• 8 مئی, 2024

جوانی جنون کا حصہ ہے

اَلشَّبَابُ شُعْبَةٌ مِّنَ الْجُنُوْنِ (الحدیث)
جوانی جنون کا حصہ ہے

انسان کی زندگی کو بالعموم تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

1۔ بچپن 2۔جوانی 3۔بڑھاپا

آج مجھے جوانی کے حوالہ سے اسلامی تعلیمات بیان کرنی ہیں۔ جوانی،جوان ہونے، زمانہ شباب یا بلوغت کو کہتے ہیں۔ اور اس کے بھی دوحصے ہیں۔ ایک نوجوان یعنی نو عمر، نو خیز یعنی ابھی جوانی کا آغاز ہو ا ہو اور دوسرا معیار جوان ہے۔ جب انسان لڑکپن دَور سے نکل چکا ہو۔ سیانے پن میں داخل ہو چکا ہو۔ اور اس دوسرے دور میں بالعموم ایک انسان کی شادی ہو چکی ہوتی ہے۔ صاحب اولاد بھی ہوتا ہے اور دوسری طرف والدین، بہن، بھائی اور سسرالی رشتے بھی ہوتے ہیں۔ بیوی اور اولاد کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ان بزرگ رشتوں کی قد رو منزلت کو سمجھنا اور ان کے حقوق کی ادائیگی اس جوان کا فرض ہوتا ہے۔ جماعت احمدیہ میں اس دَور کی تخصیص، مجلس خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کے نام سے کی جاتی ہے یعنی نوجوانوں کی تنظیم۔ نوجوان مردوں کے لئے خدام الاحمدیہ اور نوجوان احمدی بچیوں کے لئے لجنہ اماء اللہ۔ اور بانی ذیلی تناظیم حضرت مصلح موعودؓ نے انہی نوجوانوں کے متعلق فرمایا ہے۔ ’’قوموں کی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی۔‘‘

مذہبی دنیا میں نوجوانوں (مرد وعورت) کی بہت اہمیت رہی ہے۔ جب مذاہب عالم کا ہم مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء پر ابتدائی ایمان لانے والوں میں نوجوان (خواہ مرد ہوں یا عورت) کی تعداد زیادہ رہی ہے۔ انبیاء علیہم السلام کو خود نبوت کا درجہ 40 سال کے بعد ملا۔ جب وہ عالم شباب کا دور نہایت تقویٰ اخلاص اور قربانیوں کے ساتھ جوان صالح اور جوان بخت رہ کر گزار چکے ہوتے ہیں۔

انسان کی زندگی لا ریب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت بڑی عطاء اور عظیم نعمت ہے۔ جو رب العالمین کی طرف سے ہمارے پاس ایک امانت کے طور پر ہے اس کی حفاظت، دیکھ بھال اور اس کے حقوق کی ادائیگی ہر انسان پر فرض ہے۔ کیونکہ ایک نہ ایک دن یہ امانت جلد یا بدیر خالق حقیقی کو واپس کرنی ہے۔

اس امانت کی حفاظت اور اس نعمت کی دیکھ بھال کے لئے ایک انسان کے پاس بہترین وقت اس کی جوانی ہے۔ جب وہ تندرست و توانا ہوتا ہے اور اپنے جسمانی، ذہنی، اخلاقی، روحانی قویٰ کا استعمال بہترین انداز اور پوری قوت و طاقت کے ساتھ کر سکتا ہے۔ اسی لئے اسلام میں جوانی کی عمر اور عنفوان شباب کا عالم بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اور اسی کی بہت فضلیت بیان ہوئی ہے جب وہ اپنی بے پناہ قوت اور صلاحیت کے ساتھ تمام دینی و دنیاوی فرائض احسن طریق پر ادا کرتا ہے۔ اس لئے ہمارے نوجوان احمدی خدام کو اس نعمت کی قدر کرنی چاہئے اور اپنی اس عمر کو ایسے رنگ میں گزاریں جس طرح آقا و مولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی گزاری۔

