دار المسیح قادیان کی زیارت
(جلسہ سالانہ کی مناسبت سے ایک تحریر)
(قسط دوئم)
بہشتی مقبرہ
الدّار کے بعد بہشتی مقبرہ جو ہمارے لئے سب سے بڑا خزانہ ہے۔قادیان کی بستی نے جن کی وجہ سے دنیا میں عزّت اور شہرت پائی اب وہ سب ایک ایک کر کے الدّار چھوڑ کر یہاں آباد ہو چکے تھے۔ یہ وہی بہشتی مقبرہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے خوا بوں کے ذریعے حضرت مسیح ِ موعود علیہ السلام کو زمین کا ٹکڑا دکھا کر بتایا تھا کہ اس میں دفن ہونے والے بہشتی ہوں گے۔
حضرت مسیح ِ موعودعلیہ السلام نے اپنی ملکیت زمین کا ٹکڑا جس میں مختلف پھل دار درختوں کے باغ تھے میں سے کچھ حصہ قبرستان کے لئے وقف کر دیا۔ اور اللہ تعا لیٰ نے اس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا۔ ویسے تو ایسا قبرستان بنانے کا خیال اور خواہش بہت دیرسے حضرت مسیح موعود ِعلیہ السلام کے دل میں تھی 1905ء میں جب آپ کو اپنی زندگی کے متعلق مختلف خوابیں اور الہام ہونا شروع ہوئے تو آپ ؑنے اس خدائی پیغام کو پورا کرنے کا فیصلہ کر لیا، اب آپ نے ایک کتاب، الوصیت کے ذریعے، اس قبرستان میں دفن ہونے والے اصحاب کے متعلق تفصیل سے لکھا۔ انہی دنوں میں حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی ؓ بھی وفات پاگئے۔ جن کو کسی اور جگہ دفن کیا گیا تھا۔ مگر بعد میں جب آپ نے اس قبرستان کو باقاعدہ بہشتی مقبرہ کا نام دے دیا، تو ان کا صندوق بھی اُٹھا کر یہاں دوبارہ دفنایا گیا۔ الدّار سے نکل کر ایک دو گلیاں چل کر ڈھاب (یعنی جہاں پہلے ڈھاب ہوا کرتی تھی) اور اسکا پُل کراس کرنے بعد بہشتی مقبرہ کی چہار دیواری شروع ہو جاتی ہے۔ یہ چہار دیواری بھی ماشاء اللہ موٹی اور مضبوط اینٹوں کی بنی ہوئی ہے، بہشتی مقبرہ ایک بڑے قطعے پر واقع ہے۔ جس کا چاروں طرف سے چہار دیواری سے احاطہ کیا ہوا ہے یہاں بھی گیٹ پر اسکیورٹی کا انتظام ہے۔ ہر کسی نے اپنا کارڈ دکھا کر اندر جانا ہوتا ہے۔ پہلی تعارفی زیارت کے وقت ہمارے ساتھ ہمارے عزیز بچے تھے جنہوں نے پہلی مرتبہ تقریباً اڑھائی گھنٹے ہمارے ساتھ لگائے اور ہمیں بہشتی مقبرہ کی تعارفی مگر تفصیلی سیر کرائی۔ حضرت مسیح ِ موعود ِ کے زمانہ میں بھی اس باغ میں مختلف قسم کے پھل دار درخت تھے۔اب بھی اللہ کے فضل سے آموں کے باغ کے علاوہ اور بھی بہت سے پھل دار درخت ہیں۔ یہیں پر ایک مرتبہ حضور حضرت امّاں جان ؓ کے ساتھ چہل قدمی فرما رہے تھے کہ حضرت امّاں جان ؓ کی خواہش پر اللہ تعالیٰ نے بے موسمی سنگترہ حضور ؑ کے ہاتھوں سے درخت سے اُتارنے کا معجزہ ظاہر کیا تھا۔
حضور علیہ السلام ا پنے احباب کے ساتھ یہاں سیر کو بھی آتے اور اصحاب کے درمیان میں تشریف فرما ہو کر شہتوت اور دوسرے پھلوں کو خود بھی نوش فرماتے اور اپنے احباب کو بھی پیش کرتے۔باغ کے ایک طرف حضور کی شہ نشین والا مقام ہے جہاں، آپ ؑ سیر کے بعد تشریف فرما ہوتے، پہلے کبھی اس پر ٹین کی چھت ڈالی گئی تھی۔ اب اسکی جگہ کمرہ بنا دیا گیا ہے۔ 1905ء میں جب زلزلہ آیا ہے تو حضور اپنے خاندان کے ساتھ اسی باغ میں بہت ماہ تک خیموں میں مقیم رہے۔
ویسے تو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اس میں دفن ہونے والا جنّتی ہو گا۔ مگر ظاہری طور پر بھی یہ قبرستان کسی بہشت سے کم نہیں۔ اپنے پھل دار درختوں ,خوشنما تراشیدہ جھاڑیوںکی باڑ، رنگا رنگ پھولوں اورکلیوں سے سجا یہ خطہ انتہائی دیدہ ذیب دکھائی دیتا ہے۔اب تو اس کی سڑک بھی جو بیرونی گیٹ سے قطعہ خاص تک جاتی ہے، انتہائی خوبصورت اینٹوں سے پختہ کی گئی ہے۔ انتہائی مناسب تسلسل کے ساتھ ردشیں۔ پگ ڈنڈیاں، قطعے پھولوں کی کیاریاں، اور ان سب قدرتی حسن اور انسانی ہاتھوں سے مقدور بھر سنورے ماحول کے بیچوں بیچ، اس باغ کے مالی کی آ خری آرام گاہ، جس نے اس باغ یا بہشتی مقبرہ کو احمدیوں کے لئے کسی کی سوچ سے کہیں زیادہ خوبصورت بنا دیا ہوا ہے۔ گیٹ سے داخل ہونے کے بعد ظاہر ہے فطری طور پر ہمارا رُخ اسی طرف ہونا تھا جہاں ہمارے پیارے مسیح الزماں آرام فرما رہے ہیں۔ قدم خود بخود ہی تیز تیز اسی طرف اُٹھی جارہے تھے، کیونکہ گیٹ کے بعد چند قدم چلنے پر ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ سامنے جو سفید عمارت نظر آرہی ہے وہ کیا ہے۔ سڑک سے بائیں طرف خود بخود ہی چل پڑے لوہے کے سفید جنگلے کے اندر حضرت مسیح ِ الزماں اپنے بہت سے افرادِ خانہ اور با وفا اصحابؓ کے ساتھ ابدی نیند سورہے ہیں۔ ہم دونوں ماں بیٹا جنگلے کو پکڑ کر خاموش کھڑے ہو گئے۔ زندگی کا کتنا لمبا سفر کاٹا ہے ہم نے اس جگہ پہنچنے کے لئے۔قادیان سے واپس آنے والے لوگوں سے ہم سنا کرتے تھے کہ وہ حضرت مسیح ِ الزماں علیہ السلام کے مزار کے پاس بیٹھ کر ان کی لحد کی مٹّی پر ہاتھ پھیرتے رہے اور دُعائیں کرتے رہے۔ مگر اب بہشتی مقبرہ جنگلے اور دیواروں اور دروازے کے حصار میں کردیا گیا ہے، اب ہمارے اور ہمارے پیارے مسیح الزماں علیہ السلام کے درمیان لوہے کا جنگلہ کھڑا کر دیا تھا۔ گو کہ دو اڑھائی میٹر کا ہی فاصلہ ہوگا، مگر فاصلہ تو تھا۔ اب یہ تو یاد نہیں کہ دُعا بھی کوئی کی کہ نہیں، بس اس مزار کی عظمت اس پر لکھی تحریر اور اس سچّائی پر کہ ہم جیسے حقیرلوگ بھی آج اس بہشتی مقبرے میں امام الزماں کے مبارک مزار کے سامنے کھڑے ہیں کی حقیقت پر خدا کا شکر ادا کرتے رہے۔ بہت دیر بعد جب د ل کی بھڑاس نکال لی تو پھر نظر ادھر اُدھر کی۔ جب معلوم ہوا کہ آپ کے بائیں طرف آپ کے وفا دار ساتھی جو آپ نے اللہ تعالیٰ سےسطان ِ نصیر کے طور پر مانگا تھا کا مزار ہے۔ اور دائیں طرف آپ کی زوجہ محترمہ جو اللہ تعالیٰ نے اپنی جناب سے الہامات اور پیشگوئیوں کے بعد آپ کو عطا کی تھیں، کے مزار کی خالی جگہ ہے۔
جنگلے کی وہ جگہ جہاں ہم نے کھڑے ہو کردعا کی وہاں زیادہ دیر کھڑا نہیں ہوا جاسکتا کیونکہ مسلسل زائر آ رہے ہوتے ہیں اس لئے وقت کی قید کے ساتھ ہی وہاں کھڑا رہا جاسکتا ہے۔ورنہ دل تو یہی چاہتا ہے کہ،اس بہشتی مقبرے کے بانی کی لحد کے سامنے ہی کھڑے رہیں۔ بہرحال وہاں سے ہٹ کر سب سے پہلے ہم نے اپنے عزیز واقارب کوسلام کرنا چاہا، ان کے قطبوں کے نمبر وغیرہ ہمارے پاس تھے۔
خاکسار کے دادا محترم، شہید چچا محترم جو تحریک ِ جدید کے پہلے شہید ہیں، میری بڑی والدہ کے صحابی والد محترم، میری نانی جان محترمہ جن کے قطبے پر لکھا ہے کہ ’’انہوں نے لیکچر سیالکوٹ خود سنا اور بیعت کی‘‘ میری سب سے بڑی ہمشیرہ محترمہ سلیمہ بیگم اور میرے بہنوئی درویش مکرم عبدالسلام صاحب وہاں دفن ہیں۔ چونکہ عزیزم باسط احمد اور عزیزم نور احمد، ہمارے ساتھ تھے اس لئے اپنے عزیزوں کے مزار بھی ڈھونڈنے میں دیر نہ لگی۔ یہ تو پہلا روز تھا۔ باقی بھی قیام کے تمام دن ہم نے ہر روز اپنے پیارے امام، اور امام کے پیاروں کے مزاروں کو تاریخی اعتبار سے ڈھونڈ، ڈھونڈکر ان کے سرہانے کھڑے ہوئے، ان کی فدائیت، اور قربانیوں کے تاریخی واقعات یاد کئے۔ ان کے حضرت امام الزماں علیہ السلام کے ساتھ عشق و وفا کے کتنی ہی حسین یادیں زہن میں آئیں۔ یادگار، قدرتِ ثانیہ کا مقام بھی بہشتی مقبرہ کی چہاردیواری کے اندر ہے،جہاں حضرت مسیح َ موعود ؑ کا جنازہ لاکر رکھا گیا اور وہیں پڑھا بھی گیا تھا۔
قادیان کی سیر
