• 9 مئی, 2024

محترم حفیظ احمد چوہدری مرحوم

والد محترم حفیظ احمد چوہدری مرحوم کی یاد میں

3 دسمبر 2021ء بروز جمعہ خاکسار کے والد محترم حفیظ احمد چوہدری صاحب بعمر 77سال بقضائے الہی وفات پا گئے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد ’’اذکروا محاسن موتاکم‘‘ کےتحت خاکسار اپنے والد محترم کی زندگی کے صرف چند واقعات ضبط تحریر میں لا کر دوست احباب سے ان کی بلندی درجات کے لئے دعا کی درخواست کرتا ہے۔

خاکسار کے والد محترم حفیظ احمد چوہدری صاحب ولد چوہدری مرید علی صاحب یکم اپریل 1944ء کو 332JB دھنی دیو ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پیدا ہوئے۔ ایف اے تک تعلیم حاصل کی 23 سال کی عمر میں آپ کی شادی ہماری والدہ مکرمہ محمودہ بیگم صاحبہ دختر مکرم محمد شریف صاحب کے ساتھ ہوئی والد محترم نے اس دور میں ایلوپیتھک ڈسپنسری بنائی ہوئی تھی اور خدمت خلق کرتے تھے یوں سارے علاقے میں ڈاکٹر حفیظ احمد کے نام سے جانے جاتے تھے۔ 1967ء میں آپ نے بعد تحقیق اور مکمل مطالعہ خود بیعت کی اور سلسلہ احمدیہ میں اہلیہ اور دو بچوں سمیت شامل ہوئے۔ بیعت کرتے ہی دادا جان اور پانچ چچاؤں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ ایک چچا کے علاوہ باقی چچاؤں نے بھی احمدیت قبول کر لی اور جماعت کے مفید وجود بنے، بہرحال والد محترم ان دنوں گھر سے خالی ہاتھ نکالے گئے، بےشمار اذیتوں اور تکالیف اور سوشل بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا مگر اپنے عہد بیعت پر قائم رہے۔ پھر آپ نشاط آباد فیصل آباد میں شفٹ ہو گئے اور یہاں پر بھی ڈسپنسری بنائی۔ 1974ء کے فسادات میں جب جلوس ہمارے گھر کی طرف بڑھنے لگا تو ہمارے شریف النفس معزز غیراحمدی ہمسایوں نے بہت تعاون کیا اور میرے والدین کو 6 بچوں سمیت فوری نکل جانے کا مشورہ دیا اور ہمارے گھر کا سامان اپنے گھروں میں منتقل کر لیاخود جلوس کے سامنے ڈٹ گئے کہ ڈاکٹر حفیظ احمد یہاں سے چلے گئے ہیں اورایک صاحب نے یہ کہا کہ یہ گھر میں نے خرید لیا ہے اگر تم نے آگ ہی لگانی ہے تو پہلے میرے اس گھر کو لگاؤ پھر ادھر آنا اس پر جلوس واپس چلا گیا۔بعد ازاں خاکسار کے دادا جان نے بھی خلافت ثالثہ کے دور میں دستی بیعت کی اور گھڑسواری میں حضرت خلیفہ المسیح الثالثؒ کے ہاتھوں تمغہ بھی حاصل کیا اور دیگر چار چچا صاحبان بھی احمدی ہو گئے اور الحمد للہ سب مخلص اور فدائی احمدی ہیں۔

دادا جان میرے والد محترم کو بعد میں پنجابی زبان میں کہا کرتے تھے

’’ڈاکٹر ایہہ بیعت ہندی اے حضور دے ہتھ وچ ہتھ دے کے، توں کی کاغذ دے پرزے تے بیعت کیتی سی‘‘۔ یعنی ڈاکٹر یہ بیعت ہوتی ہے حضور کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر، آپ نے کیا کاغذ کے پرزے پر بیعت کی تھی۔

بعد ازاں والد محترم نصیرآباد ربوہ منتقل ہو گئے کچھ عرصہ بطور انسپکٹر انصار اللہ کام کیا اور ملک کے دور دراز علاقوں میں موٹرسائیکل پر دورے کئے اور جماعتی خدمات انجام دیں پھر دارالضیافت میں دس سال تک استقبالیہ میں خدمات انجام دیتے رہے اور بعد میں بھی لمبے عرصے تک مشاورت کے موقع پر دارالضیافت کی انتظامیہ کے بلانے پر آپ کامل اطاعت کرتے ہوئے دیوٹی کے لئے حاضر ہوتے رہے۔

اس کے بعد والد محترم نے مختلف کاروبار کئے اور مالی لحاظ سے بھی سلسلہ کی بہت خدمت کی، موصی بھی تھے، بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔

1997ء میں جب حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ ناظر تعلیم تھے والد محترم نے ایک سکول بنام احمدیہ پبلک سکول بنایا اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے منظوری اور دعا کے لئے گئے تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نام تو مجھے بہت پسند ہے مگر رجسٹریشن کے لئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں بہرحال اللہ تعالیٰ فضل کرے۔ محکمہ تعلیم نے اس نام کی رجسٹریشن دینے سے انکار کر دیا پھر والد محترم صوبائی محتسب کی عدالت میں معاملہ لے گئے جہاں عدالتی فیصلے پر محکمہ تعلیم کو اسی نام کی رجسٹریشن دینی پڑی۔ یہ سب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں کی برکت سے ممکن ہوا۔ یہ سکول اب بھی اسی نام سے جاری ہے۔