آنحضور ﷺنے نوجوان طبقہ کی رہنمائی اور دینی و دنیاوی فلاح و بہبود کے لئے بہت سی زریں ہدایات سے نوازا ہے۔ مثلاً آپؐ نے فرمایا ہے۔

اَلشَّبَابُ شُعْبَةٌ مِّنَ الجُنُوْن

(تفسیر الدر المنثور زیر آیت 123 سورۃالنساء)

کہ عہد جوانی جنون کا ایک حصہ ہے۔

عربی زبان میں جنون کے ایک معنی جوش، ولولہ، عزم اور نئی امنگ کے ہیں۔ آنحضور ﷺ کے اس پُر حکمت ارشاد میں نوجوانوں کو اسی لطیف نکتہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جس کا ذکر ہم اوپر کرآئے ہیں۔

مکرم مولانا دوست محمد شاہد مرحوم مؤرّخ احمدیت اس حدیث کی تشریح میں اپنے ایک مضمون میں تحریر فرماتے ہیں کہ
’’آنحضرت ﷺ کے مندرجہ بالا فرمان میں (احمدی) نوجوانوں کو اس لطیف نکتہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جوانی کے زمانے کو جو اللہ تعالیٰ نے خاص فضل سے تمہیں عطا کیا ہے غنیمت سمجھو اور دین کی خدمت میں پورے جوش و خروش کے ساتھ سرگرم عمل رہو ورنہ جوانی کے بعد دینی خدمات کا خیال قوت عملیہ نہ ہونے کی وجہ سے خواب پریشان بن کے رہ جائے گا۔ اس حدیث میں جنون کا لفظ اس واضح حقیقت کی نشان دہی بھی کرتا ہے کہ ایک دیوانہ جب کسی رَو میں بہہ جاتا ہے تو اس کی زندگی کے دھارے کو بدلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی حال نوجوانوں کا ہے۔ اگر ایک نوجوان ابتداء ہی سے خدمت دین، ذکر الہٰی اور اخلاق فاضلہ میں راسخ ہوجائے تو اس کی پوری عمر اسلامی سانچے میں ڈھل جاتی ہے۔ بصورت دیگر جوانی کے غلط خیالات وجذبات کاطوفان اس کے اخلاق اور روحانیت کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور جب ہوش کی آنکھ کھلتی ہے تو کف افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘

(ماہنامہ خالد جون 2007ء صفحہ17)

اللہ تعالیٰ کو جوانی کے عالم میں توبہ بہت پسند ہے۔ توبہ تو زندگی کے کسی مرحلہ پر کی جا سکتی ہے لیکن جوانی کی توبہ کی اسلام میں بہت اہمیت ہے بلکہ فضلیت کے اعتبار سے جوانی کی توبہ افضل ترین ہے کیونکہ بڑھاپے میں قویٰ مضمحل ہو چکے ہوتے ہیں۔ آرزوئیں، تمنائیں اور خواہشات دم توڑ چکی ہوتی ہیں۔ آنحضورﷺنے فرمایا:

مَا مِنْ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَى اللّٰهِ مِنْ شَابٍّ تَائِبٍ

(ابن عدی الکامل فی ضعفاء الرجال جلد4 صفحہ118)

کہ اللہ تعالیٰ کو جوانی کی توبہ سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ہے۔

اسی مضمون کو سر کار دو عالم حضرت محمد مصطفی ٰﷺ نے یوں بھی بیان فرمایا کہ إِنَّ اللّٰهَ تَعَالٰی يُحِبُّ الشَّابَّ التَّائِبَ کہ اللہ تعالیٰ کو توبہ کرنے والے نوجوان سے زیادہ پسندیدہ کوئی شخص نہیں۔

(کنزل العمال کتاب التوحید حدیث نمبر 10181)