بہار کا موسم تھا۔ اس موسم میں قادیان کی بستی میں پھولوں سے جگہ جگہ سجاوٹیں، تازہ سفیدی اور پینٹ کی ہوئی عمارتیں، سُرخ اینٹوں سے نئی زیرِ تعمیر عمارتیں، دفاتر، دیواروں پر پھولوں سے کی گئیں سجاوٹیں بہت خوبصورت لگ رہی تھیں۔ ایک عمارت بہت ہی جاذبِ نظر تھی معلوم ہوا یہ خدّام مجلس ہندوستان کا دفتر ہے۔ قادیان کی بستی اور اسکے نواحی محلے جہاں احمدی آباد ہیں، ان دو بڑی مساجد یعنی مسجد اقصیٰ اور مسجد مبارک کے علاوہ بھی کئی مساجد ہیں۔ وہ علاقہ جس میں خاکسار کے بھانجے عزیز احمد اختر مقیم ہیں، اس کا نام ننگل ہے انکے گھر کے بالمقابل ایک مسجد ہے جس کا نام مسجد نور ہے۔ بہت سے دفاتراندرون ِ شہر سے باہر کھلی اور بڑی جگہ پر منتقل ہو چکے ہیں۔جامعہ بھی مضافات میں کھلی جگہ پر منتقل ہو چکا ہے۔ ہمیں تو احمدیہ محلے کی ایک، ایک گلی میں پھرنا بہت ہی اچھا لگا، گلیوں میں آ تے جاتے دروازوں پر درویشان کے نام کی تختیاں پڑھیں، کچھ حیات،اور کچھ وفات یافتہ کے ناموں کی بھی تھیں، یہ ان لوگوں کے گھر تھے جن میں ابھی درویشان کے بیوی بچّے مقیم تھے۔
سابق مشنری انچارج مکرّم کمال یوسف صاحب کی ہدایت بھی یاد تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کی رہائش گاہ اور ان کے گھر کے بیت ا لدّعا کی زیارت بھی کرنا ہے ایک دن خاکسار کو موقعہ مل گیا، حرم کے سامنے کھڑے ایک کارکن سے کہا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کی رہائش گاہ کہاں ہے۔ انہوں نے اپنے سامنے کی عمارت جو سڑک کے دوسری طرف تھی کی طرف اشارہ کردیا کہ اصل میں رہائش گاہ تو یہ تھی مگر اب سامنے والا حصہ جو سڑک پر ہے وہاں امورِ خارجہ کا دفتر بن چکا ہے اور دوسرا حصہ اب جماعت کے استعمال میں ہے۔جس کا دروازہ پچھلی گلی میں کھُلتا ہے، بلکہ ایک کارکن گھر کا دروازہ دکھانے کے لئے گلی تک آئے، دروازہ کھٹکھٹایا اندر سے آواز آئی کہ ’’آ جائیں‘‘ گھر میں بڑے نہیں تھے دو بچّے تھے، خاکسار نے اپنی خواہش ظاہر کی تو، جواب ملا کہ ’’ہاں آنٹی یہ گھر حضرت خلیفتہ المسیح اوّل ؓ کے بیٹے کے استعمال میں تھا، مگر ان کا بیت الدُعاء والا حجرہ یہیں ہے آپ نفل پڑھ سکتی ہیں۔ مجھے تو ان بچوں کی تربیّت پر بڑا ہی فخر محسوس ہوا کہ اتنی تہذیب اور شائستگی سے انہوں نے ایک اجنبی کو گھر میں آنے کی صرف اجازت ہی آپ بھی پڑھ لیں۔ وہاں جو لوگ بھی رہائش پذیر تھے۔ اس خاندان کو یہ کریڈٹ تو ضرور جاتا ہے کہ ہر آنے جانے والے کو اپنے گھر کے صحن، برآمدے، اور ایک اور رہائشی کمرے سے گزار کر اس کمرے میں لے جاتے ہیں جس کے اندر دو سیڑھی کی اونچائی پر ایک شحص کے کھڑے ہونیکی جگہ کے برابر چھوٹا سا عبادت کرنے کا حجرہ بنا ہوا ہے۔ جہاں زائر اپنی مرضی سے نفل ادا کرتا ہے۔ اتنی دیر تک ظاہر ہے گھر کے مکین یہ دونوں کمرے استعمال نہیں کر سکتے ہوں گے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ ہی ان لوگوں کو اجر عطا کرے مجھے یہ یاد تو نہیں کہ وہ کن کا خاندان ہے، شاید میں نے پوچھا ہو مگر اب بھول گیا ہے۔ مگر یقیناً درویشوں کی اولادیں ہی ہونگیں۔ قادیان کے روحانی ماحول میں پرورش پانے والے لوگوں کے دل اتنے ہی وسیع اور مہمان نواز ہونا چاہئے۔ انہوں نے اپنے بڑوں سے بھی یہی سیکھا ہے۔ اور ان کے بڑوں نے تو اپنے بزرگوں سے وہ کچھ سیکھ لیا ہے کہ اس سبق کے بعد ان سے حسین اعمال ہی ظاہر ہونگے، جبھی تو ان کی نسلوں نے اپنے مکانوں کی طرح اپنے دل بھی وسیع کر رکھے ہیں۔آنے والے زائرین اس مقدس بستی میں ان شعائراللہ کی زیارت کو آتے ہیں، جن کو سوچنا، دیکھنا، زیارت کرنا، ان میں چلنا پھرنا۔ عبادت کرنا سب کچھ عبادت کا رنگ رکھتے ہیں۔ وہ گلیاں۔ وہ راستے دیواریں۔ دروازے کھڑکیاں، کمرے، حجرے، صحن، کنوئیں پیڑ، باغات جہاں اللہ تعالیٰ کے پیارے امام الزماں علیہ السلام کا بچپن جوانی بڑھاپے کا سارا مقدّس اور متبرک وقت گزرا ہوا ہو، جن دیواروں نے مسیحا کی مناجات اور تضرّعات کو اپنے اندر سمویا ہو، جس کی مٹّی نے اس کے قدم چھوئے ہوں۔