعنیٰ ایمان استعمال ہوا ہے۔ یہ بات واضح ہے اب نجات صرف اسلام سے ہی وابستہ ہے۔

سوال: کیا حضورؐ مسلمان اور مؤمن میں فرق روا رکھتے تھے؟

جواب: حضرت سعد ؓ سے روایت ہےحضورؐنے چند لوگوں کو کچھ عطیہ دیا اور ان میں سے ایک شخص کو کچھ نہ دیا۔ حالانکہ وہ ان میں مجھے سب سے زیادہ پسند تھا۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ نے فلاں کو کچھ نہ دیا حالانکہ میں اسے مومن گمان کرتا ہوں۔

آپ ؐ نے فرمایا مومن یا مسلمان؟ میں تھوڑی دیر چپ رہ کر پھر پہلی بات دہرانے لگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دوبارہ وہی جواب دیا۔

پھر آپ ؐ نے فرمایا کہ اے سعد! باوجود یہ کہ ایک شخص مجھے زیادہ عزیز ہے، کسی دوسرے کو اس خوف کی وجہ سے یہ مال دے دیتا ہوں کہ اللہ اسے آگ میں اوندھا نہ ڈال دے۔ یعنی کوئی مال نہ ملنے سے اسلام سے برگشتہ نہ ہوجائے۔

سوال: وہ کونسی تین چیزیں جن کے حصول سے سارا ایمان حاصل ہوجاتا ہے؟

جواب: عمار نے کہا کہ جس نے تین چیزوں کو جمع کر لیا اس نے سارا ایمان حاصل کر لیا۔

اپنے نفس سے انصاف کرنا، سلام کو عالم میں پھیلانا اور تنگ دستی کے باوجودا للہ کی راہ میں خرچ کرنا۔

سوال: کیا عورت کا خاوند کی ناشکری کرنا بھی کفر ہے؟

جواب: عبداللہ ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں جو کفر کرتی تھیں۔ کہا گیا یا رسول اللہ! کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی تھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خاوند کی ناشکری کرتی ہیں۔ اور احسان کی ناشکری کرتی ہیں۔ اگر تم عمر بھر ان میں سے کسی کے ساتھ احسان کرتے رہو۔ پھر تمہاری طرف سے کبھی کوئی ان کے خیال میں ناگواری کی بات ہو جائے تو فوراً کہہ اٹھے گی کہ میں نے کبھی بھی تجھ سے کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔

سوال: کیا گناہ کا مرتکب شخص کافر ہو جاتا ہے؟

جواب: حضورؐ نے فرمایا: یقیناً تم میں کوئی ایسا بھی ہوتا ہےجس میں جاہلیت کی عادات ہیں ان کی وجہ سے وہ کافر نہیں ہوتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَیَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ (النساء: 49)

ىقىناً اللہ معاف نہىں کرے گا کہ اس کا کوئى شرىک ٹھہراىا جائے اور اس کے علاوہ سب کچھ معاف کردے گا جس کے لئے وہ چاہے

ایک دوسری آیت ہے: وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا (الحجرات 10) اور اگر مومنوں مىں سے دو جماعتىں آپس مىں لڑ پڑىں تو ان کے درمىان صلح کرواؤ۔ (اس آیت میں قتال جیساگناہِ کبیرہ کرنے والوں کو بھی مؤمن ہی کہا ہے)۔

سوال: آپؐ نے مسلم قاتل و مقتول دونوں کو جہنمی کیوں قرار دیا؟

جواب: آپ ؐ نے فرمایا جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواریں لے کر بھڑ جائیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں۔

عرض کی گئی یا رسول اللہ! قاتل تو خیر ضرور دوزخی ہونا چاہیےمقتول کیوں؟ فرمایا وہ بھی اپنے ساتھی کو مار ڈالنے کی حرص رکھتا تھا۔ تو وہ اپنی نیّت کی وجہ سے جہنمی ٹھہرا۔

سوال: جاہلانہ حرکت سرزد ہو نے کی کیا سزا ہے؟

جواب: حضرت ابوذر غفاری ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے اپنے غلام کو ماں کی نسبت سے گالی دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اس فعل تصدیق کرکے مجھ سے فرمایا: اے ابوذر! تو نے اسے ماں کے نام سے غیرت دلائی، بیشک تجھ میں ابھی کچھ زمانہ جاہلیت کا اثر باقی ہے۔ یاد رکھو ماتحت لوگ تمہارے بھائی ہیں۔ اللہ نے اپنی کسی حکمت کی بنا پہ انہیں تمہارے قبضے میں دے رکھا ہے۔ پس جس کے ماتحت اس کا کوئی بھائی ہو تو اس کو بھی وہی کھلائے جو آپ کھاتا ہے اور وہی کپڑا اسے پہنائے جو آپ پہنتا ہے اور ان کو اتنے کام کی تکلیف نہ دو کہ ان کے لیے مشکل ہو جائے اور اگر کوئی سخت کام لو تو تم خود بھی ان کی مدد کرو۔

یعنی جاہلانہ حرکت سرزد ہونے پہ توبہ استغفار ہی ہے۔

سوال: کیا گناہ یعنی ظلم بھی چھوٹے، بڑے ہوتے ہیں؟

جواب: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓکی روایت ہے کہ جب سورۃ انعام کی یہ آیت اتری: الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ (الأَنعام 83) وہ لوگ جو اىمان لائے اور انہوں نے اپنے اىمان کو کسى ظلم کے ذرىعے مشکوک نہىں بناىا۔