شیخ سعدی کا مشہور قول ہے ’’درجوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری‘‘ کہ جوانی میں توبہ کرنا پیغمبروں کا شیوہ اور طریق رہا ہے۔ ہم اگر اپنے زمانہ پرنگاہ ڈالیں تو ہر تنظیم، تحریک، جماعت اور فو ج میں نوجوانوں کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ ان سوسائٹیز، تنظیموں کا مستقبل ان نوجوانوں سے جُڑا ہوا ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوجیں یا حکومتیں سب سے پہلے اپنے مخالف طبقہ کے نوجوانوں پر حملہ کر کے انہیں ہلاک تباہ اور نیست و نابود کرتے ہیں۔ تا آئندہ کچھ سالوں تک یہ قوم اٹھنے نہ پائے۔ ابھی حال ہی میں عراق، افغانستان، فلسطین اور کشمیر کے ساتھ ایسا ہوتا ہم دیکھ آئے ہیں۔

آجکل الیکٹرانک دنیا میں یہودیوں او ر عیسائیوں نے کمال ہوشیاری سے ساری دنیا میں پھیلے مسلمان نوجوان طبقہ پر سوشل میڈیا سے ایسا تباہ کن حملہ کیا ہےکہ مسلمانوں کے نوجوان طبقہ کو اس میں ایسا جکڑا ہوا ہے ان کے اخلاق اور روحانی قدر یں تباہ ہو کر رہ گئی ہیں۔