وہاں کی بستی کے مکین کتنے خوش نصیب ہونگے۔جن کا ان مقامات اور شعائر اللہ کے پاس سے صبح و شام گزر ہوتا ہو ظاہر ہے ان کی خوش نصیبیوں کے ساتھ غیر از بستی یا غیر از ملک مقیم احمدیوں کے نصیب کا تو کوئی تقابل نہیں لیکن یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ کبھی کبھار یا زندگی میں ایک آدھ بار ایک سمندر پار یا سات سمندر پار سے آنے والوں کے لئے بھی اس بستی کے تبرکات سے کچھ دنوں کا فیض پالیں تو خوش نصیب نہیں ہو نگے۔ خوش نصیب تو ہیں مگر اہلِ قادیاں اور اولین احمدیوں کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں ہم دونوں ماں بیٹا تو اس وقت اپنے آپ کو کسی طور حضرت مسیح ِ موعود کی علیہ السلام دُ عاؤں کے فیض سے باہر نہیں سمجھ رہے تھے۔
قادیان میں رہنے والے بھی عجب لوگ ہیں۔ ان کی خوش نصیبیوں اور ان کو ملنے والی حسنات کا کیا ذکر کیا جائے۔ اور الدّار کے رکھوالے اور قادیان دارالامان کی گلیوں کی رونقوں کے ذّمے دار، اس وقت صحابہؓ حضرت مسیح ِ موعود علیہ السلام کی دوسری تیسری اور چوتھی نسل کے احمدی بوڑھے بچے اور جوان اس بستی میں مقیم ہیں۔ دوسری نسل تو کم ہی ہے مگر ان کے وجودوں کی قلیل تعداد بھی اہلِ قادیان کی فضاؤں اور ہم جیسے باہر سے جانے والے ترسے ہوئے زائرین کے لئے آبِ حیات سے کم نہیں۔ جن کے لئے خلفائے احمدیت نے انتہائی محبّت اور احترام کے جذبات بھرے الفاظ استعمال کئے ہیں۔
حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح ؒالثالث ؒ نے 1969ء میں بر موقعہ جلسہ سالانہ درویشان ِ قادیان سے فرمایا کہ ’’آپ مسیح ِ پاک کی پاک بستی میں محّبت کی شمع روشن کئے بیٹھے ہیں۔ محبت کی یہ گرمی کم نہ ہونے پائے،اُکتا نہ جائیں، تھکیں نہ، مایوس نہ ہوں۔‘‘ جلسہ سالانہ 1948 ءکے موقعہ پر حضرت امّاں جان نے درویشان کی درخواست پر تحریر فرمایا کہ ’’قادیان جماعت کو ان شاء اللہ ضرور واپس ملے گا۔ مگر خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو موجودہ امتحان کو صبر اور صلوٰ ۃ کے ساتھ برداشت کر کے اعلیٰ نمونہ قائم کریں گے ۔۔۔۔ میری سب سے بڑی تمنّا یہی ہے کہ جماعت ایمان اور اخلاص اور قربانی اور عملِ صالح ِ میں ترقی کرے‘‘
درویشان سے ملاقات
مقامات ِ مقدسہ کے علاوہ یہ مقدس لوگ بھی وہاں موجود تھے ان سے شرفِ ملاقات نصیب ہوا۔ خاکسار کے خاندان کا درویشان کے ساتھ ایک خاص تعلق تھا۔ سب احمدیوں کے لئے ہی خاص ہو گا، مگر میں اپنے خاندان سے تعلق اس لئے خاص کہ رہی ہوں کہ ہمارے والد (مکرم کیپٹن ڈاکٹر بشیر احمد صاحب) تقسیم ِ ملک کے وقت کشمیر سری نگر میں جماعتی خدمات ادا کر رہے تھے۔ مگر حالات زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے وہاں سے نکلنا پڑا، جب آپ لاہور حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ اب آپ قادیان جانے کی تیّاری کرو۔ چنانچہ 1948ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد پر والد صاحب باقی درویشان کی طرح قادیان کی بستی اور اہلَ قادیان کی خدمت کے لئے پہنچ گئے۔اور قادیان میں ڈسپنسری میں خدمت شروع کر دی۔کچھ عرصہ بعد والدہ بھی دو بچیوں کے ساتھ قادیان پہنچ گئیں۔ یوں ہمارا خاندان وہاں تقریباً پانچ برس درویشی کے بابرکت نظام کے تحت رہا۔ چونکہ ہمارا خاندان ایک عرصہ وہاں مقیم رہا، جبکہ والد صاحب بحیثیت ڈاکٹر اور والدہ صاحبہ نے بحیثیت صدر لجنہ قادیان اور بیرون قادیان کے خدمت کی۔ اور بعد میں بھی درویشان کے ساتھ ہمیشہ ہی گہری محبت اور الفت کا تعلق رہا۔جب حالات کچھ بہتر ہوئے اور درویشان نے پاکستان آنا شروع کیا تو جب بھی درویشان کی ہمارے ہاں مسلسل جلسہ پر آمد ہوتی، اور ہم بچے بھی اپنی والدہ کے ساتھ دارالضیافت میںبھی درویشان سے ملنے جاتے۔ یوں ہمارے ماں باپ نے اپنے بچوں کے دلوں میں قادیان کے درویشان کا بہت احترام اور محبّت ڈالی ہوئی تھی۔اسی ناطے سے ہمیں قادیان میں الدار کے بعد درویشان سے ملنے کی بہت تمّنا تھی۔ گلیوں میں گزرتے ہوئے مکانات پر درویشان کے نام پڑھے۔بہت سے درویشان کے نام جن کا زکر اپنے والدین سے سن رکھا تھا ور تاریخ اور تقاریر میں پڑھ رکھا تھا۔ اس لئے ان کے مکانات پر لگی تختیوں پر ان کے نام پڑھ کر بہت سی پرانی باتیں یاد آئیں۔ ہمارے گائیڈبچے بھی ماشاء اللہ خوب معلومات رکھتے تھے۔کون سے درویش حیات ہیں کون ہیں جو خود تو حیات نہیں مگر ان کی بیگم صاحبہ ابھی بقیدِ حیات ہیں اور اسی مکان میں رہائش پذیر ہیں۔ کون سے درویش ہیں جو حیات تو ہیں مگر ملک سے باہر اپنے بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔
وہ درویشان جن سے ہمیں شرفِ ملاقات حاصل ہوا اور جن کی دُ عاؤں کے ہم براہ ِ راست حصہ دار ہوئے، اُن میں حضرت محمدؐ موسیٰ، حضرت بشیر احمد کالا ا فغانا، حضرت منظور احمد، حضرت طیّب صاحب تھے۔
جناب مکرم منظور احمد صاحب سے ملاقات کو گئے تو ان کی بہو ان کے کمرے میں ہمیں لے گئیں، وہ سو رہے تھے، معلوم ہوا کہ اب عمر اور صحت کے اس موڑ پر ہیں کہ زیادہ تر غنودگی میں ہی رہتے ہیں۔ کوئی بات کرے تو جواب دیتے ہیں۔ خاکسار نے سلام کے بعد اپنے والد کا تعارف کروایا انہوں نے ایک پل کے لئے آنکھیں کھولیں، ایک لمحے کے لئے مجھے دیکھا اور فرمایا! کون سے ڈاکٹر صاحب، وہ ریلوے روڈ والے؟ (قادیان درویشی سے واپسی 1955ء میں والد ساحب ریلوے روڈ ربوہ میں قیم پذیر تھے جب میں ان درویش محترم سے ملی تھی اُس وقت تو ا تقریبا ساٹھ برس گزر چکے تھے ہمارے خاندان کو ریلوے روڈ سے منتقل ہوئے مگر اللہ کے فضل سے حضرت منظور درویش صاحب کو یہ یاد تھا) اور میرے جواب کا انتظار کئے بغیر دوبارہ غنودگی میں چلے گئے۔ ہم نے دوبارہ انہیں ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ دوسرے نمبر پر، حضرت محمدؐ موسیٰ صاحب سے شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ ان کی ماشاء اللہ صحت خاصی بہتر تھی۔ میں نے ان کے سامنے اپنے والد صاحب کا نام لیا، انہوں نے میرے والد صاحب کو فورا! پہچان لیا۔ ان کے ساتھ خاکسار اور عزیزم عامرفوزی نے ماشاءاللہ اچھا خاصا وقت لگایا۔ عزیزم عامر نے ان سے بہت سے سوالات کئے اور قادیان کے ابتدائی زمانہ کے واقعات پوچھے۔ ان کی بھی بیگم حیات نہیں تھیں۔ اور یہ اپنے بہو اور بیٹوں کے ساتھ رہتے تھے، ان کے بیٹے مکرم لطیف صاحب نے ان کے متعلق بہت سی باتیں بتائیں، باتوں کے درمیان انہوں نے بتایا کہ غیر ملکی اور غیر اقوام سے احمدیت میں داخل ہونے والے احمدی احباب جب ان سے ملنے آتے ہیں تو ان کی درویشی کے ابتدائی دنوں کی باتیں سُن سُن کر انتہائی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں، اور ان کے کاموں اور قربانیوں کو مختلف انداز سے خراج ِ تحسین ادا کرتے ہیں۔
تیسرے نمبر پر حضرت بشیر احمد کا لا افغانا تھے، یہ بزرگ درویش مکرم موسیٰ صاحب کے قریبی عزیز تھے اور انہی کے ملحقہ گھر میں رہتے ہیں۔ ان کی بیگم بھی حیات ہیں۔ احمد آباد سے ان کا تعلق ہے۔ ان کے ساتھ دو مرتبہ شرفِ ملاقات ہوا جو ہمارے لئے انتہائی روح پرور رہا، عزیزم عامر نے ان سے الگ ملاقات کی، یہ بزرگ جب ہم ان سے ملے تقریباً انانوے برس میں تھے، اونچے لمبے، با رُعب پُرجلال شخصیت کے مالک۔خاکسار کو جتنی خواہش تھی ان جیسے بزرگان سے ملنے اور باتیں کرنے کی اتنی تو پوری نہیں ہو سکی، لیکن ایسے یادگار لمحات بھلا ہمیں زندگی میں کبھی دوبارہ نصیب ہوں گے بھی کہ نہیں۔ ہم نے تھوڑے سے وقت میں ان کی زندگیوں کے متعلق، درویشی کے ابتدائی دنوں سے متعلقہ بہت سے سوالات اوپر تلے کئے۔ انہوں نے ہر بات کا جواب دیا۔ قادیان کی مقدس بستی میں جوانی سے لے کر بڑھاپے تک کی زندگی کے روح پرور واقعات سے بھرے ہوئے جوابات ہمیں دوبارہ کہاں سننے کو ملیں گے۔