2005ء میں جب ہمارے محلہ کی بیت الرحمن کی توسیع جاری تھی تو اس دوران نمازوں کے لئے والد محترم نے یہی سکول وقف کیااور قریباً چھ ماہ تک خود نمازیوں کے لئے اہتمام کیا کرتے تھے بلکہ اکثر خود صفائی اور پانی کا انتظام کر دیا کرتے تھے۔

1993ء میں مجھے جامعہ احمدیہ میں جانے کے لئے بھی میرے والد محترم نے ہی تحریک کی اور نہایت مدلل انداز میں خدمت دین کی افادیت سے آگاہ کیا۔ جب خاکسار نے جامعہ پاس کیا تو اس وقت سے اب تک ہمیشہ یہی تلقین کیا کرتے تھے کہ جب بھی جماعتوں سے زیارت مرکز کے لئے وفود لے کر آؤ تو انھیں ضرور اپنے گھر میں بھی لاؤ اور ان کی بہترین خاطر مدارات کرنا، اپنے حلقہ کے احباب کی خود میزبانی کرنا اس سے مربیان کا امیج اچھا رہتا ہے۔

کہا کرتے تھے جماعتوں میں بھی جب لوگ دعوت دیں تو ضرور ان کو بھی اپنے گھر بلاؤ اور ہر ممکن خدمت کرو اس سے مربیان کا وقار مزید نکھرتا ہے۔ الحمد للہ خاکسار نے 23سال میں ان ہدایات پر عمل کر کےاس بات کا خود مشاہدہ کیا ہے۔

والد محترم چندہ جات اور دیگر مالی خدمات میں باقاعدہ تھے۔

محلہ کی سطح پر زعیم انصار اللہ اور سیکرٹری امور عامہ کے فرائض بھی ادا کرتے رہے تھے۔ اکثر مستحق افراد کی خاموش مدد کر دیا کرتے تھے آخری چند سالوں میں جب طبیعت میں کمزوری واقع ہو گئی تھی تو کبھی میرے ذریعے اور کبھی دیگر بیٹوں کو رقم دے دینا کہ فلاں بندے کے ہاتھ میں فلاں موقع پر خاموشی سے تھما دینا، ادبی ذوق کے حامل تھے، سکول میں کئی مشاعروں کی خود میزبانی کی، خلافت احمدیہ سے بے پناہ محبت تھی اور خلفائے سلسلہ کی تمام تحریکات پر عمل کرتے تھے، 2008ء خلافت جوبلی کے سال میں میرے پاس کلرکہار آئے اور کہا کہ خلافت کے موضوع پر نظم لکھو اس پر خاکسار نے ’’خلافت کے امیں ہم ہیں امانت ہم سنبھالیں گے‘‘ لکھی۔ اس نظم کے ابتدائی الفاظ ’’خلافت کے امیں ہم ہیں‘‘ والد محترم نے بولے اور خاکسار نے اسی وقت مصرع مکمل کرکے شام تک نظم بھی پیش کر دی تو گویا اس نظم کی تحریک والد صاحب کی طرف سے تھی۔ والد محترم صلح جو شخصیت تھے، ہرممکن کوشش ہوتی تھی کہ سارا خاندان مل جل کر ایک ساتھ پیار محبت سے رہے، نمازوں اور خصوصاً جمعہ کے موقع پر ڈیوٹی دیا کرتے تھے، سلام میں پہل کرتے، مہمان نواز اتنے کہ گھر میں ذاتی، جماعتی یا میرے ساتھ میرے حلقہ کے احباب آتے تو کوشش ہوتی تھی کہ جو جو ہو سکے مہمانوں کی تواضع کے لئے لا کر رکھ دیتے، خدا تعالیٰ کی ذات پر بہت زیادہ توکل تھا کبھی بھی کسی گھڑی میں مایوس نہیں ہوئے اور خدا کے فضلوں کا خود مشاہدہ کیا۔

ہم سب بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ میرے بڑے بھائی مکرم خالد حفیظ اظہر صاحب کو ان کی خدمت کا موقع ملا، اللہ تعالیٰ ان کو اس کی جزا عطا کرے آمین اور ہمیں اپنے والد محترم کی ان نیکیوں کو زندہ رکھنے اور اپنے اندر منتقل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

والد محترم نے اہلیہ کے علاوہ 5 بیٹے اور 5 بیٹیاں، اور متعدد پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں پڑپوتے پڑ پوتیاں پڑنواسے پڑنواسیاں یادگار چھوڑے ہیں۔

اللہ کے فضل سے 2 پوتے مربیان ہیں نظارت تعلیم کے تحت کام کر رہے ہیں اور 2 پوتے اور 2 نواسے متعلمین جامعہ احمدیہ ہیں ان کے علاوہ 3 پوتے اور 1 پوتی اور 1 نواسی حفاظ قرآن ہیں۔

(اطہر حفیظ فراز)

پچھلا پڑھیں

ذیلی تنظیموں کا تعارف اور ان کے مقاصد (کتاب)

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