اس کے بالمقابل مذہبی دنیا کا جائزہ لیں کہ اصحاب کہف زیادہ تر نوجوان تھے۔ حضرت موسیٰ پر ایمان لانے والے جوان تھے۔ اصحاب الصفۃ زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل تھے اور جب ہم اسلام کے ابتدائی ایام کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم یہ اوپر لکھ آئے ہیں کہ آنحضور ﷺ پر ایمان لانےوالےصحابہ کا تعلق نوجوان طبقہ سے تھا۔ جن کی آنحضورﷺنے ایسی تربیت اور تنظیم فرمائی کہ یہ مستقبل کےسپہ سالار بنے۔ ان کے ہاتھوں میں اسلام کی بھاگ دوڑ تھمائی گئی۔ حتیٰ کہ ہجرت مدینہ کے وقت بھی انہی تربیت یافتہ نوجوانوں نے بطور مربی اور استاد انصار بھائیوں کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ ان خدما ت کا ذکر کرتے ہوئے سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’انبیاء علیہم السلام پر ابتدائے زمانہ میں ایمان لانے والے زیادہ تر نوجوان ہی ہوتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ بوڑھے بوڑھے اس کے سلسلہ میں شامل ہوں۔ اور چند روز خدمت کرکے وہ وفات پاجائیں اور سلسلہ کی تعلیم کو آئندہ نسلوں تک پہنچانے والے کوئی نہ رہیں۔ پس وہ بوڑھوں کی بجائے زیادہ تر نوجوانوں کو اپنے سلسلہ میں شامل کرتا ہے اور نوجوانوں کی جماعت کو ہی نبی کی تربیت میں رکھ کردرست کرتا ہے۔ تاکہ وہ نبی کی وفات کے بعد ایک لمبےعرصہ تک اس کے لائے ہوئے نور کو دنیا میں پھیلا سکیں۔ اور اس کی تعلیم کی اشاعت اور ترویج میں حصہ لے سکیں۔ رسول کریم ﷺ جب مبعوث ہوئے تو آپ کے مقرب ترین صحابہ قریباً سارے ہی ایسے تھے جو عمر میں آپؐ سے چھوٹے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ آپؐ سے اڑھائی سال عمر میں چھوٹے تھے۔ حضرت عمرؓ آپؐ سے ساڑھے آٹھ سال عمر میں چھوٹے تھے اور حضرت علیؓ آپؐ سے انتیس سال عمر میں چھوٹے تھے۔ اسی طرح حضرت عثمانؓ، حضرت طلحٰہؓ اور حضرت زبیرؓ بھی 20 سال سے لے کر 25 سال تک آپؐ سے عمر میں چھوٹے تھے۔ یہ نوجوانوں کی جماعت تھی جو آپؐ پر ایمان لائی اور اس جوانی کے ایمان کی وجہ سے بھی مسلمانوں کی جماعت کو یہ فائدہ پہنچا کہ چونکہ یہ ایک لمبے عرصہ تک رسول کریم ﷺ کی تربیت میں رہے تھے اور پھر ان کی عمریں چھوٹی تھیں اس لئے رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد بھی یہ لوگ ایک عرصہ دراز تک لوگوں کو فیض پہنچاتے رہے۔ رسول کریم ﷺ دعوی نبوت کے بعد 23 سال کے قریب زندہ رہے ہیں۔ اب اگر ساٹھ سال بوڑھے ہی آپؐ پر ایمان لاتے اور نوجوان طبقہ اس میں شامل نہ ہوتا تو نتیجہ یہ ہوتا کہ ان میں سے اکثر مکہ میں ہی وفات پاجاتے اور مدینہ کے لوگوں کے لئے نئی ٹریننگ شروع کرنی پڑتی۔کیونکہ جب رسول کریم ﷺ مدینہ پہنچتے توپہلی تمام جماعت ختم ہوچکی ہوتی اور آپؐ کو ضرورت محسوس ہوتی کہ ایک اور جماعت تیار کریں جو اسلام کی باتوں کو سمجھے۔ اور آپؐ کے نمونہ کو دیکھ کر وہی نمونہ دوسروں کو اختیار کرنے کی تلقین کرے۔ اگر ایسا ہوتا تو اسلام کے لئے کس قدر مشکلات ہوتیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں ہونے دیا۔اس لئے ایسا انتظام فرمایا کہ رسول کریم ﷺ جب مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے تو بجائے کسی نئی جماعت کے ٹریننگ کے وہی نوجوان جو مکہ میں آپؐ پر ایمان لائے تھے اس قابل ہوچکے تھے کہ فوجوں کی کمان اپنے ہاتھ میں لیں۔ چنانچہ 11 سال کا علی مدینہ پہنچتے وقت 24سال کا جوان تھا اور 17 سال کا زبیر مدینہ جاتے وقت تیس سال کا جوان تھا۔ یہی حال باقی نوجوان صحابہؓ کا بھی تھا۔ کوئی ان میں سے تیس سال کا تھا کوئی چونتیس سال کا تھا اور کوئی 35 سال کا تھا۔ پس بجائے اس کے رسول کریم ﷺ کو نئے سرے سے ایک جماعت بنانی پڑتی جب آپ مدینہ میں پہنچے اور کام وسیع ہوگیا تو آپؐ کو انہی نوجوانوں میں سے بہت سے مدرس مل گئے۔ جنہوں نے مکہ میں آپؐ سے سبق حاصل کیا تھا اور 10 سال تک مدینہ میں بھی انہیں رسول کریمﷺ کی شاگردی میں رہنے کا موقع مل گیا۔

(مشعل راہ جلد اول صفحہ 199-200 ایڈیشن اول)

آئیں دیکھتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے ان فدائی نوجوان صحابہ جیسا مقام پانے کے لئے امت کے دیگر نوجوان طبقہ کو کن الفاظ میں توجہ دلائی۔

آپؐ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن 7طرح کے انسانوں کو اللہ تعالیٰ کا سایہ حاصل ہو گا جس دن اللہ کے سایہ کے سوا کسی اور طرح کا کوئی سایہ نہ ہو گا۔ ان 7قسم کے انسانوں میں سے دوسرے نمبر پر فرمایا کہ شَابٌّ نَشَاٌفِی عِبَادَۃِ اللّٰہِ (بخاری جلد اول صفحہ 191) کہ ایسا نوجوان جس نے اپنی جوانی اللہ کی عبادت میں گزاری۔