تھوڑے سے وقت میں اتنے روح پرور قصّے سُنے اور کیمرے میں بھرے کہ۔ہمیں وہ کسی خزانے سے کم نہیں لگ رہے تھے۔ پوچھنے پر انہوں نے بتا یا کہ یہ تمام قصّے اور باتیں۔ ایم۔ٹی۔اے والوں نے ریکارڈ کر لئے ہوئے ہیں۔ اور کتابی شکل میں بھی ڈھل چکے ہیں۔
ان کو خاکسار کے والدین کی قادیان میں رہایش کے دوران اور بڑی بہنوں کے بچپن کی بھی بہت سی باتیں یاد تھیں۔ ہم نے دُعا کے لئے عرض کیا تو انہوں نے ازراہ ِ شفقت فرمایا کہ جو کوئی دُعا کے لئے کہتا ہے اس سے نام وغیرہ لکھوا لیتا ہوں اور کاغذ جیب میں ڈال لیتا ہوں، آپ بھی لکھ کر نام دے دیں۔ میں اپنے پاس رکھوں گا تاکہ مجھے یاد رہے۔ خاکسار نے کچھ نام دُعا کی غرض سے کاغذ پر لکھ دئیے، اگلے رو ز جمعہ تھا، عزیزم عامر نے ان کے ساتھ پروگرام بنا لیا کہ میں آپ کے پاس آؤں گا پھر ہم اکھٹے مسجد مبارک جمعہ پڑھنے جائیں گے۔ میرے بیٹے کے لئے یہ انتہائی اعزاز کے لمحات تھے جب وہ ایک درویشِ قادیان کے ساتھ اُن کے گھر سے چل کر مسجد تک آیا۔ راستے میں انہوں نے کتنی ہی د لفریب گفتگو عزیزم کے ساتھ کی۔ جمعہ ختم ہونے کے بعد خاکسار مسجد سے اُتر کر صحن تک آئی تو سامنے سے مکرم درویش بشیر احمد صاحب آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتے ہوئے آ رہے تھے۔ 1947ء میں محافظ ِ الدار کو مسجد مبارک کے صحن میں چلتے دیکھ کر ذہن بہت پیچھے چلا گیا۔ اگر یہ میری پہلی زیارت نہ ہوتی یا میں قادیان کی ساکن ہوتی تو میرے لئے اس نظّارے میں اتنی کشش اور جاذبیت نہ ہوتی۔ مگر سالہا سال پڑھی اور سُنی تاریخ ِ احمدیت کی وہ حقیقتیں ذہن کے پردوں سے ٹکڑا گئیں۔جب آج کے عمر رسیدہ درویش تقسیم ِ ملک کے نوجوان مگر بہادر اور دلیر محافظ بنے ہوئے تھے۔ یہی وہ وجود تھے جنہوں نے بھوکے پیٹ خوف اور بھوک کی حالت میں الّدار کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں داؤ پر لگا رکھی تھیں۔ ان نگینے لوگوں میں اب گنتی کے لوگ ہی تو بچے تھے، جن کا دیدار اور ملاقات ہم ماں بیٹوں کے حصے میں بھی آگیا۔
ایک درویش مکرم طیّب صاحب جو بالکل الدّار کے سامنے والی گلی میں احمدیہ محلہ میں ہی رہتے ہیں سے ملاقات کا شرف پا نا رہ گیا تھا، ان سے ملاقات کرنے کا قادیان سے روانگی کے آ خری دن موقعہ مل گیا۔ ماشاء اللہ اب تک ہم جتنے بھی درویشان سے ملے تھے یہ سب سے زیادہ چوکس اور صحت مند تھے۔ ان کی بیگم بھی مدراس سے تھیں، جتنی دیر ہم ان کے پاس بیٹھے وہ دونوں میاں بیوی ہر بات کا شکر، ادا کرتے نہیں تھک رہے تھے، اور مسلسل مسکراتے رہے، حضرت مرزا وسیم احمد صاحب مرحوم کو بہت ہی خوبصورت الفاظ میں یاد کرتے رہے۔ ان سے پہلے بھی تمام درویش صاحبان اور ان کے گھر والے جو بھی ملا اس نے حضرت مرزا وسیم احمد صاحب کو بہت پیارے اور محّبت بھرے الفاظ میں یا د کیا۔ مکرّم طیّب صاحب سے عزیزم عامر نے جب پو چھا کہ حضرت مرزا وسیم احمد مرحوم کے متعلق کوئی بات کریں تو وہ فرمانے لگے کہ، ”اُس کی کیا بات کریں، وہ تو ہمارا یار تھا، ہمارے ساتھ والی بال کھیلتا تھا۔
یہ درویش بزرگ بتانے لگے کہ وہ بنگال میں تھے جب انہوں نے احمدیت کا چرچا سنُا پھر قادیان آگئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے، پھر دوبارہ پیچھے مڑ کر نہیں گئے۔اور اب گزشتہ برس کسی مہربان دوست نے ان کو آفر کی کہ میرے ساتھ آپ بنگلہ دیش چلیں، پورے پچپن برس بعد وہ اپنے وطن لوٹے جہاں ان کے تمام بھائی اور بڑے بزرگ وفات پا چکے تھے۔ محض کچھ بھتیجے تھے جن سے ملاقات ہوئی۔
