• 15 مئی, 2024

نیوزی لینڈ میں جماعت احمدیہ کے بارے میں تاثرات

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
یہ آسٹریلیا کا مختصر ذکر ہے۔ پھر وہاں سے ہم نیوزی لینڈ گئے۔ وہاں جو پہلی مسجد بنی ہے ’’بیت المقیت‘‘ اُس کا افتتاح بھی ہوا۔ لیکن اُس افتتاح سے پہلے وہاں کا Maori قبیلہ جو ہے، بہت پرانا قبیلہ ہے، اُس کے بادشاہ کی طرف سے استقبالیہ تھا۔ اور وہاں بادشاہ نے استقبالیہ دیا۔ جس طرح وہ باقی جو ہیڈ آف سٹیٹ آتے ہیں اُن کو استقبالیہ دیتے ہیں، اس طرح سارا انتظام انہوں نے کیا۔ وہاں جماعت احمدیہ کا ’’لوائے احمدیت‘‘ بھی اُن کے اپنے جھنڈے کے ساتھ پہلے ہی لہرایا جا رہا تھا۔ بادشاہ عموماً ایسے فنکشن میں چاہے کوئی بھی ہو خودنہیں بیٹھا کرتا لیکن وہاں خود بادشاہ بیٹھے تھے۔ تقریب جو اُن کی ایک روایتی تقریب ہے وہ تو جو ہوئی، اُس کے بعد پھر اُن کا ایک بڑا سارا ہال ہے، وہاں ہمیں لے گئے۔ وہاں اُن سے کچھ باتیں ہوتی رہیں اور پھر اُس کے بعد قرآنِ کریم کا جو ماؤری زبان میں ترجمہ ہوا ہے وہ اُن کو پیش کیا گیا۔ بہرحال بعد میں یہ ایک بڑی پُروقار تقریب تھی۔

اس کے بعد پھر مسجد کے افتتاح کی جو تقریب تھی ان کے بادشاہ نے وہاں بھی آنے کے لئے کہا بلکہ ان کی ملکہ نے پہلے نہیں آنا تھا لیکن انہوں نے بھی کہا کہ میں بھی آؤں گی اور بعض شخصیات کے ساتھ یہ لوگ وہاں آئے۔

ماؤری زبان میں قرآن کریم کا جو ترجمہ ہے اُس کے بارے میں پہلے مَیں ذکر کر دوں کہ یہ مکرم شکیل احمد منیر صاحب نے کیا تھا۔ پہلے پندرہ سپارے کئے جو شائع ہو گئے تھے، تو اب مکمل کر دیا ہے۔ اور یہ کوئی زبان دان نہیں ہیں بلکہ فزکس کے پروفیسر ہیں۔ لیکن انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے کہنے پر زبان سیکھی، پھر ترجمہ کرنا شروع کیا۔ اکاسی سال ان کی عمر ہے۔ پچیس سال انہوں نے لگائے۔ زبان بھی سیکھی اور ترجمہ بھی کیا اور کافی وقت ان کو لگا۔ کیونکہ کہتے ہیں ماؤری زبان میں جمع کے صیغے ہیں جن کو سمجھنے میں کافی دیر لگی۔ اور کہتے ہیں کہ میری عمر بھی ایک بہت بڑی رکاوٹ تھی، اخبار نے بھی اس بات کو لکھا۔ بہرحال بڑی محنت سے انہوں نے مسلسل یہ کام کیا۔ بعض روکیں بھی آئیں، مسائل بھی آئے۔ دوسروں سے جو ترجمے کروائے گئے تھے اُن کو جب چیک کیا تو وہ معیار کے نہیں تھے، اسی لئے پھر خود اُن کو توجہ پیدا ہوئی تھی۔ تو اس عمر میں یہ بہت بڑا کام ہے جو انہوں نے کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے۔

بہرحال اخباروں نے پھر وہاں اس ترجمے کے اوپر کافی لکھا اور اس کو سراہا گیا۔ مجھ سے بھی انہوں نے پوچھا کہ ماؤری قبیلے کے تھوڑے سے لوگ ہیں، (چھوٹا قبیلہ ہے، اتنا بڑا بھی نہیں)۔ تم نے ترجمہ کیوں کیا؟ میں نے کہا ہمارا تو کام ہے ہر زبان میں ترجمہ کرنا کیونکہ ہر ایک کو عربی پڑھنی نہیں آتی۔ اور قرآنِ کریم کا پیغام ہم نے ہر قوم تک پہنچانا ہے۔ اللہ کے فضل سے وہاں ایک ماؤری نے بیعت بھی کی ہے، جماعت میں شامل ہوئے ہیں اور ایک دو اور تیار بھی ہیں۔ اور یہی میں نے اُن کو کہا کہ اب ترجمہ آیا ہے تو امید ہے ان شاء اللّٰہ تعالیٰ اور لوگ بھی جماعت احمدیہ میں شامل ہوں گے اور اسلام کو قبول کریں گے۔

اس کے بعد جیسا کہ میں نے کہا وہاں مسجد بیت المقیت نئی بنی ہے اور اس کے حوالے سے وہاں ایک reception بھی تھی اور ماؤری بادشاہ بھی اور ملکہ بھی وہاں آئے، جیسا کہ میں نے بتایا ہے۔ اس کے علاوہ بہت ساری نمایاں شخصیات وہاں تھیں۔ ملک کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگ وہاں تھے۔ 107 کے قریب مہمان آئے اور مہمانوں نے جو تأثرات دئیے۔ ان میں Anglican Church کے ایک پادری نے کہا کہ تمام مذاہب کو بغیر کسی مزاحمت کے ایک دوسرے کے ساتھ چلنا چاہئے۔ پھر کہتے ہیں کہ امام جماعت نے جو یہ کہا ہے کہ پریس میں اسلام کا نام بدنام کیا جا رہا ہے یہ بھی بالکل درست ہے۔ یہاں میں نے مسجد کے حوالے سے بات کی۔ اور کس طرح اسلام کو بدنام کیا جاتا ہے اور کس طرح غیر مسلموں پر اس کاغلط تأثر ہے، اُس کے بارے میں کہا تھا۔ تو کہتے ہیں کہ پریس میں اسلام کا نام جو امام جماعت نے کہا کہ بدنام کیا جا رہا ہے یہ بالکل درست ہے۔ جب کبھی بھی دہشتگردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو میڈیا ہمیشہ مسجد یا مسلمانوں کو نماز ادا کرتے ہوئے ٹی وی پر دکھاتا ہے جس کی وجہ سے غیر مسلم سمجھتے ہیں کہ اسلام اور دہشت گردی کا ایک تعلق ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اسلام کا تشدد اور دہشتگردی سے کوئی بھی تعلق نہیں اور امام جماعت نے اس کو اپنے خطاب میں ثابت بھی کر دیا ہے۔ بہرحال وہاں پریس اور میڈیا نے ماؤری کا جوفنکشن تھا اُس کو بھی اور مسجد کے استقبال کو بھی بڑا نمایاں کیا۔

(خطبہ جمعہ 15؍ نومبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