پھر حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓسے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ قیامت کے روز انسان کے قدم اپنی اپنی جگہ سے یعنی حساب کی جگہ سے ہٹ نہ سکیں گے یہاں تک کہ اس سے 5 امور کے بارہ میں سوال نہ کر لیا جائے۔ ان پانچ امور میں سے دوسرے نمبر پر یہ سوال ہوگا کہ ’’جوانی کی توانائی کہاں صرف کی؟‘‘

(ترمذی باب صفۃ القیامہ)

یہاں آنحضورﷺ نے سوال کہ عمر کن کاموں میں گنوائی؟ کے بعد جوانی کے حوالہ سے سوال کیا ہے۔ کسی اور عمر والے کے متعلق سوال کی تخصیص نہیں۔ ایک عمومی طور پر عمر بارے سوال ہو گا کہ کن کاموں میں گنوائی۔ لیکن بعض محدثین نے ان پانچ امو ر میں سے چار کا تعلق جوان عمری سے باندھا ہے۔ جیسے

  1. عمر کن کاموں میں گنوائی۔ یہاں بالعموم سوال ہے جس میں ہر انسان کی نوجوانی شامل ہے۔
  2. مال کے متعلق سوال ہو گا کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ انسان مال کا حصول اپنی جوانی سے ہی شروع کرتا ہے۔ اور خرچ کے متعلق بھی پوچھا جائے گا۔
  3. جو علم حاصل کیا اس پر کہاں تک عمل کیا؟ انسان علم کے حصول کے لئے اپنی جوانی سے ہی کرتا ہے۔ اور اس پر عمل بارے بھی سوال کیا ہو گا۔

حضرت عمر بن میمونؓ سے مروی ہے کہ آنحضور ﷺ نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہو ئے فرمایا۔ 5چیزوں کو 5چیزوں سے پہلے غنیمت جانو۔

  1. جوانی کو بڑھاپے سے قبل
  2. صحت کو بیماری سے قبل
  3. خوشحالی کو ناداری سے قبل
  4. فراغت کو مصروفیت سے قبل
  5. زندگی کو موت سے پہلے (ترمذی)

ان 5 امور میں سے نمبر1 کا تو براہ راست جوانی سے تعلق ہے جبکہ باقی امور کا بلاواسطہ نوجوان طبقہ سے تعلق ہے۔ ابھی چند دن قبل ہم دوست ایک جگہ چائے پر اکٹھے ہوئے وہاں بڑھاپے کی بیماریوں کا ذکر چل نکلا۔ ایک دوست نے کہا کہ 60-65سال کی عمر میں جا کر انسان مختلف بیماریوں کا مرقع (مجموعہ) بن جاتا ہے۔ جوڑوں کی درد، گھٹنے کی درد، چلنے پھرنے سے عاری۔ نزلہ زکام اور کئی بیماریاں وغیرہ وغیرہ اس وقت نماز کا بھی حق کماحقہ ادا نہیں ہوتا۔ گھٹنوں کی درد کی وجہ سے انسان کرسی پر ہونے کی وجہ سے سجدہ بھی نہیں کر پاتا۔ جو مزہ جوانی میں زمین پر ناک اور ماتھا رکھ کر اللہ کے حضور جھک کر دعا کرنے کا مزہ تھا وہ اب حاصل نہیں۔ یہی مضمون ہے جو مندرج بالا حدیث میں بیان ہوا ہے۔ ہمارے ایک دوست کہتے تھے کہ جوانی کے عالم میں اولاد پیدا کر لو جو بڑھاپے کا ساتھ بن جاتی ہے۔

الغرض ہر مذہب، ہر سوسائٹی میں نوجوان طبقہ نے بڑا کام کیا ہے۔ یہ دَور دراصل انسانی زندگی کا سنہری دَور ہوتا ہے۔ نوجوان ہی کسی قوم کا عظیم سرمایہ ہوتے ہیں اورقوموں کے عروج و زوال کی داستان بھی اسی سرمایہ کی مرہون منت ہوتی ہے۔جیسے اسلام کو جو ترقیات اور فتوحات نصیب ہوئیں۔ وہ درج ذیل نوجوان صحابہ کی مرہون منت تھیں۔