ان کے منہ سے ہم نے بہت ہی منّت سماجت کے بعد ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات میں سے ایک معجزاتی واقعہ سنُا جو وہ بالکل بھی سنانانہیں چاہتے تھے، اس لئے نہیں کہ وہ اس عمر کو پہنچ چکے تھے کہ ان کو اپنے ساتھ بیتے واقعات یاد نہیں تھے یا وہ اب گزشتہ باتیں کرتے تھک رہے تھے، بلکہ اس لئے کہ قادیان کی مقدّس فضاؤں نے ان کے اندر حقیقی عاجزی اور انکساری بھر دی ہو ئی تھی، بالکل ایسے جیسے پھلوں سے بھری ڈالی جھکتی ہے۔ عجیب بات ہے کہ ہمارے قادیان سے آنے کے بعدبہت تھوڑے تھوڑے دنوں کے وقفہ سے چار درویشان آگے پیچھے دُنیائے فانی سے کوچ کر گئے،
ڈیرہ حضرت بابا نانک کی زیارت
ڈیرہ حضرت بابا نانک پر جانا بھی انہی تبرکات میں شامل ہے جو حضرت مسیح ِ موعود علیہ السلام کے فیض کے صدقے جماعت ِ احمدیہ کے حصے میں آیا ہے۔ اس قصبے کا نام تو اب مھجے یاد نہیں آ رہا بہر حال ڈرائیور ہمیں وہاں لے گیا۔گاڑی سے اتر کر کچی پکّی سڑکوں اور گلیوں میں سے گز رتے ہوئے ایک آبادی میں داخل ہوئے جہاں ایک گلی کے دونوں طرف دوچار چھپّر ڈال کر چھوٹی چھوٹی بنی ہوئی دکانیں تھیں۔ جن میں انتہائی معمولی پلاسٹک کے کھلونے وغیرہ کا سامان بک رہا تھا۔ ایک سڑک کے بورڈ کے علاوہ کوئی بھی ایسا بورڈ وغیرہ نہیں لگا ہوا تھا جس سے معلوم ہوتا کہ حضرت بابا ناناک کا ڈیرہ کس گلی میں ہے۔ بہرحال ایک گلی میں پہنچ کر پو چھا اور اسی سمت کو چند گز کے فاصلے پر دائیں طرف ایک بڑا سا کمرہ تھا جس میں دو تین سردار صاحب قالین بچھا کر بیٹھے تھے۔ غالباً وہ اس ڈیرے کے متولّی تھے۔ پہلی نظر میں تو کوئی ایسا احساس نہیں ہوا کہ یہ حضرت بابا نانک کا ڈیرہ ہے اور یہیں پر ان کا مقدس چولہ بھی موجود ہو گا۔قالین پر بیٹھے سردار صاحبان سے پوچھا کیا یہی وہ جگہ ہے جہاں چولہ مبارک رکھا ہے۔ انہوں نے کمرے کے آگے بڑھ جانے کا اشارہ کیا۔ اس کمرے کے آ خر میں مسند نما تخت بچھا تھا اور ایک چھپّر نما کمرہ ساتھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک کپڑے کا اسٹینڈ رکھا تھا جس کے اوپر شیشے کا کور چڑھا تھا۔ ایک لڑکا جو وہاں تعینات تھا اس سے پو چھا کہ چو لہ دیکھنا ہے، آپ کیسے دکھائیں گے؟ اُس لڑکے نے اس اسٹینڈ کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ ہے۔ پہلی نظر میں تو شیشے کے اندر سوائے ایک بو سیدہ کپڑے کے کچھ بھی نظر نہ آیا۔ د ل بہت خراب ہوا کہ یہ کیا ہے ہم تو اتنی دور سے چولہ دیکھنے آئے ہیں یہ لوگ نہ جانے کیا ہمیں دکھا رہے ہیں۔پھر دوبارہ استفسار کیا تو پھر وہی جواب ملا کہ یہی ہے پرانا ہو چکا ہے۔ اب ہم نے اسے غور سے دیکھنا شروع کیا تو آ ہستہ آہستہ عربی لکھی نظر آنے لگی، کلمہ طیّبہ، قرآنی آیات انتہائی خوبصورت تحریر میں لکھی نظر آنے لگیں۔ مگر بہت ہی مدہم، بہت ہی کم اور کہیں کہیں تحریر نظر آ رہی تھیں، کیونکہ کپڑا انتہائی بو سیدہ ہو چکا ہے۔ اس لئے اسے اس انداز سے شیشے میں بند کیا ہوا ہے کہ چند آیات نظر آ سکتیں ہیں۔ہم نے چند تصاویر بھی اُ تاریں جن سے آیات آسانی سے پڑھی جا سکتی ہیں۔ڈیرے کے نگرانوں سے پو چھا کہ، کیا آپ کبھی اس شیشے کے بکس کو کھولتے ہیں، تو معلوم ہوا کہ اس ورثے کے تین حقدار ہیں جب بھی کبھی کھولنا ہوتا ہے ان تینوں کی اجازت اور نمائندگی سے کھلتا ہے۔ الحمد للّٰہ کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور الٰہی نشان کا نظارہ کر لیا۔
ہوشیارپور