تو صحابہؓ نے عرض کی ہم میں سے کون ہے جس سے کوئی گناہ سرزد نہ ہوا ہو؟ تو تب سورۃ لقمان کی یہ آیت اتری: اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (لقمان: 14) ىقىناً شرک اىک بہت بڑا ظلم ہے۔

یعنی شرک سب سے بڑا گناہ، بقیّہ سب گناہ اس سے چھوٹے ہیں۔ گناہ کو اس حدیث میں ظلم کے لفظ سے بیان کیا گیا ہے۔

سوال: منافق کی علامات کیا ہیں؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس کسی میں ان چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ بھی منافق ہی ہے، جب تک اسے نہ چھوڑ دے۔

وہ عادات یہ ہیں: جب اسے امین بنایا جائے تو خیانت کرے اور بات کرے تو جھوٹ بولے، اور وعدہ کرے تو اسے پورا نہ کرے۔ اور جب لڑائی، جھگڑے کی نوبت ہو تو گالیوں پر اتر آئے۔

سوال: لیلۃ القدر کی عبادات کا اجر کیا ہے؟

جواب: رسول ؐ نے فرمایا، جو شخص شب قدر ایمان کے ساتھ محض ثواب کی غرض سے ذکر و عبادت میں گزارے، اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ اس حدیث میں حضورؐ نے عمل کا نام ہی ایمان بیان فرمایا ہے۔

سوال: کیا جہاد کرنا بھی ایمان کا حصہ ہے؟

جواب: آپ ؐ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں نکلا، اللہ اس کا ضامن ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کو میری ذات پر ایمان و یقین اور میرے پیغمبروں کی تصدیق نے جہاد کے لئےنکالا ہے۔ میرا ذمہ ہےکہ یا تو اس کو واپس کر دوں ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ، یاجنت میں داخل کر دوں شہادت کے ساتھ۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا اور اگر میں اپنی امت پر یہ بات (جہاد) گراں نہ سمجھتا تو لشکر کا ساتھ نہ چھوڑتا اور میری خواہش ہے کہ اللہ کی راہ میں مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں۔ اس ارشاد مبارک سے واضح ہے جہاد یقیناً ایمان کا حصہ ہے۔

سوال: رمضان میں روزے رکھنا اور نوافل ادا ئیگی کا اجر کیا ہے؟

جواب: حضورؐ نے فرمایا جو کوئی رمضان میں ایمان کی ترقی اور ثواب کے لیے روزے رکھے اور عبادت کرے اس کے گذشتہ گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ تو معلوم ہوا کہ تمام قولی اور فعلی عبادتیں ایمان کا حصہ ہیں۔

سوال: کیا دین کے معاملہ میں آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں؟

جواب: رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ خالص اور سچا دین پسند ہے، اور اس میں بنی نوع انسان کی خیر خواہی ہو۔ اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ یقیناً اللہ کے نزدیک دین تو اسلام ہی ہے۔

اور حضورؐ نے فرمایا بیشک دین آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی اختیار کرے گا تو دین اس پر غالب یعنی گراں ہو جائے گا۔ پس اپنے عمل میں پختگی اختیار کرو۔ اور جہاں تک ممکن ہو میانہ روی برتو اور خوش ہو جاؤ اور صبح اور دوپہر اور شام اور کسی قدر رات میں عبادت سے مدد حاصل کرو۔ (یعنی نمازیں سنوار کر ادا کرو)

سوال: کیا نماز ایمان کا جزو ہے؟

جواب: نماز تو ایمان ہی ہے۔

سوال: حضورؐ کو کس نماز کے وقت قبلہ کی تبدیلی کا حکم ہوا؟

جواب: براء بن عاذب ؓ کی روایت ہے کہ مدینہ میں آپ ؐ نے سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی اور آپ ؐ کی خواہش تھی کہ قبلہ خانہ کعبہ کی طرف ہو۔

سب سے پہلی نماز جو آپ ؐ نے بیت اللہ کی طرف پڑھی عصر کی نماز تھی۔ وہاں آپ ؐ کے ساتھ لوگوں نے بھی نماز پڑھی، پھر آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والوں میں سے ایک آدمی نکلا اور اس کا مسجد بنو حارثہ کی طرف گزر ہوا تو وہ لوگ رکوع میں تھے۔

اس نے کہا کہ میں اللہ کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ؐ کے ساتھ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے۔ تووہ لوگ اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف گھوم گئے۔

سوال: تحویلِ قبلہ سے پہلے کی نمازوں کا معاملہ کیسے ہوگا؟

جواب: صحابہؓ باہم قبلہ کی تبدیلی سے پہلے جو مسلمان انتقال کر چکے تھے، ان کی نمازوں کے معاملہ پر گفتگو کر رہے تھے، تو راوی کہتے ہیں ہمیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ان کی نمازوں کے بارے میں کیا کہیں۔ تب اللہ نے یہ آیت نازل کی وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ (البقرہ: 144)

اور اللہ اىسا نہىں کہ تمہارے اىمانوں کو ضائع کر دے ىقىنا اللہ لوگوں پر بہت مہربان (اور) باربار رحم کرنے والا ہے (144)

(مختار احمد)

پچھلا پڑھیں

ذیلی تنظیموں کا تعارف اور ان کے مقاصد (کتاب)

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