حضرت علی ؓ (غزوہ خیبر میں اسلام کا علم بلند کیا)، حضرت مصعب بن عمیر، حضرت عمار بن یاسر، حضرت خالد بن ولید، حضرت عمرو بن العاص، حضرت ابن عمر، حضرت بن عباس اور حضرت ابن زبیر رضوان اللہ تعالیٰ عنہم

پھر بعد کی اسلامی تاریخ میں محمد بن قاسم، طارق بن زیاد اور صلاح الدین ایوبی جیسے نوجوان مسلم سپہ سالاروں نے اپنے کارناموں سے تاریخ رقم کی۔ اور دوسری قومیں آپ نوجوان سالاروں کے رعب و دبدبہ سے کانپتی رہی۔

علمی میدان میں مفسرین و محدثین جیسےشاہ ولی اللہ محدث دہلوی،ا مام غزالی اور ابن تیمیہ نے اپنی جوان سالی میں ہی اسلامی تاریخ میں معرکے انجام دئیے۔

اور سب سے بڑھ کر ہمارے بہت ہی پیارے مربی سیدنا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تمام جوانی اس امر سے عبارت ہے کہ آپ نے اپنے خالق اللہ تعالیٰ کا بھی حق ادا کر دیا اور اس کی مخلوق کا بھی۔ آپؐ نے جوانی کے عالم میں بھی ایک بڑھیا کا بوجھ ہلکا کیا تھا۔ حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کی جوانی میں نیکی اور دیانت داری سے ہی قائل ہو کر شادی کا پیغام بھجوایا تھا۔ آپؐ جوانی کی عمر میں کامیاب تاجر ثابت ہوئے۔ ایسا کیوں ہوا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کےذریعہ بچپن میں آپ ؐکا دل نکال کر صاف کر دیا تھا اور دشمن یہ کہہ اُٹھا تھا کہ آپؐ صادق وامین ہیں۔ جوانی ہی کے عالم میں خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت حجر اسود سے متعلق جھگڑا چکانے کے لئے دشمن نے آپؐ کو چنا۔ آپ کی جوانی پرہیز گاری، معصومیت، نیکی کی وجہ سے مشہور تھی۔ اپنے اور پرائے اپنے فیصلے اس نوجوان سے کروانا باعث سعادت سمجھتے تھے۔ حلف الفضول میں ہونے کی وجہ سے آپ کی نیک شہرت اور رعب ودبدبہ نے ہی ابوجہل کو کسی کی دبائی ہوئی رقم واپس کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اپنی نیکیوں اور توکل کی وجہ سے دشمن بھی کہہ اٹھا تھا کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌ رَبَہُ کہ محمد اپنے رب کا عاشق ہو گیا ہے۔

آج ہمارے خدام او ر ہماری بچیوں او ر بہنوں کو آنحضور ﷺ کے نیک نمونہ و اسوہ کو اپنانا ہو گا۔ آنحضور ﷺ کی عملی تصویر اپنے اندر اُتارنی ہو گی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس اہم اور اچھوتے مضمون کو جلسہ سالانہ 1904ء کے موقع پر 29دسمبر کو تقریر کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے۔آپؑ فرماتے ہیں:
’’جب انسان دنیا میں آتا ہے تو کچھ زمانہ اس کا بےہوشی میں گزرجاتا ہے۔یہ بے ہوشی کا زمانہ وہ ہے جبکہ وہ بچہ ہوتا ہے اور اس کو دنیا اور اس کے حالات سے کوئی خبر نہیں ہوتی۔ اس کے بعد جب ہوش سنبھالتا ہے توایک ایسا زمانہ آتا ہے کہ وہ بے ہوشی تو نہیں ہوتی جو بچپن میں تھی۔ لیکن جوانی کی ایک مستی ہوتی ہے جو اس ہوش کے دنوں میں بھی بے ہوشی پیدا کر دیتی ہے اور کچھ ایسا از خود رفتہ ہوجاتا ہے کہ نفسِ امارہ غالب آجاتا ہے۔ اس کے بعد پھر تیسرا زمانہ آتا ہے۔