حضرت مسیح ِ مو عود علیہ السلام نے 1986ء میں ارادہ کیا کہ وہ کسی تنہا جگہ جاکر حضرت موسیٰ کی طرح متواتر چالیس دن عبادت الہٰی میں گزاریں کسی ایسی جگہ پر جہاں کوئی انہیں نہ جانتا ہو۔ اس کے لئے. گورداسپور میں جانے کا ارادہ کیا مگر، کسی وجہ سے یہ سفر ملتوی ہو گیا اور پھر وہ وقت بھی آگیا جب آپ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہو شیار پور تشریف گئے جہاں مہدی الزماں حضرت مسیح ِ موعود علیہ السلام نے چایس دن کی چلّہ کشی کی اور اپنے خدا سے دشمنوں کے مقابلہ میں نشان مانگا۔ اب ہم محض اللہ کے فضل اور اپنے بھانجے کی نوازشوں کے طفیل اس عظیم الشان ناشن کا جائے مقام دیکھنے کی توفیق پانے والے تھے۔ اس دن عصر کا وقت تھا جب ہم لوگ ہو شیار پور کے اس محلہ کے بازار میں اپنی گاڑی کھڑی کر کے اس مکان کی طرف بڑھے۔ یہ مکان شیخ مہر علی صاحب رئیس کے گھر کا بالا خانہ تھا۔ باہر کا دروازہ کھلا تھا دروازے کے ساتھ سیڑھیاں اوپر جاتی تھیں۔ بالکل خاموشی تھی، اُوپر پہنچے تو صحن میں ایک خادم تشریف رکھتے تھے۔ ان سے معلوم ہوا کہ یہاں ایک مربّی صاحب اور ایک معلّم صاحب کی فیملیز رہتی ہیں مگر اس وقت دونوں ہی شہر میں موجود نہیں۔ یہ خادم صاحب ڈیوٹی کے طور پر بیٹھے تھے۔ ہمیں تو اُن کمروں سے غرض تھی جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے مسیح پر تجّلیات اور فضائل کے دروازے کھولے۔ جہاں اللہ تعالیٰ براہ ِ راست حضور سے ہمکلام ہوا اور حضور علیہ السلام کو عظیم الشان بشارات عطا کیں۔ یہی تو وہ کمرے تھے جہاں اللہ تعالیٰ سے حضرت مسیح ِ موعود ؑ نے نشان مانگا اور اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے نشان ِ رحمت یعنی پیشگوئی مصلح ِ موعود ؓعطا کی۔
حضرت مسیح ِ موعود علیہ السلام کے استعمال میں آنے والے دو کمرے تھے جو آگے پیچھے بنے ہوئے ہیں۔ اگلے کمرے کے ساتھ باہر چھوٹی سی جگہ تھی جہاں کونے میں تکون لکڑی کا چھوٹا سا تختہ جڑا ہو اہے، جسے چیزیں رکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہو گا۔ معلوم ہوا کہ یہ تمام عمارت اور ہر چیزحضور علیہ السلام کے وقت کی ہی ہے۔ دونوں کمروں کے فرش پر موٹے موٹے قالین پڑے ہوئے تھے۔ ظاہر ہے، کھڑکیاں دروازے حضور ؑ کے وقت کے ہی ہونگے مگر قالین اور پنکھے وغیرہ تو فی زمانہ کے ہی لگے ہو نگے۔ کیونکہ ہمیں ان کمروں کی جزئیات دیکھنے اور پو چھنے کاتجسس تھا جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے بندے کو خاص طور پر عبادت کے لئے بھیجا تھا۔اس لئے ہم چھوٹی چھوٹی بات میں اشتیاق رکھتے اور تاریخ کو ذہن میں دُہراتے تھے حضرت مسیح ِ موعود علیہ السلام نے اپنے خادموں کو فرما رکھا تھا کہ اوپر کے حصّے میں میں اکیلا رہوں گا اور دوسرے احباب نچلے حصّے میں رہیں گے۔ اور چالیس دن تک کسی کو آپ سے ملنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ بس خاموشی سے کھانا پہنچایا جاتا تھا حضور ؑ کھانا تناول فرما کر برتن کمرے سے باہر رکھ دیتے۔ ہم نے بھی اس بابرکت مقام پر دو نفل ادا کئے، اللہ کے حضور حضرت مسیح ِ موعود علیہ السلام کی کی گئی دُعاؤں کی برکات میں سے کچھ حصہ مانگا، وہ خادم جو ڈیوٹی پر تھے انہوں نے کچھ مزید باتیں بتائیں کہ مکان کا کتنا حصّہ قدیم ہے اور کتنا جدید اور یہ کہ اس مکان کے ساتھ ملحقہ کچھ حصّہ ایسا بھی ہے جو کبھی اسی مکان کی ملکیت میں تھا مگر پڑوسی مکان کے مالک نے مقدمہ کر کے اسے ہتھیا لیا ہے۔ بہر حال ہو شیار پور کے اس بابرکت مکان کی زیارت سے حظ اُٹھا کر ہم واپس قادیان لوٹ آئے۔
جتنے دن ہم ماں بیٹا نے وہاں گزارے، اپنے محترم مہمان نوا ز خاندان نے جتنا حسین سلوک ہم سے کیا اس کا اجر تو اللہ تعالیٰ ہی انہیں دے گا۔
اور جو سلوک اللہ تعالیٰ نے ہم سے قادیان دکھا کر فرمایا ہے اس کا احسان تو ہم کبھی بھی نہیں اتار سکتے۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان برکات میں سے وافر حصہ عطا کرے۔ آمین۔
(نبیلہ رفیق فوزی۔ناروے)