اکثر لوگوں میں جنون کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے۔ایسے بہت سے خاندان ہیں کہ ان میں ساٹھ یا ستر سال کے بعد انسان کے حواس میں فتور آجاتا ہے۔غرض اگر ایسا نہ بھی ہو تو بھی قویٰ کی کمزوری اور طاقتوں کے ضائع ہو جانے سے انسان ہوش میں بے ہوش ہوتا ہے۔اور ضعف وتکاہل اپنا اثر کرنے لگتا ہے۔ انسان کی عمر کی تقسیم انہیں تین زمانوں پر ہے۔‘‘

اس کے بعد جوانی کے دور کا ذکر کرتے ہوئے اس تقریر میں فرماتے ہیں:
’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی زمانہ ہے جو ان دونوں کے بیچ کا زمانہ ہے یعنی شباب کا جب انسان کوئی کام کر سکتا ہے، کیونکہ اس وقت قویٰ میں نشونما ہوتا ہے اور طاقتیں آتی ہیں، لیکن یہی زمانہ ہے جبکہ نفس امارہ ساتھ ہوتا اہے اور وہ اس پر مختلف رنگوں میں حملے کرتا ہے اور اپنے زیر اثر رکھنا چاہتا ہے۔ یہی زمانہ ہے جو مؤاخذہ کا زمانہ ہے اور خاتمہ بالخیر کے لیے کچھ کرنے کے دن بھی یہی ہیں، لیکن ایسی آفتوں میں گھرا ہوا ہے کہ اگر بڑی سعی نہ کی جاوے تو یہی زمانہ ہے جو جہنم میں لے جائے گا اور شقی بناوے گا۔ہاں اگر عمد گی اور ہوشیاری اور پوری احتیاط کے ساتھ اس زمانہ کو بسر کیا جاوے تو اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے امید ہے کہ خاتمہ بالخیر ہو جاوے کیونکہ ابتدائی زمانہ تو بے خبری اور غفلت کا زمانہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس کا مؤاخذہ نہ کرے گا۔‘‘

اپنے مضمون کا اختتام ایک حدیث نبویؐ سے کرتا ہوں۔

آنحضرت ﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔

مَنْ بَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَةً فَلَمْ يَغْلِبْ خَيْرُهُ شَرَّهُ فَلْيَتَجَهَّزْ إِلَى النَّار

(الفتح الربانی والفیض الربانی از شیخ عبدالقادر جیلانی مجلس نمبر 62 فی التوحید)

یہی حدیث ایک اور جگہ ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے:

مَنْ أَتَى عَلَيْهِ أَرْبَعُونَ سَنَةً فَلَمْ يَغْلِبْ خَيْرُهُ شَرَّهُ فَلْيَتَجَهَّزْ إِلَى النَّار

کہ جو شخص چالیس برس کی عمر تک پہنچ گیا مگر اس کا خیر اس کے شر پر غالب نہ آسکا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانے کی تیاری کرے۔

لہٰذاہر احمدی نوجوان پر نیکی،خلوص، تقویٰ، تعلق باللہ، احترام مخلوق کی طرف اپنے سفر میں تیزی لانے کے لئے مجاہدہ کا آغاز کرنا چاہئے تا شعبہ جنون کے تحت نئے عزم، نئے ولولہ اور نئے ارادوں کے ساتھ اسلام و احمدیت کے جلد فتح کے لئے کام کرے۔ اور مجسم خیر بن کر شر کو اپنے راستے سے دُور کرتے ہوئے آخرت کی طرف سفر جاری رکھیں۔

کَانَ اللّٰہُ مَعَکُمْ وَمَعَ اَھْلِیْکُمْ وَ مَعَ رُفَقَاءِ کُمْ

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 اکتوبر 2020